سزائے رجم، پتھر مار کر ہلاک کرنے کی حقیقت

باذوق

محفلین
میں ذیل میں کچھ نکات لکھ رہا ہوں۔
فاروق بھائی اور دیگر صاحبان ! آپ چاہیں تو ان میں رد و بدل و اضافہ کر سکتے ہیں۔

1: قرآنی آیت کے ترجمہ و تفہیم میں
2: احادیث چونکہ عربی زبان میں
3: احادیث کے موضوع (topic) یا متن
4: بےشک! کتب احادیث پر
5: لاریب ! قرآن عظیم ہے
مزید 2 نکات کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

6: براہ مہربانی ذاتیات پر اترنے سے پرہیز کیا جائے۔ اختلاف رائے عین ممکن ہے لیکن اس اختلاف کے بہانے فریق مخالف کے "ایمان کی جانچ پڑتال" قابل اعتراض معاملہ متصور ہوگا جس سے یقینی گریز کیا جانا چاہئے۔

7: ائمہ محدثین اور علمائے کرام کی تفہیمات ، ترجیحات یا فیصلوں سے اتفاق ضروری نہیں لیکن اس امر سے بھی بچنا ضروری ہے کہ انہیں سامنے سے یا درپردہ خراب یا نازیبا الفاظ سے متہم کیا جائے۔
 

باذوق

محفلین
بھائی بازوق،

صحیح احادیث کے ٹاپک (موضوع) یا متن سے اختلاف کے ثبوت کے طور پر آیت/آیاتِ ربانی یا ترجمہِ آیت/آیات کی پیشکشی قابل قبول نہیں ہوگی۔

اس اصول میں سرخ شدہ حصہ ہی سب سے مشکل حصہ ہے۔ قرآن حکیم مسلمان کے ایمان کے مطابق دو وجوہات سے سچ اور جھوٹ کی کسوٹی ہے ۔ پہلی وجہ : اللہ تعالی کا فرمان اور دوسری وجہ رسو؛ل اکرم صلعم کا فرمان۔

اگر کوئی معاملہ ، روایت، موضوع، لیجنڈ وغیرہ قرآن حکیم کی کسی آیت کی تکفیر کرتی ہے تو بھائی ہم اس پر ایمان کس طرح لاسکتے ہیں‌۔۔

میں نے یہ اصول تو بہت سی کتب میں دیکھا ہے ایک صحیح روایت خلاف قرآن ہوہی نہیں سکتی۔

اس اصول میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ طے کرلیجئے تو پھر آگے بڑھتے ہیں۔

والسلام
میں نے یہ اصول تو بہت سی کتب میں دیکھا ہے ایک صحیح روایت خلاف قرآن ہوہی نہیں سکتی۔
فاروق بھائی ! یہ بات آپ کی بالکل درست ہے کہ کوئی صحیح روایت ، خلافِ قرآن نہیں ہو سکتی !!
لیکن سوال یہ ہے کہ جب کسی معاملے کے متعلق قرآن کچھ بھی نہ بتائے تب کسی روایت کو صحیح جتانے کے لیے کون سے اصول مقرر کئے جائیں گے؟
جیسا کہ نماز میں سجدہ ، رکوع ، قیام وغیرہ کی حالتیں ہیں۔ کیا یہ ہم اپنی مرضی سے طے کر سکتے ہیں؟ جبکہ قرآن میں ان حالتوں کی صحیح نشست وبرخاست کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔

فاروق بھائی ! آپ اس اصول
صحیح احادیث کے ٹاپک (موضوع) یا متن سے اختلاف کے ثبوت کے طور پر آیت/آیاتِ ربانی یا ترجمہِ آیت/آیات کی پیشکشی قابل قبول نہیں ہوگی۔
سے اتفاق نہیں کرتے ہیں اور پھر اس کی وجہ بھی بتاتے ہیں۔
جبکہ اس اصول کو بیان کرتے ہوئے میں نے یہ بھی صاف صاف لکھا تھا کہ :
قرآن کے ایک بھی لفظ یا حرف سے کوئی مسلمان اختلاف کی بات تک سوچ نہیں سکتا۔ جو بھی اختلاف ہوتا ہے وہ دراصل کلامِ ربانی کی ترجمانی یا تفہیم میں ہوتا ہے۔

اور جن آیت یا آیات کی پیشکشی پر اختلاف ہوتا ہے وہ یہی ترجمانی / تفہیم کا اختلاف ہے نا کہ مطلق آیت یا آیات سے اختلاف۔
مثلاً سورہ النور کی یہی آیت نمبر:2 لیجئے
آپ نے ترجمہ لکھا ہے :
ترجمہ:-بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو (سو) کوڑے مارو اور تمہیں ۔۔۔۔۔۔

میرا سوال یہ ہے کہ قوسین میں جو "غیرشادی شدہ" کا ذکر ہے وہ قرآن میں کہاں بیان ہوا ہے؟؟
کیونکہ قرآن تو صرف "[arabic]الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي[/arabic]" کہتا ہے اور ان کی سزا بیان کرتا ہے۔
اگر یہ عبارت (غیرشادی شدہ) قرآن میں نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے کہ یہ آپ کی تشریح ہی کہلائے گی۔
اور میں نے اسی لئے اصول یوں لکھ دئے ہیں کہ :
قرآنی آیت کے ترجمہ و تفہیم میں اگر باحثین کے درمیان کسی قسم کا اختلاف واقع ہو جائے تو خود کی ذاتی "تشریح" کی پیشکشی کے بجائے بہتر ہوگا کہ اس میدان (ترجمہ مع تفسیر) کے ماہرین کی آراء سے استفادہ کیا جائے۔

یہاں پر اہمیت اس بات کی ہے کہ اس کتاب اللہ میں رجم کرنے کے حکم کی آیت بھی تھی جسے ہم نے تلاوت کیا، یاد کیا ، اس پر عمل بھی کیا ۔ ۔۔
اس سے قرآن حکیم کی ایک آیت درست نہیں رہتی جس میں اللہ تعالی وعدہ فرمارہے ہیں کہ وہ قرآن حکیم کی حفاظت فرمارہے ہیں۔ اس لئے کہ یہ آیت آج قرآنمیں موجود نہیں۔
اس موقع پر میں نے کہا کہ گویا پچھلے ہزار سال سے جن حفاظ نے قرآن حفظ کیا وہ سب غلط ہے؟؟؟؟؟؟ یہ کسی پوائنٹ ان ٹائم سے لے کر کسی دوسے پوائنٹ ان ٹائم کی عکاسی نہیں کرتا۔ بلکہ کسی بھی عرصہ پر اس کا اطلاق کرلیجئے ۔۔
فاروق بھائی !
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ :
صحیح احادیث کے ٹاپک (موضوع) یا متن سے اختلاف کے ثبوت کے طور پر آیت/آیاتِ ربانی یا ترجمہِ آیت/آیات کی پیشکشی قابل قبول نہیں ہوگی۔
اس کے باوجود آپ ایک "صحیح روایت" سے اختلاف کرنے کے لیے "قرآن حکیم کی حفاظت" والی آیت ربانی کو مدمقابل لا رہے ہیں۔

اگر آپ کا یہ اصول بالفرض مان بھی لیا جائے تو پھر اس اصول کی رو سے عبادات و معاملات کے ان تمام اعمال پر بھی زد پڑتی ہے جس میں نماز کا طریقہ ، زکوٰۃ کی تفصیل ، حلال و حرام کی تفصیل ، جنازہ اور نماز جنازہ کا طریقہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اور جو 1400 سال سے امت میں مسلسل متفق علیہ چلے آ رہے ہیں مگر جن کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں ملتا اور اس کے باوجود قرآن کہتا ہے کہ :
7:52 اور بے شک پہنچادی ہے ہم نے اُن کو ایک کتاب جس میں تفصیل بیان کردی ہے ہم نے ہر بات کی

خیر۔ میں پھر ایک بار دہراؤں گا کہ گفتگو کے اصول پہلے طے کر لئے جائیں اور ان کی مکمل پاسداری کی جائے تو بہتر رہے گا۔
امید کہ تعاون فرمائیں گے ، شکریہ۔
اندازہ یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اصل روایات میں یہ معاملہ شامل کیا، وہ قرآن سے اچھی طرح واقف نہیں تھے۔ ایسا ہم نہ امام مالک کے لئے کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ابن کثیر کے لئے۔ اس لئے لازمی ہے کہ ایسا معاملہ قرآن سے ناواقف لوگوں نے کسی ایسے وقت میں ان کتب میں داخل کیا جس کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
اس کا جواب وہی اصول نمبر:3 رہے گا کہ
3: احادیث کے موضوع (topic) یا متن سے اختلاف عین ممکن ہے۔ لیکن اپنا اختلاف ظاہر کرنے کے لیے یہ دعویٰ ضروری نہیں ہے کہ :
یہ احادیث ائمہ حدیث کے نام پر گھڑی گئی ہیں یا ان کی کتب میں بعد میں شرپسندوں نے داخل کر دی ہیں۔
اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے بھی تو لازم ہے کہ وہی اس کا ٹھوس ثبوت فراہم کرے۔
اس روایت کو جھوٹی ثابت کرنے کے لیے براہ مہربانی علم حدیث کے ماہرین سے ثبوت فراہم کیجئے گا۔
جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ:
احادیث کو یا ان کے متن کو غلط ثابت کرنے کے لیے علمِ حدیث کے ماہرین ہی کا فیصلہ آخری سمجھا جانا چاہئے۔
 

ظفری

لائبریرین
غامدی صاحب کو میں نے بھی سنا ہے اور کہیں یہ نہیں محسوس ہوا کہ وہ قرآن و حدیث کو جھٹلاتے ہیں۔ دیگر علماء کی طرح ان کے طریقہ استدلال پہ اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن ان پر الزام لگانا مناسب نہیں۔
میرا خیال ہے اب فواد اور ظفری دونوں برادران اس موضوع سے باہر نکل آئیں تو بہتر ہے۔

ساجد بھائی ۔۔۔۔ میں تو جب کسی دھاگے پر گیا تو اسی نیت سے کہ اسی مناسبت سے کچھ پوسٹ کروں ۔ مگر ان صاحب کے پے درپے کئی الزامات دیکھ کر میں نے موضوع پر کچھ لکھنے سے ہاتھ روک کر ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بہتان تراشی ایک بڑا گناہ ہے ۔ اس طرح کی حرکتوں سے آپ کی توجہ فطری طور سے موضوع سے ہٹ جاتی ہے اور آپ کےسامنے موجود اس طرح کی تحریر میں آپ الجھ جاتے ہیں‌۔ اسی وجہ سے میں نے منتظمین سے گذارش کی ہے کہ اس طرح کے الزامات سے اردو محفل کو پاک کیا جائے ۔ کسی سے علمی اختلاف اور چیز ہے اور کسی پر بے سروپا الزامات کے ساتھ اختلاف کرنا اور چیز ہے ۔
 
باذوق سلام،

آپ نے تراجم کی جو مثالیں دیں وہ غیر ضروری تھیں۔ اس لئے کہ ان کے بریکٹ کے مندرجات نہ میں‌مانتا ہوں نہ آپ۔ یہ لکھنے والے مترجم کے من و عن معانی تھے۔

استدعا ہے موضوع پر رہئیے۔ نماز روزہ زکوۃ ، حلال حرام وغیرہ کے لئے الگ الگ دھاگے کھولے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ کو ان پر بات کرنی مطلوب ہے۔ ان میں سے بیشتر پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔

قرآن حکیم کی آیات کے معانی دیکھتے وقت، ہم زیر بحث آیت کے ترجمہ کو قبول کرنے سے پہلے باہمی طور پر اس کے معانی پر متفق ہوسکتے ہیں۔ تاکہ ابہام نہ رہے۔

لیکن جب کوئی روایت متفق شدہ معانی کے بھی مخالف ہے تو اس روایت کو فرمان نبوی کے مطابق رد کرنا ضروری ہے۔

بہت شکریہ
والسلام
 
اگر کوئی روایت قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سے رد کردی گئی تو پھر رد کردی گئی۔ اس کے بعد کسی توجہیہ کی ضرورت نہیں۔ میرے نزدیک ایسی تمام روایات دشمنان اسلام کی کاروائی ہیں۔ ورنہ یہ خلاف قرآن نہ ہوتیں۔

والسلام
 
اگر آپ کا یہ اصول بالفرض مان بھی لیا جائے تو پھر اس اصول کی رو سے عبادات و معاملات کے ان تمام اعمال پر بھی زد پڑتی ہے جس میں نماز کا طریقہ ، زکوٰۃ کی تفصیل ، حلال و حرام کی تفصیل ، جنازہ اور نماز جنازہ کا طریقہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اور جو 1400 سال سے امت میں مسلسل متفق علیہ چلے آ رہے ہیں مگر جن کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں ملتا اور اس کے باوجود قرآن کہتا ہے کہ

یہ آپ کا خیال ہے بھائی باذوق۔ اگر آپ تمام کی تمام روایات کی کتب ایک طرف کردیں اور صرف قرآن اور سنت جاریہ سے مدد لیں تو بھی کسی قسم کا ابہام نہیں ہے اور کسی بھی معاملہ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ کیا آپ اس بات کو ان تمام موضوعات پر ایک ساتھ پھیلانا چاہتے ہیں؟

جب بھی کوئی کہے گا کہ قرآن کی آیک آیت کھو گئی تو اس کو ایک ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ ایسا کیوں‌ہوا اور اس سے جو آیت ربانی متاثر ہوتی ہیں ان کو دیکھنا بہت ہی ضروری ہے۔ آپ کی یہ شرط قابل قبول نہیں کہ ہم ان آیات ربانی کو نہیں دیکھیں گے جو ایک روایت کی وجہ سے درست نہیں رہی ہیں۔

میرا ایمان ہے کہ قرآن مکمل ہے، اس کی کوئی آیت کھوئی نہیں ہے۔ اس کی کوئی آیت رسول اکرم نے چھپائی نہیں ہے۔ اگر روایت، قرآن کی کسی آیت کو غلط کرتی ہے تو وہ رویات کسی طور بھی قابل قبول نہیں؟

لہذا یہ اصول بہت ضروری ہے کہ اگر کوئی روایت کسی بھی طور قرآن کی آیت کو غلط قرار دیتی ہے تو وہ اور اس مفہوم کی دیگر روایات کسی طور قابل قبول نہیں ہیں۔

والسلام
 
گر آپ کا یہ اصول بالفرض مان بھی لیا جائے تو پھر اس اصول کی رو سے عبادات و معاملات کے ان تمام اعمال پر بھی زد پڑتی ہے جس میں نماز کا طریقہ ، زکوٰۃ کی تفصیل ، حلال و حرام کی تفصیل ، جنازہ اور نماز جنازہ کا طریقہ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں اور جو 1400 سال سے امت میں مسلسل متفق علیہ چلے آ رہے ہیں مگر جن کا کوئی ذکر قرآن میں نہیں ملتا اور اس کے باوجود قرآن کہتا ہے کہ :
7:52 اور بے شک پہنچادی ہے ہم نے اُن کو ایک کتاب جس میں تفصیل بیان کردی ہے ہم نے ہر بات کی

قرآن میں نہیں‌ملنا اور قرآن کی مخالفت دو بالکل الگ موضوع ہیں۔ قرآن میں بنیادی اصول اور سنت نبوی میں اس کی تفصیل بالکل ممکن ہے لیکن ایک روایت قرآن کی کسی بھی آیت کی تکفیر کرتی ہے تو پھر وہ روایت قابل قبول نہیں۔

میں ایک بار پھر استدعا کروں گا کہ موضوع پر ہی رہئیے۔ ایک اصول میں ترمیم ضروری ہے۔ ایک خوشی مجھے یہ ہے کہ آپ کو بھی خلاف قرآن روایات نظر آنے لگی ہیں۔ رہ گئی روایات کی درستگی کی بات تو بھائی ان کتب پر ایمان رکھنے کا حکم نہ اللہ نے دیا نا اس کے رسول اکرم نے تو اعوذ‌باللہ و بسم اللہ پڑھ کر آپ خلاف قرآن روایات کو فرمان رسول کے مطابق رد کرنا شروع کردیجئے۔ صحیح و ضعیف وغیرہ ، اسناد کی مظبوطی یا کمزوری یہ سب موافق و مطابق قرآن روایات کے لئے ہیں۔

آپ کے اختلاف سے آپ کی عزت و محبت کم نہیں ہوتی۔
والسلام
 
حادیث کو یا ان کے متن کو غلط ثابت کرنے کے لیے علمِ حدیث کے ماہرین ہی کا فیصلہ آخری سمجھا جانا چاہئے۔

علم حدیث کے ماہرین ان احادیث پر اپنی مہارت دکھائیں جو خلاف قرآن نہ ہوں۔ علم حدیث کے کسی بھی ماہر کی نہ رسول اکرم کے سامنے کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی اللہ تعالی کے سامنے۔ لہذا آپ مجھے اگر کوئی بھی ثبوت فراہم کرتے ہیں تو بھائی صرف اور صرف قرآن حکیم اور قرآن حکیم کے موافق و مطابق روایات یعنی سنت نبوی سے فراہم کیجئے۔

موافق و مطابق القران حدیث کے لئے فرامین الہی اور فرامین نبوی۔

سوال : کیا اللہ تعالی یہ اصول فراہم کرتے ہیں کہ نبی صرف موافق القرآن بات کرتے ہیں؟

جواب:
53:3 [arabic]وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى[/arabic]
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے
53:4 إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے

اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اکرم قرآن کے خلاف یا جو کچھ ان پر وحی کیا گیا اس کے خلاف قطعاً کچھ نہیں فرماتے ۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو کچھ رسول اکرم نے جو بھی فرمایا وہ قرآن ہے یا قرآن کی طرح ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ اللہ تعالی ایک ایسی کتاب فراہم کریں جس میں پیوند عرصہ 200 سال کے بعد لوگ لگائیں۔

اب آپ دیکھئے اتباع کرنے کا زبردست حکم۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلعم کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اس کی پیروی کریں جو کہ ان پر وحی کیا گیا۔ یعنی جو کچھ رسول اللہ فرماتے ہیں وہ قرآن کی پیروی ہوتا ہے ،

سوال: کیا رسول اللہ کا فرمایا ہوا قرآن کی پیروی نہیں‌بلکہ اس کے خلاف ہوسکتا ہے؟
جواب:
6:106 [arabic]اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ لاَ إِلَ۔هَ إِلاَّ هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ [/arabic]
آپ اس کی پیروی کیجئے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے وحی کیا گیا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور آپ مشرکوں سے کنارہ کشی کر لیجئے


سوال: کیا کچھ وحی قرآن میں لکھے جانے سے رہ گئی تھی یا ترک کردی گئی تھی؟
جواب:
11:12 [arabic]فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَى إِلَيْكَ وَضَآئِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُواْ لَوْلاَ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَ۔نْ۔زٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ [/arabic]
بھلا کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس میں سے کچھ ترک کر دیں جو آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے اور اس سے آپ کا سینہء تنگ ہونے لگے کہ کفار یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا، (ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اے رسولِ معظم!) آپ تو صرف ڈر سنانے والے ہیں (کسی کو دنیوی لالچ یا سزا دینے والے نہیں)، اور اﷲ ہر چیز پر نگہبان ہے

ہم اس سے یہ صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ رسول اکرم کا ہر فرمان اس وحی کے مطابق ہوتا ہے جو کہ ان پر وحی کی گئی (53:3) رسول اکرم کو قرآن کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا (6:106) رسول اللہ صلعم نے کوئی بھی وحی ترک نہیں کی یعنی اس قرآن میں‌ہر وحی موجود ہے۔ (11:12)

سوال: وہ لوگ جو رسول اکرم سے مخالف قرآن روایات منسوب کرتے ہیں ان کے پاس قرآن سے کیا ثبوت ہے کہ روایت خلاف قرآن بھی ہوسکتی ہے؟

(ا) امام علی بن محمدالبزدوی الحنفی متوفی٢٨٤ھ
” فاذا روی لکم عنی حدیث فاعرضوہ علی کتاب اللہ تعالٰی، فما وافق کتاب اللہ تعالٰی فاقبلوہ وما خالفوہ فردوہ۔“
( اگر تم سے کوئی حدیث روایت کی جائے مجھ سے تو اسے کتاب اللہ تعالٰی پر پیش کروتواگر وہ کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو تو رد کردو۔
( مشہور کتاب ’اصولِ بزدوی‘،باب بیان قسم الانقطاع ص 175 ، میرمحمد کتب خانہ کراچی۔)

والسلام
 
محترم فاروق صاحب سے گذارش ہے کہ اس آیت کا مفھوم ذرا ہمیں سمجھادیجئے :
مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿١٠٦﴾
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
محترم بھائیو ،
فاروق سرور صاحب کے مراسلہ رقم میں ذکر کی گئی باتیں کافی پرانی ہیں اور الحمد للہ تقریبا سوا سال پہلے میں ان کے جوابات پیش کر چکا ہوں ،
وہ جوابات """" یہاں """ اور """ یہاں """ موجود ہیں اور ان دو روابط کے آگے پیچھے بھی کافی کچھ میسر ہے ،
فاروق صاحب اور ہم سب ، اس گفتگو میں شامل بھائی ، ان متکرر سوالات اور باتوں کے جوابات میں وقت لگانے کی بجائے اس دھاگے کے اصل موضوع تک محدود رہیں تو ان شاء اللہ زیادہ خیر ہو گی ،
کل میں نے اپنے ایک مراسلے میں کچھ روابط مہیا کیے جن میں سے پہلا ربط اس دھاگے کا تھا جہاں """ رجم """ کے بارے میں فاروق سرور صاحب سے میری گفتگو ہو رہی ہے ، اللہ جانے وہ ربط داخل ہونے سے کیسے رہ گیا بہر حال اب اس ربط کو یہاں ذکر کرہا ہوں ،
و السلام علیکم۔
 
شکریہ عادل۔ کم از کم مجھے ان روابط کو یہاں پیش کرنےسے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کافی 'چشم کشا' حقائق سامنے آ رہے ہیں ان روابط سے۔ ایسے کچھ اور روابط ملیں تو انہیں بھی بے شک یہاں پیش کر دیں۔
السلام علیکم ، نبیل بھائی ، بہت شکریہ ، اللہ تعالیٰ ہم سب کی بینائی اور بصیرت اور رویتءحق اور تفہیمءحق کے درمیان کوئی روکاٹ قائم نہ رہنے دے سب کچھ کشا کردے ،
محترم بھائی میں نے یہ روابط صرف اس لیے مہیا کیے ہیں کہ یہاں اس دھاگے کے موضوع کے بارے میں میری محنت بھائیو کی دسترس میں ہو جائے اور ان شا اللہ یہاں ہونے والی خیر میں میرا حصہ بھی ہو جائے ، اور میرے بھائیو کی مشقت میں کچھ کمی رہے ،
جزاک اللہ خیرا کہ آپ نے بیرونی روابط کو برقرار رکھنا قبول فرمایا ، و السلام علیکم۔
 
صرف قرآن اور سنت جاریہ
قرآن میں بنیادی اصول اور سنت نبوی میں اس کی تفصیل بالکل ممکن ہے۔
قرآن حکیم کے موافق و مطابق روایات یعنی سنت نبوی سے فراہم کیجئے۔

فاروق صاحب گو اس بحث میں کودنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا لیکن آپ سے ایک بات دریافت کرنے کی اجازت چاہوں گا اور یہ بھی کہ آپ ذرا ٹو دی پوئنٹ جواب دیجئے گا۔
آپ نے فرمایا ہے کہ
قرآن حکیم کے موافق و مطابق روایات یعنی سنت نبوی سے فراہم کیجئے۔
تو یہ سنت نبوی یا روایات جو قرآن کے موافق ہوں یہ پائی کہاں جاتی ہیں؟
1۔ خود قرآن میں ہی صرف اگر ایسا ہے تو الگ سے ان کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں یہ کہ دینا کافی ہو گا کہ یہ قرآن کا ہی بیان ہے۔
2۔کسی طرح کی روایات کی کتب میں؟
اگر یہ کتب روایات میں پائی جاتی ہیں تو خود ان کتب رویات کا اسٹیٹس کیا ہے؟
کیا کوئی ایسی روایات کی کتاب پائی جاتی ہے جو بالکل درست سنتیں بیاں کرتی ہو اگر ایسا ہے تو اس کتاب کا نام کیا ہے؟
اور اگر یہ ان ہی کتب روایات میں پائی جاتی ہیں جو صحیح کے ساتھ ساتھ مخالف قرآن روایات سے بھی پر ہیں(بقول آپ کے) تو ان صحیح روایات کو پرکھنے کا طریقہ کیا ہے؟
اگر آپ یہ کہیں کہ خود قرآن ہے تو یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ شاید کسی شخص نے اپنے پاس سے گڑھ کر یہ باتیں کتب روایات میں درج کر دی ہوں اور یہ بظاہر قرآن کے خلاف نہ ہوں اور درحقیقت یہ نبی کی سنت نہیں بلکہ اس شخص کی من گڑھت ہوں۔ تو ایسے میں ان رویات کو بیان کرنا کس طرح صحیح ہوگا؟
 
شکریہ عادل۔
فاروق سرور صاحب کے اور آپ کے تمام مراسلےپڑھے۔ آپ نے ان سے مطالبہ کیا کہ ایسی حدیث دکھائیں جو کہ خلاف قرآن ہو اور وہ بات کو آئیں بائیں شائیں کر کےکہیں اور کی بات شروع کر دیتے۔

قرآن کی تشریح سمجھنے کے لئے ہمیں احادیث ہی کی رہنمائی لینی پڑتی ہے۔
قرآن میں بار بار نماز کا ذکر ہوا۔ لیکن نماز کیسے پڑھی جائے اس کے لئے حدیث نے ہمیں سکھایا کہ نماز کیسی پڑھی جائے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، بھائی ، میں تو فاروق صاحب سے ایک عرصہ سے بہت سے سوالات کیے ہوئے ہوں ، جن کے جواب میں وہ چند باتوں کو دہراتے رہتے ہیں ،
جس فلسفے کو بنیاد بنا کر وہ بحث و مباحث شروع کیے ہوئے ہیں اس فلسفے کی تعریف تک نہیں بتائی ،
آپ نے درست کہا بھائی ، اللہ کی کتاب کی قولی اور عملی طور پر تفسیر اور تشریح اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا منصب تھا اور بہترین اور مکمل ترین پر اپنا منصب پورا فرما گئے ،
ان کی عطا کردہ قولی اور عملی تفیسر اور تشیریح کے بغیر قران پاک میں سے عقائد عبادات اور معاملات کو سمجھنا سوائے غلط فہمیوں کے کچھ اور نہیں ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ، ہر ایک کلمہ گو کو وہ دین سکھنے ، اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرما دے جو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر نازل فرمایا تھا ، و السلام علیکم۔
 
محترم فاروق صاحب سے گذارش ہے کہ اس آیت کا مفھوم ذرا ہمیں سمجھادیجئے :
2:106[ayah][/ayah] [arabic]مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [/arabic]
ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے

بھائی محمود سلام،
آپ کی فراہم کردہ آیت مع معانی اور سورۃ اور آیت نمبر درج کردی ہے۔

اس سے پہلے کہ میں آپ کی کسی بھی بات کی تائید یا تنقید کروں ، یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں‌کہ آپ کی یا کسی اور دوست کی عزت و محبت میرے دل میں کبھی کم نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود کہ آپ نے میری کسی بات کی تائید یا تنقید کی یا میں نے آپ کی کسی بات کی تائید یا تنقید کی۔ اس کی وجہ بہت ہی سادہ ہے کہ آپ نے وقت نکال کر میری شئیر کی ہوئی آیت پڑھی، اس پر سوچا اور پھر ایمانداری کو برقرار رکھنے اور سب کے فائیدے کے لئے تنقید یا تائید کی۔ میرے نزدیک آپ کایہ عمل انتہائی عزت کے قابل ہے۔ یہی نظریہ میرا باقی تمام احباب کے لئے ہے۔

سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس آیت کی طرف توجہ دلائی۔

ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے

آپ کو درج ذیل کمجھنے کے لئے صرف خلوص دل ضروری ہے۔ میں پہلے کچھ آیات پیش کرتا ہوں اور اس کے بعد ان آیات سے املنے والے نکات کی وضاحت کرتا ہوں۔


1۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آیات صرف قرآن میں ہی نازل نہیں کی ہیں۔ بلکہ آیات اللہ تعالی کی کتابوں تورات، زبور، انجیل اور قرآن حکیم میں نازل ہوئیں ۔
[ayah]3:3[/ayah][arabic]نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ [/arabic]
اسی نے نازل کی ہے تم پر یہ کتاب حق کے ساتھ، تصدیق کرتی ہوئی ان کتابوں کی جو اس سے پہلے موجود تھیں اور اسی نے نازل کی تورات اور انجیل۔

[ayah]17:55[/ayah] [arabic]وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا[/arabic]
اور آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں (آباد) ہیں، اور بیشک ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت بخشی اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی


2۔ قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا۔ اللہ تعالی کا دستور، اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ الفاظ اور جملے بدل دئے جاتے ہیں لیکن حکم نہیں تبدیل ہوتا۔
[ayah]33:62 [/ayah][arabic]سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [/arabic]
یہی سنت ہے اللہ کی ایسے لوگوں کے معاملے میں جو گزرچکے ہیں پہلے اور نہ پاؤ گے تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی۔

3۔ توراۃ، زبور اور انجیل کی آیات کو منسوخ کیا گیا اور اس کی جگہ بہتر آیات قرآن مجید میں نازل کی گئیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ شیطان سابقہ انبیاء‌کی تلاوت میں خلل انداز ہوا ۔ جو آیت بھی منسوخ کی گئی ہیں ان میں موجود حکم اور نئی آیت میں موجود حکم کبھی تبدیل نہیں ہوئے۔ صرف آیت کے الفاظ تبدیل ہوئے ، اس لئے کہ اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

[ayah]22:52 [/ayah][arabic]وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ[/arabic]
اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر مٹا دیتا رہا اللہ اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔


آیات کا متن بدلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان سابقہ کتب میں بہت تبدیلی ہوتی رہی ہے۔
[ayah]2:75 [/ayah][ayah]أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُّؤْمِنُواْ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ[/ayah]
کیا تم اب بھی توقّع رکھتے ہو کہ ایمان لے آئیں گے یہ لوگ تمہاری دعوت پر؟ حالانکہ ہے ایک گروہ ان میں (ایسا بھی) جو سنتا ہے اللہ کا کلام پھر ردّ و بدل کردیتا ہے اس میں، بعد خُوب سمجھ لینے کے، جانتے بوجھتے۔


وضاحت:
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آیات صرف قرآن میں ہی نازل نہیں کی ہیں۔ بلکہ آیات اللہ تعالی کی کتابوں تورات، زبور، انجیل اور قرآن حکیم میں نازل ہوئیں ۔ قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا۔ اللہ تعالی کا دستور، اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ سابقہ کتنب کی آیات یعنی احکامات کے الفاظ اور جملے بدل دئے جاتے ہیں لیکن حکم نہیں تبدیل ہوتا۔ اس طرح قرآن میں فراہم کردہ یہ آیات ایک بہتر شکل میں‌موجود ہیں۔

اس کی وجہ:
آیات کا متن بدلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان سابقہ کتب میں بہت تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ اور دوسری یہ کہ توراۃ، زبور اور انجیل کی آیات کو منسوخ کیا گیا اور اس کی جگہ بہتر آیات قرآن مجید میں نازل کی گئیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ شیطان سابقہ انبیاء‌کی تلاوت میں خلل انداز ہوا ۔

قرآن حکیم کہیں بھی یہ نہیں‌کہتا کہ قرآن حکیم کی آیات تبدیل یا منسوخ ہوتی رہی‌ ہیں؟ لیکن یہ ضرور وضاحت کرتا ہے کہ سابقہ کتب میں تحریف کی گئی اور ساتھ ساتھ شیطان بھی سابقہ انبیاء کرام کی تلاوت وحی میں خلل انداز ہوا۔ یہ وجہ ہے کہ سابقہ کتب کے احکامات تبدیل کرکے قرآن میں اس سے بہتر آیات فراہم کی گئیں۔

کوشش کیجئے کہ نکتہ ارتکاز صرف اور صرف معاملہ تک رہے نہ کہ جس نے اس معاملہ کی طرف توجہ دلائی ہے اس کو برا کہنے لگیں۔

کیا ہم (‌ہم میں سے کوئی بھی)‌ یہ ثابت کرسکتا ہے کہ یہ آیت مبارکہ جو آپ نے لکھی قرآن کی آیات کی تنسیخ اور ترمیم کے بارے میں ہے جبکہ قرآن حکیم سابقہ کتابوں کے بعد نازل ہورہا ہے۔ اور ان کتابوں میں‌ کی جانے والی تبدیلی کی گواہی اللہ تعالی دے رہے ہیں؟

اصول: کوئی بھی روایات جو قرآن حکیم کے مطابق و موافق ہے وہ قابل قبول ہے جبکہ وہ روایات جو خلاف قرآن ہیں، فرمان نبوی کے مطابق رد کردی جانی چاہئیے۔

والسلام
 
1۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آیات صرف قرآن میں ہی نازل نہیں کی ہیں۔ بلکہ آیات اللہ تعالی کی کتابوں تورات، زبور، انجیل اور قرآن حکیم میں نازل ہوئیں ۔
[ayah]3:3[/ayah][arabic]نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ [/arabic]
اسی نے نازل کی ہے تم پر یہ کتاب حق کے ساتھ، تصدیق کرتی ہوئی ان کتابوں کی جو اس سے پہلے موجود تھیں اور اسی نے نازل کی تورات اور انجیل۔

[ayah]17:55[/ayah] [arabic]وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا[/arabic]
اور آپ کا رب ان کو خوب جانتا ہے جو آسمانوں اور زمین میں (آباد) ہیں، اور بیشک ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت بخشی اور ہم نے داؤد (علیہ السلام) کو زبور عطا کی


2۔ قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا۔ اللہ تعالی کا دستور، اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ الفاظ اور جملے بدل دئے جاتے ہیں لیکن حکم نہیں تبدیل ہوتا۔
[ayah]33:62 [/ayah][arabic]سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [/arabic]
یہی سنت ہے اللہ کی ایسے لوگوں کے معاملے میں جو گزرچکے ہیں پہلے اور نہ پاؤ گے تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی۔

3۔ توراۃ، زبور اور انجیل کی آیات کو منسوخ کیا گیا اور اس کی جگہ بہتر آیات قرآن مجید میں نازل کی گئیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ شیطان سابقہ انبیاء‌کی تلاوت میں خلل انداز ہوا ۔ جو آیت بھی منسوخ کی گئی ہیں ان میں موجود حکم اور نئی آیت میں موجود حکم کبھی تبدیل نہیں ہوئے۔ صرف آیت کے الفاظ تبدیل ہوئے ، اس لئے کہ اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔

[ayah]22:52 [/ayah][arabic]وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ[/arabic]
اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر (ایسا ہوتا رہا) کہ جب اس نے تلاوت کی تو خلل اندز ہوا شیطان اُس کی تلاوت میں۔ پھر مٹا دیتا رہا اللہ اس خلل اندازی کو جو شیطان کرتا رہا پھر پختہ کردیتا رہا اللہ اپنی آیات کو اور اللہ علیم و حکیم ہے۔


آیات کا متن بدلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان سابقہ کتب میں بہت تبدیلی ہوتی رہی ہے۔
[ayah]2:75 [/ayah][ayah]أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُّؤْمِنُواْ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ[/ayah]
کیا تم اب بھی توقّع رکھتے ہو کہ ایمان لے آئیں گے یہ لوگ تمہاری دعوت پر؟ حالانکہ ہے ایک گروہ ان میں (ایسا بھی) جو سنتا ہے اللہ کا کلام پھر ردّ و بدل کردیتا ہے اس میں، بعد خُوب سمجھ لینے کے، جانتے بوجھتے۔


وضاحت:
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے آیات صرف قرآن میں ہی نازل نہیں کی ہیں۔ بلکہ آیات اللہ تعالی کی کتابوں تورات، زبور، انجیل اور قرآن حکیم میں نازل ہوئیں ۔ قرآن مجید میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی اور نا ہی اس کو فراموش کیا گیا۔ اللہ تعالی کا دستور، اللہ تعالی کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ سابقہ کتنب کی آیات یعنی احکامات کے الفاظ اور جملے بدل دئے جاتے ہیں لیکن حکم نہیں تبدیل ہوتا۔ اس طرح قرآن میں فراہم کردہ یہ آیات ایک بہتر شکل میں‌موجود ہیں۔

اس کی وجہ:
آیات کا متن بدلنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان سابقہ کتب میں بہت تبدیلی ہوتی رہی ہے۔ اور دوسری یہ کہ توراۃ، زبور اور انجیل کی آیات کو منسوخ کیا گیا اور اس کی جگہ بہتر آیات قرآن مجید میں نازل کی گئیں اس کی وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ شیطان سابقہ انبیاء‌کی تلاوت میں خلل انداز ہوا ۔

قرآن حکیم کہیں بھی یہ نہیں‌کہتا کہ قرآن حکیم کی آیات تبدیل یا منسوخ ہوتی رہی‌ ہیں؟ لیکن یہ ضرور وضاحت کرتا ہے کہ سابقہ کتب میں تحریف کی گئی اور ساتھ ساتھ شیطان بھی سابقہ انبیاء کرام کی تلاوت وحی میں خلل انداز ہوا۔ یہ وجہ ہے کہ سابقہ کتب کے احکامات تبدیل کرکے قرآن میں اس سے بہتر آیات فراہم کی گئیں۔

والسلام
وعلیکم السلام فاروق صاحب۔ ۔ ۔ آپ کا شکریہ کہ آپ نے میری پوسٹ کے جواب میں اپنا نقطءِ نظر پیش کیا۔
میں آپ کی اس پوسٹ کے بعد کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ ان پر بھی غور فرمائیں گے۔
پہلی بات تو یہ ہے کا آپ کی پوسٹ میں کہیں کہیں کنٹراڈکشن محسوس ہورہی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کا کہنا ہے کہ قرآن کیا آیات کبھی منسوخ نہیں ہوئیں اور اسکی دلیل آپ نے یہ دی ہے کہ سنت اللہ کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ سنت اللہ کا مطلب آیات اللہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر آیات اللہ سنت اللہ کو کہتے ہیں تو پھر جو آیات انجیل اور زبور و توریت کی منسوخ کی گئی ہیں انکو بھی منسوخ نہیں ہونا چاہیئے تھا کیونکہ سنت اللہ تو تبدیل نہیں ہوتی۔ حالانکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ آیت پرانی کتابوں کیلئے نازل ہوئی تو پرانی کتابیں بھی تو اللہ نے ہی نازل کی ہیں انکو منسوخ کرتے وقت سنت اللہ کیوں تبدیل ہوگئی۔ پس واضح یہ ہوا کہ یہ سنت اللہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اپنی کسی آیت، یا سکی تلاوت یا اسکا حکم منسوخ نہیں کیا۔ کیونکہ ثابت ہوچکا ہے کہ پرانی کتابیں جو اللہ ہی کا نازل کردہ تھیں انکے احکام منسوخ کردئے گئے۔
آپ نے لکھا ہے کہ پرانی کتابوں کے صرف آیات کے جملے یا الفاظ منسوخ کئے گئے انکے احکام نہیں منسوخ ہوئے۔ میرے خیال میں یہ بھی ایک غلط بات ہے۔ کیونکہ سب جانتے ہیں کہ حضورِ اکرم اور صحابہ پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کیا کرتے تھے یہودی اور عیسائی بھی ایسا ہی کرتے تھے لیکن بعد میں تحویلِ قبلہ کی آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ توریت کی سبھی آیات و احکام میں شیطان نے تحریف کردی تھی۔ کیونکہ نعوذ باللہ ایسا سمجھا جائے تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ نبیءِ اکرم کو بھی پتہ نہیں چلا کہ جس بات پر وہ عمل کررہے ہیں وہ خدانخواستہ اللہ کا حکم نہیں تھا وہ تو ایسے ہی شیطان نے تحریف کردی تھی۔ ۔ نعوذ باللہ۔ تو ثابت یہ ہوا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنا اللہ ہی کا حکم تھا پرانی کتابوں میں۔ جسے بعد میں‌منسوخ کردیا گیا۔
آپ نے جب سنت اللہ کی دلیل دی اپنی بات کو ثابت کرنے کیلئے، لکن تعجب ہے کہ آپ یہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ پرانی کتابوں کے الفاظ اور جملے منسوخ کئے گئے یہ کہتے وقت آپ کو 'لا تبدیل لکلمات اللہ' والی آیت کیوں یاد نہیں آئی؟؟؟جس دلیل سے سنت اللہ کی آیت آپ نے نسخ کو ثابت کرنے کیلئے کوٹ کی اسی دلیل سے لا تبدیل لکلمات اللہ کی آیت سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نہیں جی پرانی آسمانی کتابوں کےالفاظ بھی منسوخ نہیں‌ہوسکتے۔ ۔ ۔حالانکہ ایسا نہیںّ ہوا۔
پس ثابت ہوا کہ پرانی آسمانی کتابوں کی نازل کردہ آیات کو بھی منسوخ کیا گیا ،انکے بعض احکام بھی منسوخ ہوئے، لیکن اس سے نہ تو سنت اللہ تبدیل ہوتی ہے نا ہی کلمات اللہ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے واضح طور پر فرمادیا زیرِ بھث آیت میں کہ ' جب ہم کسی آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں' تو اس میں لفظ آیت استعمال کیا۔ یعنی اللہ تعالی اس منسوخ شدہ بات کو' آیت' کہہ رہے ہیں اگر یہ شیطان کا تحریف کردہ کوئی جملہ ہوتا تو اسے آیت نہ کہا جاتا۔ چیطان نے جن باتوں کی آمیزش کی تھی انکو واظح طور پر قرآن نے کہہ دیا کہ وہ میری آیات نہیں تھیں۔ ورنہ نعوذ باللہ یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ پرانی کتابوں میں شرک کا حکم تھا جسکو منسوخ کردیا گیا۔ منسوخ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ انکی Validity کسی زمانے میں ہو۔ اور شرک والی آیات کبھی Validتھیں ہی نہیں کیونکہ وہ اللہ کی آیات ہی نہیں تھیں۔
باقی جہاں تک یہ مسئلہ ہے کہ قرآن میں بھی ناسخ و منسوخ ہیں کہ نہیں تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ کئی آیات پیش کی جاسکتی ہیں جنکو کسی دوسری آیت نے آکر منسوخ کردیا۔ انشاء اللہ وہ پھر فرصت ملنے کے بعد کوٹ کروں گا۔
والسلام
 

فاتح

لائبریرین
باقی جہاں تک یہ مسئلہ ہے کہ قرآن میں بھی ناسخ و منسوخ ہیں کہ نہیں تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ کئی آیات پیش کی جاسکتی ہیں جنکو کسی دوسری آیت نے آکر منسوخ کردیا۔ انشاء اللہ وہ پھر فرصت ملنے کے بعد کوٹ کروں گا۔
والسلام
:rolleyes::rolleyes::rolleyes:
انا للہ و انا الیہ راجعون
 
اس وقت امام فخرالدین رازی کی تفسیرِ کبیر میرے سامنے ہے اور انہوں نے نسخ کے متعلق کافی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کا مندرجہ ذیل آیاتِ قرآن ناسخ و منسوخ کی مثال ہیں:
مثال نمبر 1۔ ۔ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں ان پر لازم ہے کہ (مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لئے انہیں ایک سال تک کا خرچہ دینے (اور) اپنے گھروں سے نہ نکالے جانے کی وصیّت کر جائیں، پھر اگر وہ خود (اپنی مرضی سی) نکل جائیں تو دستور کے مطابق جو کچھ بھی وہ اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

اس مندرجہ بالا آیت کے حکم کو نیچے درج آیت نے منسوخ کردیا۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
اور تم میں سے جو فوت ہو جائیں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار ماہ دس دن انتظار میں روکے رکھیں، پھر جب وہ اپنی عدت (پوری ہونے) کو آپہنچیں تو پھر جو کچھ وہ شرعی دستور کے مطابق اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی مؤاخذہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اس سے اچھی طرح خبردار ہے۔

مثال نمبر 2۔ ۔ ۔ ۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو! جب تم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کر لیا کرو، یہ (عمل) تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے، پھر اگر (خیرات کے لئے) کچھ نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ۔ ۔

اس آیت پر صرف ایک صحابی نے عمل کیا (حضرت علی رضی اللہ عنہ) اسکے بعد اسکا حکم منسوخ ہوگیا اور صحابہ بغیر کسی صدقے کا اہتمام کئے رسولِ پاک سے ملاقاتیں کرتے رہے۔
مثال نمبر 3۔ ۔ ۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ
اے نبئ (مکرّم!) آپ ایمان والوں کو جہاد کی ترغیب دیں (یعنی حق کی خاطر لڑنے پر آمادہ کریں)، اگر تم میں سے (جنگ میں) بیس (20) ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو (200) (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) سو (ثابت قدم) ہوں گے تو کافروں میں سے (ایک) ہزار پر غالب آئیں گے اس وجہ سے کہ وہ (آخرت اور اس کے اجرِ عظیم کی) سمجھ نہیں رکھتے (سو وہ اس قدر جذبہ و شوق سے نہیں لڑ سکتے جس قدر وہ مومن جو اپنی جانوں کا جنت اور اللہ کی رضا کے عوض سودا کر چکے ہیں)۔

اس آیت کے بعد تخفیف کی گئی اور مندرجہ ژیل آیت نے اس آیت کا حکم منسوخ کردیا۔ ۔ ۔
الْآنَ خَفَّفَ اللّهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّئَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُواْ مِئَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُواْ أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللّهِ وَاللّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔
اب اللہ نے تم سے (اپنے حکم کا بوجھ) ہلکا کر دیا اسے معلوم ہے کہ تم میں (کسی قدر) کمزوری ہے سو (اب تخفیف کے بعد حکم یہ ہے کہ) اگر تم میں سے (ایک) سو (آدمی) ثابت قدم رہنے والے ہوں (تو) وہ دو سو (کفار) پر غالب آئیں گے اور اگر تم میں سے (ایک) ہزار ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے دو ہزار (کافروں) پر غالب آئیں گے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (یہ مومنوں کے لئے ہدف ہے کہ میدانِ جہاد میں ان کے جذبۂ ایمانی کا اثر کم سے کم یہ ہونا چاہیئے)۔

مثال نمبر 4۔ ۔ ۔ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اَب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے، آپ فرما دیں: مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کے لئے ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ ۔

بعوقوف لوگوں کی اس بات کے بعد یہ آیت نازل کی گئی۔ ۔ ۔
وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
اور تم جدھر سے بھی (سفر پر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو سو اپنے چہرے اسی کی سمت پھیر لیا کرو تاکہ لوگوں کے پاس تم پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ رہے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں حد سے بڑھنے والے ہیں، پس تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرا کرو، اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اور تاکہ تم کامل ہدایت پا جاؤ۔

مثال نمبر 5۔ ۔ ۔ وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ
اور جب ہم کسی آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتے ہیں اور اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے جو (کچھ) وہ نازل فرماتا ہے (تو) کفار کہتے ہیں کہ آپ تو بس اپنی طرف سے گھڑنے والے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر لوگ (آیتوں کے اتارنے اور بدلنے کی حکمت) نہیں جانتے۔
یہ آیت بھی کہہ رہی ہے کہ نسخ ہوا تھا قرآن میں۔
مثال نمبر 6۔ ۔ ۔ ۔سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَى۔إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ۔
(اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے۔مگر جو اﷲ چاہے،

مسلم کی روایت میں ہے کہ صحابہ ایک صبح اٹھے تو انکے ذہن سے ایک پوری سورت محو کی جاچکی تھی۔
امام رازی نے یہ بھی لکھا ہے کہ تمام مفسرین نے اس آیت( مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے) کو قرآنٰ پاک پر حمل کیا ہے گذشتہ کتابوں پر نہیں۔
انہوں نے اور بھی کئی مثالیں‌دی ہیں لیکن میں انکو اسلئے درج نہیں کررہا کہ ان مین احادیث کا ذکر آتا ہے جو کہ آپ کے نزدیک قابلِ حجّت نہیں۔












ٰ
 
باقی جہاں تک یہ مسئلہ ہے کہ قرآن میں بھی ناسخ و منسوخ ہیں کہ نہیں تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ کئی آیات پیش کی جاسکتی ہیں جنکو کسی دوسری آیت نے آکر منسوخ کردیا۔ انشاء اللہ وہ پھر فرصت ملنے کے بعد کوٹ کروں گا۔

قرآن حکیم میں کوئی بھی ناسخ و منسوخ نہیں ہے۔ صرف سمجھنے والے کی عقل کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی آیات پیش کی گئی تھیں۔ ان کا معقول جواب دے دیا گیا تھا۔

اگر آپ سزائے رجم کے موضوع تک محدود رہئیے تو بہتر ہوگا، دیگر موضوعات پر ایک نیا دھاگہ کھول لیجئے۔

ہمارے کچھ دوست، فاروق سرور خان کردار کشی مہم میں مصروف ہیں ۔۔۔ اس لئے کہ
وہ مانتے ہیں:
کہ جو کچھ علماء نے لکھا ہے وہ درست ہے۔ سارے کا سارا قرآن ہے۔ اس میں قرآن حکیم اور کتب روایات دونوں‌شامل ہیں۔ ان کا ایمان قرآن کے بعد آنے والی کتب پر بھی ہے

وہ یہ نہیں مانتے :
کہ صرف موافق القرآن روایات قابل قبول ہیں اور خلاف قرآن روایات قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ فرمان نبوی ہے
کہ قرآن حکیم کی ہی پیروی لازم ہے۔

اس وجہ سےیہ حضرات اب معاملہ کے بجائے صاحب معاملہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ ان کے ہر معقول سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے لیکن نامعقولیت کا کوئی جواب نہیں۔ اس کا جواب ہے سلام علیکم اور بس۔

والسلام
 
بھائی محمود غزنوی، سلام

مندرجہ بالاء مراسلہ میں یہ بتایا گیا کہ:

1۔ قرآن کے علاوہ بھی کتب تھیں۔ [ayah]3:3[/ayah] اور [ayah]17:55[/ayah]
2۔ ان کتب میں تحریف لوگوں نے کی۔ [ayah]2:75[/ayah]
3۔ ان کی آیات کی تلاوت کے وقت شیطان نے خلل ڈالا۔ [ayah]22:52[/ayah]

4۔ مندرجہ بالاء وہ وجوہات ہیں جس کی وجہ سے نئے احکامات نازل کرنا ضروری تھے ۔
جس کا تذکرہ ہوا [ayah]2:106 [/ayah] میں ۔ اس لئے ان سابقہ کتب میں نازل آیات کو منسوخ‌کرکے نئی بہتر آیات نازل کی گئیں۔ 2:106

ان 4 نکات میں سے ہر نکتہ قرآن حکیم کی آیات سے واضح ہے۔
ق
یہ احکامات اللہ تعالی نے پہلے سے لوح محفوظ پر محفوظ کتاب سے نازل فرمائے۔ لہذا اس میں تبدیلیوں کا سوال ہی نہیں۔ دوران نزول بھی نہیں اور رسول صلعم کی وفات کے بعد بھی نہیں۔

[ayah]43:4[/ayah] [arabic]وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ[/arabic]
اور یہ قرآن لوحِ محفوظ میں ہمارے پاس بہت بلند مرتبہ ہے اور حکمت سے بھرا ہوا ہے۔

اسی تبدیلیوں سے حفاظت کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ۔
[ayah]15:9[/ayah] [arabic]إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [/arabic]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے


آپ نے فرمایا
پہلی بات تو یہ ہے کا آپ کی پوسٹ میں کہیں کہیں کنٹراڈکشن محسوس ہورہی ہے۔ وہ یہ کہ آپ کا کہنا ہے کہ قرآن کیا آیات کبھی منسوخ نہیں ہوئیں اور اسکی دلیل آپ نے یہ دی ہے کہ سنت اللہ کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ سنت اللہ کا مطلب آیات اللہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر آیات اللہ سنت اللہ کو کہتے ہیں تو پھر جو آیات انجیل اور زبور و توریت کی منسوخ کی گئی ہیں انکو بھی منسوخ نہیں ہونا چاہیئے تھا کیونکہ سنت اللہ تو تبدیل نہیں ہوتی۔ حالانکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ آیت پرانی کتابوں کیلئے نازل ہوئی تو پرانی کتابیں بھی تو اللہ نے ہی نازل کی ہیں انکو منسوخ کرتے وقت سنت اللہ کیوں تبدیل ہوگئی۔ پس واضح یہ ہوا کہ یہ سنت اللہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اپنی کسی آیت، یا سکی تلاوت یا اسکا حکم منسوخ نہیں کیا۔ کیونکہ ثابت ہوچکا ہے کہ پرانی کتابیں جو اللہ ہی کا نازل کردہ تھیں انکے احکام منسوخ کردئے گئے۔

میں نے لکھا کہ سنت اللہ کبھی تبدیل نہیں ہوئی۔ اس لئے اللہ تعالی کے احکامات اور اصول کبھی تبدیل نہیں ہوئے۔ البتہ ان احکامات کو بدلنے کے لئے "زبان - لینگویج" یعنی آیات ، جو سابقہ کتب میں تحریف شدہ تھیں یا پھر شیطان نے اس کے پڑھنے مین خلل ڈالا تھا۔ ان آیات کو منسوخ کرکے بہتر آیات فراہم کی گئیں۔ آیات کی تبدیلی سے اللہ تعالی کا حکم تبدیل نہیں ہوتا نہ ہی اس کی سنت تبدیل ہوتی ہے۔
اس تبدیلی کی وجوہات اللہ تعالی ، انسانوں‌کی تحریف اور شیطان کا خلل ، فرماتے ہیں۔

اللہ تعالی کی سنت اس کے اصول ہیں، جو اس کے احکامات کی شکل میں الہامی کتب مین نازل ہوئے ۔ ان کی لینگویج بدل جانے سے یعنی بہتر آیات کے آجانے سے یہ احکام تبدیل یا منسوخ نہیں ہوئے۔

آپ میرا مراسلہ غور سے پڑھئیے۔ آپ نے نیلے رنگ کے حصوں میں فرمایا کہ
پس واضح یہ ہوا کہ یہ سنت اللہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے اپنی کسی آیت، یا سکی تلاوت یا اسکا حکم منسوخ نہیں کیا۔ کیونکہ ثابت ہوچکا ہے کہ پرانی کتابیں جو اللہ ہی کا نازل کردہ تھیں انکے احکام منسوخ کردئے گئے۔


آپ فرماتے ہیں کہ احکامات منسوخ کردئے گئے تھے۔ جب کہ آپ بھی مانتے ہیں کہ احکامات سنت اللہ ہیں اور منسوخ نہیں ہوتے۔ ساتھ ساتھ اللہ تعالی کا فرمان دیکھئے کہ سابقہ کتب کی آیات (وجوہات کے ساتھ) منسوخ کرکے بہتر آیات دی گئیں۔ یہاں یہ نہیں کہا جارہا کہ احکامات منسوخ کئے گئے۔

2:106[arabic] مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[/arabic]
ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیں (تو بہرصورت) اس سے بہتر یا ویسی ہی (کوئی اور آیت) لے آتے ہیں، کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر (کامل) قدرت رکھتا ہے


اب آپ مجھے قرآن حکیم کی ایک آیت ایسی عطا فرمائیے جس میں درج ہو کہ اس قرآن یا محمد صلعم پر نازل شدہ آیات میں تحریف کی گئی تھی یا پھر شیطان نے ان آیات کی تلاوت میں خلل ڈالا تھا جس کی وجہ سے ان آیات کو بھلایا گیا اور پھر نئی آیات نازل فرمائی گئیں؟

والسلام
 

dxbgraphics

محفلین
قرآن حکیم میں کوئی بھی ناسخ و منسوخ نہیں ہے۔ صرف سمجھنے والے کی عقل کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی آیات پیش کی گئی تھیں۔ ان کا معقول جواب دے دیا گیا تھا۔

اگر آپ سزائے رجم کے موضوع تک محدود رہئیے تو بہتر ہوگا، دیگر موضوعات پر ایک نیا دھاگہ کھول لیجئے۔

ہمارے کچھ دوست، فاروق سرور خان کردار کشی مہم میں مصروف ہیں ۔۔۔ اس لئے کہ
وہ مانتے ہیں:
کہ جو کچھ علماء نے لکھا ہے وہ درست ہے۔ سارے کا سارا قرآن ہے۔ اس میں قرآن حکیم اور کتب روایات دونوں‌شامل ہیں۔ ان کا ایمان قرآن کے بعد آنے والی کتب پر بھی ہے

وہ یہ نہیں مانتے :
کہ صرف موافق القرآن روایات قابل قبول ہیں اور خلاف قرآن روایات قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ فرمان نبوی ہے
کہ قرآن حکیم کی ہی پیروی لازم ہے۔

اس وجہ سےیہ حضرات اب معاملہ کے بجائے صاحب معاملہ کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ ان کے ہر معقول سوال کا جواب دیا جاسکتا ہے لیکن نامعقولیت کا کوئی جواب نہیں۔ اس کا جواب ہے سلام علیکم اور بس۔

والسلام

جناب آپ ایک احسان کیجئے جو جو خلاف قرآن حدیث ہوں ان کو یہاں پیش کر دیجئے
 
Top