سندھ کا نیا صوبہ یا جناح پور

سید زبیر

محفلین
اراکین محفل کے سامنے کچھ اظہار کرنا چاہتا ہوں مگر ایک گزارش پہلے کہ خدا را میری تحریر سے ضرور اختلاف کریں ، نا پسند ہو ت ضرور تنقید کریں کیونکہ جتنا مجھے بولنے لکھنے کا حق اس سے شائد زیادہ ہی آپ کا حق ہے مگر میری دم پر ایسا پاوں نہ رکھیں کہ میں آپ جیسے با علم لوگوں کی صحبت سے محروم ہو جاوں شکریہ ۔اللہ آپ کے مرتبے بلند فرمائے
جلتا سلگتا کرچی کرچی ۔۔۔۔ میرا کراچی
کراچی جل رہا ہے اور ارباب اقتدار بانسری بجا رہے ہیں ۔۔ کیا کراچی میں امن صوبہ کراچی بنا کر حل ہوسکتا ہے تو میرا جواب نفی میں ہوگا​
کراچی دنیا کی کئی بندرگاہوں کی طرح انڈر ورلڈ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جس میں مختلف مافیا بلا کسی نسلی،قومی،مذہب کی تمیز کے متحد ہو کر مصرو ف عمل ہیں وہ جانتے ہیں ان کی بقا متحد رہنے میں ہے ۔مقامی، صوبائی اور مرکزی حکومتی اہلکار ان کے اس مکروہ عمل میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں مستقل تحفظ فراہم کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کے نصف درجن سے زائد خفیہ ایجنسیاں ملک میں کام کرہی ہوں علاوہ ازیں کئیدشمن اور دوست نما دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں سر گرم عمل ہو اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کرازی میں راکٹ لانچر کہان سے کس کس کو مل رہے ہیں ۔ ستر کی دہائی کے آخری ھصہ میں کراچی سمگلروں کی جنت بننا شروع ہوا افغانستان سے روسی اسلحہ پاکستان کے قبائلی علاقے پہنچنا شروع ہو گیا اس اسلحے کے لئے مارکیٹ تلاش کنا اور پاکستان سے باہر سمگل کرنے کے لئے بندرگاہ تک پہنچنا لازمی تھا کراچی میں اسلحے کی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لئے الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں نے کردار ادا کیا جبکہ سپلائی کا کام عرفان اللہ خان مروت نے سرانجام دئے اس کام میں ایم کیو ایم اور اس وقت کی پی پی آئی ( پنجابی پختون اتحاد) برابر کی شریک تھی یہی عرفان اللہ خان مروت جو اس دور میں وینا حیات ظلم کیس میں مشہور ہوئے تھے آج عشرت العباد کے ساتھ اقتدار میں شریک ہیں اور خموشی سے اپنے مکروہ دھندے میں مصروف ہیں ۔ انڈر ورلڈ کے انداز میں قائم کی گئی جماعت ایم کیو ایم نے کراچی کے درودیوار پر یہ پیغام لکھ کر کہ " قائد کا جو غدار ہے ۔۔۔ موت کا حقدار ہے" کراچی کے عوام کو یرغمال بنا لیا نہ جانے کتنے بھائی اور باپ قتل ہوئے کتنے بے گناہوں کوٹارچر سیل میں سزائیں دے کر عبرت کی مثال بنادیا ۔ اس طرح ایم کیو ایم ایک دہشت گرد جماعت بنی جس میں شامل اور منکر افراد کا ایک ہی انجام ہوتا ہے​
آج بھی بیشتر اردو بولنے والے گھرانوں ، سکولوں ،دفاتر کے چوکیدار اور ڈرائیور پٹھان ہی ہیں گو کہ کئی پٹھانوں کے بلند و بالا پلازے بھی ہیں ٹرانسپورٹ ، آئل اور واٹر ٹینکر پٹھانوں ہی کے ہیں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اندرون سندھ اور پنجاب سے کاروباری حضرات کاروبار کے لئے کراچی آتے ہیں ان سب کے باہمی مفاد نے انہیں اکٹھا رکھا ہوا ہے یہ رشتوں میں منسلک ہو گئے ہیں ۔ ان میں نفرتیں انڈر ورلڈ سے منسلک سیسی جماعت کے سر کردہ فنانسر پھیلا رپے ہیں اگر اس انارکی سے کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو صرف یہی طبقہ ہے جو روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے یہی طبقہ ملک میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ اب الطاف حسین صاحب اور ان کی جماعت بظاہراً صوبے کے حق میں اٹھنے والی آواز کی حمائت نیں کرہے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جس جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ گلی اور محلے تک ہے اپنے علاقے کے وہ ایک ایک گھر کی سرگمیوں سے آگاہ ہیں ۔ ان کے علاقے میں کوئی شخس ان کی اجازت کے بغیر نہ جائداد بیچ سکتا ہے اور نہ کرائے پردے سکتا ہے ۔ ایسی تنظیم کا دعوےٰ کہ اس کو معلوم نہیں کہ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں لغو ہے ۔​
بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجر پنجاب اور خیبر پختون خوامیں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں انتہائی پر امن اور خوشحال زندگی بسر کرہے ہیں اور اپنے مں معاشرے میں نہائت موثر کردار ادا کرہے ہیں کیا کراچی کو صوبہ بنا کر ہم ان کو غیر محفوظ نہ کر دیں گے ؟​
پاکستان سے بھارت ہجرت کر کے جانے والے کیا اپنے لئےعلیحدہ صوبے کا مطالبہ کر سکتے ہیں ؟ صوبہ بن جانے کے بعد بھی انصاف میسر نہ آیا تو مزید تفرق بازی بڑھے گی ؟ انصاف کی عدم موجودگی ہی کی وجہ سے ایک ضلعے میں تحصیلوں ، صوبے میں ضلعوں کے مابین تعصب اور احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے جو مزید صوبوں کے قیام سے بھی ختم نہ ہوگا​
کراچی بلکہ پورا پاکستان مختلف قسم کے تعصبات میں جس طرح گھرا ہو ہے اس کا واحد حل ضلعی حکومتوں کا قیام اور فوری و سستا انصاف۔ جب ہر نسل ،قومیت،مذہب، فرقہ،زبان کے تعصب سے بالا ہو کر فوری و سستا انصاف نہیں فراہم ہوگا ایسا انصاف جیسا ہمارے پیارے آقا نے قائم کیا کہ کفار مکہ بھی انصاف کے حصول کے لیے آپ پر اعتماد کرتے تھے ورن ملک مختلف گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا جائے گا یہی اغیار کا منصوبہ ہے جس کی تکمیل کے لئے اقتدار اور دولت کے پجاری اپنی مادر وطن کی حرمت کو پامال کرنے کے لئے کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے ہم جیسے بے بس لوگ تو صرف اللہ کے آگے فریاد ہی کرسکتے ہیں ۔​
 

محمد امین

لائبریرین
میں اس موضوع پر بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں اور کافی کچھ ادھر ادھر بکھرے ہوئے مراسلات میں لکھ بھی چکا ہوں۔ مگر حکایاتِ خونچکاں لکھتے ہوئے ذہنی و جسمانی طور پر بوجھل ہوجاتا ہوں اور بیک جنبشِ انگشت سب کچھ مٹا دیتا ہوں۔۔۔
 

محمد امین

لائبریرین
اراکین محفل کے سامنے کچھ اظہار کرنا چاہتا ہوں مگر ایک گزارش پہلے کہ خدا را میری تحریر سے ضرور اختلاف کریں ، نا پسند ہو ت ضرور تنقید کریں کیونکہ جتنا مجھے بولنے لکھنے کا حق اس سے شائد زیادہ ہی آپ کا حق ہے مگر میری دم پر ایسا پاوں نہ رکھیں کہ میں آپ جیسے با علم لوگوں کی صحبت سے محروم ہو جاوں شکریہ ۔اللہ آپ کے مرتبے بلند فرمائے
جلتا سلگتا کرچی کرچی ۔۔۔ ۔ میرا کراچی
کراچی جل رہا ہے اور ارباب اقتدار بانسری بجا رہے ہیں ۔۔ کیا کراچی میں امن صوبہ کراچی بنا کر حل ہوسکتا ہے تو میرا جواب نفی میں ہوگا​
کراچی دنیا کی کئی بندرگاہوں کی طرح انڈر ورلڈ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جس میں مختلف مافیا بلا کسی نسلی،قومی،مذہب کی تمیز کے متحد ہو کر مصرو ف عمل ہیں وہ جانتے ہیں ان کی بقا متحد رہنے میں ہے ۔مقامی، صوبائی اور مرکزی حکومتی اہلکار ان کے اس مکروہ عمل میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں مستقل تحفظ فراہم کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کے نصف درجن سے زائد خفیہ ایجنسیاں ملک میں کام کرہی ہوں علاوہ ازیں کئیدشمن اور دوست نما دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں سر گرم عمل ہو اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کرازی میں راکٹ لانچر کہان سے کس کس کو مل رہے ہیں ۔ ستر کی دہائی کے آخری ھصہ میں کراچی سمگلروں کی جنت بننا شروع ہوا افغانستان سے روسی اسلحہ پاکستان کے قبائلی علاقے پہنچنا شروع ہو گیا اس اسلحے کے لئے مارکیٹ تلاش کنا اور پاکستان سے باہر سمگل کرنے کے لئے بندرگاہ تک پہنچنا لازمی تھا کراچی میں اسلحے کی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لئے الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں نے کردار ادا کیا جبکہ سپلائی کا کام عرفان اللہ خان مروت نے سرانجام دئے اس کام میں ایم کیو ایم اور اس وقت کی پی پی آئی ( پنجابی پختون اتحاد) برابر کی شریک تھی یہی عرفان اللہ خان مروت جو اس دور میں وینا حیات ظلم کیس میں مشہور ہوئے تھے آج عشرت العباد کے ساتھ اقتدار میں شریک ہیں اور خموشی سے اپنے مکروہ دھندے میں مصروف ہیں ۔ انڈر ورلڈ کے انداز میں قائم کی گئی جماعت ایم کیو ایم نے کراچی کے درودیوار پر یہ پیغام لکھ کر کہ " قائد کا جو غدار ہے ۔۔۔ موت کا حقدار ہے" کراچی کے عوام کو یرغمال بنا لیا نہ جانے کتنے بھائی اور باپ قتل ہوئے کتنے بے گناہوں کوٹارچر سیل میں سزائیں دے کر عبرت کی مثال بنادیا ۔ اس طرح ایم کیو ایم ایک دہشت گرد جماعت بنی جس میں شامل اور منکر افراد کا ایک ہی انجام ہوتا ہے​
آج بھی بیشتر اردو بولنے والے گھرانوں ، سکولوں ،دفاتر کے چوکیدار اور ڈرائیور پٹھان ہی ہیں گو کہ کئی پٹھانوں کے بلند و بالا پلازے بھی ہیں ٹرانسپورٹ ، آئل اور واٹر ٹینکر پٹھانوں ہی کے ہیں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اندرون سندھ اور پنجاب سے کاروباری حضرات کاروبار کے لئے کراچی آتے ہیں ان سب کے باہمی مفاد نے انہیں اکٹھا رکھا ہوا ہے یہ رشتوں میں منسلک ہو گئے ہیں ۔ ان میں نفرتیں انڈر ورلڈ سے منسلک سیسی جماعت کے سر کردہ فنانسر پھیلا رپے ہیں اگر اس انارکی سے کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو صرف یہی طبقہ ہے جو روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے یہی طبقہ ملک میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ اب الطاف حسین صاحب اور ان کی جماعت بظاہراً صوبے کے حق میں اٹھنے والی آواز کی حمائت نیں کرہے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جس جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ گلی اور محلے تک ہے اپنے علاقے کے وہ ایک ایک گھر کی سرگمیوں سے آگاہ ہیں ۔ ان کے علاقے میں کوئی شخس ان کی اجازت کے بغیر نہ جائداد بیچ سکتا ہے اور نہ کرائے پردے سکتا ہے ۔ ایسی تنظیم کا دعوےٰ کہ اس کو معلوم نہیں کہ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں لغو ہے ۔​
بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجر پنجاب اور خیبر پختون خوامیں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں انتہائی پر امن اور خوشحال زندگی بسر کرہے ہیں اور اپنے مں معاشرے میں نہائت موثر کردار ادا کرہے ہیں کیا کراچی کو صوبہ بنا کر ہم ان کو غیر محفوظ نہ کر دیں گے ؟​
پاکستان سے بھارت ہجرت کر کے جانے والے کیا اپنے لئےعلیحدہ صوبے کا مطالبہ کر سکتے ہیں ؟ صوبہ بن جانے کے بعد بھی انصاف میسر نہ آیا تو مزید تفرق بازی بڑھے گی ؟ انصاف کی عدم موجودگی ہی کی وجہ سے ایک ضلعے میں تحصیلوں ، صوبے میں ضلعوں کے مابین تعصب اور احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے جو مزید صوبوں کے قیام سے بھی ختم نہ ہوگا​
کراچی بلکہ پورا پاکستان مختلف قسم کے تعصبات میں جس طرح گھرا ہو ہے اس کا واحد حل ضلعی حکومتوں کا قیام اور فوری و سستا انصاف۔ جب ہر نسل ،قومیت،مذہب، فرقہ،زبان کے تعصب سے بالا ہو کر فوری و سستا انصاف نہیں فراہم ہوگا ایسا انصاف جیسا ہمارے پیارے آقا نے قائم کیا کہ کفار مکہ بھی انصاف کے حصول کے لیے آپ پر اعتماد کرتے تھے ورن ملک مختلف گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا جائے گا یہی اغیار کا منصوبہ ہے جس کی تکمیل کے لئے اقتدار اور دولت کے پجاری اپنی مادر وطن کی حرمت کو پامال کرنے کے لئے کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے ہم جیسے بے بس لوگ تو صرف اللہ کے آگے فریاد ہی کرستے ہیں ۔​


بھائی آپ کی باتوں کا جواب انشاء اللہ گھر جا کر تحریر کرنے کی کوشش کروں گا۔ جزوی طور پر آپ کی کچھ باتوں سے مجھے اتفاق ہے
 
اچھا تو یہ بات ہے؟ یعنی میں بھی منطقی بات کرتی ہوں ۔ کیونکہ مجھے اپنی اکلوتی غیر متفق ریٹنگ ہمت علی بھائی کی طرف سے ہی وصول ہوئی ہے۔ (اس پوسٹ کے بعد یہ بھی خطرہ موجود ہے کہ یہ اکلوتی نہ رہے۔) :openmouthed:
معذرت ہمت علی بھائی۔ آف ٹاپک بات کے لئے پلیز مائنڈ نہیں کیجئے گا۔ :)

اپکی پوسٹ مجھے سخت ناپسند ارہی ہے
پہلے ہی مجھے کچھ شبہ تھا کہ اپ مرد ہیں یا خاتون۔
 
اراکین محفل کے سامنے کچھ اظہار کرنا چاہتا ہوں مگر ایک گزارش پہلے کہ خدا را میری تحریر سے ضرور اختلاف کریں ، نا پسند ہو ت ضرور تنقید کریں کیونکہ جتنا مجھے بولنے لکھنے کا حق اس سے شائد زیادہ ہی آپ کا حق ہے مگر میری دم پر ایسا پاوں نہ رکھیں کہ میں آپ جیسے با علم لوگوں کی صحبت سے محروم ہو جاوں شکریہ ۔اللہ آپ کے مرتبے بلند فرمائے
جلتا سلگتا کرچی کرچی ۔۔۔ ۔ میرا کراچی
کراچی جل رہا ہے اور ارباب اقتدار بانسری بجا رہے ہیں ۔۔ کیا کراچی میں امن صوبہ کراچی بنا کر حل ہوسکتا ہے تو میرا جواب نفی میں ہوگا​
کراچی دنیا کی کئی بندرگاہوں کی طرح انڈر ورلڈ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جس میں مختلف مافیا بلا کسی نسلی،قومی،مذہب کی تمیز کے متحد ہو کر مصرو ف عمل ہیں وہ جانتے ہیں ان کی بقا متحد رہنے میں ہے ۔مقامی، صوبائی اور مرکزی حکومتی اہلکار ان کے اس مکروہ عمل میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں مستقل تحفظ فراہم کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کے نصف درجن سے زائد خفیہ ایجنسیاں ملک میں کام کرہی ہوں علاوہ ازیں کئیدشمن اور دوست نما دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں سر گرم عمل ہو اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کرازی میں راکٹ لانچر کہان سے کس کس کو مل رہے ہیں ۔ ستر کی دہائی کے آخری ھصہ میں کراچی سمگلروں کی جنت بننا شروع ہوا افغانستان سے روسی اسلحہ پاکستان کے قبائلی علاقے پہنچنا شروع ہو گیا اس اسلحے کے لئے مارکیٹ تلاش کنا اور پاکستان سے باہر سمگل کرنے کے لئے بندرگاہ تک پہنچنا لازمی تھا کراچی میں اسلحے کی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لئے الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں نے کردار ادا کیا جبکہ سپلائی کا کام عرفان اللہ خان مروت نے سرانجام دئے اس کام میں ایم کیو ایم اور اس وقت کی پی پی آئی ( پنجابی پختون اتحاد) برابر کی شریک تھی یہی عرفان اللہ خان مروت جو اس دور میں وینا حیات ظلم کیس میں مشہور ہوئے تھے آج عشرت العباد کے ساتھ اقتدار میں شریک ہیں اور خموشی سے اپنے مکروہ دھندے میں مصروف ہیں ۔ انڈر ورلڈ کے انداز میں قائم کی گئی جماعت ایم کیو ایم نے کراچی کے درودیوار پر یہ پیغام لکھ کر کہ " قائد کا جو غدار ہے ۔۔۔ موت کا حقدار ہے" کراچی کے عوام کو یرغمال بنا لیا نہ جانے کتنے بھائی اور باپ قتل ہوئے کتنے بے گناہوں کوٹارچر سیل میں سزائیں دے کر عبرت کی مثال بنادیا ۔ اس طرح ایم کیو ایم ایک دہشت گرد جماعت بنی جس میں شامل اور منکر افراد کا ایک ہی انجام ہوتا ہے​
آج بھی بیشتر اردو بولنے والے گھرانوں ، سکولوں ،دفاتر کے چوکیدار اور ڈرائیور پٹھان ہی ہیں گو کہ کئی پٹھانوں کے بلند و بالا پلازے بھی ہیں ٹرانسپورٹ ، آئل اور واٹر ٹینکر پٹھانوں ہی کے ہیں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اندرون سندھ اور پنجاب سے کاروباری حضرات کاروبار کے لئے کراچی آتے ہیں ان سب کے باہمی مفاد نے انہیں اکٹھا رکھا ہوا ہے یہ رشتوں میں منسلک ہو گئے ہیں ۔ ان میں نفرتیں انڈر ورلڈ سے منسلک سیسی جماعت کے سر کردہ فنانسر پھیلا رپے ہیں اگر اس انارکی سے کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو صرف یہی طبقہ ہے جو روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے یہی طبقہ ملک میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ اب الطاف حسین صاحب اور ان کی جماعت بظاہراً صوبے کے حق میں اٹھنے والی آواز کی حمائت نیں کرہے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جس جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ گلی اور محلے تک ہے اپنے علاقے کے وہ ایک ایک گھر کی سرگمیوں سے آگاہ ہیں ۔ ان کے علاقے میں کوئی شخس ان کی اجازت کے بغیر نہ جائداد بیچ سکتا ہے اور نہ کرائے پردے سکتا ہے ۔ ایسی تنظیم کا دعوےٰ کہ اس کو معلوم نہیں کہ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں لغو ہے ۔​
بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجر پنجاب اور خیبر پختون خوامیں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں انتہائی پر امن اور خوشحال زندگی بسر کرہے ہیں اور اپنے مں معاشرے میں نہائت موثر کردار ادا کرہے ہیں کیا کراچی کو صوبہ بنا کر ہم ان کو غیر محفوظ نہ کر دیں گے ؟​
پاکستان سے بھارت ہجرت کر کے جانے والے کیا اپنے لئےعلیحدہ صوبے کا مطالبہ کر سکتے ہیں ؟ صوبہ بن جانے کے بعد بھی انصاف میسر نہ آیا تو مزید تفرق بازی بڑھے گی ؟ انصاف کی عدم موجودگی ہی کی وجہ سے ایک ضلعے میں تحصیلوں ، صوبے میں ضلعوں کے مابین تعصب اور احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے جو مزید صوبوں کے قیام سے بھی ختم نہ ہوگا​
کراچی بلکہ پورا پاکستان مختلف قسم کے تعصبات میں جس طرح گھرا ہو ہے اس کا واحد حل ضلعی حکومتوں کا قیام اور فوری و سستا انصاف۔ جب ہر نسل ،قومیت،مذہب، فرقہ،زبان کے تعصب سے بالا ہو کر فوری و سستا انصاف نہیں فراہم ہوگا ایسا انصاف جیسا ہمارے پیارے آقا نے قائم کیا کہ کفار مکہ بھی انصاف کے حصول کے لیے آپ پر اعتماد کرتے تھے ورن ملک مختلف گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا جائے گا یہی اغیار کا منصوبہ ہے جس کی تکمیل کے لئے اقتدار اور دولت کے پجاری اپنی مادر وطن کی حرمت کو پامال کرنے کے لئے کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے ہم جیسے بے بس لوگ تو صرف اللہ کے آگے فریاد ہی کرسکتے ہیں ۔​
مجھے مطلقا اپ سے اتفاق نہیں ہے۔ بات مہاجر یا پٹھان یا پنجابی کی ہے ہی نہیں۔ میں خود کئی پنجابیوں کو جانتا ہوں جو ایم کیوایم سے اس لیے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ وہی مظالم کا شکار ہیں جس کا عمومی طور پر ہر کراچی کا رہنے والا ہے۔ بات معاشی ترقی کی ہے۔ ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے عوامل کراچی میں موجود ہیں ان کو صرف چینلائیز کرنے کی ضرورت ہے ایک رخ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔

کچھ عرصہ پہلے عرض کیا تھا کہ "بانوے کے سال میں کراچی میں اپریشن کے دوران شاید ایٹ نائن پر چھاپے کے دوران فوج نے جناح پور کے نقشے برامد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شاید بریگیڈیر ہارون نے۔ ایم کیو ایم نے اس کی تردید بھی کردی تھی۔

جناح پور کا نام شاید سنگاپور کے تصور سے لیا گیا تھا۔ سنگا پور ملائیشیا کے ساتھ واقع ایک جزیرہ ہے۔ ملائشیا میں قیام کے دوران سنگاپور جانا ہوا۔ میرا قیام چون کہ جوہر بارو میں تھا لہذا سنگاپور جانے کے لیے صرف 15 سے 20 منٹ لگتے ہیں۔ ملائشنز کے لیے ویزہ کی کوئی قید نہیں بلکہ ساوتھ ایسٹ ایشیا کے کسی ملک کے لیے ویزہ کی قید نہیں۔ ملایشیا سے لوگ صبح صبح چھ بجے سنگاپور میں داخل ہوتے ہیں اور رات کو واپس۔ ایک بڑی تعداد سنگاپور میں نوکری کرتی ہے اور وہییں مقیم ہے۔ سنگاپور ملائیشیا کی افرادی قوت کو بہت اچھی طرح استعمال کرتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ اب وقت اگیا ہے کہ کراچی، حیدراباد، سکھر اور سندھ کے وہ علاقے جہاں اردو اسپیکنگ اکژیت میں ہیں ملا کر ایک وحدت کی تشکیل دی جائے۔ یہ وحدت ایک حد تک خودمختار ہو اور باقی پاکستان سے کنفیڈریشن کا تعلق ہو یعنی وفاق کے پاس دفاع، خارجہ پالیسی اور چند دیگر اہم معاملات ہوں اور باقی تمام جناح پور خود رکھے۔ پاکستان کی افرادی قوت جناح پور میں ایک ورک پرمٹ کے اجرا کے بعد ملازمت و رہائش کی اہل ہو۔ شاید جناح پور ہی محمد علی جناح کے پاکستان کی آصل تعیبر ہو۔ " مزید (لنک)
 

فاتح

لائبریرین
اچھا تو یہ بات ہے؟ یعنی میں بھی منطقی بات کرتی ہوں ۔ کیونکہ مجھے اپنی اکلوتی غیر متفق ریٹنگ ہمت علی بھائی کی طرف سے ہی وصول ہوئی ہے۔ (اس پوسٹ کے بعد یہ بھی خطرہ موجود ہے کہ یہ اکلوتی نہ رہے۔) :openmouthed:
معذرت ہمت علی بھائی۔ آف ٹاپک بات کے لئے پلیز مائنڈ نہیں کیجئے گا۔ :)
ہمیں غیر متفق ہونے کا بہت شوق ہے۔۔۔ (یقین نہ آئے تو مقدس سے پوچھ لیجیے) اگر آپ کی وہ غیر متفق پوسٹ تنہائی کا شکار ہے تو کہیے۔۔۔ ہم دس پندرہ غیر متفق کے ڈونگرے انڈیل دیتے ہیں۔۔۔ :openmouthed:
 

فاتح

لائبریرین
اپکی پوسٹ مجھے سخت ناپسند ارہی ہے
پہلے ہی مجھے کچھ شبہ تھا کہ اپ مرد ہیں یا خاتون۔
ہمت علی بھائی! آپ جنس جاننے کے لیے اتنے بے چین کیوں ہیں؟ :roll:
ہمیں تو آپ نے کبھی نہیں لکھا کہ ہم پر خاتون ہونے کا شبہ ہے آپ کو۔۔۔ :laughing:
 

فاتح

لائبریرین
نہیں اپ پر شبہ نہیں۔ اپ تو سگریٹ نوش بھائی ہیں
مجھے کوئی جلدی نہیں جنس جاننے کی
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم سگریٹ نوش بہن ہوں۔ کیا خواتین سگریٹ نہیں پیتیں؟ :laughing:
آپ کے سنگھا پور میں ہی 5 تا 10 فیصد خواتین سگریٹ پیتی ہیں۔
 

عین عین

لائبریرین
بہارو پھول برساؤ میرا مقصود آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا تو یہاں کوئی سنجیدہ بحث ہو رہی ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
نہیں اپ پر شبہ نہیں۔ اپ تو سگریٹ نوش بھائی ہیں
مجھے کوئی جلدی نہیں جنس جاننے کی

یہ کیا منطق ہوئی جنس جاننے کی کہ سگریٹ نوش ہو۔
پاکستان میں بھی بہت سی خواتین سگریٹ پیتی ہیں۔ شیری رحمان کی تو ویڈیو بھی موجود ہے۔ فاتح بھائی آپ شیری رحمان سے مل رہے ہیں یا پھر وہ آپ سے مل رہی ہے۔
دیہاتوں میں بہت سی خواتین حقہ پیتی ہیں۔
 
کچھ بھی کہتے رہیں یہ لوگ
حالات کا منطقی نتیجہ وہی ہے جو میں نےکہا ہے۔
پہلے یہ لوگ یہ بھی نہیں مانتے تھے کہ پنجاب میں نئے صوبے بننے چاہیں۔ اج دیکھیں سب پنجاب کے تین ٹکڑے کرنے پر تیار ہیں بلکہ بازی لے جارہے ہیں
 

سید زبیر

محفلین
مجھے مطلقا اپ سے اتفاق نہیں ہے۔ بات مہاجر یا پٹھان یا پنجابی کی ہے ہی نہیں۔ میں خود کئی پنجابیوں کو جانتا ہوں جو ایم کیوایم سے اس لیے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ وہی مظالم کا شکار ہیں جس کا عمومی طور پر ہر کراچی کا رہنے والا ہے۔ بات معاشی ترقی کی ہے۔ ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے عوامل کراچی میں موجود ہیں ان کو صرف چینلائیز کرنے کی ضرورت ہے ایک رخ متعین کرنے کی ضرورت ہے۔

کچھ عرصہ پہلے عرض کیا تھا کہ "بانوے کے سال میں کراچی میں اپریشن کے دوران شاید ایٹ نائن پر چھاپے کے دوران فوج نے جناح پور کے نقشے برامد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ شاید بریگیڈیر ہارون نے۔ ایم کیو ایم نے اس کی تردید بھی کردی تھی۔

جناح پور کا نام شاید سنگاپور کے تصور سے لیا گیا تھا۔ سنگا پور ملائیشیا کے ساتھ واقع ایک جزیرہ ہے۔ ملائشیا میں قیام کے دوران سنگاپور جانا ہوا۔ میرا قیام چون کہ جوہر بارو میں تھا لہذا سنگاپور جانے کے لیے صرف 15 سے 20 منٹ لگتے ہیں۔ ملائشنز کے لیے ویزہ کی کوئی قید نہیں بلکہ ساوتھ ایسٹ ایشیا کے کسی ملک کے لیے ویزہ کی قید نہیں۔ ملایشیا سے لوگ صبح صبح چھ بجے سنگاپور میں داخل ہوتے ہیں اور رات کو واپس۔ ایک بڑی تعداد سنگاپور میں نوکری کرتی ہے اور وہییں مقیم ہے۔ سنگاپور ملائیشیا کی افرادی قوت کو بہت اچھی طرح استعمال کرتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ اب وقت اگیا ہے کہ کراچی، حیدراباد، سکھر اور سندھ کے وہ علاقے جہاں اردو اسپیکنگ اکژیت میں ہیں ملا کر ایک وحدت کی تشکیل دی جائے۔ یہ وحدت ایک حد تک خودمختار ہو اور باقی پاکستان سے کنفیڈریشن کا تعلق ہو یعنی وفاق کے پاس دفاع، خارجہ پالیسی اور چند دیگر اہم معاملات ہوں اور باقی تمام جناح پور خود رکھے۔ پاکستان کی افرادی قوت جناح پور میں ایک ورک پرمٹ کے اجرا کے بعد ملازمت و رہائش کی اہل ہو۔ شاید جناح پور ہی محمد علی جناح کے پاکستان کی آصل تعیبر ہو۔ " مزید (لنک)
پیارے بھائی ہمت علی۔۔۔۔۔ اّپ کی تحریر میں موجود تضاد کی طرف توجہ دلانا چاھتا ہوں اّپنے لکھا کہ بات مہاجر ، پنجابی،پٹھان کی نہیں ، اور اّگے جا کر لکہتے ہیں کہ کراچی حیدر اّباد سکھر اور سندہ کے وہ علاقے جہاں اردو سپیکنگ اکثریت اکثریت میں ھے ملا کر ایک وحدت تشکیل دی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی تو لسانی منافرت ہے ہمارے اتحاد میں یہی سوچ رکاوٹ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اسلام کے اصولوں کو سچ ماننا ہے یا رد کرنا ہے یا اّدھے اصول ماننے ہیں اور اّدھے نہیں ماننے ۔ اسلام کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے ۔اسلام کا کیا فیصلہ ہے ۔کیا پاکستان کے خیبر پختون خوا ،پنجاب ، سندھ بلوچستان سے بھارت جانے والے مہاجر کہیں یہ مطالبہ کرسکتے ہیں اور اگر کریں تو کیا انجام ہوگا۔۔۔۔۔۔ ناراض نہ ہونا اگر کسی بات سے دل اّزاری ہو تو معذرت خواہ ہوں
 
بھائی اپ اتنا ڈر کیوں رہے ہیں۔ اگر موضوع پر بات کریں گے تو کوئی بھی ناراض نہیں ہوگا
دوسرے اپ کی بات کا جواب جلد۔ ادھار ہے
 

ساجد

محفلین
کراچی بلکہ پورا پاکستان مختلف قسم کے تعصبات میں جس طرح گھرا ہو ہے اس کا واحد حل ضلعی حکومتوں کا قیام اور فوری و سستا انصاف۔​
درپیش مسائل کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ دہائیوں سے یہ ملک چند خاندانوں کے ہاتھوں میں یرغمال ہے ۔جب تک جمہوریت کے تقاضے کے مطابق اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر کے لوکل گورنمنٹس کے ذریعہ عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کے لئے نہیں چلائی جائے گی ،احساس محرومی بڑھتا جائے گا اور جغرافیائی تقسیم کا عمل تیز تر ہوتا جائے گا۔
 

سید زبیر

محفلین
بھائی اپ اتنا ڈر کیوں رہے ہیں۔ اگر موضوع پر بات کریں گے تو کوئی بھی ناراض نہیں ہوگا
دوسرے اپ کی بات کا جواب جلد۔ ادھار ہے
بھائی ڈرتا اسلیے ہوں کہ میں نے اس سے پھلے کسی دھاگے میں ایک انداز تخاطب دیکھا تھا تو سچی بات ہے ہم جیسے انسان تو بہت ڈرتے ہیں
 
صوبے صرف انتظامی امور کیلئے بنانے چاہئیں۔۔۔اور جس طرح جنگِ عظیم کے بعد دیارِاسلام کے نقشے پر فٹ رول رکھ کر سیدھی لائینیں لگا کر کئی نئے ملک تشکیل دے دیئے گئے تھے، اسی طرح لائنیں لگا کر صوبے بنادئیے جائیں اگر اتنا ہی شوق ہے تو۔۔۔لیکن لسانیت، یا عصبیت کی بنیاد پر صوبے بنانا خودکشی ہوگا پاکستان کیلئے۔۔۔
ان صوبوں کے نام بھی عصبیت اور لسانیت سے پاک ہونے چاہئیں۔
 
Top