سلمان رشدی کے لیے سر کا خطاب

غازی عثمان

محفلین
اس پر بھی نگاہ ڈالیں (‌بلا تبصرہ)
رجعت پسندوں روشن خیالوں کہ بعد یہودیوں کا نظریہ بھی دیکھ لیں ( امریکن جوئش کانگریس کی پریس ریلیز )

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
[align=left:ec3143b9d7]FOR IMMEDIATE RELEASE

THE AMERICAN JEWISH CONGRESS TO PRESENT SALMAN RUSHDIE
WITH THE PRESTIGIOUS STEPHEN S. WISE HUMANITARIAN AWARD FOR HIS COURAGE

SALIM MANSUR, NONIE DARWISH, TASHBIH SAYYED, AND WAFA SULTAN ALSO TO BE RECOGNIZED AT DINNER

When:
Sunday, September 17th, 6:00 pm

What:
Profiles in Courage: Voices of Muslim Reformers in the Modern World
The American Jewish Congress 30th Annual Dinner

Why:
At a time when Israel is at war and the Jewish people are under attack, we must honor our friends in the Muslim community who give us hope for a better future.

Who:
Gary P. Ratner,
Executive Director of the Western Region of the American Jewish Congress
Allyson Rowen Taylor,
Associate Director of the Western Region of the American Jewish Congress

Honored Guests:
Salman Rushdie,
Salim Mansur,
Nonie Darwish,
Tashbih Sayyed,
Wafa Sultan
Reed Wilson, M.D., Chairman Executive Committee
Roslyn Soudry, Esquire, Regional President
Steven Teitelbaum, M.D., National Governing Council

Where:
Four Seasons Hotel
Los Angeles at Beverly Hills
300 South Doheny Drive
Los Angeles, California 90048

Los Angeles, CA, August 17, 2006... On Sunday, September 17 2006, the American Jewish Congress will honor Salman Rushdie, Salim Mansur, Nonie Darwish, Tashbih Sayyed and Wafa Sultan for their commitment to securing freedom for people of all races, religions and backgrounds. Salman Rushdie, the night???s key honoree, will receive the organization???s highest honor, the Stephen S. Wise Humanitarian Award. The event, ???Profiles in Courage: Voices of Muslim Reformers in the Modern World???Elt;/span> includes a cocktail reception, dinner and award ceremony that will begin at 6:00 p.m.

The Stephen S. Wise award is named for the founder and longtime President of the American Jewish Congress. It pays tribute to men and women whose moral courage, love of liberty and service to humanity exemplify the highest ideals of the Jewish heritage. Mr. Rushdie will join past honorees President Harry S. Truman, Israeli Prime Ministers David Ben-Gurion, Yitzhak Rabin, Golda Meir and Shimon Peres and Chaim Herzog, Abba Eban and Teddy Kollek. Distinguished Americans who have received the honor include Robert F. Kennedy, Arthur J. Goldberg, Earl Warren, Walter Mondale, Edward M. Kennedy, Leonard Bernstein, Roy Wilkins and Sumner M. Redstone.

In light of the recent bomb scare in London, it is especially timely that we now honor Mr. Rushdie. With chilling foreshadowing, Mr. Rushdie opened his novel Satanic Verses (1988) with a scene depicting a stricken aircraft exploding in mid-air. A keen social and political observer, he understands the Jihadi and their fascination with aircraft destruction. Mr. Rushdie is among the great minds of today who can help us learn how to understand and combat terrorism.

About the Evening's Honorees:

Salman Rushdie: The internationally-acclaimed writer Salman Rushdie was born in 1947 into an affluent Muslim family in Bombay. He completed his education at the Rugby School in England and the University of Cambridge. Mr. Rushdie has published several books including Midnight???s Children, which won the Booker Prize and catapulted him to fame.

In 1988, Mr. Rushdie published The Satanic Verses, his controversial novel that was banned in India and that lead Iran's Ayatollah Ruhollah Khomeini to sentence Mr. Rushdie and all whom were associated with the book's publication to death. The fatwa sent Mr. Rushdie into hiding where he continued to write, publishing works of both fiction and nonfiction. The

Iranian government lifted the fatwa in 1998. Mr. Rushdie's most recent works include Shame and Shalimar the Clown.

Nonie Darwish grew up in Cairo and Gaza, the daughter of a high-ranking Egyptian Army officer.? Troubled by the anger and hatred existing in her society, she emigrated to America in 1978. Since 9/11, she has been lecturing and writing on behalf of moderate Arabs and Arab-Americans. ?Her memoir, Now They Call Me an Infidel, will be published this November.

Salim Mansur was born in Calcutta and is one of the leading members of ???Canadians Against Suicide Bombing???E(CASB). A political science professor at the University of Western Ontario, Mansur writes a syndicated column for the Sun newspaper chain as well as articles for the National Post.

Wafa Sultan is a Syrian-American psychiatrist living in California outside of Los Angeles. Since 9/11, Sultan has appeared on televised news networks, including Al-Jazeera and CNN, speaking out against Muslim extremists.

Tashbih Sayyed is an internationally recognized expert on terrorism. Sayyed serves as an advisor to the U.S. government, educating officials on the threat Islamists pose to the United States and the world. He presents moderate Muslim perspectives on Israel, Saudi Arabia, Islam and Muslim fundamentalism.

The American Jewish Congress is an association of Jewish Americans whose members have organized to defend against threats to Jewish interests at home and abroad. ?Through vigorous public policy advocacy in the courts, in Congress, in the executive branch and in local legislatures, the group also works overseas with others who are similarly engaged.

http://www.ajcongress.org/

For media inquiries, please contact Amy Levy Public Relations (310) 444-5250.

Amy Levy
Amy Levy Public Relations
11835 West Olympic Blvd.
Suite 1135
Los Angeles, CA 90064
(310) 444-5250 phone
(310) 444-5259 fax
amy@amylevypr.com
http://www.amylevypr.com/[/align:ec3143b9d7]
 

پاکستانی

محفلین
cartoon-01.jpg


شکریہ جنگ
 

قیصرانی

لائبریرین
کالاپانی نے کہا:
“میرے خیال میں قیصرانی اور زکریا و دیگرکچھ افراد کہ لئے اس طرح کے نام اور ایوارڈ والوں کو سراہنا لازم ہونا چاہیے ،،
میری عینک کا نمبر منفی ڈیڑھ ہے۔ اس سے مجھے اپنے پیغامات اس طرح دکھائی دے رہے ہیں کہ وہ محب کے ایک سوال کے جواب میں بطور معلومات دکھائی دے رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگا کہ میں نے سلمان رشدی کو سر کا ایوارڈ دینے کی حمایت کر رہا ہوں

براہ کرم میرے پیغام کے اس متن (جس سے آپ کو میری سلمان رشدی کو سر کا ایوارڈ دیئے جانے پر اس کی حمایت کرتے دکھائی دیا) سے آگاہ کیجئے جو مجھے اپنی لاعلمی یا پھر عینک کی‌ خرابی کے باعث نہیں دکھائی دے سکا
 

پاکستانی

محفلین
میرے خیال سے ہم یہاں کوئی اچھی روایت قائم نہیں کر رہے، کوئی بھی جواب علمی اور دلائل سے بھرپور ہونا چاہیے نہ کہ ایکدوسرے پر کیچڑ اچھال کر اپنی علمیت کی دھاک بیٹھانے کی کوشش کی جائے۔
 

ظفری

لائبریرین
ویسے ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ ہالوکاسٹ پر امریکہ سمیت یورپ میں بھی کسی قسم کا ریمارک کرنا یہودیوں کی دل آزاری سمجھا جاتا ہے اور اس پر کسی قسم کی بحث سے بھی گریز کیا جاتا ہے ۔ تو پھر کیوں مسلمانوں کی مذہب عقائد پراس قسم کی زقند لگا کر ان کی دل آزاری کیوں کی جاتی ہے ۔ اگر کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا انسانیت کی تذلیل ہے تو پھر مسلمانوں کیساتھ یہ غیر منصفانہ سلوک کیوں ۔ ؟
 
ظفری تم نے میرے منہ کی بات چھین لی ہے۔ ہالو کاسٹ اور یہودیوں کے خلاف بات کرنے کے خلاف تو کئی قوانین موجود ہیں اور اب کے ساتھ جو تاریخی زیادتی ہوئی ہے اس کا ازالہ کرنے کے لیے یہ کام کیا گیا ہے ۔ اس پر کوئی کچھ لکھتا ہے یا تحقیق کرتا ہے تو اسے سخت نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔

دوسری طرف مسلمانوں کی سب سے محترم شخصیت ، جن پر اپنے ماں باپ بھی قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں ، اعتقادی طور پر سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ان کے خلاف مسلسل ایک مہم جاری ہے اور تمام مغرب اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

پہلے کارٹونوں کا معاملہ چلا ، ڈنمارک نے کارٹون شائع کیے تو یورپی اور مغربی اخبارات نے حمایت میں بغیر معاملے کی نزاکت کو دیکھے حمایت میں چھاپنا شروع کر دیا اور کچھ روشن خیالوں نے مذمت مسلمانوں کی جذباتیت کی ہی کی نہ کہ اس انتہائی قدم کی۔ اب سلمان رشدی کا سر کا خطاب جب کہ اس کی اتنی منفی شہرت ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ظفری نے کہا:
ویسے ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ ہالوکاسٹ پر امریکہ سمیت یورپ میں بھی کسی قسم کا ریمارک کرنا یہودیوں کی دل آزاری سمجھا جاتا ہے اور اس پر کسی قسم کی بحث سے بھی گریز کیا جاتا ہے ۔ تو پھر کیوں مسلمانوں کی مذہب عقائد پراس قسم کی زقند لگا کر ان کی دل آزاری کیوں کی جاتی ہے ۔ اگر کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا انسانیت کی تذلیل ہے تو پھر مسلمانوں کیساتھ یہ غیر منصفانہ سلوک کیوں ۔ ؟
میں نے ایک بار یہ چیز اپنی ایک فرانسیسی کلاس فیلو سے ڈسکس کی تھی کہ فرانس میں ہولو کاسٹ کو ڈسکس کرنا قابل سزا جرم ہے۔ انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ اس ہولو کاسٹ کو ڈسکس کرنا اس وجہ سے جرم قرار دیا گیا تھا کہ بعض لوگ یہودیوں کے قبرستانوں میں گھس کر ان کی قبروں کی بے حرمتی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہولو کاسٹ کو بہت مضحکہ خیز انداز میں بلکہ ایک طنزیہ استعارہ بنایا ہوا تھا۔ اس وجہ سے فرانسیسی حکومت نے اس بات کو قابل سزا جرم قرار دیا تھا
 

شمشاد

لائبریرین
قربان جائیں ان کے خیالات کے۔

یہاں لاکھوں مسلمانوں کو جیتے جی قبروں میں اتارتے رہتے ہیں، عراق، افغانستان اور فلسطین کو دیکھ لیں، روزانہ یہی کچھ ہو رہا ہے وہ کچھ نہیں اور ہولوکاسٹ کو طنزیہ استعارہ بنایا ہوا ہے تو انہوں نے خود ہی بنایا ہے نہ کہ مسلمانوں نے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شمشاد نے کہا:
یہاں لاکھوں مسلمانوں کو جیتے جی قبروں میں اتارتے رہتے ہیں، عراق، افغانستان اور فلسطین کو دیکھ لیں، روزانہ یہی کچھ ہو رہا ہے وہ کچھ نہیں اور ہولوکاسٹ کو طنزیہ استعارہ بنایا ہوا ہے تو انہوں نے خود ہی بنایا ہے نہ کہ مسلمانوں نے۔
شمشاد بھائی، اگر جذبات کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ احتجاج یا رائے کو اہمیت تب دی جاتی ہے جب بات کرنے والے کی اپنی بھی کوئی حیثیت ہو۔ بحیثیت مسلمان قوم، ہم لوگ آج اپنے ماضی میں زندہ ہیں۔ حال میں ہمارے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں کہ ہم بھی ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں کھڑے ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکیں۔ (معذرت کے ساتھ، مجھے گفتگو میں اشعار کو استعمال کرنے کا بالکل سلیقہ نہیں ہے) اگر میری یاداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو اقبال نے ہی تو کہا تھا نا کہ

ہے جرمِ ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات

آج ہم مسلمان قوم ترقی یافتہ اقوام کے لئے محض ایسے ذرائع ہیں جو کہ انہیں خام مال (خام تیل سے لے کر خام اذہان تک) مہیا کرتے ہیں اور پھر اسی خام مال سے تیار کردہ چیزیں مہنگے داموں پھر خریدتے ہیں
 

شمشاد

لائبریرین
کسی کو کہا کہیں جب اپنی دہی ہی کھٹی ہو تو، ملعون رشدی بھی اپنے اپ کو مسلمان ہی کہتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رشدی کو سر کا خطاب دینے کے جواب میں‌ پاکستان کی مختلف علما تنظیموں‌ نے اسامہ بن لادن کو “سیف اللہ“ اور “امیر المومنین“ کے خطاب دیے ہیں۔

شاید اسی طرح ہی ہم “مسلمانوں“ کا غصہ شاید کچھ کم ہوسکے، وگرنہ ہم تو غیروں‌ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھی اپنا ہی گھر جلاتے ہیں۔

مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں‌ آسکی کہ ہم رشدی کے خطاب کو اتنی اہمیت ہی کیوں‌ دے رہے ہیں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
محمد وارث نے کہا:
رشدی کو سر کا خطاب دینے کے جواب میں‌ پاکستان کی مختلف علما تنظیموں‌ نے اسامہ بن لادن کو “سیف اللہ“ اور “امیر المومنین“ کے خطاب دیے ہیں۔

شاید اسی طرح ہی ہم “مسلمانوں“ کا غصہ شاید کچھ کم ہوسکے، وگرنہ ہم تو غیروں‌ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بھی اپنا ہی گھر جلاتے ہیں۔

مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں‌ آسکی کہ ہم رشدی کے خطاب کو اتنی اہمیت ہی کیوں‌ دے رہے ہیں؟
اب اس بات پر بحث کھڑی نہ ہو جائے کہ اسامہ بن لادن کو جس کا خاندان بش فیملی کا تجارتی شریک رہ چکا ہے کو خلفاء راشدین رض اور حضرت خالد بن ولید رض سے کیوں ملایا جا رہا ہے :?
 

محمد وارث

لائبریرین
قیصرانی صاحب آپ نے صحیح کہا اور واقعی سوچنے کی بات ہے کہ ایک امریکہ کے پروردہ شخص کو ہمارے "علما" کہاںؓ ملا رہے ہیں۔
 

تیلے شاہ

محفلین
مجھے بھی یہی بات سمجھ نہیں آتی کے بن لادن کو اگر کچھ کرنا تھا تو پہلے رشدی جیسے لوگوں کو ختم کرتا پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک میں غربت ختم کرتا سعودیہ جیسے ملک میں تعلیم عام کرتا بادشاہت کے خلاف آواز اٹھاتا
مگر انہوں نے یہ کرنا مناسب نہیں سمجھا سیدھا سیدھا جا کر امریکہ سے پھڈا ڈال دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شاہ صاحب فی زمانہ “عقل“ کون استعمال کرتا ہے، اور جو کوئی خرد افروزی کی بات کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بیچارہ مرتد، کافر، بے غیرت (معذرت کے ساتھ یہ لفظ استعمال کررہاہوں، لیکن یہاں اسی لڑی میں‌ یہ لفظ استعمال ہو چکا ہے) کے خطاب لیکر دبکا ہو بیٹھتا ہے۔
 
وارث‌ اور شاہ جی آپ لوگ کہاں کی بات کہاں لے کر جا رہے ہیں۔ بات ہو رہی ہے سلمان رشدی پر اور آپ کو اسامہ بن لادن یاد آ رہا ہے ۔ اتنا ہی یاد آرہا ہے تو اس پر ایک علیحدہ دھاگہ کھولیں اور جی بھر کر تاثرات شامل کریں مگر براہ مہربانی یہاں پر سلمان رشدی پر ہی بات کرنے دیں۔

وارث صاحب آپ طنزیہ کی بجائے ذرا دلیل اور حوالوں سے بات کریں تو آپ کی بات میں وزن بھی ہوگا اور زیادہ سنی بھی جائے گی ۔ اب تک آپ نے طنز سے ہی کام چلایا ہے اور ایسے رویوں سے کوئی کچھ نہیں سیکھتا۔ میں آپ سےبراہ راست سوال کرتا ہوں کہ سلمان رشدی کو سر کا خطاب دینے پر آپ کی ذاتی رائے کیا ہے باقی لوگوں کی عقل کا اندازہ لگانے میں وقت برباد نہ کریں۔
 
قیصرانی نے کہا:
ظفری نے کہا:
ویسے ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ ہالوکاسٹ پر امریکہ سمیت یورپ میں بھی کسی قسم کا ریمارک کرنا یہودیوں کی دل آزاری سمجھا جاتا ہے اور اس پر کسی قسم کی بحث سے بھی گریز کیا جاتا ہے ۔ تو پھر کیوں مسلمانوں کی مذہب عقائد پراس قسم کی زقند لگا کر ان کی دل آزاری کیوں کی جاتی ہے ۔ اگر کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانا انسانیت کی تذلیل ہے تو پھر مسلمانوں کیساتھ یہ غیر منصفانہ سلوک کیوں ۔ ؟
میں نے ایک بار یہ چیز اپنی ایک فرانسیسی کلاس فیلو سے ڈسکس کی تھی کہ فرانس میں ہولو کاسٹ کو ڈسکس کرنا قابل سزا جرم ہے۔ انہوں نے یہ جواب دیا تھا کہ اس ہولو کاسٹ کو ڈسکس کرنا اس وجہ سے جرم قرار دیا گیا تھا کہ بعض لوگ یہودیوں کے قبرستانوں میں گھس کر ان کی قبروں کی بے حرمتی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ہولو کاسٹ کو بہت مضحکہ خیز انداز میں بلکہ ایک طنزیہ استعارہ بنایا ہوا تھا۔ اس وجہ سے فرانسیسی حکومت نے اس بات کو قابل سزا جرم قرار دیا تھا


قیصرانی شاید تمہیں یاد ہو کہ ہالو کاسٹ پر تم نے ہی ایک دھاگہ شروع کیا تھا اور پھر اس پر زکریا کی کافی دھواں دار قسم کی پوسٹس تھیں جس میں زکریا نے کافی جذباتیت کا مظاہرہ کیا تھا اور یہاں تک کہا تھا کہ جو ہالو کاسٹ سے انکار کرے میں اسے جانور سے بھی بدتر سمجھتا ہوں حالانکہ بات ہالو کاسٹ سے انکار کی نہیں بلکہ مرنے والے یہودیوں کی ہو رہی تھی جو کہ واقعی قابل بحث‌ ہے۔

ہولو کاسٹ کو ڈسکس کرنا اس وجہ سے جرم قرار دیا گیا تھا کہ بعض لوگ یہودیوں کے قبرستانوں میں گھس کر ان کی قبروں کی بے حرمتی کرتے تھے۔


اس بات پر یہ حرکت کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے کہ اس پر بحث کو ہی قابل جرم بنا دیا جائے خاص طور پر اب جبکہ انہی مظلوم یہودیوں نے فلسطین میں نصف صدی سے جو ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے اس کے بعد تو ان کے خلاف نسل پرست ریاست کی قرارداد صرف امریکہ کے ویٹو کی وجہ سے رہ گئی تھی۔
دوسری بات یہ فرانسیسی حکومت یا کسی حکومت کی ہمدردانہ اور انسانی حقوق کے حوالے سے کاروائی نہیں بلکہ یہودیوں کے بے پناہ اثر رسوخ کا کرشمہ ہے۔ ایک تجویز اقوام متحدہ میں مسلمانوں کی تضحیک کو روکنے کے لیے بھی ہے مگر شاید اس پر کبھی عمل نہ ہو کیونکہ وہ کمزوروں کے لیے جو ہے ۔
 
قیصرانی نے کہا:
شمشاد نے کہا:
یہاں لاکھوں مسلمانوں کو جیتے جی قبروں میں اتارتے رہتے ہیں، عراق، افغانستان اور فلسطین کو دیکھ لیں، روزانہ یہی کچھ ہو رہا ہے وہ کچھ نہیں اور ہولوکاسٹ کو طنزیہ استعارہ بنایا ہوا ہے تو انہوں نے خود ہی بنایا ہے نہ کہ مسلمانوں نے۔
شمشاد بھائی، اگر جذبات کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ احتجاج یا رائے کو اہمیت تب دی جاتی ہے جب بات کرنے والے کی اپنی بھی کوئی حیثیت ہو۔ بحیثیت مسلمان قوم، ہم لوگ آج اپنے ماضی میں زندہ ہیں۔ حال میں ہمارے پاس کوئی ایسی چیز موجود نہیں کہ ہم بھی ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں کھڑے ہو کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا سکیں۔ (معذرت کے ساتھ، مجھے گفتگو میں اشعار کو استعمال کرنے کا بالکل سلیقہ نہیں ہے) اگر میری یاداشت دھوکہ نہیں دے رہی تو اقبال نے ہی تو کہا تھا نا کہ

ہے جرمِ ضیعفی کی سزا مرگِ مفاجات

آج ہم مسلمان قوم ترقی یافتہ اقوام کے لئے محض ایسے ذرائع ہیں جو کہ انہیں خام مال (خام تیل سے لے کر خام اذہان تک) مہیا کرتے ہیں اور پھر اسی خام مال سے تیار کردہ چیزیں مہنگے داموں پھر خریدتے ہیں

اللہ تمہارا بھلا کرے بہترین بات کہی ہے قیصرانی تم نے۔ واقعی کمزور کا احتجاج بھی کمزور ہوتا ہے اور طاقتور کا ظلم بھی شدید ہوتا ہے۔ شعر کا مصرعہ بالکل ٹھیک لکھا ہے ۔

مگر قیصرانی ہمیں احتجاج تو کرنا ہے جتنا ہم کر سکتے ہیں اتنا ہی سہی ، کمزور بھی اگر مل جائیں تو ایک طاقت بن جاتے ہیں اور طاقتور بھی اگر باہم لڑ پڑیں تو کمزور ہو جاتے ہیں۔
 

زیک

مسافر
میں سوچ رہا تھا کہ ابھی تک کسی نے ہالوکاسٹ کا ذکر نہیں کیا۔ میرے خیال سے ہالوکاسٹ پر دوبارہ بحث شروع نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔

رشدی کے بارے میں ثابت کی پوسٹ پڑھیں:


[align=left:9326a10066][eng:9326a10066]That itch is back! Scratch, scratch, scratch!

I think someone should point out to the those so keen to froth at the mouth that:

1. Reacting the way they do is, in fact, ‘orientalising’ their own response to such ‘honours’. Really, knights of the realm no longer climb onto to horseback to defend the honour of ladies. (Although I would pay good money to watch Sir Salman and Sir Iqbal joust.)

2. To this day, the claim of ’satanic verses’ is found in… Muslim sources. The famous historian Al-Tabari noted the apocryphal narration in his history; an English Orientalist coined the phrase upon reading this story.

Someone should hand these Pakistanis the reknowned scholar’s book to burn if the existence of such a story so outrages them.

In addition, I really hope the next Muslim to criticise Rushdie has actually taken the time to read The Satanic Verses, since:

i. Reading what your ‘opponent’ has actually said is the first step to actually countering his argument. This is different to someone else hearing from someone else what the latter thought he wrote, who then happened to tell that to you. Confused? I am. Here I would ask Muslims to look at a word beginning with ‘c’ that is seven letters long and ends in the 20th letter of the Latin alphabet. It’s a word we like to invoke a lot during the course of apologetics.

ii. A lot of Muslims are quick to jump up and note that X critic has not read the Qur’an or Y historical text, yet then feels free to derive a judgement and conclusion. Let’s hold to the same standard, shall we?[/eng:9326a10066][/align:9326a10066]
 
Top