م حمزہ
محفلین
کیا بات ہے! نہ آدم ہے نہ آدم زاد۔اٹاری ریلوے اسٹیشن!!!
کیا بات ہے! نہ آدم ہے نہ آدم زاد۔اٹاری ریلوے اسٹیشن!!!
فلسفی جی آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہم اس وقت کتنے جذباتی ہو رہے ہیں ۔حضرت لکھنے میں بھی غلطی کر گئے۔
جی کیونکہ یہ گوگل چچا کے البم کی تصویر ہے ۔کیا بات ہے! نہ آدم ہے نہ آدم زاد۔
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے!!!محفل کی تاریخ گواہ ہے بھیا ، ہمیں صرف لکھنا آتا ہے ۔
عدنان بھائی صرف ہاں لکھنا جانتے ہیں، نا نہیں۔حضرت لکھنے میں بھی غلطی کر گئے۔
یعنی چچا بھتیجے سے دو ہاتھ آگے ہی نکلا!!!جی کیونکہ یہ گوگل چچا کے البم کی تصویر ہے ۔
آپ کی خوش فہمی ہمیشہ ہے کہ ہمیشہ ہم غلط ہی ہوتے ہیں ۔یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے!!!
اب یہاں فہد اشرف کا ذکر کیوں لائے آپ ۔یعنی چچا بھتیجے سے دو ہاتھ آگے ہی نکلا!!!
یہ آپ کی واحد بات ہے جس پر ہم دل و جان متفق رہتے ہیں!!!ہمیشہ ہم غلط ہی ہوتے ہیں ۔
سن لیں عدنان بھائی۔۔۔آپ دونوں حضرات سے گزارش ہے کہ اس لڑی کو سفر نامہ تک ہی محدود رکھیں۔ آرپار کی جنگ نہ بنائیں۔
چلیں ، بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ،ہمارے لیے یہ بھی بہت ہے کہ آپ ہماری کس بات پر تو فدا ہوئے ۔یہ آپ کی واحد بات ہے جس پر ہم دل و جان متفق رہتے ہیں!!!
شروع ہم نے کیا تھا تو آپ نے کیوں بات بڑھائی ۔ چپ چاپ سن لیتے زیادہ سے زیادہ آپ کا دل ہی تو جلتا ہماری بات سے ۔سن لیں عدنان بھائی۔۔۔
شروع آپ نے ہی کیا تھا!!!
چلیں ، بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی ،ہمارے لیے یہ بھی بہت ہے کہ آپ ہماری کس بات پر تو فدا ہوئے ۔
ہمیں تو یہ بھی سفر نامے کا حصہ معلوم ہو رہا ہے۔آپ دونوں حضرات سے گزارش ہے کہ اس لڑی کو سفر نامہ تک ہی محدود رکھیں۔ آرپار کی جنگ نہ بنائیں۔
فلسفی بھائی! شایدآپ ہمارا مقصد نہیں سمجھے۔ وہ تو ہم نے بس اشتعال دلانے کیلئے کہہ دیا۔ تاکہ یہ جنگ کہیں رُکے نہیں۔ اگر خدانخواستہ رُک بھی گئی تو ہم ہیں نا۔ہمیں تو یہ بھی سفر نامے کا حصہ معلوم ہو رہا ہے۔
پلیٹ فارم کے اِس طرف ہرے رنگ کی پاکستانی ریل کھڑی تھی اور دوسری جانب نیلے رنگ کی ہندوستانی ریل۔ ہمارا سفر ہرے سے نیلے رنگ کی جانب مقدر ہوچکا تھا۔ پلیٹ فارم کے اس جانب نیلی ریل کے قریب پہنچے۔ ہندی میں لکھا تھا ’’اٹاری۔۔۔۔دلِّی۔‘‘ ریل پر چڑھ کر اپنی مرضی کی سیٹ کے نیچے سامان کے نام پر واحد سوٹ کیس رکھا۔ پھر نیچے اُتر آئے۔ پیاس سے حلق خشک ہورہا تھا۔ پانی کی تلاش ہوئی، ایک جگہ نصب کولر سے پانی پینے لگے تو یکایک تاریخ کی کہانی ذہن میں دوڑ گئی، اب تو ہندو پانی مسلم پانی کا شوشہ کھڑا نہیں ہوتا نا؟ ہم نے نفسیاتی طور پر اِدھر اُدھر دیکھا۔ سب چہل پہل میں لگے ہوئے تھے۔ کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی ہماری طرف نہ دیکھا۔ حلق تر کرنے کے بعد ٹی اسٹال پر آئے۔ پیٹ بھر کے چائے کے ساتھ بسکٹ کھائے۔ صبح ناشتہ کیا تھا اور اب عصر کی سرخی بھی ڈوبنے والی تھی۔
چنگا پھڑیا جے ۔کون سی کرنسی استعمال کی ؟
داستان میں کہیں کرنسی کا ذکر نہیں ہوا۔