ایسا آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ ہم ریل کے سفر میں اتنا سوئے ہوں۔ ہمیشہ سوتے جاگتے سفر ہوتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ شروع رات سے بے سدھ ہو کر سوئے تو صبح سویرے آنکھ کھلی۔دو دن کے مسلسل سفر اور بے آرامی سے بدن تھکن سے چور ہوگیا تھا۔ ہم نے سوچا ریل کے اذیت ناک دو دن سے جہاز کے دو گھنٹے ہزار درجے بہتر ہیں۔
ٹائم دیکھا پانچ بج رہے تھے۔ ہلکا اندھیر ہلکا اُجالا، ٹھنڈی ہوائیں، نکھرا نکھرا موسم، چاروں طرف سرسبز لہلہاتے کھیت کھلیان، دور افق پر طلوع ہوتے سورج کی سفیدی۔ منہ ہاتھ دھو کر جو بیٹھے تو مناظر سے نظر نہیں ہٹتی تھی۔ رات کو امرتسر سمیت نہ جانے کون کون سے اسٹیشنوں پر ریل رکی ٹھہری چلی پتا ہی نہ چلا۔ اب اپنے آخری اسٹیشن کی طرف رواں دواں تھی۔
دہلی کے مضافات میں پہنچ کر ہم نے وہ منظر دیکھا جو وہاں جانے والے لوگ ضرور بیان کرتے تھے۔ صبح صبح پٹڑی کے دونوں طرف لوگ لائن بنا کر بیٹھے تھے۔ بچے بھی بڑے بھی۔ انڈیا میں گھروں میں تو کیا گلی محلے میں بھی اجتماعی ٹوائلٹس کی کمیابی تھی۔ یہ ہمیں بعد میں معلوم ہوا۔ یہ کراہت آمیز منظر دیکھا نہ گیا ۔ منہ پھیر لیا۔ انسانیت کی یوں سرعام تذلیل پر دل بجھ گیا۔
آٹھ بجے کا وقت ہوگا جب ریل تھک ہار کر منزل مقصود پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ پلیٹ فارم کے آغاز پر اردو میں نئی دلی اور انگریزی میں نیو دہلی لکھا پڑھ لیا۔ اس وقت تک ہندی پڑھنی نہیں آتی تھی لہٰذا اردو انگریزی پر گزارا کیا۔ ریل کے اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی ہم دروازے پر آکھڑے ہوئے تاکہ چچا ہمیں دیکھ لیں۔ انہوں نے تو ہمیں دیکھ لیا لیکن رش کے باعث وہ ہمیں نظر نہ آسکے۔ ریل رکنے پر ہم اپنی سیٹ پر آئے اور واحد سوٹ کیس اٹھا کر واپس گیٹ پر جانے والے تھے کہ چچا زور زور سے آوازیں دیتے اندر آگئے۔ دیکھے ہی سینے سے لگایا سلام دعا ہوئی اور وہ بے اختیار ہمارا سوٹ کیس اٹھانے جھکے۔ تبھی ہم نے روک لیا:
’’کیا کرتے ہیں چچا۔ ہم آپ کے بھتیجے ہیں۔‘‘ ہم نے سوچا چچا نے غیر ارادی طور پر پاکستان سے آٗنے والے کسی بھی مہمان جیسا سلوک کرنے کی کوشش کی۔
’’کوئی بات نہیں۔ ارے میں بالکل تازہ دم ہوں۔تم تین دن کے سفر سے تھک گئے ہوگے۔ ایک ہی تو سوٹ کیس ہے۔ آرام سے اٹھا لوں گا۔ چلو اب جلدی کرو۔ باہر نکلو۔‘‘
ہمارا خیال غلط تھا چچا نے غیر اداری طور پر نہیں خوب ارادہ کرکے سامان اٹھایا تھا۔ چچا آگے آگے جارہے تھے۔ ہم شرمندگی اور بے بسی سے ان کی پیروی کررہے تھے۔ اسٹیشن سے باہر آکر ہم نے قریبی ہوٹل میں ناشتہ کیا اور اپنے کاغذات، پاسپورٹ اور بچے کچھے پیسے فی الحال سب ان کے حوالے کردئیے۔ ناشتے کے بعد چچا قریب کھڑی بس میں بٹھا کر نیچے اتر گئے۔ شاید ٹکٹ لینے۔ بس کے آخر میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ تب ہی نیچے کھڑی ایک فقیرنی کی آواز آئی، اپنے بچے سے کہہ رہی تھی:
’’بیٹا کل میرے پاس آٹھ آنے تھے، آج وہ بھی نہیں ہیں۔‘‘بھارت پہنچ کر ہمارے کانوں میں سب سے پہلی واضح آواز یہی پڑی تھی۔ آواز میں بسی بے چارگی سے دل مسوس کر رہ گئے۔ کچھ دینے کے لیے بے اختیار جیب میں ہاتھ ڈالا تو کچھ نہ نکلا۔ یاد آیا ہم اپنے سارے کاغذات، پاسپورٹ اور پیسے چچا کو سونپ کر ہلکے پھلکے ہوگئے تھے۔
کراچی میں کچھ رشتے داروں نے جو تازہ تازہ انڈیا سے لوٹے تھے ہمیں بچی کھچی انڈین کرنسی تھما دی تھی کہ اب ہمارے کس کام کی۔ یہ کرنسی اٹاری سے دلی تک کے سفر کے لیے کافی تھی۔ ہم نے ان ہی پیسوں سے اٹاری اسٹیشن پر ناشتہ کیا تھااور دلی تک ریل کا ٹکٹ لیا تھا۔ ہزار ہزار کے پاکستانی نوٹ بھی پاس تھے جسے بوقت ضرورت انڈیا میں تبدیل کروائے ۔ گھاگ گرگوں نے مشورہ دیا تھا کہ دلی کی جامع مسجد کے پاس کرنسی ایکسچینجر ہیں، وہ نسبتاً زیادہ پیسے دیتے ہیں، کرنسی وہیں تبدیل کروانا۔ادھر ابا نے چچا کے اکاؤنٹ میں بھی پیسے بھیج دئیے تھے جو ہمارے وہاں قیام کے دوران کھانے پینے، گھومنے پھرنے اور دیگر ضروریات کے لیے کافی تھے۔اب ہماری ساری ذمہ داری چچاکے سر آگئی تھی۔گویا ہم سارے آزار سے آزاد ہوگئے تھے!!!
بس نے چلنے کا ہارن دیا تو چچا آگئے۔ بس دہلی سے نکل کر دیوبند جانے کے لیے رواں دواں تھی۔ سارا راستہ گھنے درختوں اور سرسبز کھیتوں سے پٹا پڑا تھا۔ ہری بھری گھاس سڑک کے منہ کو آرہی تھی ۔ جہاں جگہ ملی سبزے نے اپنا ڈیرہ جمالیا۔ دہلی سے دیوبند تقریباً سوا سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے جو چار گھنٹے میں طے ہوا۔ دو دن کی تھکن کے بعد رات بھر بھرپور نیند لے چکے تھے لہٰذا چاق و چوبند تھے۔ راستے کے مناظر سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
چار گھنٹے بعد منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ بس سڑک کے کنارے رکی تو ہم اترگئے۔ سامنے دوکانیں اور ان کے عقب میں جھانکتے گھر نظر آئے۔ چچا نے تانگہ ’’بُک‘‘ کیا۔ہم اس میں بیٹھ کر خراماں خراں ٹک ٹکا ٹک کی آوازوں کے سنگ چل پڑے۔ پیچ در پیچ گلیوں راستوں سے ہوتے ایک گلی کے کنارے پر اتر گئے کہ تنگیِ داماں کے باعث تانگہ گلی میں داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ گلی کے دونوں کنارے نالیاں، لال اینٹوں کی دیواریں ، ان پر گارے سےاستر کاری کی گئی تھی، جو بارش کے پانی سے جابجا بہہ کر اکھڑ رہا تھا۔
گلی میں داخل ہوئے، چند قدم بعد سامنے خالی پلاٹ تھا، اس کے آگے راستہ بند تھا، دائیں طرف لکڑی کا بڑا سا دروازہ جس کے اندر ڈیوڑھی۔ وہی ڈیوڑھی جس کا تذکرہ اردو ادب میں جگہ جگہ پڑھنے کو ملتا ہے، آج دیکھنے کو مل رہا تھا۔ ڈیوڑھی میں داخل ہوئے تو دیکھا اندر مزید تین مکانات تھے۔ دائیں، بائیں اور سامنے۔ ہم دائیں طرف والے دروازے کا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوگئے۔
باہر جتنی خاموشی تھی اندر اتنی گہما گہمی ۔دروازہ صحن میں کھلتا تھا جس کے سامنے اور دائیں جانب برآمدے تھے۔ سامنے والے برآمدے میں بہت سارے لوگ ہمارے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی چہرے جگمگانے لگے، مسکرانے لگے۔ مصنوعی یا بتکلف مسکراہٹ نہیں۔ بھرپور دل سے امڈتی مسکراہٹیں جن کی سچائی کا ساتھ روشن چمکدار آنکھیں دے رہی تھیں۔جیسے ہی ہم قریب پہنچے ہمارے گلے میں دھڑا دھڑ ہار پھول ڈلنے لگے۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے۔ ابھی لال قلعہ فتح نہیں ہوا۔ ہم نے بتانے کی کوشش کی لیکن مبارک سلامت کے شور میں دل کی بات دل میں رہ گئی۔ ان سب میں دادی اور چچی کو پہچانتے تھے، کیوں کہ یہ کراچی آتے رہتے تھے۔
’’ یہ شائستہ ہے، یہ حفصہ، یہ فاطمہ، بابر اور یہ معین۔‘‘ کراچی والی آنٹی سب کا تعارف کروا رہی تھیں لیکن سب گڈ مڈ ہورہا تھا۔
’’بعد میں الگ الگ دیکھ کر یاد کرلیں گے۔‘‘ ہم نے دل میں سوچ کر خود کو اطمینان دلایا۔
اب دائیں ہاتھ والے برآمدے کے ایک کونے میں بنے کمرے میں لے گئے۔ دری اور اس کے اوپر نفاست سے بچھی چاندنی پر بٹھایا گیا، ساتھ ہی دودھ روح افزا کا بڑا سا گلاس ہاتھ میں تھما دیا۔ ناشتہ کیے ہوئے پانچ گھنٹے ہوگئے تھے۔ دودھ روح افزا کچھ زیادہ ہی لذیذ لگا۔
’’اور لاؤں۔‘‘ کسی نے پوچھا۔
خواہش کے باوجود ہم نے منع کردیا۔ جاتے ہی ’’نیتّا‘‘ مشہور ہونے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
چلو بھائی کو آرام کرنے دو۔ کسی نے آواز لگائی۔ اور زبردستی ایک ایک کو باہر بھیجنے لگے۔ ہمیں گاؤ تکیہ دیا گیا، کمرہ کی لائٹ بند ہوگئی اور دروازہ ’’بھیڑ‘‘ دیا گیا۔
ہم اس محبت بھرے شاندار استقبال سے لطف اندوز ہوتے کمر سیدھی کرنے لیٹے تو بلاوجہ آنکھ لگ گئی!!!