کاشف رفیق
محفلین
صوبہ سندھ کے دو مختلف شہروں میں دو قادیانیوں کے الگ الگ قتل کی وارداتوں پر مختلف آراء و بیانات سامنے آئے ہیں۔ ذرا مختلف قسم کی ایک تحریر یہ بھی ہے جو کہ اکثریت کی نظروں سے اوجھل رہی ہوگی، ملاحظہ فرمایئے:
ساتھ ہی روزنامہ جنگ میں چھپنے والی یہ خبر بھی ملاحظہ فرمایئے۔
سندھ میں منصوبہ بندی کے تحت مذہبی انتہاپسندی پھیلائی جارہی ہے، الطاف حسین
کراچی (اسٹاف رپورٹر) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ملک میں بعض عناصر قائد اعظم کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے مذہبی منافرت باہمی تفرقہ کے لئے سرگرم ہیں۔ سندھ صوفیوں کی سرزمین اور امن کی دھرتی ہے یہاں منصوبہ بندی کے تحت انتہا پسندی پھیلائی جارہی ہے۔ سندھ میں مذہب کا نام لے کر قتل وغارت گری کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ ملک وقوم پر انتہائی نازک وقت ہے‘ علمائے مشائخ‘ دانشور‘ اہل علم ودانش ان عناصر کے خلاف عوام میں شعور اجاگر کریں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح نے 11 اگست 1945ء کو دستور ساز اسمبلی کے خطاب میں اس بات کی نشاندہی کی تھی تمام مذاہب کو اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی مکمل آزادی ہو گی۔ یہ بات انہوں نے لال قلعہ گراؤنڈ میں جنرل ورکرز اجلاس سے اپنے خطاب میں کہی۔ الطاف حسین کا یہ خطاب کراچی سمیت سندھ کے 20 شہروں میں بیک وقت سنا گیا۔الطاف حسین نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ذرائع ابلاغ میں ایسے مذہبی پروگرام شائع اور نشر نہ کریں جس سے مذہبی منافرت پھیلتی ہو۔ انہوں نے تمام علماء حق سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور عوام کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد بین المذاہب کا درس دیں، یہی اپیل انہوں نے ملک کے دانشوروں، کالم نگاروں اور مذہبی رہنماؤں سے بھی کی۔ الطاف حسین نے مزید کہا کہ بعض مذہبی جماعتیں بانی پاکستان کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے شیعہ سنی‘ دیو بندی‘ بریلوی مسالک اور دیگر اختلافی امور کو ہوا دے رہی ہیں۔ آج پاکستان خطرات سے دوچار ہے۔ سرحدوں پر بیرونی خطرات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احمدی جماعت کی عبادت گاہوں میں خطوط اور دھمکی آمیز فیکس بھیجے جارہے ہیں۔ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں کو بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ احترام انسانیت کا پیغام دیا۔ مذہبی رواداری‘ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لئے جس قدر جدوجہد ایم کیو ایم نے کی کسی دوسری جماعت نے نہیں کی جبکہ مذہب کے نام پر قائم جماعتیں نفرتوں کے فروغ میں سرگرم ہیں۔ ایک شخص کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ امن ومحبت‘ فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی جدوجہد کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ایسے لوگوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کو دھمکی آمیز خطوط بھیج رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے وسائل پر صوبے سے تعلق رکھنے والوں کا حق ہے اسی طرح پختونوں کا سرحد اور پنجاب کے وسائل پر پنجاب کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کا خون قبائلی علاقوں میں ہو‘ لاہور میں ہو‘ کراچی میں ہو یا ملک کے کسی بھی حصہ میں ہو اس پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فقہ اور عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر حملے کر کے ہم خود پاکستان کو اندرونی طور پر نقصان پہنچارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک وقوم پر انتہائی نازک وقت ہے‘ پاکستان کی سرحدوں پر بیرونی خطرات منڈلارہے ہیں لیکن بعض عناصر آج بھی اپنے مذموم مقاصد کیلئے مذہب‘ فقہوں اور عقائد کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور مذہب اور عقائد سے مخالفت کی بنیاد پر نفرتیں پھیلانے کا عمل کررہے ہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ اگر پاکستان میں لوگ مذہبی انتہا پسندی میں مبتلا ہو کر غیر مسلموں کو تنگ کریں گے‘ فقہ اور عقیدے کی مخالفت پر ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر حملے کریں گے تو ملک کی موجودہ نازک صورتحال میں ایسا عمل کر کے ہم خود پاکستان کو اندرونی طور پر نقصان پہنچارہے ہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے اور اسلام کا نام استعمال کر کے ایک دوسرے کو قتل کیا جارہا ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی میں طالبانائزیشن کی مہم جاری ہے‘ سندھ میں مذہب کا نام لیکر قتل وغارتگری کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ فقہ جعفریہ اور دیگر عقائد کے ماننے والوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں‘ اسی مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزیوں کے نتیجے میں میرپور خاص اور نوابشاہ میں احمدی جماعت کے دو افراد کو قتل کردیا گیا‘ پارہ چنار‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے قریبی علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات میں سینکڑوں لوگ اب تک ہلاک وزخمی ہو چکے ہیں۔ صوبہ سرحد میں عید کی نماز کے دوران خود کش بم دھماکے میں معصوم بچوں سمیت درجنوں افراد قتل کردئیے گئے اور گزشتہ رات بھی صوبہ سرحد کے علاقے دیر میں تراویح کی نماز کے دوران نمازیوں پر بموں سے حملے اور فائرنگ کر کے بے گناہ نمازیوں کو قتل کردیا گیا۔ الطاف حسین نے کہا کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ کیا سازشیں ہورہی ہیں؟ انہوں نے کہاکہ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ ایک فرد کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جو مذہبی جماعتیں اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے کا درس دے رہی ہیں اور مذہبی منافرت پھیلارہی ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں کررہی ہیں بلکہ اسلام کی تعلیمات کے برخلاف عمل کر کے اسلام کو نقصان پہنچارہی ہیں۔ الطاف حسین نے کارکنوں سے کہا کہ اگر آپ مذہبی منافرت پھیلانے والے مذہبی انتہا پسندوں کی باتوں میں آئیں گے تو پھر الطاف حسین کو خدا حافظ کہہ دیجئے کیونکہ میں مذہب کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کا درس نہیں دے سکتا۔ الطاف حسین نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کا خون قبائلی علاقوں میں ہو‘ لاہور میں ہو‘ کراچی میں ہو یا ملک کے کسی بھی حصہ میں ہو اس پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین کے ساتھ رہنا ہے تو پھر آپ کو مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا درس دینا ہو گا اور ہر مذہب یا فقہ کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ہو گا۔ اور ایک دوسرے کی جان ومال کے تحفظ کے درس پر عمل کرنا ہو گا۔
ساتھ ہی روزنامہ جنگ میں چھپنے والی یہ خبر بھی ملاحظہ فرمایئے۔
سندھ میں منصوبہ بندی کے تحت مذہبی انتہاپسندی پھیلائی جارہی ہے، الطاف حسین
کراچی (اسٹاف رپورٹر) متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ ملک میں بعض عناصر قائد اعظم کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے مذہبی منافرت باہمی تفرقہ کے لئے سرگرم ہیں۔ سندھ صوفیوں کی سرزمین اور امن کی دھرتی ہے یہاں منصوبہ بندی کے تحت انتہا پسندی پھیلائی جارہی ہے۔ سندھ میں مذہب کا نام لے کر قتل وغارت گری کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ ملک وقوم پر انتہائی نازک وقت ہے‘ علمائے مشائخ‘ دانشور‘ اہل علم ودانش ان عناصر کے خلاف عوام میں شعور اجاگر کریں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح نے 11 اگست 1945ء کو دستور ساز اسمبلی کے خطاب میں اس بات کی نشاندہی کی تھی تمام مذاہب کو اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کی مکمل آزادی ہو گی۔ یہ بات انہوں نے لال قلعہ گراؤنڈ میں جنرل ورکرز اجلاس سے اپنے خطاب میں کہی۔ الطاف حسین کا یہ خطاب کراچی سمیت سندھ کے 20 شہروں میں بیک وقت سنا گیا۔الطاف حسین نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ذرائع ابلاغ میں ایسے مذہبی پروگرام شائع اور نشر نہ کریں جس سے مذہبی منافرت پھیلتی ہو۔ انہوں نے تمام علماء حق سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں اور عوام کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور اتحاد بین المذاہب کا درس دیں، یہی اپیل انہوں نے ملک کے دانشوروں، کالم نگاروں اور مذہبی رہنماؤں سے بھی کی۔ الطاف حسین نے مزید کہا کہ بعض مذہبی جماعتیں بانی پاکستان کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے شیعہ سنی‘ دیو بندی‘ بریلوی مسالک اور دیگر اختلافی امور کو ہوا دے رہی ہیں۔ آج پاکستان خطرات سے دوچار ہے۔ سرحدوں پر بیرونی خطرات موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احمدی جماعت کی عبادت گاہوں میں خطوط اور دھمکی آمیز فیکس بھیجے جارہے ہیں۔ فقہ جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں کو بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ ہم نے ہمیشہ احترام انسانیت کا پیغام دیا۔ مذہبی رواداری‘ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر زور دیا۔ فرقہ ورانہ ہم آہنگی کے لئے جس قدر جدوجہد ایم کیو ایم نے کی کسی دوسری جماعت نے نہیں کی جبکہ مذہب کے نام پر قائم جماعتیں نفرتوں کے فروغ میں سرگرم ہیں۔ ایک شخص کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔ امن ومحبت‘ فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی جدوجہد کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ایسے لوگوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ جو مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کو دھمکی آمیز خطوط بھیج رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ کے وسائل پر صوبے سے تعلق رکھنے والوں کا حق ہے اسی طرح پختونوں کا سرحد اور پنجاب کے وسائل پر پنجاب کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کا خون قبائلی علاقوں میں ہو‘ لاہور میں ہو‘ کراچی میں ہو یا ملک کے کسی بھی حصہ میں ہو اس پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فقہ اور عقیدے کی بنیاد پر ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر حملے کر کے ہم خود پاکستان کو اندرونی طور پر نقصان پہنچارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک وقوم پر انتہائی نازک وقت ہے‘ پاکستان کی سرحدوں پر بیرونی خطرات منڈلارہے ہیں لیکن بعض عناصر آج بھی اپنے مذموم مقاصد کیلئے مذہب‘ فقہوں اور عقائد کے خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور مذہب اور عقائد سے مخالفت کی بنیاد پر نفرتیں پھیلانے کا عمل کررہے ہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ اگر پاکستان میں لوگ مذہبی انتہا پسندی میں مبتلا ہو کر غیر مسلموں کو تنگ کریں گے‘ فقہ اور عقیدے کی مخالفت پر ایک دوسرے کی عبادت گاہوں پر حملے کریں گے تو ملک کی موجودہ نازک صورتحال میں ایسا عمل کر کے ہم خود پاکستان کو اندرونی طور پر نقصان پہنچارہے ہیں۔ الطاف حسین نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے اور اسلام کا نام استعمال کر کے ایک دوسرے کو قتل کیا جارہا ہے۔ سندھ خصوصاً کراچی میں طالبانائزیشن کی مہم جاری ہے‘ سندھ میں مذہب کا نام لیکر قتل وغارتگری کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ فقہ جعفریہ اور دیگر عقائد کے ماننے والوں کو دھمکیاں دی جارہی ہیں‘ اسی مذہبی منافرت اور اشتعال انگیزیوں کے نتیجے میں میرپور خاص اور نوابشاہ میں احمدی جماعت کے دو افراد کو قتل کردیا گیا‘ پارہ چنار‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور اس کے قریبی علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات میں سینکڑوں لوگ اب تک ہلاک وزخمی ہو چکے ہیں۔ صوبہ سرحد میں عید کی نماز کے دوران خود کش بم دھماکے میں معصوم بچوں سمیت درجنوں افراد قتل کردئیے گئے اور گزشتہ رات بھی صوبہ سرحد کے علاقے دیر میں تراویح کی نماز کے دوران نمازیوں پر بموں سے حملے اور فائرنگ کر کے بے گناہ نمازیوں کو قتل کردیا گیا۔ الطاف حسین نے کہا کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ کیا سازشیں ہورہی ہیں؟ انہوں نے کہاکہ اسلام کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ ایک فرد کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور جو مذہبی جماعتیں اسلام کے نام پر لوگوں کو قتل کرنے کا درس دے رہی ہیں اور مذہبی منافرت پھیلارہی ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں کررہی ہیں بلکہ اسلام کی تعلیمات کے برخلاف عمل کر کے اسلام کو نقصان پہنچارہی ہیں۔ الطاف حسین نے کارکنوں سے کہا کہ اگر آپ مذہبی منافرت پھیلانے والے مذہبی انتہا پسندوں کی باتوں میں آئیں گے تو پھر الطاف حسین کو خدا حافظ کہہ دیجئے کیونکہ میں مذہب کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں مارنے کا درس نہیں دے سکتا۔ الطاف حسین نے کہا کہ بے گناہ لوگوں کا خون قبائلی علاقوں میں ہو‘ لاہور میں ہو‘ کراچی میں ہو یا ملک کے کسی بھی حصہ میں ہو اس پر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین کے ساتھ رہنا ہے تو پھر آپ کو مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا درس دینا ہو گا اور ہر مذہب یا فقہ کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا ہو گا۔ اور ایک دوسرے کی جان ومال کے تحفظ کے درس پر عمل کرنا ہو گا۔