سید زبیر
محفلین
اراکین محفل کے سامنے کچھ اظہار کرنا چاہتا ہوں مگر ایک گزارش پہلے کہ خدا را میری تحریر سے ضرور اختلاف کریں ، نا پسند ہو ت ضرور تنقید کریں کیونکہ جتنا مجھے بولنے لکھنے کا حق اس سے شائد زیادہ ہی آپ کا حق ہے مگر میری دم پر ایسا پاوں نہ رکھیں کہ میں آپ جیسے با علم لوگوں کی صحبت سے محروم ہو جاوں شکریہ ۔اللہ آپ کے مرتبے بلند فرمائے
جلتا سلگتا کرچی کرچی ۔۔۔۔ میرا کراچی
کراچی جل رہا ہے اور ارباب اقتدار بانسری بجا رہے ہیں ۔۔ کیا کراچی میں امن صوبہ کراچی بنا کر حل ہوسکتا ہے تو میرا جواب نفی میں ہوگا
کراچی دنیا کی کئی بندرگاہوں کی طرح انڈر ورلڈ کی آماجگاہ بنا ہوا ہے جس میں مختلف مافیا بلا کسی نسلی،قومی،مذہب کی تمیز کے متحد ہو کر مصرو ف عمل ہیں وہ جانتے ہیں ان کی بقا متحد رہنے میں ہے ۔مقامی، صوبائی اور مرکزی حکومتی اہلکار ان کے اس مکروہ عمل میں برابر کے شریک ہیں اور انہیں مستقل تحفظ فراہم کرتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کے نصف درجن سے زائد خفیہ ایجنسیاں ملک میں کام کرہی ہوں علاوہ ازیں کئیدشمن اور دوست نما دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں سر گرم عمل ہو اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کرازی میں راکٹ لانچر کہان سے کس کس کو مل رہے ہیں ۔ ستر کی دہائی کے آخری ھصہ میں کراچی سمگلروں کی جنت بننا شروع ہوا افغانستان سے روسی اسلحہ پاکستان کے قبائلی علاقے پہنچنا شروع ہو گیا اس اسلحے کے لئے مارکیٹ تلاش کنا اور پاکستان سے باہر سمگل کرنے کے لئے بندرگاہ تک پہنچنا لازمی تھا کراچی میں اسلحے کی ڈیمانڈ پیدا کرنے کے لئے الطاف حسین اور اس کے ساتھیوں نے کردار ادا کیا جبکہ سپلائی کا کام عرفان اللہ خان مروت نے سرانجام دئے اس کام میں ایم کیو ایم اور اس وقت کی پی پی آئی ( پنجابی پختون اتحاد) برابر کی شریک تھی یہی عرفان اللہ خان مروت جو اس دور میں وینا حیات ظلم کیس میں مشہور ہوئے تھے آج عشرت العباد کے ساتھ اقتدار میں شریک ہیں اور خموشی سے اپنے مکروہ دھندے میں مصروف ہیں ۔ انڈر ورلڈ کے انداز میں قائم کی گئی جماعت ایم کیو ایم نے کراچی کے درودیوار پر یہ پیغام لکھ کر کہ " قائد کا جو غدار ہے ۔۔۔ موت کا حقدار ہے" کراچی کے عوام کو یرغمال بنا لیا نہ جانے کتنے بھائی اور باپ قتل ہوئے کتنے بے گناہوں کوٹارچر سیل میں سزائیں دے کر عبرت کی مثال بنادیا ۔ اس طرح ایم کیو ایم ایک دہشت گرد جماعت بنی جس میں شامل اور منکر افراد کا ایک ہی انجام ہوتا ہے
آج بھی بیشتر اردو بولنے والے گھرانوں ، سکولوں ،دفاتر کے چوکیدار اور ڈرائیور پٹھان ہی ہیں گو کہ کئی پٹھانوں کے بلند و بالا پلازے بھی ہیں ٹرانسپورٹ ، آئل اور واٹر ٹینکر پٹھانوں ہی کے ہیں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اندرون سندھ اور پنجاب سے کاروباری حضرات کاروبار کے لئے کراچی آتے ہیں ان سب کے باہمی مفاد نے انہیں اکٹھا رکھا ہوا ہے یہ رشتوں میں منسلک ہو گئے ہیں ۔ ان میں نفرتیں انڈر ورلڈ سے منسلک سیسی جماعت کے سر کردہ فنانسر پھیلا رپے ہیں اگر اس انارکی سے کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو صرف یہی طبقہ ہے جو روز بروز طاقتور ہوتا جا رہا ہے یہی طبقہ ملک میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔ اب الطاف حسین صاحب اور ان کی جماعت بظاہراً صوبے کے حق میں اٹھنے والی آواز کی حمائت نیں کرہے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جس جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ گلی اور محلے تک ہے اپنے علاقے کے وہ ایک ایک گھر کی سرگمیوں سے آگاہ ہیں ۔ ان کے علاقے میں کوئی شخس ان کی اجازت کے بغیر نہ جائداد بیچ سکتا ہے اور نہ کرائے پردے سکتا ہے ۔ ایسی تنظیم کا دعوےٰ کہ اس کو معلوم نہیں کہ کون لوگ اس کے پیچھے ہیں لغو ہے ۔
بھارت سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجر پنجاب اور خیبر پختون خوامیں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں انتہائی پر امن اور خوشحال زندگی بسر کرہے ہیں اور اپنے مں معاشرے میں نہائت موثر کردار ادا کرہے ہیں کیا کراچی کو صوبہ بنا کر ہم ان کو غیر محفوظ نہ کر دیں گے ؟
پاکستان سے بھارت ہجرت کر کے جانے والے کیا اپنے لئےعلیحدہ صوبے کا مطالبہ کر سکتے ہیں ؟ صوبہ بن جانے کے بعد بھی انصاف میسر نہ آیا تو مزید تفرق بازی بڑھے گی ؟ انصاف کی عدم موجودگی ہی کی وجہ سے ایک ضلعے میں تحصیلوں ، صوبے میں ضلعوں کے مابین تعصب اور احساس محرومی بڑھتا جا رہا ہے جو مزید صوبوں کے قیام سے بھی ختم نہ ہوگا
کراچی بلکہ پورا پاکستان مختلف قسم کے تعصبات میں جس طرح گھرا ہو ہے اس کا واحد حل ضلعی حکومتوں کا قیام اور فوری و سستا انصاف۔ جب ہر نسل ،قومیت،مذہب، فرقہ،زبان کے تعصب سے بالا ہو کر فوری و سستا انصاف نہیں فراہم ہوگا ایسا انصاف جیسا ہمارے پیارے آقا نے قائم کیا کہ کفار مکہ بھی انصاف کے حصول کے لیے آپ پر اعتماد کرتے تھے ورن ملک مختلف گروہوں میں تقسیم در تقسیم ہوتا جائے گا یہی اغیار کا منصوبہ ہے جس کی تکمیل کے لئے اقتدار اور دولت کے پجاری اپنی مادر وطن کی حرمت کو پامال کرنے کے لئے کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتے ہم جیسے بے بس لوگ تو صرف اللہ کے آگے فریاد ہی کرسکتے ہیں ۔