سید عمران

محفلین
دن کے بارہ بج گئے تھے مگر اب تک طے نہیں ہوا تھا کہ آج کہاں جانا ہے۔ کوئی ایک بات کہتا تو دوسرا اس کو رد کردیتا۔ اسی کشمکش کے عالم میں تیار ہوکر باہر نکل آئے۔ موسم ابر آلود تھا، آسمان کالی گھٹاؤں سے ڈھک گیا تھا، بادلوں کے تیور بتا رہے تھے کہ اب برسے کہ تب۔اِدھر ہم ان کی پرواہ کیے بغیر سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر کھڑے ڈسکس کررہے ہیں کہ کہاں جایا جائے مگر کچھ طے نہیں ہورہا تھا۔اچانک صبا نے کہا:
’’ڈولز میوزیم چلتے ہیں۔‘‘
’’یہ کیا چیز ہے؟‘‘سب سے پہلے ہم نے پوچھا۔
’’یہاں دنیا بھر کے مختلف ممالک کی بے شمار گڑیا ہیں جو اپنی اپنی ثقافتوں کی نمائندگی کر رہی ہیں۔‘‘ آنٹی کو بھی یاد آگیا۔
’’بس یہیں چلتے ہیں۔‘‘ صبا اُچھلنے لگی۔ اسے گڑیا کی ثقافت سے زیادہ گڑیا دیکھنے کا شوق اُچھالنے لگا۔
’’چلو یہیں سے شروع کرتے ہیں۔‘‘ آنٹی بھی راضی ہوگئیں۔ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں۔ سب ان کے مقتدی بن گئے۔

دو آٹو پکڑے اور ڈولز میوزیم پہنچ گئے۔ ’’کے شنکر‘‘ نامی ایک انڈین کارٹونسٹ کے ذہن میں یہ میوزیم بنانے کا آئیڈیا اس وقت آیا جب ہنگری کے ایک سفارت کار نے اسے گڑیوں کا تحفہ پیش کیا۔ اس کے بعد وہ جس ملک جاتا وہاں کی گڑیاؤں کا کلیکشن ساتھ لانا نہ بھولتا۔ ہوتے ہوتے ہزاروں گڑیوں پر مشتمل یہ ایک میوزیم کا روپ دھار گیا جہاں یورپ، امریکہ، آسٹریلیا سمیت بیسیوں ممالک کی بھانت بھانت کی گڑیا اپنی اپنی ثقافتوں کی بہاریں دکھانے لگیں۔

ہم ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوگئے۔ گڑیوں کی بھرمار کی بہار صبا کے ہوش اُڑائے دے رہی تھی، مارے خوشی کے یہاں سے وہاں بھاگی بھاگی پِھر رہی تھی۔ مختلف ریکس اور شیشوں کے فریموں میں رکھی چھوٹی بڑی چینی ہندی، یورپی اور ایران توران کی بے شمار گڑیا ۔ دیکھ دیکھ کر تھک گئے مگر گڑیوں کی کَڑیوں کی کَڑی نہ ٹوٹی۔ ایک کے بعد ایک ملک اور ہر ملک کی ایک کے بعد ایک گڑیا۔ گڑیا،گڑیا،گڑیا، گڑیا ہی گڑیا!!!

ان گڑیاؤں نے ہمیں بہت گھمایا۔ کافی وقت گزرنے کے بعد بھی گڑیا تو ختم نہ ہوئیں البتہ ہماری ہمت ختم ہوگئی۔ اب یہاں سے نکلنے کی ٹھانی۔ اس دوران طے کرلیا تھا کہ کہاں جانا ہے۔

باہر نکلے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی۔ فوراً کسی چھتر چھایا کی تلاش شروع ہوئی۔ اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد آخر ایک ریسٹورینٹ کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔مزید بھجن گانے سے پہلے بھوجن ضروری تھا۔باہر بارش تیز ہوگئی تھی۔ وقت گزاری کے لیے چائے بھی منگوالی۔ ٹھنڈا ٹھنڈا موسم، گرم گرم چائے، لطف نہ آئے تو کیا کیا جائے۔ بارش تھمی تو باہر آگئے۔ باہر بارش تو تھم گئی تھی لیکن بادل بدستور موجود تھے، آسمان سے بارش کا ایک آدھ قطرہ بھولے بسرے ٹپک جاتا تھا، حبس کے بعد ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تھی۔ ہم نے آٹو پکڑے اور ایک پارک کے بڑے سے گیٹ کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ پارک کے اندر داخل ہوئے تو سمجھ میں نہ آنے والے جادو کے جنتر منتر کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ دہلی کا ’’جنتر منتر ‘‘تھا!!!

جنتر منتر کوئی جادو ئی قسم کی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک فلکیاتی رصدگاہ ہے جو جے پور کے ایک راجہ نے بنوائی تھی۔ تیرہ مختلف آلات پر مشتمل یہ رصدگاہ ہمارے جیسے غیر سنجیدہ لوگوں کی فہم و فراست سے بالاتر چیز تھی لہٰذا ہم نے یہاں آئے دیگر لوگوں کی طرح اسے نہایت غیر سنجیدگی سے لیا اور جھولے کھلونے سمجھ کر لطف اندوز ہوتے رہے۔

کھانے میں نہ جانے کیا کھالیا تھا کہ طبیعت متلا رہی تھی۔ نہ آس پاس کا ماحول اچھا لگ رہا تھا نہ موسم سہانا دِکھ رہا تھا۔ ہم الگ تھلگ بے چینی کے عالم میں ایک جگہ کھڑے تھے کہ ہمیں سنجیدہ اور پریشان دیکھ کر آنٹی پاس آگئیں:
’’یہ منہ پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟‘‘
ہم نے اپنی مشکل بتائی تو فوراً جاکر صبور صاحب کی اہلیہ کے کان میں کھسر پھسر کی۔ جس کے جواب میں انہوں نے اپنے بڑے سے ہینڈ بیگ میں ہاتھ ڈالا، تھوڑی دیر کچھ ٹٹولنے کے بعد چٹکی میں کالے سے رنگ کی کوئی چیز پکڑکر ہماری ہتھیلی پر دھر دی۔ یہ بڑی الائچی تھی۔اسے چھیل کر بیج چبائے تو کافی افاقہ ہوا۔ طبیعت میں بہتری آئی تو لگا کہ جیسے سین بدل گیا ہو۔ عصر کا وقت ہورہا تھا، بارش تھم گئی تھی، بادل چھٹنے لگے تھے، شام کی نارنجی شعاعیں ماحول کو اپنے رنگ میں رنگ رہی تھیں۔اب ماحول بھی اچھا لگنے لگا اور موسم بھی سہانا۔ سہانے موسم میں سر اٹھا کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھیپھڑوں میں بھری تو دیکھا کہ اوپر آسمان کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک قوس قزح اپنے رنگ بکھیر رہی تھی۔ ہم زندگی میں دوسری بار دھنک دیکھ رہے تھے۔ پہلی بار دیوبند کے گھر کے چھوٹے سے آنگن میں دیکھی تھی،اب وسیع و عریض آسمان تلے یہاں سے وہاں کھنچی ہوئی عظیم الشان چمکدار رنگین کمان دیکھ کر دنگ رہ گئے تھے!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ڈولز میوزیم (Dolls Museum) کی عمارت!!!
doll-museum.jpg
 

سید عمران

محفلین
باہر کا کھانا کھا کر طبیعت بوجھل بوجھل سی تھی، اس لیے جنتر منتر سے واپس گھر پہنچے تو رات کے کھانے کی چھٹی کی اور ایک گلاس دودھ پی کر سوگئے۔ صبح ناشتے کے وقت بھوک خوب چمک رہی تھی۔ ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ ارادہ کرلیا تھا کہ آج باہر سے کھانا ہرگز نہیں کھائیں گے، چناں چہ چلتے وقت آنٹی کے بڑے سے ہینڈ بیگ میں کچھ بسکٹ کے پیکٹ ٹھونس دئیے۔ باہر کا کھانا نہ کھانے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کچھ بھی نہ کھائیں۔

آج پرانی دلّی میں واقع مشہور عالم لال قلعہ دیکھنا ہے۔ کانوں میں ابھی سے باادب، باملاحظہ، ہوشیار کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ آج اس جگہ جارہے ہیں جہاں نگاہیں روبرو رکھ کر حدِ ادب میں رہنا دربارِ شاہی کے آداب میں سے تھا۔ہم مغلوں کے زمانہ میں ہوتے تو شاید بادشاہ لوگ ہمیں بلوانے کے لیے ہاتھی گھوڑے بھجواتے لیکن ہائے، موجودہ دور کے ناقدر لوگوں نے ہمیں رکشوں پر لدوا کر شاہی قلعہ کے سامنے جا اتارا۔

نگاہوں کے سامنے قلعے کی عظیم الشان لال رنگ کی اونچی اونچی فصیلیں تھیں۔اِنہیں سر اٹھا کر دیکھتے تو سروں کی پگڑی پاؤں پر آرہتی۔ ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوئے۔ صبا یوں اکڑتی ہوئی قلعہ میں گھومنے لگی جیسے یہاں کی شہزادی رہی ہو۔ سب کو اس کی چال پر بے ساختہ ہنسی آگئی۔ جامع مسجد کی نسبت دہلی کے لال قلعے کی حالت بہت اچھی تھی، حکومت کی اس پر خوب توجہ تھی، آخر لوگوں سے ٹکٹ کا پیسہ بھی تو وصولنا تھا۔ دہلی کا لال قلعہ صفائی ستھرائی سمیت لاہور کے قلعہ سے ہر لحاظ سے بہتر حالت میں تھا۔

شہاب الدین محمد خرم المعروف شاہجہاں کا تعمیر کردہ لال قلعہ مغل طرز تعمیر کا انوکھا نمونہ ہے۔ اس کی تعمیر میں دس سال کا عرصہ لگ گیا۔ لال قلعہ کی صناعی مدتوں سے ایک عالم کو حیرت زدہ کیے ہوئے ہے۔ صد افسوس انگریزوں نے اس کی اسّی فیصد تعمیرات منہدم یا مسخ کردیں۔ اب بیس فیصد بچی کچھی تعمیرات عظمتِ رفتہ کا پتا دے رہی ہیں۔ ان تعمیرات میں نوبت خانہ، شاہ برج، خاص محل، دیوانِ خاص، دیوانِ عام، موتی مسجد، شاہی حمام، رنگ محل، ہیرا محل شامل ہیں۔

ہیرا محل ایک بارہ دری ہے۔ سرخ پتھر سے تعمیر کی گئی اس عمارت پر سنگ مرمر لگائے گئے جس کی بنا پر اسے ہیرا محل کہا گیا۔ اِس کے مقابل شمالی سمت میں بھی ایسی ہی ایک بارہ دری تعمیر کی گئی تھی جو انگریزوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد تہس نہس کردی۔ اِن دونوں بارہ دریوں کے درمیان میں ایک تالاب بھی تھا جس کا اب نام و نشان بھی باقی نہ رہا۔

نوبت خانہ یا نقار خانہ عدالت کا کام بھی دیتی تھی اور بادشاہ کی آمد کی اطلاع دینے کے لیے نقارہ بجانے والے سازندوں کو جگہ بھی فراہم کرتی تھی۔ اسے ہاتھیوں والا دروازہ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ نافرمان مغل شہزادوں کو یہیں ہاتھیوں کے پاؤں تلے روندا جاتا تھا۔سرخ رنگ کی اس عمارت پر کبھی سونے کا پانی چڑھایا گیا تھا جو اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔

شاہ برج دیگر ضروریات کے علاوہ شاہی حمام کو پانی کی فراہمی کے ایک ذریعہ بھی تھا۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے پہلے پانی شاہ برج تک پہنچایا جاتا تھا پھر یہاں سے نہر بہشت کے ذریعے شاہی حمام تک۔

شاہی حمام کو آج کل بند رکھا جاتا ہے تاکہ اس کی خوبصورت نقاشی کو نقصان نہ پہنچے۔ اس حمام کو ٹھنڈے گرم پانی کی فراہمی کی جاتی تھی، اسی دوران پانی میں خوشبویات ملا کر بادشاہوں کے جسم کو معطر کیا جاتا تھا۔ یہاں ایک تخت بھی موجود ہے جو شاید لباس بدلنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

خاص محل میں ایک عبادت گاہ بھی بنائی گئی تھی۔ اورنگزیب عالمگیر کی تعمیر کردہ موتی مسجد سے قبل یہاں دیگر امور کے ساتھ ساتھ عبادت بھی کی جاتی تھی۔

شاہی حمام سے متصل موتی مسجد بھی بند رہتی ہے۔ اس کی تعمیر اورنگ زیب عالمگیر نے کروائی تھی۔ سنگ مرمر سے بنی اس مسجد کی خوبصورتی قابل دید ہے۔

دیوانِ خاص سنگ مرمر سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی چھت و دیواروں پر سونے کے پانی سے دلکش نقاشی کی گئی تھی جو اس وقت زبوں حالی کا شکار ہے۔ سنگ مرمر بھی سیاہ ہو رہا ہے۔

رنگ محل زنان خانہ تھا۔ یہاں نابالغ لڑکوں اور خواجہ سراؤں کے سوا کسی مرد کو داخلے کی اجازت نہیں تھی۔اسے رنگ محل کا نام کیوں دیا گیا؟ کیا مغلوں نے پہلے سے ہی یہ شعر سن رکھا تھا کہ وجود زن سے تصویرِ کائنات میں رنگ!!!

وسیع و عریض قلعہ گھوم گھوم کر گھوم چکے تھے۔ بیس فیصد تعمیرات کا یہ عالم ہے، اگر اسّی فیصد بھی تباہ ہونے سے بچ جاتیں تو نہ جانے کیا عالم ہوتا۔

تھکن سے چور ہوگئے تھے۔ دوپہر بھی ڈھلنے لگی تھی۔ اب واپسی کی ٹھانی۔ ایک اداس نظر عظمتِ رفتہ کی اس خستہ حال دیوی پر ڈالی اور تھکے تھکے قدموں سے واپس لوٹنے لگے۔ ہر کمالے را زوال۔ ہر عروج کو ایک نہ ایک دن زوال کا منہ ضرور دیکھنا پڑتا ہے۔ ایک وہ وقت تھا کہ دریائے جمنا بھی لال قلعے کے چرن چھوئے بغیر آگے نہیں بڑھتا تھا۔ اب مغلوں کے زوال کے بعد وہ بھی پیچھے ہٹ گیا۔ گویا حالات سے سمجھوتہ کرکے منہ موڑ لیا ہو۔
ہم بھی منہ موڑ کر قلعہ سے باہر نکل آئے!!!
 
آخری تدوین:
Top