اس ميں کوئ شک نہيں کہ دنيا کے ہر ملک کا يہ حق ہے کہ وہ ايسی پاليسياں مرتب کرے اور ايسے قوانين وضع کرے جس سے اس ملک کے عوام کے حالات زندگی بہتر ہوں۔ امريکی حکومت اس بات کو تسليم بھی کرتی ہے اور امن قائم کرنے کی کوششوں ميں ايک جمہوری اور خود مختار حکومت پاکستان کے اختيارات کا احترام بھی کرتی ہے۔
ميں اس دليل سے بھی پوری طرح متفق ہوں کہ ہر حکومت کو يہ آئينی اختيار حاصل ہے کہ وہ کسی علاقے کے لوگوں کے طرز زندگی کے عين مطابق قوانين ميں ترميم کرے۔ اس ضمن ميں يہ امر قابل توجہ ہے کہ خود امريکہ کے اندر ايسے قوانين موجود ہيں جن کا اطلاق تمام رياستوں پر نہيں ہوتا۔
يہ بات بالکل درست ہے کہ کوئ بھی حکومت لوگوں کی مرضی کے خلاف انھيں ايک خاص طرز زندگی گزارنے پر مجبور نہيں کر سکتی۔ مثال کے طور پر امريکہ کے اندر آميش کميونٹی کو يہ اختيار حاصل ہے کہ وہ اپنی مخصوص روايات کے مطابق اپنی زندگياں گزار سکتے ہيں۔
ليکن يہ وہ وجوہات نہيں ہيں جن کی بنياد پر عالمی رائے عامہ بشمول امريکہ کے بعض حلقوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کيا جا رہا ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے اب تک جتنی بھی تحقيق ہوئ ہے اس سے ايک بات واضح ہے کہ کسی بھی انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ، تنظيم يا جماعت کو اپنا اثر ورسوخ بڑھانے اور اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے مقامی، علاقائ يا حکومتی سطح پر کسی نہ کسی درجے ميں عملی حمايت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغير کوئ بھی گروہ کسی مخصوص علاقے میں اپنی بنياديں مضبوط نہيں کر سکتا۔
يہ محض اتفاق نہيں تھا کہ کئ افريقی ممالک میں کوششوں کے بعد اسامہ بن لادن نے القائدہ کی تنظيم نو اور اسے مزيد فعال بنانے کے ليئے طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی سرزمين کا انتخاب کيا۔ قريب دس سال پر محيط عرصے میں دنيا بھر ميں القائدہ کی دہشت گردی کے سبب سينکڑوں کی تعداد میں بے گناہ شہری مارے گئے اور يہ سب کچھ طالبان کی مکمل حمايت کے سبب ممکن ہوا۔ 11 ستمبر 2001 کا واقعہ محض ايک اتفاقی حادثہ نہيں تھا بلکہ اس کے پيچھے قريب ايک دہاہی کی منظم کوششيں شامل تھيں جس ميں طالبان نے القائدہ کو تمام تر وسائل فراہم کر کے اپنا بھرپور کردار ادا کيا تھا۔
ان تاريخی حقائق اور القائدہ اور طالبان کے مابين تعلقات اور اس کے نتيجے ميں افغانستان کے اندر دہشت گردی کے اڈوں کے قيام کے تناظر ميں کيا دعوی کيا جا سکتا ہے کہ "سوات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور سوات ميں رونما ہونے والی تبديليوں پر کسی کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہيں ہے؟"
عالمی برادری بشمول امريکہ نے ماضی ميں طالبان حکومت کے اثرات نہ صرف قريب سے ديکھے ہيں بلکہ اس کے خونی نتائج بھی بھگتے ہيں۔
اس تناظر ميں جب يہ خبر منظر عام پر آتی ہے کہ طالبان اور ان سے وابستہ کچھ گروہ سوات ميں حکومت پاکستان کے کنٹرول سے بالا اپنا اثرورسوخ قائم کر رہے ہيں تو قدرتی طور پر يہ سوال اٹھتا ہے کہ اس اثرورسوخ کے مقاصد کيا ہيں؟
يہ بات باعث تعجب ہے کہ انٹرنيٹ پر اکثر پاکستانی نجی گروپوں کی جانب سے پاکستان کے کسی حصے پر قبضے کی حمايت کر رہے ہيں۔ خاص طور پر اس حقيقت کے پيش نظر کہ ان گروپوں کے ترجمان نے يہ واضح کيا ہے کہ وہ پاکستان کے ديگر علاقوں پر بھی اپنا اثر ورسوخ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہيں۔
اس علاقے ميں مستقل امن کے قيام کے ليے يہ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچا کر اپنی رٹ قائم کرے۔ مجرموں اور دہشت گردوں کو امن کے نام پر پناہ گاہيں فراہم کرنے سے وقتی طور پر جنگ بندی تو کی جا سکتی ہے لیکن اس طريقے سے قائم ہونے والا امن عارضی ثابت ہو گا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov