پوسٹ نمبر: 3
پوسٹ نمبر: 3
ان تواریخ اور احادیث کی کتب کا مطالعہ کرنے کے وقت انتہائی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور ان کتب کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔
پہلے تو آپ نے فیصلہ صادر کر دیا تھا کہ ۔۔۔ عوام کو ان کتب سے دور رہنا چاہئے۔
چلئے اب اتنا تو ہوا کہ آپ نے احتیاط سے مطالعہ کرنے کی رائے دی۔ جزاک اللہ خیر۔
آپ نے فرمایا کہ : اسلام اللہ کے وعدے کے مطابق ، قرآن حکیم میں موجود ہے۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ بات غلط ہے۔
اسلام ، صرف قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے بلکہ اُس
“شریعتِ اسلامی“ میں موجود ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی اور جس کا حوالہ بھی
ابوداؤد کی “مثلہ معہ“ والی حدیث سے دیا جا چکا ہے۔ اب اگر کسی کے حلق سے یہ بات نہیں اترتی تو نہ اس کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی اس شرعی حکم کو بدلا جا سکتا ہے۔
یہ بھی ایک نرالا ہی مذاق ہے کہ کتبِ حدیث کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے جہاں جہاں فاروق صاحب لفظ کتب یا کتبِ حدیث استعمال کرتے ہیں وہاں ، ان کی مراد احادیث ہی ہوتی ہیں۔ مگر معلوم نہیں کیوں حدیث یا احادیث کا لفظ استعمال کرنے سے ہمارے محبی محترم کتراتے ہیں؟
حالانکہ بات تو سنت/ حدیث کی ضرورت اور اس کی اہمیت پر ہی کی جا رہی ہے۔
اور یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ جس طرح قرآن پر ایمان لایا ہے اسی طرح بخاری یا مسلم پر ایمان لایا جائے۔
عمومی طور پر جو بخاری و مسلم کی سو فیصد صداقت پر ایمان لانے کی بات کی جاتی ہے وہ محدثین کے اس اجماع کے تحت کہی جاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حوالے سے موجود ان دونوں کتب کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ لہذا ان صحیح احادیث پر ایمان لانا مراد لیا جاتا ہے ، کسی کتاب کے تمام مواد پر نہیں۔ ورنہ تو ان دونوں کتب کا ایک معتد بہ حصہ اسناد پر مشتمل ہے اور کسی ایک محدث نے بھی یہ نہیں کہا کہ اسناد پر بھی اسی طرح ایمان لانا ہوگا جس طرح رسول اللہ (ص) کے قول ، فعل و تقریر پر ۔ (اب اگر آج کے کوئی شیخ الاسلام اٹھ کر ایسا دعویٰ کر دیتے ہیں کہ اسناد پر ایمان لانا بھی ضروری ہے تو یہ ایک علیحدہ بحث ہے)۔
تو درج بالا اقتباس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ قرآن کی طرح صحیح حدیث پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ حدیث بھی شریعت میں شامل ہے۔ رسول اللہ (ص) پر دو طرح کی وحی کا نزول ہوا تھا ، ایک وحی جلی (وحی متلو) ، جس کو آج ہم قرآن کا نام دیتے ہیں اور دوسرے وحی خفی (وحی غیر متلو ، کہ جس کی تلاوت قرآن کی طرح نہیں کی جاتی)۔ ویسے وحی جلی و خفی کی بحث ، ایک علحیدہ بحث ہے ۔
چونکہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھا جائے گا۔
مگر جب قرآن ہی میں کوئی ذکر نہ ہو تب ؟؟ تب کون سی کسوٹی استعمال میں لائی جائے گی ؟
1۔ قرآن میں حلال جانور کے طور پر ، ’بھیمۃ الانعام‘ کی تفسیر میں چند جانوروں کے نام گنائے گئے ہیں مثلاََ اونٹ ، گائے ، بکری ، بھیڑ ، مینڈھا وغیرہ۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے دیگر جانور مثلاََ : کتا ، بلی ، چیتا ، شیر ، بندر ، ہرن ، ریچھ ، کوا ، کبوتر ، مینا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ سب کیا ہیں ؟ حلال یا حرام؟ ان کی حرمت یا حلت کو قرآن سے کیسے پرکھا جائے گا؟
براہ مہربانی ثبوت صرف اور صرف قرآن سے دیا جائے۔ آپ کی عقلی تُک بندیاں نہیں مانی جائیں گی۔ کیونکہ یہ دعویٰ تو آپ ہی کا ہے کہ ہر چیز کو قرآن سے پرکھا جائے گا۔ اگر آپ ثبوت نہ دے سکیں (اور یقیناََ نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔
اور آپ کو ماننا ہوگا کہ ان احادیث کی بھی ضرورت ہے جن کی صحت و صداقت کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ حدیث ہی میں ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا وہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے جس سے فوراََ معلوم ہو جاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام ؟
2۔ بےشک قرآن میں نماز کی حالت کا ذکر ہے ، یعنی : کھڑے ہونے ، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر۔
اب سوال یہ ہے کہ نماز میں کیسے کھڑا ہوا جائے ؟ ہاتھ لٹکا کر یا ہاتھ باندھ کر؟ ایک پاؤں پر کھڑے ہوں یا دونوں پر؟ لغت میں رکوع کے معنی ہیں جھکنا۔ کیسے جھکا جائے ؟ آگے یا دائیں بائیں؟ اور جھک کر ہاتھ ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں یا رانوں پر رکھیں یا رانوں میں گھسا لیں ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں، کیسے رکھیں ، صرف ہتھیلی زمین پر رکھیں یا پوری کہنی؟ سجدہ ایک کریں یا دو ؟
ذرا بتائیے کی ان تمام چیزوں کو قرآن کی کس آیت یا آیات سے پرکھا جا سکے گا؟؟
چونکہ آپ تشفی بخش جواب دے نہیں سکتے لہذا مان لیجئے کہ : ان احادیث کی بھی ضرورت ہے جن کی صحت و صداقت کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔
3۔ قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد و عورت کے ہاتھ کو کاٹ دو۔
مجھے بتایا جائے کہ آپ قرآن کی کس آیت سے ثابت کریں گے کہ ۔۔۔۔۔۔
دونوں ہاتھ کاٹے جائیں یا ایک ہاتھ ؟ کہاں سے کاٹیں ؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے یا ان کے بیچ سے ؟
قرآن سے کیسے پرکھا جائے گا؟
4۔ قرآن کہتا ہے : جب تم سفر پر جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کچھ کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر تم کو ایذا دیں گے۔ (انساء : 101)
یعنی قرآن میں “نمازِ قصر“ ایسے سفر کے ساتھ مشروط ہے جس میں کافروں کی ایذا کا خوف بھی ہو۔
اب صرف ایک مثال سعودی عرب سے۔ یہ تو ساری دنیا مانتی ہے کہ یہاں ملک کے مختلف علاقوں سے عمرہ یا حج کی غرض سے مکہ کی طرف سفر کرنے والوں کو “کافروں کی ایذا“ کا کوئی خوف نہیں۔ پھر بھی ہر کوئی اس سفر کے دوران “نمازِ قصر“ اس لیے ادا کرتا ہے کہ حالتِ امن میں بھی “نمازِ قصر“ کی چھوٹ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
یعلی بن امیہ نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اللہ تو فرماتا ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر قصر کرو تم نماز میں اگر تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ ستائیں گے۔ اور اب تو لوگ امن میں ہو گئے ( یعنی اب قصر کیا ضروری ہے ؟ )
تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا تھا جیسے تم کو تعجب ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اللہ نے تم کو صدقہ دیا تو اس کا صدقہ قبول کرو (یعنی بغیر خوف کے بھی ، سفر میں قصر کرو)۔
صحیح مسلم ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها ، باب : صلاة المسافرين وقصرها ، حدیث : 1605
ذرا بتائیے کہ اس صحیح حدیث کو قرآن سے کیسا پرکھا جائے گا؟ جبکہ یہ حدیث تو اعلانیہ قرآن کی “شرط“ کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔
5۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ : زینت ( و آرائش) کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ۔۔۔ (الاعراف : 32)
پھر تو سونا (gold) مردوں کے لیے حلال ہوا۔ لیکن
مستدرک حاکم کی ایک مشہور صحیح حدیث بتاتی ہے کہ : ریشم اور سونا ، مسلمان مردوں کے لیے حرام اور مسلم عورتوں کے لیے حلال ہیں۔
حاکم کی اس حدیث کو آپ قرآن سے پرکھیں گے تو اسے جھوٹ کہنا ہوگا اور غالباََ منکرینِ حدیث ساری شریعتِ اسلامیہ کے خلاف ہو کر ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں یا گلے میں سونے کی چین پہنیں گے کہ اس کی اجازت انہیں قرآن سے ملتی ہے !
برادرِ محترم ، میں مزید سوالات کر کے آپ کو ذہنی تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ لہذا اس بحث کے اچھے بھلے دیگر شرکاء کے ساتھ ساتھ آپ بھی قبول کر لیں کہ قرآن کی عظمت و جلالت ، بےشک اپنی جگہ ۔۔۔ لیکن ہر حدیث کو بہرحال قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی آج تک کسی نامور مفسر یا محدث نے ایسا بےتکا کلیہ پیش فرمایا ہے۔