محمد وارث نے کہا:
ابوشامل نے کہا:
محمد وارث نے کہا:
ابوشامل نے کہا:
محمد وارث نے کہا:
خیالِ زلفِ دو تا میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر
حضور، اقبال کچھ اشعار ننگِ اسلاف کے موضوع پر بھی ہیں وہ بھی تو ارشاد فرمائیے۔
معذرت کے ساتھ
ہر کوئی مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ اندازِ مسلمانی ہے!
حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے!
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
ارے بھائی اس میں معذرت کی کیا بات ہے، چلیں اسی بہانے آپ نے ہمیں اس قابل تو سمجھا کہ علامہ کا مخاطب بنا دیا، وگرنہ ہم تو سمجھتے تھے کہ علامہ کا خطاب “اسلام کے ٹھیکےداروں“ سی ہی ہے۔
بھائی صاحب اسلاف والے شعر تو آپ نے سنا دیے وہ ننگِ اسلاف والے نہیں سنائے۔
ارے یہ سن کر بھی آپ کی "رگ شعریت" (خود ساختہ اصطلاح ہے، ہنسنا منع ہے!) نہیں پھڑکی
میں نہیں سنا رہا تو آپ ہی سنا دیں لیکن اردو میں کیونکہ فارسی سے نابلد ہیں بھائی!
آپکی فرمائش پہ بھائی صاحب
تمدن تصوف شریعت کلام
بتنانِ عجم کے پجاری تمام
بھائی اگر آپ سیاق و سباق کے ساتھ پیش کرتے تو آپ ہی کے لیے بہتر ہوتا لیکن مجھے بہت افسوس ہوا کہ آپ بھی مخالفت برائے مخالفت کے گھن چکر میں پھنس گئے اور صرف جواب مارنے کے لیے "ساقی نامہ" کے بیچ کے دو مصرعے ماردیے اور وہ بھی موضوع سے غلط!! ان دونوں مصرعوں میں علامہ نے کیا "ننگ اسلاف" بیان کیا ہے؟ علامہ نے تو یہ موجودہ مسلمانوں کے لیے کہا تھا نہ کہ اسلاف کے لیے، اور زیادہ افسوسناک بات میرے لیے یہی رہی کہ آپ، جو شاید علامہ کے بارے میں مجھ سے بھی بہتر جانتے ہوں، نے اس میں مطلب بھی اپنا نکالا ہے، پوری نظم درج ذیل ہے ، اور اس غلط بیانی پر مجھے غصہ بھی آ رہا ہے
اس لیے اب اس تھریڈ پر میں موضوع سے ہٹ کر آپ کے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا:
ساقي نامہ
ہوا خيمہ زن کاروان بہار
ارم بن گيا دامن کوہسار
گل و نرگس و سوسن و نسترن
شہيد ازل لالہ خونيں کفن
جہاں چھپ گيا پردئہ رنگ ميں
لہو کي ہے گردش رگ سنگ ميں
فضا نيلي نيلي ، ہوا ميں سرور
ٹھہرتے نہيں آشياں ميں طيور
وہ جوئے کہستاں اچکتي ہوئي
اٹکتي ، لچکتي ، سرکتي ہوئي
اچھلتي ، پھسلتي ، سنبھلتي ہوئي
بڑے پيچ کھا کر نکلتي ہوئي
رکے جب تو سل چير ديتي ہے يہ
پہاڑوں کے دل چير ديتي ہے يہ
ذرا ديکھ اے ساقي لالہ فام!
سناتي ہے يہ زندگي کا پيام
پلا دے مجھے وہ مےء پردہ سوز
کہ آتي نہيں فصل گل روز روز
وہ مے جس سے روشن ضمير حيات
وہ مے جس سے ہے مستي کائنات
وہ مے جس ميں ہے سوزوساز ازل
وہ مے جس سے کھلتا ہے راز ازل
اٹھا ساقيا پردہ اس راز سے
لڑا دے ممولے کو شہباز سے
زمانے کے انداز بدلے گئے
نيا راگ ہے ، ساز بدلے گئے
ہوا اس طرح فاش راز فرنگ
کہ حيرت ميں ہے شيشہ باز فرنگ
پراني سياست گري خوار ہے
زميں مير و سلطاں سے بيزار ہے
گيا دور سرمايہ داري گيا
تماشا دکھا کر مداري گيا
گراں خواب چيني سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
دل طور سينا و فاراں دو نيم
تجلي کا پھر منتظر ہے کليم
مسلماں ہے توحيد ميں گرم جوش
مگر دل ابھي تک ہے زنار پوش
تمدن، تصوف، شريعت، کلام
بتان عجم کے پجاري تمام!
حقيقت خرافات ميں کھو گئي
يہ امت روايات ميں کھو گئي
لبھاتا ہے دل کو کلام خطيب
مگر لذت شوق سے بے نصيب!
بياں اس کا منطق سے سلجھا ہوا
لغت کے بکھيڑوں ميں الجھا ہوا
وہ صوفي کہ تھا خدمت حق ميں مرد
محبت ميں يکتا ، حميت ميں فرد
عجم کے خيالات ميں کھو گيا
يہ سالک مقامات ميں کھو گيا
بجھي عشق کي آگ ، اندھير ہے
مسلماں نہيں ، راکھ کا ڈھير ہے
شراب کہن پھر پلا ساقيا
وہي جام گردش ميں لا ساقيا!
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مري خاک جگنو بنا کر اڑا
خرد کو غلامي سے آزاد کر
جوانوں کو پيروں کا استاد کر
ہري شاخ ملت ترے نم سے ہے
نفس اس بدن ميں ترے دم سے ہے
تڑپنے پھٹرکنے کي توفيق دے
دل مرتضي ، سوز صديق دے
جگر سے وہي تير پھر پار کر
تمنا کو سينوں ميں بيدار کر
ترے آسمانوں کے تاروں کي خير
زمينوں کے شب زندہ داروں کي خير
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
مرا عشق ، ميري نظر بخش دے
مري ناؤ گرداب سے پار کر
يہ ثابت ہے تو اس کو سيار کر
بتا مجھ کو اسرار مرگ و حيات
کہ تيري نگاہوں ميں ہے کائنات
مرے ديدئہ تر کي بے خوابياں
مرے دل کي پوشيدہ بے تابياں
مرے نالہء نيم شب کا نياز
مري خلوت و انجمن کا گداز
امنگيں مري ، آرزوئيں مري
اميديں مري ، جستجوئيں مري
مري فطرت آئينہء روزگار
غزالان افکار کا مرغزار
مرا دل ، مري رزم گاہ حيات
گمانوں کے لشکر ، يقيں کا ثبات
يہي کچھ ہے ساقي متاع فقير
اسي سے فقيري ميں ہوں ميں امير
مرے قافلے ميں لٹا دے اسے
لٹا دے ، ٹھکانے لگا دے اسے!
دما دم رواں ہے يم زندگي
ہر اک شے سے پيدا رم زندگي
اسي سے ہوئي ہے بدن کي نمود
کہ شعلے ميں پوشيدہ ہے موج دود
گراں گرچہ ہے صحبت آب و گل
خوش آئي اسے محنت آب و گل
يہ ثابت بھي ہے اور سيار بھي
عناصر کے پھندوں سے بيزار بھي
يہ وحدت ہے کثرت ميں ہر دم اسير
مگر ہر کہيں بے چگوں ، بے نظير
يہ عالم ، يہ بت خانہء شش جہات
اسي نے تراشا ہے يہ سومنات
پسند اس کو تکرار کي خو نہيں
کہ تو ميں نہيں ، اور ميں تو نہيں
من و تو سے ہے انجمن آفرين
مگر عين محفل ميں خلوت نشيں
چمک اس کي بجلي ميں تارے ميں ہے
يہ چاندي ميں ، سونے ميں ، پارے ميں ہے
اسي کے بياباں ، اسي کے ببول
اسي کے ہيں کانٹے ، اسي کے ہيں پھول
کہيں اس کي طاقت سے کہسار چور
کہيں اس کے پھندے ميں جبريل و حور
کہيں جرہ شاہين سيماب رنگ
لہو سے چکوروں کے آلودہ چنگ
کبوتر کہيں آشيانے سے دور
پھڑکتا ہوا جال ميں ناصبور
فريب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرئہ کائنات
ٹھہرتا نہيں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود
سمجھتا ہے تو راز ہے زندگي
فقط ذوق پرواز ہے زندگي
بہت اس نے ديکھے ہيں پست و بلند
سفر اس کو منزل سے بڑھ کر پسند
سفر زندگي کے ليے برگ و ساز
سفر ہے حقيقت ، حضر ہے مجاز
الجھ کر سلجھنے ميں لذت اسے
تڑپنے پھٹرکنے ميں راحت اسے
ہوا جب اسے سامنا موت کا
کٹھن تھا بڑا تھامنا موت کا
اتر کر جہان مکافات ميں
رہي زندگي موت کي گھات ميں
مذاق دوئي سے بني زوج زوج
اٹھي دشت و کہسار سے فوج فوج
گل اس شاخ سے ٹوٹتے بھي رہے
اسي شاخ سے پھوٹتے بھي رہے
سمجھتے ہيں ناداں اسے بے ثبات
ابھرتا ہے مٹ مٹ کے نقش حيات
بڑي تيز جولاں ، بڑي زورد رس
ازل سے ابد تک رم يک نفس
زمانہ کہ زنجير ايام ہے
دموں کے الٹ پھير کا نام ہے
يہ موج نفس کيا ہے تلوار ہے
خودي کيا ہے ، تلوار کي دھار ہے
خودي کيا ہے ، راز درون حيات
خودي کيا ہے ، بيداري کائنات
خودي جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پاني ميں بند
اندھيرے اجالے ميں ہے تابناک
من و تو ميں پيدا ، من و تو سے پاک
ازل اس کے پيچھے ، ابد سامنے
نہ حد اس کے پيچھے ، نہ حد سامنے
زمانے کے دريا ميں بہتي ہوئي
ستم اس کي موجوں کے سہتي ہوئي
تجسس کي راہيں بدلتي ہوئي
وما دم نگاہيں بدلتي ہوئي
سبک اس کے ہاتھوں ميں سنگ گراں
پہاڑ اس کي ضربوں سے ريگ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے
يہي اس کي تقويم کا راز ہے
کرن چاند ميں ہے ، شرر سنگ ميں
يہ بے رنگ ہے ڈوب کر رنگ ميں
اسے واسطہ کيا کم و بيش سے
نشب و فراز وپس و پيش سے
ازل سے ہے يہ کشمکش ميں اسير
ہوئي خاک آدم ميں صورت پذير
خودي کا نشيمن ترے دل ميں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل ميں ہے
خودي کے نگہباں کو ہے زہر ناب
وہ ناں جس سے جاتي رہے اس کي آب
وہي ناں ہے اس کے ليے ارجمند
رہے جس سے دنيا ميں گردن بلند
فرو فال محمود سے درگزر
خودي کو نگہ رکھ ، ايازي نہ کر
وہي سجدہ ہے لائق اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
يہ عالم ، يہ ہنگامہء رنگ و صوت
يہ عالم کہ ہے زير فرمان موت
يہ عالم ، يہ بت خانہء چشم و گوش
جہاں زندگي ہے فقط خورد و نوش
خودي کي يہ ہے منزل اوليں
مسافر! يہ تيرا نشيمن نہيں
تري آگ اس خاک داں سے نہيں
جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہيں
بڑھے جا يہ کوہ گراں توڑ کر
طلسم زمان و مکاں توڑ کر
خودي شير مولا ، جہاں اس کا صيد
زميں اس کي صيد ، آسماں اس کا صيد
جہاں اور بھي ہيں ابھي بے نمود
کہ خالي نہيں ہے ضمير وجود
ہر اک منتظر تيري يلغار کا
تري شوخي فکر و کردار کا
يہ ہے مقصد گردش روزگار
کہ تيري خودي تجھ پہ ہو آشکار
تو ہے فاتح عالم خوب و زشت
تجھے کيا بتاؤں تري سرنوشت
حقيقت پہ ہے جامہء حرف تنگ
حقيقت ہے آئينہ ، گفتار زنگ
فروزاں ہے سينے ميں شمع نفس
مگر تاب گفتار کہتي ہے ، بس!
اگر يک سر موے برتر پرم
فروغ تجلي بسوزد پرم،