سوات میں شریعت مبارک

ساجد

محفلین
عبدالمجید صاحب ، آپ کے جذبات کی میں قدر کرتا ہوں۔ میں نے وضاحت کی ہے نا کہ سارے افغانی ایسے نہیں ہیں۔ اور میں نے بھی اپنی حکومتوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
گزارش ہے کہ بحث کو کسی اور رنگ میں ڈھل جانے سے قبل ہی ہمیں جذباتیت سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ ورنہ شمشاد بھائی ہاتھ میںایک موٹا سا تالا پکڑے بیٹھے ہیں۔:)
 

طالوت

محفلین
چلیے رہنے دیتے ہیں مگر

آہ نکالنے پر تو کوئی پابندی نہیں لیکن جب افغان آہ نکالتے ہیں تو اپ کو اچھی نہیں لگتی۔

افغان کی آہوں کے سدباب کی کوششوں میں ہی میرے گھر میں آگ لگی ہوئی ہے جو بجھنے کا نام نہیں لیتی ۔۔
پاکستان کو تسلیم نہ کرنے سے لے کر آج تک کے کرزئی میں (سوائے طالبان کے چند ماہ) کوئی ایسا قصہ ہی بیان کرتے جاتے کہ مجھے اپنے جلتے ہوئے پاکستان سے زیادہ افغان آہوں کی فکر ہوتی ۔۔

گویا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم نے افغانوں کو روسی بھیڑیوں کے رحم و کرم پہ کیوں نہ چھوڑ دیا ، یا ہم افغانوں کو تجارتی راہداری کیوں دیتے ہیں ؟ یا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم 3 سے چار ملین افغانوں کو تیس سالوں سے پناہ دئیے ہوئے ہیں ؟ یا ہمارا قصور یہ ہے کہ بیروزگاری کی بلند ہوتی شرح میں افغان مہاجرین کا بھی کوئی کردار ہے اس کا ذکر نہیں کرتے ؟ یا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمارے ملک ہیروین و چرس کا بیج کس نے بویا جس سے میرے ملک کے 4 سے 5 ملین نوجوان عضو معطل ہو کر رہ گئے ، اس کا ذکر نہیں کرتے ؟

یا صرف امریکہ کو اڈے دینا ہی ہمارا اتنا بڑا قصور ہے کہ ہم ان گالیوں کے لائق ہیں جن کی زبان اجازت نہیں دیتی ؟
وسلام
 

ساجد

محفلین
طالوت بھیا ، بحث طول پکڑ جائے گی اور نتیجہ صفر بر آمد ہو گا۔ لا تعداد عوامل ہیں جن کو مدنظر رکھ کر حالات کے مطابق فیصلے کئیے جاتے رہے ہیں۔ اصل ناکامی تو یہی رہی کہ ہماری حکومتوں کا کبھی بھی حالات پہ قابو نہیں رہا۔ اور پھر افغانیوں کے اندر بھی اختلاف برداشت کرنے کا جذبہ کم ہی پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے مشکلوں پہ مشکلیں پڑتی ہیں۔ افغانی زعما نے تو خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر عہد کیا تھا کہ آپس میں نہیں لڑین گے لیکن سب کچھ بالائے طاق رکھ کر پھر سے " ڈھاک کے تین پات"۔
افغانستان ، پاکستان کا ہمسایہ ہے اور اس کے اندرونی حالات کا اثر پاکستان پہ ضرور پڑے گا۔ اور دیکھا جائے تو اس خلفشار کے پھیلانے میں سابقہ سوویت یونین اور موجودہ ریاست ہائے متحدہ کی اس ملک میں لڑی جانے والی مفادات کی جنگ ہے۔ اب اسی مفاداتی جنگ کا ایندھن پاکستان بھی بن رہا ہے۔
گزارش ہے کہ آپس میں طعنہ زنی سے پرہیز کریں اور حالات کو صحیح تناظر میں دیکھیں۔
 

طالوت

محفلین
درست ، پاکستان میرا وطن ہے ، اور اس کی سلامتی سے زیادہ مجھے کوئی اور شئے عزیز نہیں ، نہ نام نہاد شریعت نہ کوئی اور ! اب اسے کوئی طعنہ زنی سمجھے یا کچھ اور یہ طے ہے کہ ہم نے جن جن ملکوں کے لیے اپنے حالات نہ سدھرنے دئیے انھوں نے ہمیں یونہی ہمیشہ لعنت ملامت کیا چاہے وہ افغانستان ہو یا فلسطین!

اجازت چاہوں گا !
وسلام
 

ساجد

محفلین
درست ، پاکستان میرا وطن ہے ، اور اس کی سلامتی سے زیادہ مجھے کوئی اور شئے عزیز نہیں ، نہ نام نہاد شریعت نہ کوئی اور ! اب اسے کوئی طعنہ زنی سمجھے یا کچھ اور یہ طے ہے کہ ہم نے جن جن ملکوں کے لیے اپنے حالات نہ سدھرنے دئیے انھوں نے ہمیں یونہی ہمیشہ لعنت ملامت کیا چاہے وہ افغانستان ہو یا فلسطین!

اجازت چاہوں گا !
وسلام
طالوت َ آپ درست کہتے ہیں۔ پاکستانی قوم کا معاملہ اصل میں "مدعی سست گواہ چست" والا ہے۔ اور یہ بات بھی درست کہ جن ملکوں کی خاطر ہم جلسے جلوس نکالتے ہیں وہ ممالک بھی ہمیں در خور اعتنا ء نہیں سمجھتے۔ فلسطین کی مثال سامنے ہے کہ ہر بات میں وہ بھارت کی حمایت کرتے ہیں۔ اچنبھا تو یہ ہے کہ ہم پاکستانی فلسطین کی خاطر اسرائیل سے متھا لگائے بیٹھے ہیں اور انہی فلسطینیوں کے قریب آدھی درجن عرب بھائی ممالک اسرائیل کے ساتھ سعارتی تعلقات قائم کئیے ہوئے ہیں۔ مستزاد یہ کہ فلسطینیوں کا کشمیر پر مؤقف بھی بھارت کی حمایت پر مبنی ہے۔
دوست چاہیں تو اختلاف کرسکتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے اپنی ناکام خارجہ پالیسی اور وقت کی مخالف سمت میں فیصلے کرنے کا عمل ابھی تک جاری رکھا ہوا ہے۔یہی بات ہے کہ ہم دنیا میں سبھی کو کھٹکتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
یہ بھی تو جذباتیت ہی ہے نا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم نے امریکیوں کو اڈے دئیے اس لئے افغانی ہمارے خلاف ہیں۔ ارے بھائی تو بھارت نے کونسا امریکہ کے خلاف ان کی حمائت کی تھی؟ میرا ایک کولیگ کابل میں کام کررہا ہے اور وہ بھارتی نژاد ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر آپ بھارتی ہیں تو آپ کے وارے نیارے ہیں لیکن اگر آپ پاکستانی ہیں تو پھر آپ کے لئے مصیبت ہے کابل میں رہنا۔ یہ سب ڈرامے بازی ہے۔ جب یہی امریکہ سٹنگر دےرہا تھا اسوقت تو کچھ بُرا نہیں لگ رہا تھا۔ اب بھی لڑے مرے تو عرب اور پاکستانی، افغانی تو راتوں رات نکل لئے۔ بات وہی ہے کہ ہمارے لوگ زمانہ ماضی میں رہنے کےعادی ہیں۔ جان و دل ایسے ہی نثار کئے دیتے ہیں۔ پاکستان کی اقوام متحدہ کی شمولیت میں مخالفت کس نے کی تھی؟ سوائے ایک مختصر عرصہ کے جب افغانستان میں روسی قابض تھے، افغانستان کا جھکاؤ ہمیشہ بھارت کی طرف رہا ہے۔ حتٰی کہ وہ طالبان جنہیں ہمارے بے وقوف حکمرانوں اور جرنیلوں‌نے پالا پوسا تھا، وہ بھی سرحد کے تعین کے مسئلہ پر ہاتھ نہیں آتے تھے اور آج بھی ڈیورنڈ لائن ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ افغانستان ایک آزاد ملک ہے اور ہمیں اس کی اس حیثیت کی قدر کرنا چاہئے۔ نہ ان کے معاملات میں مداخلت کرنی چاہئے اور نہ انہیں اپنے معاملات میں مداخلت کا حق دینا چاہئے۔ پاکستان کے اپنے مفادات ہیں اور افغانوں کے اپنے۔ دونوں کو اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کا حق ہے اور اس بات کو تسلیم کرنا چاہئے۔ جو افغان پاکستان میں ہیں انہیں اب اپنے ملک چلے جانا چاہئے کہ اس ملک کو ان کی زیادہ ضرورت ہے۔
 

arifkarim

معطل
اس بات پر تو آپ کا غصہ اور افسوس دونوں بنتا ہے ، مگر سچ یہی ہے ، کہ افغانوں کے لیے جس قدر ہم نے تکلیفیں اٹھائیں ہیں اس کے جواب میں ہمیں گالیاں ہی ملی ہیں ، اور یہ عمومی صورتحال ہے اسے ذاتی خیال مت کریں ۔۔۔
وسلام

طالوت آپ یہاں قومیت کو درمیان میں‌دھکیل کر شر پھیلا رہے ہیں۔ اسلام سے متعلق شر پھیلانے پر کافی شور ہوا تھا۔ اس پر بھی شور شرابہ ہونا چاہیے!
 

arifkarim

معطل
آہ نکالنے پر تو کوئی پابندی نہیں لیکن جب افغان آہ نکالتے ہیں تو اپ کو اچھی نہیں لگتی۔
بہرحال ۔ بات لمبی ہو جائے گی اور آج تک مباحث کرنے سے کوئی حل تو نکلہ نہیں ۔ یہ کام تو حکومتوں کے ہوتے ہیں اور دوزخ میں جلتے ہم جیسے عوام ہیں۔
اور حکومتوں کو ہماری مباحث ‌سے کیا غرض ، ہم اپنا خون ہی جلائیں گے گڑے مردے اٹھا کر۔ سو رہنے دیتے ہیں۔
کیا خیال ہے؟

اگر سیاست کی بجائے ٹیکنیکی مسائل پر بحث و مباحثہ کیا جائے تو حل ضرور نکلیں گے!
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس ميں کوئ شک نہيں کہ دنيا کے ہر ملک کا يہ حق ہے کہ وہ ايسی پاليسياں مرتب کرے اور ايسے قوانين وضع کرے جس سے اس ملک کے عوام کے حالات زندگی بہتر ہوں۔ امريکی حکومت اس بات کو تسليم بھی کرتی ہے اور امن قائم کرنے کی کوششوں ميں ايک جمہوری اور خود مختار حکومت پاکستان کے اختيارات کا احترام بھی کرتی ہے۔

ميں اس دليل سے بھی پوری طرح متفق ہوں کہ ہر حکومت کو يہ آئينی اختيار حاصل ہے کہ وہ کسی علاقے کے لوگوں کے طرز زندگی کے عين مطابق قوانين ميں ترميم کرے۔ اس ضمن ميں يہ امر قابل توجہ ہے کہ خود امريکہ کے اندر ايسے قوانين موجود ہيں جن کا اطلاق تمام رياستوں پر نہيں ہوتا۔

يہ بات بالکل درست ہے کہ کوئ بھی حکومت لوگوں کی مرضی کے خلاف انھيں ايک خاص طرز زندگی گزارنے پر مجبور نہيں کر سکتی۔ مثال کے طور پر امريکہ کے اندر آميش کميونٹی کو يہ اختيار حاصل ہے کہ وہ اپنی مخصوص روايات کے مطابق اپنی زندگياں گزار سکتے ہيں۔

ليکن يہ وہ وجوہات نہيں ہيں جن کی بنياد پر عالمی رائے عامہ بشمول امريکہ کے بعض حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کيا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کے حوالے سے اب تک جتنی بھی تحقيق ہوئ ہے اس سے ايک بات واضح ہے کہ کسی بھی انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ، تنظيم يا جماعت کو اپنا اثر ورسوخ بڑھانے اور اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے مقامی، علاقائ يا حکومتی سطح پر کسی نہ کسی درجے ميں عملی حمايت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغير کوئ بھی گروہ کسی مخصوص علاقے میں اپنی بنياديں مضبوط نہيں کر سکتا۔

يہ محض اتفاق نہيں تھا کہ کئ افريقی ممالک میں کوششوں کے بعد اسامہ بن لادن نے القائدہ کی تنظيم نو اور اسے مزيد فعال بنانے کے ليئے طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی سرزمين کا انتخاب کيا۔ قريب دس سال پر محيط عرصے میں دنيا بھر ميں القائدہ کی دہشت گردی کے سبب سينکڑوں کی تعداد میں بے گناہ شہری مارے گئے اور يہ سب کچھ طالبان کی مکمل حمايت کے سبب ممکن ہوا۔ 11 ستمبر 2001 کا واقعہ محض ايک اتفاقی حادثہ نہيں تھا بلکہ اس کے پيچھے قريب ايک دہاہی کی منظم کوششيں شامل تھيں جس ميں طالبان نے القائدہ کو تمام تر وسائل فراہم کر کے اپنا بھرپور کردار ادا کيا تھا۔

ان تاريخی حقائق اور القائدہ اور طالبان کے مابين تعلقات اور اس کے نتيجے ميں افغانستان کے اندر دہشت گردی کے اڈوں کے قيام کے تناظر ميں کيا دعوی کيا جا سکتا ہے کہ "سوات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور سوات ميں رونما ہونے والی تبديليوں پر کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہيں ہے؟"

عالمی برادری بشمول امريکہ نے ماضی ميں طالبان حکومت کے اثرات نہ صرف قريب سے ديکھے ہيں بلکہ اس کے خونی نتائج بھی بھگتے ہيں۔

اس تناظر ميں جب يہ خبر منظر عام پر آتی ہے کہ طالبان اور ان سے وابستہ کچھ گروہ سوات ميں حکومت پاکستان کے کنٹرول سے بالا اپنا اثرورسوخ قائم کر رہے ہيں تو قدرتی طور پر يہ سوال اٹھتا ہے کہ اس اثرورسوخ کے مقاصد کيا ہيں؟

يہ بات باعث تعجب ہے کہ انٹرنيٹ پر اکثر پاکستانی نجی گروپوں کی جانب سے پاکستان کے کسی حصے پر قبضے کی حمايت کر رہے ہيں۔ خاص طور پر اس حقيقت کے پيش نظر کہ ان گروپوں کے ترجمان نے يہ واضح کيا ہے کہ وہ پاکستان کے ديگر علاقوں پر بھی اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔

اس علاقے ميں مستقل امن کے قيام کے ليے يہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچا کر اپنی رٹ قائم کرے۔ مجرموں اور دہشت گردوں کو امن کے نام پر پناہ گاہيں فراہم کرنے سے وقتی طور پر جنگ بندی تو کی جا سکتی ہے لیکن اس طريقے سے قائم ہونے والا امن عارضی ثابت ہو گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

ساجد

محفلین
اس ميں کوئ شک نہيں کہ دنيا کے ہر ملک کا يہ حق ہے کہ وہ ايسی پاليسياں مرتب کرے اور ايسے قوانين وضع کرے جس سے اس ملک کے عوام کے حالات زندگی بہتر ہوں۔ امريکی حکومت اس بات کو تسليم بھی کرتی ہے اور امن قائم کرنے کی کوششوں ميں ايک جمہوری اور خود مختار حکومت پاکستان کے اختيارات کا احترام بھی کرتی ہے۔

ميں اس دليل سے بھی پوری طرح متفق ہوں کہ ہر حکومت کو يہ آئينی اختيار حاصل ہے کہ وہ کسی علاقے کے لوگوں کے طرز زندگی کے عين مطابق قوانين ميں ترميم کرے۔ اس ضمن ميں يہ امر قابل توجہ ہے کہ خود امريکہ کے اندر ايسے قوانين موجود ہيں جن کا اطلاق تمام رياستوں پر نہيں ہوتا۔

يہ بات بالکل درست ہے کہ کوئ بھی حکومت لوگوں کی مرضی کے خلاف انھيں ايک خاص طرز زندگی گزارنے پر مجبور نہيں کر سکتی۔ مثال کے طور پر امريکہ کے اندر آميش کميونٹی کو يہ اختيار حاصل ہے کہ وہ اپنی مخصوص روايات کے مطابق اپنی زندگياں گزار سکتے ہيں۔

ليکن يہ وہ وجوہات نہيں ہيں جن کی بنياد پر عالمی رائے عامہ بشمول امريکہ کے بعض حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کيا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کے حوالے سے اب تک جتنی بھی تحقيق ہوئ ہے اس سے ايک بات واضح ہے کہ کسی بھی انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ، تنظيم يا جماعت کو اپنا اثر ورسوخ بڑھانے اور اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے مقامی، علاقائ يا حکومتی سطح پر کسی نہ کسی درجے ميں عملی حمايت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغير کوئ بھی گروہ کسی مخصوص علاقے میں اپنی بنياديں مضبوط نہيں کر سکتا۔

يہ محض اتفاق نہيں تھا کہ کئ افريقی ممالک میں کوششوں کے بعد اسامہ بن لادن نے القائدہ کی تنظيم نو اور اسے مزيد فعال بنانے کے ليئے طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی سرزمين کا انتخاب کيا۔ قريب دس سال پر محيط عرصے میں دنيا بھر ميں القائدہ کی دہشت گردی کے سبب سينکڑوں کی تعداد میں بے گناہ شہری مارے گئے اور يہ سب کچھ طالبان کی مکمل حمايت کے سبب ممکن ہوا۔ 11 ستمبر 2001 کا واقعہ محض ايک اتفاقی حادثہ نہيں تھا بلکہ اس کے پيچھے قريب ايک دہاہی کی منظم کوششيں شامل تھيں جس ميں طالبان نے القائدہ کو تمام تر وسائل فراہم کر کے اپنا بھرپور کردار ادا کيا تھا۔

ان تاريخی حقائق اور القائدہ اور طالبان کے مابين تعلقات اور اس کے نتيجے ميں افغانستان کے اندر دہشت گردی کے اڈوں کے قيام کے تناظر ميں کيا دعوی کيا جا سکتا ہے کہ "سوات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور سوات ميں رونما ہونے والی تبديليوں پر کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہيں ہے؟"

عالمی برادری بشمول امريکہ نے ماضی ميں طالبان حکومت کے اثرات نہ صرف قريب سے ديکھے ہيں بلکہ اس کے خونی نتائج بھی بھگتے ہيں۔

اس تناظر ميں جب يہ خبر منظر عام پر آتی ہے کہ طالبان اور ان سے وابستہ کچھ گروہ سوات ميں حکومت پاکستان کے کنٹرول سے بالا اپنا اثرورسوخ قائم کر رہے ہيں تو قدرتی طور پر يہ سوال اٹھتا ہے کہ اس اثرورسوخ کے مقاصد کيا ہيں؟

يہ بات باعث تعجب ہے کہ انٹرنيٹ پر اکثر پاکستانی نجی گروپوں کی جانب سے پاکستان کے کسی حصے پر قبضے کی حمايت کر رہے ہيں۔ خاص طور پر اس حقيقت کے پيش نظر کہ ان گروپوں کے ترجمان نے يہ واضح کيا ہے کہ وہ پاکستان کے ديگر علاقوں پر بھی اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔

اس علاقے ميں مستقل امن کے قيام کے ليے يہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچا کر اپنی رٹ قائم کرے۔ مجرموں اور دہشت گردوں کو امن کے نام پر پناہ گاہيں فراہم کرنے سے وقتی طور پر جنگ بندی تو کی جا سکتی ہے لیکن اس طريقے سے قائم ہونے والا امن عارضی ثابت ہو گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
فواد ، دہشت گردی کی کوئی ایک متفقہ تعریف ؟؟؟۔مطلب
Definition
 

طالوت

محفلین
عبدالمجید و دیگر افغانی احباب سے اپنے گزشتہ مراسلوں میں سخت الفاظ پر معذرت خواہ ہوں ، میرا ہرگز مقصد بحیثیت مجموعی افغانستان یا افغان قوم کو قصور وار ٹھہرانے کا نہیں تھا ، مگر بحیثیت ایک نیشنلسٹ پاکستانی جو کچھ میں محسوس کرتا ہوں اسے من و عن پیش نہ کرنا بھی منافقت سمجھتا ہوں ۔۔ مجھے اپنے مکالموں کی صحت پر اب بھی اصرار ہے مگر انداز بیان پر شرمندہ ہوں ۔۔
امید ہے احباب درگزر سے کام لیں گے ۔۔
وسلام
 
بھائی مجھے آپکے رویہ سے قطعی شکایت نہیں‌ہے ایک محب وطن کے طور پر آپکا یہ فرض بنتا تھا اور آپنے اپنا فرض ادا کردیا ہے ۔ البتہ میں‌ایک درخواست کرونگا کہ ہمیشہ کچھ لکھنے سے قبل اسپر غور کرلیا کریں‌کہ آپکے لکھے ہوئے مضمون سے کسی کی دل آزاری تو نہیں‌ہوگی ۔ مجھے پہلے بھی آپسے شکایت نہیں‌تھی اور اب بھی نہیں‌ہے بلکہ اب تو مجھے آپ پر فخر ہوا کہ آپنے اپنی غلطی کو کھلے دل سے مان لیا ہے بہت کم لوگ دنیا میں‌ایسے ملتے ہیں‌جوکہ اپنے غلطی کا احساس کرتے ہوئے اپنے انا کو مجروح کرکے معذرت کرلیتے ہیں۔
شکریہ
والسلام
 

طالوت

محفلین
شکریہ عبدالمجید ،
کیا میں اور کیا میری انا ، آپ نے معذرت قبول کی میری لیے یہی بہت خوشی کی بات ہے ۔۔ اگرچہ ذرا دیر ہو گئی کرنے میں ، کہ کچھ مصروفیت ، کچھ احساس دیر سے ہوا اور پھر میں دھاگہ بھول گیا ۔۔
ممنون
 
Top