سنّت کیا ہے ؟

سید ابرار

محفلین
میری مخلصانہ استدعا ہے کہ اگر ممکن ہو تو میرے گذشتہ سوالات کا جواب عنایت فرمائیے۔ خصوصا سند یافتہ حضرات کے اس دعوٰی کا ثبوت کہ، منظور شدہ طریقہء نماز صرف کتبِ روایات میں ہی پایا جاتا ہے۔ جس سے یہ سکہ بند حضرات، اسناد و تعریفات کے پردے میں، معصوم عوام کو قرآن کریم سے بد گمان کرتے ہیں۔ اور اسلامی نظام کی بنیاد قران کے بجائے، صرف اور صرف روایات کی کتب پر رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اگر طریقہ نماز ان روایات کی کتب میں موجود ہوتا، تو آج اتنے سارے فرقے 2000 سے زائد مختلف طریقوں سے نماز نہ ادا کررہے ہوتے۔ اور پھر اگر یہ درست بھی ہوتا تو بھی قران کا عظیم اسلامی نظام۔ فلاحی ریاست اور اس ریاست کا مختلف نظام، جو قرآن حکیم سے ثابت ہیں، ان کتب روایات میں دور دور تک نہیں پائے جاتے۔ 26 سورات کا تذکرہ کسی بھی کتابِ روایت میں‌ نہیں ہے۔ اس پر انشاء اللہ تفصیل فراہم کروں گا۔ آج مسلمانوں کے کنفیوژن کی بڑی وجہ یہی ہے، میں نے خود دیکھا ہے کی درست انفارمیشن کے بعد لوگوں میں‌قرآن و حدیث جاننے کا اشتیاق بہت بڑھ جاتا ہے۔

والسلام۔

فاروق سرور صاحب سب سے پھلے تو میں یہ کھنا چاہونگا کہ اپ قرآن مجید کی پروف ریڈنگ ہی تک محدود رہیں تو زیادہ بھتر ہے ، آپ کے لئے بھی اور اسلام کے لئے بھی ، دوسری بات یہ ہے کہ آپ علماء کرام اور محدثین کرام پر انتھائی ” سنگین “ الزاما ت لگارہے ہیں ، لھذا آپ کے ان سنگین الزامات پر بحث سے پھلے میں یہ جاننا چاہونگا کہ آپ ” منکرین حدیث “ کے نظریہ سے متفق ہیں یا نھیں ؟ یا آپ کا حدیث کے بارے میں کوئی ”نیا “ نظریہ ہے ؟
اس تھریڈ میں آپ کی باتیں انتھائی بے ربط ، غیر واضح اور علم حدیث کے بارے میں آپ کی ” جھالت “ کا کھلا ثبوت ہیں ،
اس کی نشاندہی میں بعد میں کرونگا ، امید ہے آپ میرے سوال کا جواب دیں گے
 
ابرار حسن صاحب، میرے پچھلے جوابات پڑھ لیجئے۔ شاکر القادری صاحب بھی میرے نکتہ نظر کی وضاحت فرما چکے ہیں۔ اور میں اور اجمل صاحب دونوں شاکر القادری صاحب کے نکتہ نظر پر ان کا شکرہ ادا کر کے متفق ہو چکے ہیں۔ ترکِ احادیث و ترک سنت کا رنگ دینے والا ہتھکنڈہ بہت پرانا ہوچکا ہے، ایک مسلمان سے یہ سوال، کہ وہ رسولِ پرنور (صلعم) کی سنت و حدیث پر یقین رکھتا ہے ایک کافر ہی کرسکتا ہے۔ اس سوال سے ہی مجھے یقین ہے کہ یہ سوال کسی "برار ہاسن (کملا ہاسن کا بڑا بھائی) " کا تو ہوسکتا ہے ۔ ابرار حسن کا قطعاَ نہیں :)

آپ کا ذاتی حملہ ء‌ کردار کشی، حسب دستور، ردی کی ٹوکری کی نذر کررہا ہوں۔ واضح‌کردینا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس اب تک میرے کسی سوال کا جواب نہیں۔ لہذا اب آپ سے صرف کردار کشی کی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔

اگر آپ کا موڈ کردار کشی سے ہٹ کر کسی مثبت بحث میں شامل ہونے کا ہے تو نہ صرف میرے پچھلے سوالات پڑھ لیجئے اور مزید کوئی سوال کرنے سے پہلے ان سوالات کے جواب دیجئے جن کے جواب، اب تک آپ کی طرف ادھار ہیں۔ ان جوابات کے بغیر آپ کی اچھل کود بے معنی ہے۔ لہذا مجھ سے ان سوالات کے جواب دئے بغیر مزید کسی جواب کی توقع نہ رکھیں۔ آپ کے مقاصد اب کھل کر سامنے آتے جارہے ہیں۔

نہ آپ تاریخی حوالے سے جو سوال آپ سے کئے تھے ان کا جواب دے سکے اور نہ ہی جو سوال آپ سے یہاں کئے ان کا جواب دے سکے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ اب تقلید پاژند چھوڑ کر سنجیدگی سے تقلید قرآن کی طرف دھیان دیجئے۔

[ayah]54:17[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [/arabic]
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے
 

سید ابرار

محفلین
ابرار حسن صاحب، میرے پچھلے جوابات پڑھ لیجئے۔ شاکر القادری صاحب بھی میرے نکتہ نظر کی وضاحت فرما چکے ہیں۔ اور میں اور اجمل صاحب دونوں شاکر القادری صاحب کے نکتہ نظر پر ان کا شکرہ ادا کر کے متفق ہو چکے ہیں۔ ترکِ احادیث و ترک سنت کا رنگ دینے والا ہتھکنڈہ بہت پرانا ہوچکا ہے، ایک مسلمان سے یہ سوال، کہ وہ رسولِ پرنور (صلعم) کی سنت و حدیث پر یقین رکھتا ہے ایک کافر ہی کرسکتا ہے۔ اس سوال سے ہی مجھے یقین ہے کہ یہ سوال کسی "برار ہاسن (کملا ہاسن کا بڑا بھائی) " کا تو ہوسکتا ہے ۔ ابرار حسن کا قطعاَ نہیں :)

آپ کا ذاتی حملہ ء‌ کردار کشی، حسب دستور، ردی کی ٹوکری کی نذر کررہا ہوں۔ واضح‌کردینا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس اب تک میرے کسی سوال کا جواب نہیں۔ لہذا اب آپ سے صرف کردار کشی کی توقع ہی کی جاسکتی ہے۔

اگر آپ کا موڈ کردار کشی سے ہٹ کر کسی مثبت بحث میں شامل ہونے کا ہے تو نہ صرف میرے پچھلے سوالات پڑھ لیجئے اور مزید کوئی سوال کرنے سے پہلے ان سوالات کے جواب دیجئے جن کے جواب، اب تک آپ کی طرف ادھار ہیں۔ ان جوابات کے بغیر آپ کی اچھل کود بے معنی ہے۔ لہذا مجھ سے ان سوالات کے جواب دئے بغیر مزید کسی جواب کی توقع نہ رکھیں۔ آپ کے مقاصد اب کھل کر سامنے آتے جارہے ہیں۔

نہ آپ تاریخی حوالے سے جو سوال آپ سے کئے تھے ان کا جواب دے سکے اور نہ ہی جو سوال آپ سے یہاں کئے ان کا جواب دے سکے ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ اب تقلید پاژند چھوڑ کر سنجیدگی سے تقلید قرآن کی طرف دھیان دیجئے۔

[ayah]54:17[/ayah] [arabic]وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ [/arabic]
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے

فاروق سرور صاحب ، جھاں تک ” انکار حدیث “ کی بات ہے تو جتنے حضرات اس کے قائل ہیں وہ سب یھی کھتے ہیں جو آپ کھ رہے ہیں ، کہ ہم حدیث پر تو یقین رکھتے ہیں مگر چونکہ ہم تک یہ احادیث ” مستند “ ذریعہ سے نھیں پھونچیں لھذا اس کا ”اعتبار“ نھیں کیا جاسکتا ، میں نے یہ بات صرف اسلئے پوچھی تھی کہ آپ کی جو تین چار پوسٹ میں نے پڑھی ہیں وہ واضح طور پر ” بے ربط “ ہیں ، آپ کی پوسٹس چونکہ ایک نازک موضوع سے تعلق رکھتی ہیں ، اور اس کا صحیح محاکمہ تو علماء کرام ہی کرسکتے ہیں‌ البتہ میں اپنے ناقص مطالعہ کی روشنی میں آپ کی پوسٹس کا جائزہ لینے کی کوشش کرونگا ،

اور ” الزاما ت “ کے سلسلہ میں آپ کو اختیار ہے آپ بصد خوشی جتنے ” الزاما ت “ اس ناچیز پر لگانا چاہیں لگاسکتے ہیں ، اس کا میرے اوپر بال برابر اثر نھیں پڑے گا ، البتہ ایک ” درخواست “ ضرور ہے کہ اپنے نظریہ کا اظھار ضرور کریں مگر علماء کرام اور محدثین کے بارے میں محتاط الفاظ استعمال کریں ، یہ میں اس لئے کھ رہا ہوں‌ کہ بظاھر آپ کے الفاظ کو دیکھ کر ہم جیسے کم فھم یھی سمجھیں گے کہ آپ علماء کرام کی ” کردار کشی “ کررہے ہین ، جس طرح آ پ کو اپنی کردار کشی کی ” فکر “ ہے اسی طرح دوسروں کے ” کردار “ کا بھی آپ کو ” خیال “ رکھنا چاہئے ،
 

محمد وارث

لائبریرین
انکار حدیث کا فتنہ دور جدید کی ”پیداوار“ ہے ، جو بات مستشرقین کھتے ہیں وہی بات گھما پھرا کر منکرین حدیث کھتے ہیں ،

سید صاحب، معذرت خواہ ہوں، لیکن آپ کی یہ بات تاریخی لحاظ سے انتہائی غلط ہے اور آپ کے اپنے ذہن کی "پیداوار"۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ تاریخی حقائق کے بارے میں جانے اور پڑھے بغیر بہت یقین سے اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں۔

مودودی صاحب کی جس کتاب کا ربط ابو شامل صاحب نے دیا تھا اور آپ نے اسکا اعادہ کیا ہے، اگر اس کا دیباچہ ہی پڑھ لیتے تو آپ کو اس "فتنے" کی حقیقیت معلوم ہوجاتی ہے، کہاں مودودی صاحب اس کو پہلی صدی ہجری کے خارجیوں اور دوسری صدی کے معتزلہ سے ملا رہے ہیں اور کہاں آپ دورِ جدید اور مستشرقین کے ساتھ، این چہ بو العجبی است :confused:

امید ہے برا نہیں مانیں گے۔ اور تھوڑا سا مطالعہ کی طرف بھی دھیان دیں گے۔

۔
 

سید ابرار

محفلین

سید صاحب، معذرت خواہ ہوں، لیکن آپ کی یہ بات تاریخی لحاظ سے انتہائی غلط ہے اور آپ کے اپنے ذہن کی "پیداوار"۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ تاریخی حقائق کے بارے میں جانے اور پڑھے بغیر بہت یقین سے اپنی رائے کو حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں۔

مودودی صاحب کی جس کتاب کا ربط ابو شامل صاحب نے دیا تھا اور آپ نے اسکا اعادہ کیا ہے، اگر اس کا دیباچہ ہی پڑھ لیتے تو آپ کو اس "فتنے" کی حقیقیت معلوم ہوجاتی ہے، کہاں مودودی صاحب اس کو پہلی صدی ہجری کے خارجیوں اور دوسری صدی کے معتزلہ سے ملا رہے ہیں اور کہاں آپ دورِ جدید اور مستشرقین کے ساتھ، این چہ بو العجبی است :confused:

امید ہے برا نہیں مانیں گے۔ اور تھوڑا سا مطالعہ کی طرف بھی دھیان دیں گے۔

۔

وارث صاحب ! پھلے تو میں یہ واضح کردوں کہ میں اپنی رائے کو حرف آخر ہرگز نھیں سمجھتا ہوں‌ ، خصوصا علم دین کے سلسلہ میں ،

اس لئے کہ نہ تو میں عالم دین ہوں‌، اور نہ میری عمر اتنی زیادہ ہے کہ میں‌ یہ کھ سکوں کہ دین کے سلسلہ میں میرا مطالعہ
کافی وسیع ہے ، میں نے مودودی صاحب کی کتاب کل ہی سے پڑھنی شروع کی ہے ، آپ نے جو بات کھی ہے وہ اپنی جگہ صحیح ہے ، میں در اصل یہ کھنا چاہ رہا تھا ، کہ ھندوستان میں ” انکار حدیث “ کا فتنہ دور جدید کی پیداوار ہے اس لئے کہ سر سید ہی سے اس کا آغاز ہوا تھا ، جیسا کہ مولانا مودودی صاحب نے بھی کھا ہے ، اگر یہ بات غلط ہو تو آپ نشاندہی کرسکتے ہیں ، اور مستشرقین کی جو بات میں نے کھی تھی وہ بھی اسی پس منظر میں کھی تھی کہ دور جدید کے منکرین حدیث احادیث کی کتابوں کو مشتبہ بنانے کے لئے جتنی باتیں کھتے ہیں ، عموما وہی باتیں مستشر قین کھتے ہیں ، اس کا مطلب یہ نھیں تھا کہ یہ فتنہ مستشرقین نے ایجاد کیا ہے ، بلکہ دور جدید کے منکرین حدیث کے دلائل کا ماخذ عموما
مستشرقین ہی کی کتابیں ہوتی ہیں ، یا ممکن ہے کہ اس کا بر عکس ہو ، یہ بات بھی میں نے ایک کتاب میں پڑھی تھی ،
اگر یہ بھی غلط ہو تو نشاندھی کریں ، اس لئے لگتا ہے اس موضوع پر آپ کا مطالعہ کافی وسیع ہے،


اور جھاں تک رہی بات مطالعہ کی طرف دھیان دینے کی ، تو وارث صاحب ، میری چھٹیاں ایک ہفتہ میں‌ ختم ہونے والی ہیں ، اس کا مطلب ہے اگلے کئی مھینوں کے لئے پڑھائی کے علاوہ ہر قسم کے مطالعہ کو خیر باد کھنا پڑے گا ، اور ہاسٹل جس جگہ ہے ، وہاں اردو زبان میں کسی علمی کتاب کا ملنا ایک کارے دارد ، پھر پڑھائی کی ٹینشن الگ ، البتہ نیکسٹ چھٹیوں میں ترتیب وار مطالعہ کرنے کا ارادہ ہے ، چونکہ مطالعہ کی بات آگئی اس لئے کھ رہا ہوں کہ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کا انداز تحریر مجھے بہت اچھا لگتا ہے ، خصوصا ” اسلام اور جدت پسندی “ کے موضوع پر تو ان کی کتاب بہت اچھی ہے ، میں نے گوگل پر کافی سرچ کیا ، ان کے بیانات تو موجود ہیں ، مگر ان کی تمام کتابیں مل نھیں پائیں ، اگر کوئی ایسی ویب سائٹ آپ کی نظر میں ہو جس میں ان کی تمام کتابوں یا اہم کتابوں کو جمع کیا گیا ہو تو اس کی نشاندہی کریں ،
 

محمد وارث

لائبریرین
وضاحت کیلیے شکریہ سید صاحب۔:)

معذرت خواہ ہوں کے مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحاریر کی کوئی ویب سائٹ میرے علم میں نہیں ہے، ویسے میرے پاس انکی کتب میں سے "علوم القرآن" اور عدالتی فیصلوں پر مشتمل کتاب "عدالتی فیصلے" موجود ہیں لیکن وہ بھلا آپ کے کس کام کیں۔:(
 

باذوق

محفلین
فاروق سرور خان صاحب
میں دوبارہ یاد دہانی کروا رہا ہوں :)
میں نے اپنی پچھلی پوسٹ کے بعد والے سارے مواد کا مطالعہ کر لیا ہے اور جوابات کی تیاری چل رہی ہے :)
شائد کل جمعہ کو پوسٹ‌ نہ کر سکوں تو ان شاءاللہ ہفتہ کو سہی۔ دراصل تمام اہم روابط (links) کے حصول میں کچھ تاخیر ہو جاتی ہے۔

امید کہ انتظار فرمائیں گے ، شکریہ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
دوسری بات یہ ہے کہ آپ علماء کرام اور محدثین کرام پر انتھائی ” سنگین “ الزاما ت لگارہے ہیں ،

ذرا یہ دیکھیں


اور یہ بھی دیکھیں

اور جواب دیں کہ علمائے کرام اور محدثین عظام پر سنگین الزامات لگائے جاتے ہیں یا اس کے برعکس علمائے کرام اور محدثین عظام کے ہاں کچھ ایسا قابل گرفت مواد موجود بھی ہے، مشک آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید
 
ایسا قابل گرفت مواد موجود بھی ہے،

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔​

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
بزرگوار مکرمی شاکر القادری صاحب!۔ سات سو ایکس (721) پوسٹس لِیپ دینے سے کیا آپ علمی مرتبے کے اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں‌ جہاں ‌پر بیٹھ کر آپ علماء اور محدثین کے مواد پر گرفت کریں‌گے؟؟؟۔۔۔ میں اس بحث سے دور رہنا چاہتا ہوں اس لئے میرے ساتھ تعاون کریں۔۔۔

سب کا بھلا سب کی خیر۔۔۔
وسلام۔۔۔
 
جناب اجمل صاحب، آپ متفق نہ ہوئے، چلئیے مان لیتے ہیں۔ ہم کو تو یہی تاثر دیا تھا آپ نے کہ شاکر القادری کی وضاحت کے بعد کہ ہم میں‌ اتفاق ہو گیا۔ بہرحال اپنے سوالوں کے جواب کے انتظار میں اب تک ہوں،

1۔ نماز کا طریقہ والی حدیث، جس پر سب متفق ہوں، عطا فرمائیے؟
2۔ آپ ایمان لانے کے لئے کس کتاب کو استعمال کرتے ہیں۔ اللہ کا حکم تو صرف ایک کتاب کے بارے میں‌ہے اور کوئی کتب روایات اس میں شامل ہی نہیں۔ آپ مسلمان کو کیوں کہتے ہیں‌کہ ان ،زید کتب روایات پر بھی ایمان لاؤ؟

3۔ کیا آپ اس درج ذیل حدیثِ رسول سے انکار کرتے ہیں؟ یہ آپ کی کتب روایات میں بھی ملے گی۔ دیکھ لیں؟

۔ تین مستند ریفرنس فراہم کر رہا ہوں: سب سے پہلا سعودی حکومت کا ہے۔
عربی:

From: Kingdom of Saudi Arabia
Ministry of Islamic Affairs, Endowments, Da'wah and Guidance
http://hadith.al-islam.com/Display/D...Doc=1&Rec=6851
حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن اسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى اللہ عليہ وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحہ وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوا ‏ ‏مقعدا من النار

اردو:
هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن اسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد
سے مروی ہے کہ یقیناَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ نہ لکھو، اور جس کسی نے مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ بھی لکھا ماسوائے قران کے، وہ اس کو تلف کردے اور میرے طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی گناہ نہیں اور جس کسی نے مجھ (رسول پرنور) سے کوئی بھی غلط بات منسوب کی - اور ھمام فرماتے ہیں کہ انہوں نے "جانتے بوجھتے" ہوئے کا لفظ بھی استعمال کیا - اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

انگریزی:

University of Southern Califofornia

http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamen....html#042.7147
Abu Sa'id Khudri reported that Allah's Messenger (may peace be upon him) said: Do not take down anything from me, and he who took down anything from me except the Qur'an, he should efface that and narrate from me, for there is no harm in it and he who attributed any falsehood to me-and Hammam said: I think he also said:" deliberately" -he should in fact find his abode in the Hell-Fire.
From Printed Book​
:
صحیح مسلم کتاب 1، صفحہ 211، حدیث 594
پرنٹر: مکتبہ عدنان، بیروت، 1967

Saheeh Muslim, vol 1 pg 211 Hadith number 594, Printer Maktab a Adnan, Beirut 1967
The Prophet (S) commanded, La taktabu ‘anni ghair-al-Qur’an; wa mun kataba ‘anni ghair-al-Qur’an falyamhah. (Write from me nothing but the Qur’an and if anyone has written, it must be obliterated.) -​
قران کا پیش کیا جانا عقلی طور پر درست ہے، ہمارا ایمان بھی اس پر ہے اور تاریخ سے بھی ثابت ہے۔ یہے وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 249 سال بعد تک کسی حدیث کی کتاب کا وجود نہیں رہا۔ حدیث کی جملہ کتب فارسی مصنفین نے 249 سال کے بعد لکھی۔

قران اور اس سے پیشتر کتب پر قرآن حکیم کے احکامات کے مطابق ہمارا ایمان ہے کہ وہ جملہ پیغمبرانِ کرام پر نازل ہوئی تھیں۔ قران سے ثابت ان کتب کے علاوہ اگر ہم سے کوئی کہے کہ آپ مزید بعد میں آنے والی کسی بھی کتاب کو مانئے تو یہ یقیناَ کفر ہے۔ دیکھئے کس کتاب پر ایمان لانا ہے اور اس کی کسوٹی قران ہے۔ دیکھ لیں

[AYAH]2:177[/AYAH] نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اﷲ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اﷲ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے، اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں، اور سختی (تنگدستی) میں اور مصیبت (بیماری) میں اور جنگ کی شدّت (جہاد) کے وقت صبر کرنے والے ہوں، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں

اللہ کی کتاب جس کے لئے "الکتاب" کا لفظ مندرجہ بالا آیت میں استعمال ہوا ہے، ہی مانی جانی چاہئیے۔ اس کے بعد کوئی کچھ لکھتا ہے تو اسے قران کی کسوٹی سے پرکھیں۔ کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد العربی (ص) کو رسول اللہ بناتی ہے۔

واضح فرمائیں کہ آپ مزید کن کتبِ روایات پر قرآن کے علاوہ ایمان رکھتے ہیں؟
اس کو آپ میر اپنا مسئلہ نہ بنائیے، ان کتب روایات کے ساتھ ساتھ ذرا قران حکیم کا مطالعہ بھی فرمائیے، جو اساس ایمان ہے اور مزید کوئی کتاب مسلم کی اساسِ ایمان نہیں ہو سکتی، چاہے اس میں قران کی کچھ آیات یا رسول سلعم کی کچھ احادیث یا حضرت عیسی کی احادیث ہی کیوں نہ شامل ہوں، قرآن نہیں‌ بن سکتی۔
 

باذوق

محفلین
پوسٹ نمبر : 1

اہم گذارش :
اس پہلی پوسٹ سے میری جملہ 8 عدد پوسٹس ہیں۔ اس لیے قارئین سے ادباََ‌ گذارش ہے کہ درمیان میں اپنی کوئی پوسٹ نہ لگائیں ورنہ ربط ٹوٹ جائے گا۔ شکریہ۔


پوسٹ نمبر : 1

السلام علیکم !
سب سے پہلے تمہیدی طور پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔
بہت اچھی بات ہے کہ سنت اور اس کی شرعی حیثیت پر مکالمہ شروع کیا گیا ہے۔ لیکن بعض احباب کی خوشہ چینیوں سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ سنت یا کتبِ حدیث ایک مشکوک چیز ہے لہذا ان کو “مزید پروموٹ“ کرنے سے باز رہنا چاہئے۔ یہ بعینہ وہی بات ہے جو منکرینِ حدیث کا ایک خاص گروہ ہر دور میں دہراتا آیا ہے۔ اب جو ہمارے بھائی اس نظریے کو آگے بڑھا رہے ہیں ، ممکن ہے وہ ذیل میں سے کسی ایک زمرے سے تعلق رکھتے ہوں
یا تو وہ معصوم ہیں اور فنِ حدیث کا انہوں نے کچھ زیادہ مطالعہ نہیں کیا
یا وہ منکرینِ حدیث کے پروپگنڈہ لٹریچر سے کافی متاثر ہو گئے ہیں
یا پھر دانستگی یا نادانستگی میں وہ منکرینِ حدیث کے آرگن کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں !
چونکہ یہاں بحث میں حصہ لینے والے سبھی افراد مسلمان ہیں لہذا خوش گمانی رکھتے ہوئے میں ذاتی طور پر فاروق صاحب اور ان کے ہمنوا افراد کو پہلے زمرے سے متعلق سمجھتا ہوں۔

ظاہر سی بات ہے شریعت کی حفاظت کا درد اکیلے فاروق صاحب یا وارث صاحب کو نہیں ہے بلکہ اِس بحث کے تمام شرکاء اور دیگر تمام مسلمانوں کو بھی ہے۔ لہذا زبردستی کا یہ مشورہ
ان کا استعمال نہ صرف ترک کردینا چاہیے بلکہ تمام مسملمانوں‌تک یہ بات کھل کر پہنچا دہنی چاہئیے کہ جب تک ان کتب کا کوئی صاف ایڈیشن نہ آجائے وقت نہ ضائع کریں۔ اور ایسے حضرات جو نادانستگی میں ان کتب کو مزید پروموٹ کررہے ہیں وہ بھی ہشیار ہو جائیں۔
قابل اعتراض ہی کہلایا جا سکتا ہے۔
ذرا سوچئے کہ یہ کیا بات ہوئی کہ کسی کتاب میں چند وضعی یا منکر احادیث آپ کو نظر آ جائیں تو آپ ساری کتبِ احادیث کو دریا برد کر دینے کا مشورہ داغ دیں ؟
جنگل میں کسی لومڑی کی دُم کٹ گئی تھی تو اس نے جنگل کی ساری لومڑیوں میں یہ پروپگنڈا شروع کر ڈالا کہ “ لومڑیوں میں دُم کا وجود بالکل ہی غیرضروری ہے “۔
یہ تو وہی بات ہو گئی کہ اسلام آباد میں چند قتل ہو جائیں تو ہم اپنے احباب میں یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیں کہ یار ! اسلام آباد کو اس وقت تک جانا چھوڑ دو جب تک کہ وہاں قتل و غارت گیری بند نہ ہو جائے۔ بتائیے کہ یہ کوئی معقول مشورہ ہوگا؟ کیا اسلام آباد صرف اسی ایک علاقے کا نام ہے جہاں چند قتل ہوئے ہوں ؟ یا پھر پولیس ، فوج ، محکمہ سراغرسانی یا عدالت کے وجود کی کوئی اہمیت نہیں؟؟ اگر معاشرے میں بدامنی کو پھیلنے سے روکنے اور خاطیوں کو سزا دینے کے لیے متذکرہ ادارے قائم کیے گئے ہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔
بالکل اسی طرح بیشمار ضخیم کتابیں بھی اس ضمن میں تحریر کی گئی ہیں اور جن کا موضوع ہی یہی ہے کہ کون کون سی احادیث وضعی ہیں؟ کون کون سے راوی کذاب اور وضاعِ حدیث ہیں؟ کہاں کہاں موضوع احادیث نے راہ پائی ہے؟ کس کتاب کی کون کون سی روایات ساقط الاعتبار ہیں؟ کن راویوں پر ہم اعتماد کر سکتے ہیں اور کن پر نہیں کر سکتے؟ “موضوع“ کو “صحیح“ سے جدا کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ اور روایت کی صحت ، ضعف ، علت کی تحقیق کن کن طریقوں سے کی جا سکتی ہے؟

ضخیم کتابوں والی مندرجہ بالا مثال دیتے ہوئے مولانا مودودی نے بالکل بجا لکھا ہے کہ : ان ضخیم کتابوں کی اطلاع پا کر تو ہمیں ویسا ہی اطمینان حاصل ہوتا ہے جیسا کسی کو یہ سن کر ہو کہ بکثرت چور پکڑ لیے گئے ہیں ، بڑے بڑے جیل خانے ان سے بھر گئے ہیں ، بہت سے اموالِ مسروقہ برآمد کر لیے گئے ہیں اور سراغرسانی کا ایک باقاعدہ انتظام موجود ہے جس سے آئیندہ بھی چور ، قاتل ، مجرم پکڑے جا سکتے ہیں۔
لیکن تعجب کی بات ہے اگر کسی کے لیے یہی اطلاع الٹی بےاطمینانی کا موجب ثابت ہو اور وہ اسے بدامنی کے ثبوت میں پیش کرنے لگے ؟؟

یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ : کھلے عام شریعت میں “ملاوٹ“ کی جا رہی ہو اور شریعت کے پاسبان (ائمہ ، علماء ، محدثین وغیرہ) چپ چاپ بیٹھے دیکھتے رہیں اور درد اٹھے تو بس ان دو چار افراد کے دل میں جو ادھر ادھر کی چند کتب سے اپنی عقلِ توانا کے سہارے غلطیاں ڈھونڈ نکالیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بحث کے دیگر شرکاء بس ایسے ہی بدھو ہیں کہ خواہ مخواہ ان کتبِ احادیث کی تائید کیے جا رہے ہیں جن میں “غلطیاں“ بھی پائی جاتی ہیں۔ ہم آخر کس بنیاد پر یہ فیصلہ کریں فلاں فلاں ہی صحیح ہیں اور فلاں فلاں غلط ؟؟

تمہید ختم ہوئی ۔۔۔ اب آئیے ذرا ان “افادات“ کا جائزہ لیتے ہیں جو محبی فاروق سرور خان صاحب نے پیش فرمائی ہیں۔
 

باذوق

محفلین
پوسٹ نمبر : 2

پوسٹ نمبر : 2

عوام کو ان کتب کے بارے میں‌بتانا بہتر ہے کہ ان میں‌اہانت رسول اور قران کے احکامات کی خلاف ورزی موجود ہے، تاکہ وہ ان کتب سے دور رہیں۔
واہ جناب ، بہت خوب !
یعنی ، اگر کوئی اٹھ کر خود قرآن میں موجود اہانتِ رسول اور قرآنی احکامات کا تناقض بیان کرنے لگ جائے تو کیا عامۃ المسلمین پر یہ حکم صادر کر دیا جائے گا کہ : وہ قرآن سے دور رہیں ؟
چند مثالیں دیکھ لیں ۔ یہ مثالیں عرصہ قبل راقم نے یہاں بھی پیش فرمائی تھیں اور فردِ مقابل ان کو دیکھ کر جو رفو چکر ہوئے ہیں تو اُس فورم پر آج تک ان کا پتا نہیں ، جواب دینا تو دور کی بات۔

قرآنی تناقضات :
‫1) زمین چھ دن میں تخلیق ہوئی ۔۔۔۔ (سورہ : 7 ، آیت : 54 )۔
زمین آٹھ دن میں تخلیق ہوئی ۔۔۔۔ (سورہ : 41 ، آیات : 9 تا 12 )۔

‫2) برائی شیطان کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیات : 117 تا 120 )۔
برائی انسان کی اپنی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 79 )۔
سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 78 )۔

‫3‬) یہ کتاب پہلی کتابوں کی تصدیق ‫(confirm) کرتی ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 97 )۔
ہم ایک آیت کسی دوسری کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 16 ، آیت : 101 )۔

‫4) ۔۔۔ تمام پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 285 )۔
ان (پیغمبروں) میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 2 ، آیت : 253 )۔

‫5) زانی مسلمان عورت کی سزا عمر بھر کے لیے گھر میں نظر بندی ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 15 )۔
زانی مسلمان عورت کی سزا سو کوڑے ۔۔۔۔ (سورہ : 24 ، آیت : 2 )۔

‫6) اللہ کے نزدیک ایک روز تمہارے حساب کی رو سے ہزار برس کے برابر ہے ۔۔۔۔ (سورہ : 22 ، آیت : 47 )۔
اور وہ عذاب اس روز نازل ہوگا جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔۔۔۔ (سورہ : 70 ، آیت : 4 )۔

‫7) اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 48 )۔
وہ بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے تو اس سے ہم نے درگزر کیا ۔۔۔۔ (سورہ : 4 ، آیت : 153 )۔

اہانت :
1۔ امہات مومنین کی شخصیت پر حرف ‫:
اے نبی (ص) ! اپنی بیویوں سے کہہ دو اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کی طلبگار ہو تو آؤ ، میں تمہیں کچھ مال دے دوں اور تمہیں اچھی طرح رخصت کردوں ۔۔۔۔ (سورہ : 33 ، آیت : 28 )۔
گویا امہات المومنین (رضی اللہ عنہا) کا یہ میلان ، اللہ اور اس کے رسول (ص) کی نظروں میں اتنا ناپسندیدہ تھا کہ : اللہ نے نبی کو حکم دیا کہ اگر وہ اپنی ان خواہشات سے باز نہیں آتیں تو ان سب کو طلاق دے کر رخصت کر دو۔
فرمائیے : کیا اس آیت سے امہات مومنین کی شخصیت پر حرف نہیں آتا ؟؟
اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرلو (تو خیر ورنہ) تمہارے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 66 ، آیت : 4 )۔
اللہ تعالیٰ نبی کریم کی دو ازواج مطہرات (رض) کے متعلق فرماتا ہے کہ ان کے دل ٹیڑھے ہو گئے ۔۔۔ فرمائیے : کیا اس آیت سے امہات مومنین کی شخصیت پر حرف نہیں آتا ؟؟

2۔ صحابہ کرام کی شخصیت پر حرف ‫:
اور یہ لوگ جب کوئی تجارت یا تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف چلے جاتے ہیں اور آپ (ص) کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 62 ، آیت : 11 )۔
اللہ تعالیٰ کبار صحابہ (رض) کے متعلق فرما رہے ہیں کہ خطبہ جمعہ کے وقت ، تجارت کا مال یا کوئی تماشا دیکھ کر نبی کریم (ص) کو اکیلا کھڑا چھوڑ جاتے تھے ۔
کیا اس آیت سے صحابہ کرام کی سیرت داغدار نہیں ہوتی ؟ اور صحابہ کرام کی شخصیت پر حرف نہیں آتا ؟؟
اور مومنوں کی ایک جماعت (جہاد سے) نفرت کرتی تھی ، یہ لوگ فتح کے ظاہر ہونے کے بعد آپ (ص) سے جھگڑنے لگے گویا وہ موت کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔ (سورہ : 8 ، آیات : 5 تا 6 )۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کی ایک جماعت جہاد سے نفرت کرتی تھی ۔۔۔ کیا اس آیت سے صحابہ کرام کی شخصیت پر حرف نہیں آتا ؟؟

3۔ نبی سید کائنات (ص) کی شخصیت پر حرف ‫:
رسول نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا جب اس کے پاس ایک نابینا آیا ۔۔۔۔ ( سورة عبس : 80 ، آیات : 1 تا 2 )۔
یہ آیت ایک اخلاقی عیب کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس سے آپ (ص) کی شخصیت پر حرف آتا ہے اور آپ (ص) کی سیرت داغدار ہوتی ہے۔
ہم نے آپ کو فتح مبین دے دی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردے ۔۔۔۔ ( سورة الفتح : 48 ، آیات : 1 تا 2 )۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (ص) سے کچھ نہ کچھ گناہ بھی سرزد ہوئے ہیں لہذا یہ آیت بھی آپ (ص) کی شخصیت پر حرف ہے ۔

محبی فاروق صاحب ، اگر آپ درج بالا آیات کی کوئی معقول تاویل ہم سے بیان بھی کر دیتے ہیں تو میرا سوال یہ ہے کہ :
آخر آپ ایسا ہی حق اُن محدثین کو دینے سے کیوں کترا رہے ہیں جو ان آپس میں متعارض احادیث کے حقیقی معانی آپ کو بتلانا چاہتے ہیں؟
کیا ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ آپ صرف الزام لگانا جانتے ہیں اور مشکلہ احادیث پر محدثین کی تاویلات و تشریحات سننے کے لیے آپ کے پاس وقت نہیں؟
جس قسم کی علمی بحث اور جس قسم کا مطالعہ آپ یہاں شئر کر رہے ہیں اور جس کی بنیاد پر محترم اجمل صاحب بھی آپ کی “فصاحت ، بلاغت ، سحر بیانی وغیرہ وغیرہ“ کے قائل ہونے کا اعتراف کرتے ہیں ۔۔۔ اس کی بنیاد کو دیکھتے ہوئے میں نہیں سمجھتا کہ آپ کے پاس وقت نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ سمجھتا ہوں کہ آپ صرف ایک خاص نظریہ یا خاص مکتبِ فکر کی ہی تحاریر سے مستفید ہونے کو حق مانتے ہوں۔
پھر اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ جو آپ تحقیق کرنے کی بہ نسبت دوسروں (مستشرقین اور منکرینِ حدیث) کے لگائے گئے الزامات کے دہرانے ہی کو دین کی خدمت سمجھ بیٹھے ہیں ؟؟
 

باذوق

محفلین
پوسٹ نمبر: 3

پوسٹ نمبر: 3

ان تواریخ اور احادیث کی کتب کا مطالعہ کرنے کے وقت انتہائی احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اور ان کتب کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔
پہلے تو آپ نے فیصلہ صادر کر دیا تھا کہ ۔۔۔ عوام کو ان کتب سے دور رہنا چاہئے۔
چلئے اب اتنا تو ہوا کہ آپ نے احتیاط سے مطالعہ کرنے کی رائے دی۔ جزاک اللہ خیر۔

آپ نے فرمایا کہ : اسلام اللہ کے وعدے کے مطابق ، قرآن حکیم میں موجود ہے۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ بات غلط ہے۔

اسلام ، صرف قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے بلکہ اُس “شریعتِ اسلامی“ میں موجود ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی تھی اور جس کا حوالہ بھی ابوداؤد کی “مثلہ معہ“ والی حدیث سے دیا جا چکا ہے۔ اب اگر کسی کے حلق سے یہ بات نہیں اترتی تو نہ اس کا کوئی علاج ہے اور نہ ہی اس شرعی حکم کو بدلا جا سکتا ہے۔

یہ بھی ایک نرالا ہی مذاق ہے کہ کتبِ حدیث کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے جہاں جہاں فاروق صاحب لفظ کتب یا کتبِ حدیث استعمال کرتے ہیں وہاں ، ان کی مراد احادیث ہی ہوتی ہیں۔ مگر معلوم نہیں کیوں حدیث یا احادیث کا لفظ استعمال کرنے سے ہمارے محبی محترم کتراتے ہیں؟
حالانکہ بات تو سنت/ حدیث کی ضرورت اور اس کی اہمیت پر ہی کی جا رہی ہے۔
اور یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ جس طرح قرآن پر ایمان لایا ہے اسی طرح بخاری یا مسلم پر ایمان لایا جائے۔
عمومی طور پر جو بخاری و مسلم کی سو فیصد صداقت پر ایمان لانے کی بات کی جاتی ہے وہ محدثین کے اس اجماع کے تحت کہی جاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حوالے سے موجود ان دونوں کتب کی تمام احادیث صحیح ہیں۔ لہذا ان صحیح احادیث پر ایمان لانا مراد لیا جاتا ہے ، کسی کتاب کے تمام مواد پر نہیں۔ ورنہ تو ان دونوں کتب کا ایک معتد بہ حصہ اسناد پر مشتمل ہے اور کسی ایک محدث نے بھی یہ نہیں کہا کہ اسناد پر بھی اسی طرح ایمان لانا ہوگا جس طرح رسول اللہ (ص) کے قول ، فعل و تقریر پر ۔ (اب اگر آج کے کوئی شیخ الاسلام اٹھ کر ایسا دعویٰ کر دیتے ہیں کہ اسناد پر ایمان لانا بھی ضروری ہے تو یہ ایک علیحدہ بحث ہے)۔
تو درج بالا اقتباس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ قرآن کی طرح صحیح حدیث پر بھی ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ حدیث بھی شریعت میں شامل ہے۔ رسول اللہ (ص) پر دو طرح کی وحی کا نزول ہوا تھا ، ایک وحی جلی (وحی متلو) ، جس کو آج ہم قرآن کا نام دیتے ہیں اور دوسرے وحی خفی (وحی غیر متلو ، کہ جس کی تلاوت قرآن کی طرح نہیں کی جاتی)۔ ویسے وحی جلی و خفی کی بحث ، ایک علحیدہ بحث ہے ۔

چونکہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھا جائے گا۔
مگر جب قرآن ہی میں کوئی ذکر نہ ہو تب ؟؟ تب کون سی کسوٹی استعمال میں لائی جائے گی ؟

1۔ قرآن میں حلال جانور کے طور پر ، ’بھیمۃ الانعام‘ کی تفسیر میں چند جانوروں کے نام گنائے گئے ہیں مثلاََ اونٹ ، گائے ، بکری ، بھیڑ ، مینڈھا وغیرہ۔
اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے دیگر جانور مثلاََ : کتا ، بلی ، چیتا ، شیر ، بندر ، ہرن ، ریچھ ، کوا ، کبوتر ، مینا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ سب کیا ہیں ؟ حلال یا حرام؟ ان کی حرمت یا حلت کو قرآن سے کیسے پرکھا جائے گا؟
براہ مہربانی ثبوت صرف اور صرف قرآن سے دیا جائے۔ آپ کی عقلی تُک بندیاں نہیں مانی جائیں گی۔ کیونکہ یہ دعویٰ تو آپ ہی کا ہے کہ ہر چیز کو قرآن سے پرکھا جائے گا۔ اگر آپ ثبوت نہ دے سکیں (اور یقیناََ نہیں دے سکیں گے) تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر حدیث کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔
اور آپ کو ماننا ہوگا کہ ان احادیث کی بھی ضرورت ہے جن کی صحت و صداقت کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ حدیث ہی میں ان جانوروں کے حلال و حرام ہونے کا وہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے جس سے فوراََ معلوم ہو جاتا ہے کہ کون سا جانور حلال ہے اور کون سا حرام ؟

2۔ بےشک قرآن میں نماز کی حالت کا ذکر ہے ، یعنی : کھڑے ہونے ، رکوع کرنے اور سجدہ کرنے کا ذکر۔
اب سوال یہ ہے کہ نماز میں کیسے کھڑا ہوا جائے ؟ ہاتھ لٹکا کر یا ہاتھ باندھ کر؟ ایک پاؤں پر کھڑے ہوں یا دونوں پر؟ لغت میں رکوع کے معنی ہیں جھکنا۔ کیسے جھکا جائے ؟ آگے یا دائیں بائیں؟ اور جھک کر ہاتھ ڈنڈے کی طرح لٹکنے دیں یا رانوں پر رکھیں یا رانوں میں گھسا لیں ؟ سجدہ کی حالت میں ہاتھ کہاں رکھیں، کیسے رکھیں ، صرف ہتھیلی زمین پر رکھیں یا پوری کہنی؟ سجدہ ایک کریں یا دو ؟
ذرا بتائیے کی ان تمام چیزوں کو قرآن کی کس آیت یا آیات سے پرکھا جا سکے گا؟؟
چونکہ آپ تشفی بخش جواب دے نہیں سکتے لہذا مان لیجئے کہ : ان احادیث کی بھی ضرورت ہے جن کی صحت و صداقت کو قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا۔

3۔ قرآن میں حکم ہے کہ چوری کرنے والے مرد و عورت کے ہاتھ کو کاٹ دو۔
مجھے بتایا جائے کہ آپ قرآن کی کس آیت سے ثابت کریں گے کہ ۔۔۔۔۔۔
دونوں ہاتھ کاٹے جائیں یا ایک ہاتھ ؟ کہاں سے کاٹیں ؟ بغل سے یا کہنی سے یا کلائی سے یا ان کے بیچ سے ؟
قرآن سے کیسے پرکھا جائے گا؟

4۔ قرآن کہتا ہے : جب تم سفر پر جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کچھ کم کر کے پڑھو بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر تم کو ایذا دیں گے۔ (انساء : 101)
یعنی قرآن میں “نمازِ قصر“ ایسے سفر کے ساتھ مشروط ہے جس میں کافروں کی ایذا کا خوف بھی ہو۔
اب صرف ایک مثال سعودی عرب سے۔ یہ تو ساری دنیا مانتی ہے کہ یہاں ملک کے مختلف علاقوں سے عمرہ یا حج کی غرض سے مکہ کی طرف سفر کرنے والوں کو “کافروں کی ایذا“ کا کوئی خوف نہیں۔ پھر بھی ہر کوئی اس سفر کے دوران “نمازِ قصر“ اس لیے ادا کرتا ہے کہ حالتِ امن میں بھی “نمازِ قصر“ کی چھوٹ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

یعلی بن امیہ نے کہا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اللہ تو فرماتا ہے کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر قصر کرو تم نماز میں اگر تم کو خوف ہو کہ کافر لوگ ستائیں گے۔ اور اب تو لوگ امن میں ہو گئے ( یعنی اب قصر کیا ضروری ہے ؟ )
تو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا تھا جیسے تم کو تعجب ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اللہ نے تم کو صدقہ دیا تو اس کا صدقہ قبول کرو (یعنی بغیر خوف کے بھی ، سفر میں قصر کرو)۔
صحیح مسلم ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها ، باب : صلاة المسافرين وقصرها ، حدیث : 1605

ذرا بتائیے کہ اس صحیح حدیث کو قرآن سے کیسا پرکھا جائے گا؟ جبکہ یہ حدیث تو اعلانیہ قرآن کی “شرط“ کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔

5۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ : زینت ( و آرائش) کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں ۔۔۔ (الاعراف : 32)
پھر تو سونا (gold) مردوں کے لیے حلال ہوا۔ لیکن مستدرک حاکم کی ایک مشہور صحیح حدیث بتاتی ہے کہ : ریشم اور سونا ، مسلمان مردوں کے لیے حرام اور مسلم عورتوں کے لیے حلال ہیں۔
حاکم کی اس حدیث کو آپ قرآن سے پرکھیں گے تو اسے جھوٹ کہنا ہوگا اور غالباََ منکرینِ حدیث ساری شریعتِ اسلامیہ کے خلاف ہو کر ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں یا گلے میں سونے کی چین پہنیں گے کہ اس کی اجازت انہیں قرآن سے ملتی ہے !

برادرِ محترم ، میں مزید سوالات کر کے آپ کو ذہنی تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ لہذا اس بحث کے اچھے بھلے دیگر شرکاء کے ساتھ ساتھ آپ بھی قبول کر لیں کہ قرآن کی عظمت و جلالت ، بےشک اپنی جگہ ۔۔۔ لیکن ہر حدیث کو بہرحال قرآن سے پرکھا نہیں جا سکتا اور نہ ہی آج تک کسی نامور مفسر یا محدث نے ایسا بےتکا کلیہ پیش فرمایا ہے۔
 
جن آیات کے اقتباسات آپ نے پیش کئے ہٰیں اور جس طرح آیت کے ٹکڑوں کے ٹکڑے کئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتب روایات آپ کیوں پروموٹ‌کرتے ہیں۔ آپ جو غلط فہمیاں قرآن کے متعلق جس انداز سے پھیلا رہے ہیں اس کی ہر آیت کا جواب انشاء اللہ آُپ کو مل جائے گا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ان آیات کا ریفرنس بھی دیتے اوپن برہان پر تاکہ لوگ اصل آیات بھی دیکھ سکتے۔
آپ اس طرح آدھی آدھی آیت کو دیکھیں گے تو پھر تو آپ یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہونگے کہ نما زکی ممانعت ہے۔ دیکھئے :
[ayah]4:43 [/ayah] نماز کے قریب مت جاؤ ۔۔۔۔۔۔

آپ کی لکھی ہوئی ہر آئت کا جواب ایک ایک کرکے تاکہ آپ کو دشواری نہ ہوسمجھنے میں۔

میں‌ نے مسلمانوں کے لئے ایک تھریڈ اعادہ ایمان کا یہاں شروع کیا ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=8106

لکم دینکم ولی دین۔
 

باذوق

محفلین
پوسٹ‌ نمبر : 4

پوسٹ‌ نمبر : 4

محترم اجمل صاحب نے صرف اتنا پوچھا تھا کہ : کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے باقی فعل سنت میں شامل نہیں ہیں؟
اور آپ نے جو جواب دیا ہے
آپ کے اس سوال کا جواب رسول اللہ کی اس حدیث پاک سے ملتا ہے۔ تین ریفرنس فراہم کر رہا ہوں:
اردو:
هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن اسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد
سے مروی ہے کہ یقیناَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ نہ لکھو، اور جس کسی نے مجھ سے (نسبت کرکے) کچھ بھی لکھا ماسوائے قران کے، وہ اس کو تلف کردے اور میرے طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی گناہ نہیں اور جس کسی نے مجھ (رسول پرنور) سے کوئی بھی غلط بات منسوب کی - اور حمام فرماتے ہیں کہ انہوں نے "جانتے بوجھتے" ہوئے کا لفظ بھی استعمال کیا - اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
آپ کا جواب پڑھ کر فوری طور پر مجھے لگا کہ ہم تمام کو محترمی اجمل صاحب کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے آپ کی فصاحت و بلاغت کا نعرہ لگانا چاہئے۔

جناب عالی ! سب جانے دیجئے ۔۔۔ صرف اتنا ہی بتا دیں کہ ۔۔۔ حدیث کے عربی متن کا اردو ترجمہ کس نے کیا ہے؟ اگر آپ نے کہیں سے کاپی کیا ہے تو براہ مہربانی لنک فراہم کریں ۔
آئیے ذرا ایک اور ترجمہ پڑھ لیں جو وحید الزماں صاحب کا ہے اور شائد یہیں محفل ہی کے کسی تھریڈ میں بھی مل جائے گا۔
اردو ترجمہ ، مولانا وحید الزماں خان :
ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مت لکھو میرا کلام اور جس نے لکھا کچھ مجھ سے سن کر تو وہ اس کو مٹا ڈالے مگر قرآن نہ مٹائے۔ البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو شخص قصداََ مجھ پر جھوٹ باندھے ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

صحیح مسلم ، كتاب الزهد والرقائق ، باب : التثبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم ، حدیث : 7702

فاروق صاحب ! جس کسی کا ترجمہ آپ نے یہاں پیش فرمایا ہے ، انہوں نے اس عربی عبارت
وحدثوا عنی ولا حرج
کا ترجمہ یوں کیا ہے : اور میری طرف سے بتا دو ایسا کرنے (تلف کرنے) میں کوئی گناہ نہیں۔
یہاں کوئی عربی داں صاحب ہوں تو ذرا سامنے آئیں اور ہمیں بتائیں کہ کیا مندرجہ بالا عربی عبارت کا یہ ترجمہ درست ہے؟ کیا لفظ “وحدثوا“ کا اردو ترجمہ “اور میری طرف سے“ درست قرار دیا جا سکتا ہے ؟ اور قوسین میں درج الفاظ “تلف کرنے“ کس عربی لفظ کی تشریح ہیں ؟
یا مولانا وحید الزماں کا یہ ترجمہ صحیح ہے ؟ : البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔

محترم فاروق صاحب ! حدیث دشمنی میں کم از کم اتنا تو آگے نہ بڑھ جائیں کہ معنوی تحریف والے ترجمہ سے عام مسلمانوں کے اذہان میں شکوک پیدا کرنے کی معیوب حرکتیں آپ سے سرزد ہونے لگیں۔ کیا یہی آپ کی بےلاگ تحقیق ہے ؟ اور کیا یہی دین کی خدمت ہے کہ اپنے من مانے تراجم پیش کر کے شکوک کے خنجر امت مسلمہ کے سینے میں گہرائی تک پیوست کیے جائیں ؟
خیر ، میں معذرت چاہتا ہوں اگر کچھ جملے تلخ محسوس ہوں۔

اب آئیے ذرا اس حدیث پر کچھ بات کر لیتے ہیں۔
سارے زخیرہء احادیث کی یہ وہ واحد صحیح حدیث ہے (اور جس کے راوی صرف ابوسعید خدری ہیں) جس سے امتناعِ کتابتِ حدیث ثابت ہوتا ہے۔
حالانکہ امام بخاری اور بعض دوسرے محدثین نے اس “منع کتابت والی حدیث“ کو معلول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔
(بحوالہ : تاریخ الحدیث و المحدثین ، ص : 312)
اور اسی لیے امام بخاری نے یہ حدیث اپنی صحیح بخاری میں درج نہیں کی ہے۔
بعض دوسرے محدثین اس حدیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں ، ان کی دلیل “حدیثِ قرطاس“ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کا حکم دیا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل آخری ایام کا واقعہ ہے۔ یعنی ، وہ عارضی حکم تھا جو دوسری اجازت یا حکم والی صحیح تر احادیث کے ذریعے ختم ہو گیا۔
اور امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : اس حدیث میں جو ممانعت ہے وہ محمول ہے اُس شخص پر جو اچھا حافظہ رکھتا ہو لیکن لکھنے میں اور کتابت پر اعتماد کرنے میں اس کو ڈر ہو مگر جس کا حافظہ اچھا نہ ہو اس کو لکھنے کی اجازت ہے۔ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہ اُس وقت کی حدیث ہے جب آپ کو ڈر تھا کہ کہیں قرآن اور حدیث مل نہ جائیں اور جب اس سے اطمینان ہو گیا تو آپ نے کتابت کی اجازت دے دی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور میری حدیث ایک کتاب میں ملا کر نہ لکھو تاکہ پڑھنے والے کو شبہ نہ ہو۔

اس ایک حدیث کے برعکس ، کتب صحاح ستہ میں بیشمار احادیث ایسی ہیں ( اور جو بہت سے صحابہ سے مروی ہیں) ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔
کچھ حدیثیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے لکھی گئیں
کچھ لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لکھنے کی اجازت دی
کچھ حضرات کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لکھنے کی ترغیب دی
بعض سے ان کی تحریر کردہ احادیث سن کر ان کی تصحیح و تصویب فرمائی۔


لیجئے ، اب ان احادیث کے ثبوت ملاحظہ فرمائیں :
1۔ حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ دیا۔ یہ سن کر ایک یمنی شخص (ابوشاہ) نے حاضر ہو کر عرض کیا :
یا رسول اللہ ! یہ (سب احکام) مجھے لکھ دیجئے ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( اکتبوا لابی فلان ) ابو فلاں کو لکھ دو۔
صحیح بخاری ، كتاب العلم ، باب : كتابة العلم ، حدیث : 112

آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( اکتبوا لابی شاہ ) ابو شاہ کو لکھ دو۔
ترمذی ، كتاب العلم عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : ما جاء في الرخصة فيه ، حدیث : 2879

2۔ حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک انصاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا کرتے اور احادیث سنتے تھے۔ وہ انہیں بہت پسند آتیں لیکن یاد نہیں رہتی تھیں ، چانچہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے شکایت کی کہ :
یا رسول اللہ ! میں آپ سے حدیثیں سنتا ہوں لیکن مجھے یاد نہیں رہتیں۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( استعن بیمینک واوما بیدہ الخط ) اپنے دائیں ہاتھ سے مدد حاصل کرو۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ کیا۔
ترمذی ، كتاب العلم عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : ما جاء في الرخصة فيه ، حدیث : 2878

3۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی احادیث روایت کروں ۔ میرا ارادہ ہے کہ میں دل کے ساتھ ہاتھ سے لکھنے کی مدد بھی لوں ، اگر آپ پسند فرمائیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان کان حدیثی ثم استعن بیدک مع قلبک
اگر میری حدیث ہو تو اپنے دل کے ساتھ اپنے ہاتھ سے بھی مدد لو۔
سنن الدارمی ، كتاب المقدمة ، باب : من رخص في كتابة العلم ، حدیث : 485

4۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قیدوا العلم قلت وما تقییدہ ؟ قال کتابتہ
علم کو قید کرو۔
میں نے پوچھا کہ علم کی قید کیا ہے؟
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اسے لکھنا۔
المستدرک للحاکم ، ج:1 ، ص:106

5۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
قیدوا العلم بالکتاب
علم کو لکھ کر محفوظ کر لو۔
جامع بیان العلم ، از: ابن عبدالبر اندلسی ، ج:1 ، ص:72

6۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے احادیث لکھنے کی اجازت مانگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اجازت مرحمت فرمائی۔
مقدمہ صحیفہ ھمام بن منبہ ، از: ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، ص:33

7۔ اور آخر میں ۔۔۔ منعِ کتابت کی جو وجہ بعض صحابہ کے نزدیک رہی تھی ، اور جس کا ازالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح فرمایا اور جس طرح کتابت کا حکم دیا ، وہ صحیح حدیث بھی ملاحظہ فرما لیں :
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جو حدیث ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا ، اس کو لکھ لیتا اپنے یاد کرنے کے لیے۔
پھر قریش کے لوگوں نے مجھ کو لکھنے سے منع کیا اور کہا کہ : تم ہر بات لکھ لیتے ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں ، غصے اور خوشی کی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں۔
یہ سن کر میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا :
اكتب فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه إلا حق
لکھا کر !
قسم اس ذات پاک کی جس کے اختیار میں میری جان ہے ، اس منہ سے سوائے سچ کے ، کوئی بات نہیں نکلتی۔
ابو داؤد ، كتاب العلم ، باب : في كتابة العلم ، حدیث : 3648
 

باذوق

محفلین
پوسٹ نمبر : 5

پوسٹ نمبر : 5

یہے وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے 249 سال بعد تک کسی حدیث کی کتاب کا وجود نہیں رہا۔ حدیث کی جملہ کتب فارسی مصنفین نے 249 سال کے بعد لکھی۔
یہی تو !!
یہی تو منکرینِ حدیث کا وہ واضح ترین جھوٹ ہے جس کو اب تب یہاں وہاں شائع کیا جاتا ہے اور بیچارے عام مسلمانوں کی آنکھوں میں دن دھاڑے دھول جھونکی جاتی ہے۔

عہدِ نبوی میں لکھی گئی کتبِ احادیث :

1۔ کتاب الصدقۃ
حضرت عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب زکوٰۃ لکھوائی لیکن ابھی اپنے عمال کو بھیج نہ پائے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی وفات ہو گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے اپنی تلوار کے پاس رکھ دیا تھا۔ آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر ٠رضی اللہ عنہ) نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا پھر حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنی وفات تک ۔
ترمذی ، كتاب الزكاة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : ما جاء في النهى عن المسالة ، حدیث : 624

2۔ صحیفہ صادقہ
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ایک صحیفہ مرتب کیا جسے ’صحیفہ صادقہ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) کا بیان ہے کہ : صادقہ ایک صحیفہ ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر لکھا ہے۔
حوالہ جات :
طبقات ابن سعد ، ، ج:2 ، ص:408
اسد الغابہ ، از:ابن الاثیر ، ج:3 ، ص:222
صحیفہ ہمام بن منبہ ، مطبوعہ فیصل آباد ، ص:26


3۔ صحیفہ علی
ابو جحیفہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ :
کیا تمہارے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟
انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ : نہیں ! مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔
میں نے پوچھا : اس صحیفے میں کیا ہے؟
انہوں (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان ، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
صحیح بخاری ، كتاب العلم ، باب : کتابۃ العلم ، حدیث : 111

4۔ حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کی تالیفات
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں دس برس رہے۔ آپ (رض) نے عہدِ رسالت ہی میں احادیث کے کئی مجموعے لکھ کر تیار کر لیے تھے۔
حضرت انس (رضی اللہ عنہ) کے شاگرد سعید بن ہلال فرماتے ہیں کہ ہم جب حضرت انس (رض) سے زیادہ اصرار کرتے تو وہ ہمیں اپنے پاس سے بیاض نکال کر دکھاتے اور کہتے : یہ وہ احادیث ہیں جو میں نے نبی () سے سنتے ہیں لکھ لی تھیں اور پڑھ کر بھی سنا دی تھیں۔
( المستدرک للحاکم ، ذکر انس بن مالک ، مطبوعہ : دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن)

5۔ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کی مرویات
ایک دفعہ طائف کے چند لوگ حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے تو آپ نے اپنا جزودان نکالا اور اس میں سے چند احادیث انہیں املا کرائیں ۔
ترمذی ، كتاب العلل ، باب : 1 ، حدیث : 4386

6۔ صحیفہ حضرت جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ)
یہ مجموعہ مناسک حج اور خطبہ حجۃ الوداع پر مشتمل تھا۔
صحیفہ جابر بن عبداللہ کو ان کے شاگرد وہب بن منبہ (م:110) اور سلیمان بن قیس لشکری نے مرتب کیا۔
ترمذی ، كتاب البيوع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب : ما جاء في ارض المشترك يريد بعضهم بيع نصيبه ، حدیث : 1360

7۔ صحیفہ عمرو بن حزم (رضی اللہ عنہ)
جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم (رضی اللہ عنہ) کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو فرائض و سنن اور صدقات و دیات پر مشتمل احکام لکھوا کر دئے۔
(بحوالہ : تاریخ الحدیث و المحدثین ، ص : 303)
 

باذوق

محفلین
پوسٹ نمبر : 6

پوسٹ نمبر : 6

اللہ کی کتاب جس کے لئے "الکتاب" کا لفظ مندرجہ بالا آیت میں استعمال ہوا ہے، ہی مانی جانی چاہئیے۔ اس کے بعد کوئی کچھ لکھتا ہے تو اسے قران کی کسوٹی سے پرکھیں۔ کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد العربی (ص) کو رسول اللہ بناتی ہے۔
اس کا جواب میں ذیل کے تھریڈ میں مکمل حوالوں کے ساتھ دے چکا ہوں کہ :
‫’‬کتاب اللہ‘ سے مراد ، صرف قرآن نہیں بلکہ ’ قرآن و سنت ‘ دونوں ہیں ‫!

’حسبنا کتاب اللہ‘ کا کیا مطلب ۔۔۔؟
 
Top