سوات ڈیل مبارک ہو

میں عموما ہمت برادر کے کسی مراسلے کا جواب دیے بغیر آگے بڑھ جاتی ہوں، مگر صرف ایک جملے کہنا چاہتی ہوں کہ شاید آپ اپنی تصحیح کر سکیں اور وہ یہ کہ نظام عدل طالبان نے بندوق کی نال رکھ کر اور اے این پی کے سینکڑوں ممبران کو قتل کر کے زبردستی نافذ کروایا ہے۔
کسی کو یرغمال بنا کر رقم حاصل چاہے مشاورت سے کی جائے، رہے گا یہ جرم ہی اور ہماری قوم کو ابھی تک یرغمال ہے اور زرداری اور پارلیمنٹ نے خوشی سے نہیں بلکہ اسی یرغمالی زبردستی کے تحت یہ ڈیل کی ہے۔ اگر آپ اس چیز کا ادراک نہیں کرنا چاہیں تو کوئی آپ کو یقینا مجبور نہیں کر سکتا۔

بیٹی نہ مجھے نہ اپ کو کوئی مجبور کررہاہے۔
پارلیمنٹ اور صدر کو بھی اگر یرغمال بنالیا گیا ہے تو یہ یرغمال بنانے والوں‌ کی جیت ہے۔
یہ بات شاید اپ کے حلق سے نہیں‌اتررہی کہ پارلمینٹ کی متفقہ قرارداد پاس ہوئی ہے اب یہ قانون پاکستان کی ریاست کا حصہ ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اب آپ بالکل صحیح سمجھی ہیں، :applause: مبارک ہو۔۔۔۔:blushing:
بھئی مجھ سے تو سوالات تب کرو جب خبر میں‌نے خود بنائی ہو یا میں‌خود لے کے آیا ہوں۔
اوپر اس اخبار کا نام اور logoاسی لئے پوسٹ کیا تھا، کہ پتا چلے یہ حرکت میری اپنی نہیں ہے۔۔۔۔۔یہاں خبر رساں دراصل ایکسپریس نیوز والے ہیں، میں نہیں۔۔۔۔:chatterbox:


آپ سے یہ بھی امید ہے کہ گفتگو میں آدابِ گفتگو کو نظر انداز نہیں کریں گے ۔

شکریہ
 
ہمت بھائی

بہت مناسب ہو گا اگر آپ مذکورہ تفصیلی و جامع جواب پہلے فراہم کر دیں ، تاکہ گفتگو تعمیری طرز پر آگے بڑھ سکے ۔ شکریہ


بیٹی میں‌نے تو کوئی تخریبی گفتگو نہیں‌کی۔ خوامخواہ کا الزام نہ دھریے
پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد منظور کی ہے۔ صدر نے منظور کیا ہے۔ مبارک ہو۔
تخریبی گفتگو تو یہ ہے کہ پاکستان کی عوام، پارلیمنٹ اور صدر یرغمال ہے اس پر تو اپکو اعتراض ہونا چاہیے اگر کچھ سمجھ ہو۔

زحمت نہ ہو تو قومی اسمبلی کی کاروائی کا متن پڑھ لیں تاکہ کیا قرارداد منظور ہوئی اپ کی سمجھ میں‌اجائے اور تعزیرات پاک و ہند بھی پڑھ لیجیے تاکہ یہ معلوم پڑے کہ کونسا قانون پاکستان میں چلتاہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
کیا ہو گیا ہے ہمت بھائی ، الزام کہاں سے دکھائی دے گیا :rolleyes:


گفتگو میں کئی اراکین شامل ہوتے ہیں ، چونکہ آپ نے وعدہ کیا کہ تفصیلی و جامع جواب فراہم کریں گے جلد تو میں اسی کے لیے درخواست کی ہے کہ جلد فراہم کر دیں تاکہ اراکین جو بھی گفتگو میں شامل ہیں یا ہونا چاہیں تو سب اراکین تعمیری گفتگو آگے بڑھا سکیں ۔ چلیں اب جلدی سے فراہم کر دیں ۔ ۔ ۔ مزید کوئی الزام نہیں ڈھونڈنے بیٹھ جانا ہے اب :happy:


شکریہ
 

زیک

مسافر
چونکہ متعدد تھریڈز میں وہی خبریں اور وہی تجزیے پوسٹ کئے جا رہے تھے اس لئے میں نے انہیں اکٹھا کر دیا ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ہمارے جمہوری سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے آج پارلیمنٹ میں وہ کیا ہے جس کے بعد بس یہی یاد آ رہا ہے


" they came first for the communists, and i didn’t speak up because i wasn’t a communist;

and then they came for the trade unionists, and i didn’t speak up because i wasn’t a trade unionist;

and then they came for the jews, and i didn’t speak up because i wasn’t a jew;

and then . . . They came for me . . . And by that time there was no one left to speak up"​

آج طالبانی فتنے کی زد میں آ کر ہزاروں معصوموں کے خون کے بعد ہماری پارلیمنٹ میں جو خاموشی تھی یہ بے اثر نہیں جائے گی۔ کل جب طالبان انہیں لیڈروں کو اسی پارلیمنٹ سے نکال کر لٹکا رہے ہوں گے تو ان کے لیے بھی بولنے والا کوئی نہ بچا ہو گا۔
 
کیا ہو گیا ہے ہمت بھائی ، الزام کہاں سے دکھائی دے گیا :rolleyes:


گفتگو میں کئی اراکین شامل ہوتے ہیں ، چونکہ آپ نے وعدہ کیا کہ تفصیلی و جامع جواب فراہم کریں گے جلد تو میں اسی کے لیے درخواست کی ہے کہ جلد فراہم کر دیں تاکہ اراکین جو بھی گفتگو میں شامل ہیں یا ہونا چاہیں تو سب اراکین تعمیری گفتگو آگے بڑھا سکیں ۔ چلیں اب جلدی سے فراہم کر دیں ۔ ۔ ۔ مزید کوئی الزام نہیں ڈھونڈنے بیٹھ جانا ہے اب :happy:


شکریہ

بیٹی کہا توہے کہ

زحمت نہ ہو تو قومی اسمبلی کی کاروائی کا متن پڑھ لیں تاکہ کیا قرارداد منظور ہوئی اپ کی سمجھ میں‌اجائے اور تعزیرات پاک و ہند بھی پڑھ لیجیے تاکہ یہ معلوم پڑے کہ کونسا قانون پاکستان میں چلتاہے۔
اب اپ ہی کچھ محنت کرو شابش
 

گرائیں

محفلین
اکستان کے صوبہ سرحد کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات میں نافذ کردہ ’شرعی ریگولیشن 2009‘ کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بینچ بھی متعلقہ علاقوں میں قائم ہوں گے اور تمام عدالتوں میں تعیناتی پاکستان کے آئین کے تحت ہوگی۔

گزشتہ روز منظور کیے جانے والے سولہ صفحات پر مشتمل شرعی ریگولیشن کے مطابق شرعی عدالتوں کے احکامات پر تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سروس آف پاکستان کے حکام عمل کرانے کے پابند ہوں گے۔ اس شرعی ضابطے کا اطلاق مانسہرہ سے ملحقہ قبائلی علاقہ جات اور سابقہ ریاست امب کے علاقوں کے علاوہ جو بھی صوبائی قبائلی علاقے ہیں وہاں پر ہوگا۔ متعلقہ علاقہ جات میں قائم عدالتوں کے زیر سماعت مقدمات کے فیصلے بھی شرعی قانون کے مطابق ہوں گے۔

شرعی عدالتوں میں جو فریق جس فقہ سے تعلق رکھتا ہوگا اس پر سنت نبوی کی وہی تشریح لاگو ہوگی جس فقہ سے ان کا تعلق ہوگا۔ غیر مسلموں کے خلاف شرعی قوانین کے تحت فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ ان کے مروجہ قوانین، متعلقہ روایات اور اصولوں کے تحت فیصلے ہوں گے۔ ان عدالتوں کی تمام کارروائی اردو، پشتو یا انگریزی زبانوں میں ہوگی۔

اس ضابطے کے تحت شرعی قوانین میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاص کو بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے بینچ بھی متعلقہ علاقوں میں قائم ہوں گے۔ سپریم کورٹ کا نام ’دارل۔دارلاقضا‘ جبکہ ہائی کورٹ کا نام ’دارلاقضا‘ ہوگا۔ ان کے ججوں کو قاضی کہا جائے گا۔ ڈسٹرک اینڈ سیشن جج ضلع قاضی، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن جج اضافی ضلع قاضی، سینیئر سول جج اعلٰی علاقہ قاضی اور سول جج/ مجسٹریٹ علاقہ قاضی کہلائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایگزیکٹو میجسٹریٹ کی عدالت بھی قائم ہوگی۔

سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی بینچوں پر تعیناتی پاکستان کے آئین کے مطابق ہوگی۔ ماتحت عدلیہ میں صوبائی حکومت قابل جوڈیشل افسر تعینات کرے گی اور حکومت کے تسلیم شدہ تعلیمی اداروں سے شرعی کورس کرنے والے افراد کو ترجیح دی جائےگی۔ تمام جوڈیشل افسران کا کردار اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔ ہر ضلع میں حکومت ضلع مجسٹریٹ، ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ، سب ڈویزنل اور ایگزیکٹو مجسٹریٹ تعینات کرے گی۔ لیکن وہ تمام امور شریعت کے مطابق سرانجام دیں گے۔ مجسٹریٹ ضابطہ فوجداری، خصوصی یا علاقائی قوانین کے تحت ایسے معاملات جس میں سزائیں تین سال تک ہیں ان کی سماعت کرسکیں گے۔
شرعی ریگولیشن کے مطابق قاضی یا ایگزیکٹو مجسٹریٹ کی عدالت میں مقدمہ درج ہونے کے چودہ روز کے اندر متعلقہ پولیس افسر چالان پیش کرنے کا پابند ہوگا۔ اگر کسی معاملے میں قاضی یا مجسٹریٹ مدت بڑھائیں تو وہ اس کی وجوہات تحریر کرنے کے پابند ہوں گے۔ اگر کوئی پولیس افسر مقررہ وقت میں چالان پیش نہ کرے تو قاضی یا مجسٹریٹ کی سفارش پر متعلقہ پولیس افسر کے خلاف فوری انضباتی کارروائی ہوگی اور اس بارے میں شکایت کنندہ کو آگاہ کیا جائے گا۔

کسی تھانے پر مقدمہ درج ہونے کے چوبیس گھنٹے کے اندر پولیس افسر متعلقہ قاضی یا مجسٹریٹ کو اطلاع دینے کا پابند ہوگا۔ دوران تفتیش پولیس افسر پیش رفت کے متعلق بھی مجاز حکام کو معلومات فراہم کرےگا۔ پولیس افسر ہر مقدمے کا جوڈیشل فائل تیار کرنے کے علاوہ اس کی تین کاپیاں بھی جمع کرانے کا پابند ہوگا۔

سول یا دیوانی معاملات میں مدعا علیہ سات روز کے اندر جواب دینے کا پابند ہوگا، بصورت دیگر عدالت دفاع کا حق ختم سمجھتے ہوئے فیصلہ کرسکتی ہے۔ لیکن اگر عدالت ضروری سمجھے تو سات روز کا مزید وقت بھی دیا جاسکتا ہے لیکن اس سے زیادہ کسی صورت اضافی وقت نہیں دیا جاسکتا۔ عدالت گواہی مکمل ہونے پر فریقین کو زبانی یا تحریری طور پر دلائل کا ایک بار پھر موقع دے گی اور مقررہ تاریخ سے زیادہ معاملے کو طول دیے بغیر فیصلہ سنانے کی پابند ہوگی۔

فوجداری اور سول مقدمات میں اگر عدالت سے کوئی فریق تاریخ مانگے تو اس کے اضافی اخراجات جو کم از کم دو ہزار روپے ہوں گے وہ متعلقہ فریق ادا کرنے کا پابند ہوگا۔ شرعی قانون کے تحت سول کیس کا زیادہ سے زیادہ چھ ماہ اور فوجداری مقدمے کا فیصلہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک فیصلہ کرنا لازم ہوگا۔

قاضی کے خلاف اگر کوئی شکایت ہے تو ضلع قاضی انہیں ناپسندیدگی کا خط لکھے گا اور اگر کسی قاضی کو ایک سال میں تین ایسے خط ملیں گے تو اس کا اندراج سروس ریکارڈ میں بھی ہوگا۔ اگر کسی ضلع قاضی یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں زیر التویٰ مقدمات کی تعداد ڈیڑھ سو اور اعلٰی علاقہ قاضی کی عدالت میں زیر التویٰ مقدمات کی تعداد دو سو ہوجائے گی تو حکومت ایک اور متعلقہ عدالت قائم کرنے کی پابند ہوگی۔

عدالتیں فریقین کی رضامندی سے حدود قوانین کے علاوہ کسی فوجداری یا سول معاملے کو مصلح/ مصلحین یعنی صلح کرانے والے کے پاس بھی بھیج سکتی ہیں۔ مصلح/ مصلحین فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنی رائے بمع اسباب تحریر کرے گا۔

کسی فریق کی شکایت پر یا عدالت خود سے بھی کوئی معاملہ مصلح/ مصلحین سے واپس بھی لے سکتی ہے۔ مصلحین پندرہ روز میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ مصلحین کا فیصلہ اکثریت رائے کا تسلیم ہوگا لیکن اختلاف رائے کرنے والا اپنا نکتہ نظر بھی تحریر کریں گے اور عدالت اس پر مزید کارروائی کرے گی۔ مصلح/ مصلحین اگر تفتیش کی غرض سے کہیں جاتے ہیں تو انہیں اخراجات ادا کیے جائیں گے

http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/04/090414_sharia_detail_rh.shtml
 

فرخ

محفلین
فرخ

آپ نے اپنا نکتہ نظر واضح کر دیا ہے کہ آپ محض خبررسانی تک محدود رہنا چاہتے ہیں بھلے آپ متعلقہ خبر کے حوالے سے صاحبِ علم نہ بھی ہوں ۔

نکتہ نظر کی وضاحت و صراحت کے لیے شکریہ

اب چونکہ آپ " آج کی خبر" کے زمرہ کو محض خبر رسانی تک محدود سمجھ چکے ہیں اور اس کا اقرار کر چکے ہیں تو اب آپ کیا مذکورہ فورم سے اپنے تمام ایسے پیغامات حذف کر دیں گے کیا جو خبر رسانی سے ہٹ کر ہوں اور خبر رسانی سے بڑھ کر سوال و جواب کے دائرے میں آ جاتے ہوں ؟

دوم یہ کہ کیا آپ نے اپنے نکتہ نظر کے مطابق کبھی اس ضرورت کو محسوس کیا کہ آپ کو خبر رسانی کے بعد گفتگو میں شرکت نہیں کرنا چاہیے ؟

سوم ، کیا آپ آئندہ بھی صرف خبر رسانی ہی کریں گے اور بس ؟


یہ میرا انٹرویو ہو رہا ہے؟
 

مہوش علی

لائبریرین

مہوش علی

لائبریرین
سوات کی حالت اور طالبانی فتنے کے اصل چہرے پر اس سے اچھا آرٹیکل مجھے نہیں ملا۔
کاش کہ یہ اردو میں ہوتا۔

monday, april 13, 2009
farhat taj

on feb 16 a peace agreement was signed between sufi mohammad, leader of the tehrik-e-nifaz-e-shariat-e-mohammadi (tnsm) and the government of the nwfp with complete blessing of the ppp-led federal government. Sufi mohammad reached swat with a promise to convince his son-in-law, maulana fazlullah, and his fighters to surrender weapons for the sake of peace. Two months after the peace deal, how is life in swat? What is happening to people? Is the peace deal working?

‘the peace deal is not working and will fall sooner than later,’ veteran anp politician afzal khan lala tells me. He is the only politician who is still standing up to the barbaric taliban in swat despite several death threats and the demands of his old age — the rest of the anp leadership has fled the area. During a telephone conversation, he elaborated: ô’the peace deal has been made by non-swatis. People of swat have not been taken into confidence on the deal. also, i was never consulted by the anp government in making of the peace deal.

day-to-day happenings in swat clearly indicate that the apprehensions of afzal khan lala are not misplaced and the peace deal has been strengthening the writ of the taliban over swatõs 5,337-square-kilometre area. The taliban have made the 1.7 million people of swat hostage, and the people continue to suffer. The government in swat seems helpless and paralysed. I will elaborate it with some examples.

fazlullah, the leader of swat taliban, led the prayer at his home village, mamdirai on friday, april 3. He was warmly received by his followers, as well as military officials and officials of the district administration. Those who prayed behind him were key military and civil officers—including brigadier tahir mubeen, syed javed hussain, the commissioner of malakand region, khushhal khan, the dco of swat, danishwar khan, swatõs dpo and the man in charge of operation rah-e-haq. After the prayers fazlullah gave an emotional and threatening speech which was heard with zeal and respect by all, including the military and civil officials, like obedient subjects. How funny is it that key state functionaries are praying behind the terrorist who killed soldiers of the pakistani army, nwfp police officers and civilians of the valley. during the telephone conversation with this writer afzal khan lala said: ‘there cannot be two swords in one sheathe. There cannot be two kings of one land. In swat one king is fazlullah and the other the government.’ the conduct of the state functionaries in swat showed who the real king of swat is.

The people of swat owe an explanation from the pakistani army and the government of the nwfp. Would the army care to explain why its commander in swat was offering namaz behind the terrorists who killed soldiers of the army and policemen? Would the anp government care to explain why its senior-level government servants pray behind a terrorist who killed civilians in the very constituency that elected the anp to power? it is also pertinent to mention that police in swat have registered at least 60 cases related to suicide bombings, kidnappings, attacks on civilians, police and armed forces and damage to public and private property against fazlullah.

taliban have created their own income-generation sources in swat. they have taken over the possession of the famous mingora emerald mines. mingora city is the district headquarters and a busy commercial centre of the valley. The shamozai emeraled mine, some 25 kilometres from mingora and now the gujaro killay emerald mine in the adjacent district of shangla are also under the control of the swat taliban. Mining is in progress in these mines and precious stones are auctioned in the premises of the mingora mine every sunday, where the dealers from all over pakistan come for shopping. Federal and provincial governments have kept silent over this looting and plunder of state properties.

the taliban are in league with the timber mafia. They are mercilessly cutting the forests of malamjaba, fatehpur, miandam and lalko. They also cut the fruit orchards of the landlord opponent to them. The fruit orchards in barabandi, on the main road and near to army check post, have been cut down in broad daylight. Barabandi is some six kilometres from mingora.

the taliban have plundered the training institute for hotel management (paitahm), a joint venture of pakistan and austria, and the malam jaba tourist resort. The taliban have carried away its furniture, computers and electric appliances, even its doors, windows and ventilators. They have established a warehouse in barabandai where all these things are auctioned. The taliban call it mal-e-ghanimat (war booty). this is another of the income-generation sources of the taliban.

the taliban militancy is spreading towards the lower part of malakand. The taliban have banned women from markets and bazaars in batkhela and thana towns in malaknd. Thanaõs mina bazaar, a famous market popular with women, has been razed to the ground.

there are several new training camps in swat where the taliban train teenage boys for militancy. The boys belong to the schools that have been destroyed by the taliban. Lack of occupation and the jihadi preaching of the taliban turn swatõs young men to jihad. Their schools are destroyed. The taliban have banned tv and music and playing of cricket. The young men have no activity and the taliban constantly invite them to jihad. Hundreds of boys have joined the training camps, most of them without the permission of their parents. According to the talibanõs version of jihad, parentsõ permission is not needed at all. The helpless parents have nobody to ask for help in order to stop their children from joining the taliban. The taliban threatens parents who stop their children from joining the so-called jihad.

some months down the road pakistani right-wingers and so-called liberal leftists obsessed with anti-americanism will say that the taliban are popular in swat and the proof is that their ranks have grown. But today no one is paying attention to the plight of the helpless parents who earnestly wish to stop their children joining the ranks of the taliban but have no one in the entire pakistan to help them.

the swat taliban sent 350 fighters to strengthen the dir taliban. People in dir have made a local peopleõs army against the taliban. To combat the local peopleõs army the dir taliban sent an sos call to the swat taliban, who sent armed taliban to dir to slaughter the people of dir.

more than a hundred taliban crossed from swat into the adjacent district of bunair on april 5. Arms clashes have been reported between the militants and the armed lashkar. The army has vacated many check posts on the demand of the militants in swat. The taliban are not allowing the army to enter the areas that they were occupying. Commenting on this situation afzal khan lala said: ‘the army will meet tough resistance and will suffer a great deal when retaking the area because the taliban have strengthened their positions in swat.’



the writer is a research fellow at the centre for interdisciplinary gender research, university of oslo, and a member of aryana institute for regional research and advocacy. Email: bergen34@yahoo.com

http://thenews.jang.com.pk/daily_detail.asp?id=172210

وقت ملنے پر میں طالبانی فتنے کے ان جرائم کی لسٹ کو اردو میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

آپ سب اسے غور سے پڑھہیں۔ اہم نکات یہ ہیں کہ

1۔ اے این پی بنیادی طور پر سوات ڈیل کے بالکل مخالف تھی، اور سوات کے علاقے کے اے این پی کے لوگ مارے جا چکے ہیں مگر جو افضل لالہ جیسے لوگ جو باقی ہیں ان سے پوچھے بغیر اے این پی نے جوا کھیلتے ہوئے یہ ڈیل کی ہے۔
میں نے پہلے ایک مراسلے میں اے این کا موقف پیش کیا تھا کہ سینکڑون کارکنوں کے مارے جانے کے بعد جب پاک فوج انہیں بچانے نہیں آئی تو اپنی جان خود بچانے کے لیے انکے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں۔

2۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ سوات علاقے کی فوج کا کمانڈر برگیڈیئر خود طالبان کا حامی ہے اور اسکے وعظ سنتا ہے۔
اور سوات کا کمشنر کود فضل الللہ کے وعظ سنتا ہے اور یہ وہی شخص ہے جس طالبان کے لیے جھوٹی قسم کھائی تھی کہ ویڈیو جعلی ہے اور ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ۔۔جبکہ طالبان کا مسلم خان خود اس واقعے کی تصدیق کر رہا تھا اور اپنی رحمدلی کے قصیدے پڑھ رہا تھا کہ اصل میں لڑکی کو تو 90 کوڑے پڑنے چاہیے تھے۔
ان کے علاوہ پولیس اور بقیہ بڑے افسران یا تو خود طالبان ہیں یا پھر اپنی جان کے ڈر سے فضل اللہ کا وعظ سنے آتے ہیں حالانکہ فضل اللہ کے خلاف پولیس میں قتل و دہشتگردی کی 60 ایف آئی آر درج ہیں، مگر بجائے گرفتار کرنے کے انہیں اسکا جہادی وعظ سننا اچھا لگتا ہے۔


3۔ سوات میں طالبان کی حکومت نہیں مگر وہ لوگوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں؛ زمرد کی کانوں پر قابض ہیں؛ لوگوں کے گھروں پر قابض ہیں؛ گورنمنٹ کی عمارتوں پر قابض ہیں اور اسکا فرنیچر اور دیگر سامان بیچ رہے ہیں اور وہ اسے مال غنیمت کہہ رہے ہیں
اور طالبان لکڑی کا سب سے بڑا مافیا بن چکا ہے اور جنگلات کی یوں صفائی کر رہا ہے کہ اس سے قبل نہیں کی گئی اور یوں طالبان اپنی کمائی میں اضافہ کر رہے ہیں
اور انہوں ننے اپنے سیاسی مخالفین کے باغوں کے ہزاروں درخت تباہ و برباد کر دیے ہیں

4۔ طالبان اب مالاکنڈ سے نکل کر دوسرے علاقوں تک اپنا فتنہ پھیلا رہے ہیں۔
ل۔۔ جاری ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
4۔ طالبان اب مالاکنڈ میں کیمپ قائم کر کے اپنا فتنہ دوسرے علاقوں تک پھیلا رہے ہیں اور دیگر علاقوں کی مساجد میں طالبان کے لیے بھرتی کرواتے ہیں۔
دیر کے علاقے کے لوگوں نے اسکے خلاف آواز اٹھائی تو طالبان نے دیر کی مقامی طالبان کی مدد کے لیے کمک بھیجی جس نے مل کر دیر کے لوگوں کا قتل عام کیا جو طالبان کی مخالفت کر رہے تھے۔

5۔ طالبان بچوں اور نوجوانوں کو مسلسل اپنے قائم کردہ دہشتگردی کی ٹریننگ کیمپوں‌میں بھیج رہا ہے۔ وہاں بچوں کو کرکٹ کھیلنے یا ٹی وی دیکھنے یا کسی بھی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔
طالبان ان بچوں کو کہتے ہیں کہ انہیں طالبانی جہاد کرنے کے لیے اپنے والدین کی اجازت کی ضرورت نہیں۔
ہزاروں لوگ طالبان کے ساتھ شامل ہیں کیونکہ انکے پاس کوئی اور کمائی کا ذریعہ نہیں۔

آپ میں سے جو لوگ انگریزی سمجھ سکتے ہوں وہ اس آرٹیکل کو ضرور پڑھہیں۔
 

خرم

محفلین
مہوش بہنا کیوں خون جلاتی ہیں اپنا؟ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے۔ کہاں کا اسلام اور کیسا اسلام؟ یہ سب طاقت کا کھیل ہے۔ ویسے بھی اس معاشرہ کے سدھرنے کے لئے شائد ایک بہت بڑے جھٹکے کی ضرورت ہے۔ اللہ نہ کرے وہ وقت آئے لیکن آثار کچھ اتنے اچھے بھی نہیں۔ فی الوقت تو ایک خونی خانہ جنگی کا خطرہ حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اللہ نہ کرے لیکن اگر ایسا ہونا ٹلتا نہیں دکھتا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
وہ اونٹ جس نے اپنی ناک خیمے میں اندر کی تھی، اب اپنا پورا چہرہ اندر لا چکا ہے۔
افسوس صد افسوس کہ سوات ڈیل کے نام پر قوم نے اپنے آپ کو طالبانی فتنے کے رحم وکرم پر ڈال دیا ہے۔
pakistani swat taliban refuse to give up arms


source: Deutsche presse agentur (dpa)

date: 14 apr 2009


islamabad_(dpa) _ taliban militants in pakistan's restive north-western swat valley on tuesday refused to lay down arms hours after pakistani government approved islamic sharia law for the troubled north-western region, to honour a truce with them.

"my brother, we have only conventional weapons - and islamic sharia gives people the right to keep them. Islamic jihad will continue until judgement day," taliban spokesman muslim khan told geo television's capital talk show.

the statement came hours after president asif ali zardari signed the controversial regulation introducing islamic law in eigیht districts of malakand region including swat, immediately after the national assembly approved it unanimously late monday.​

اب یہ شریعت کے نام پر ہی خود سوات ڈیل کو پامال کر دیں گے اور اسلحہ رکھ کر اپنے فتنے سے باز آ جانا دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔
اب یہ اسلامی جہاد کے قیامت تک باقی ہونے کے نام پر سب سے پہلے اسی سوات ڈیل کو پامال کریں گے اور اپنی دہشتگردی ملک کے کونے کونے میں بذریعہ اسی اسلحہ اور جہاد کے ایکسپورٹ کریں گے۔
مگر ہمارے سیاسی لیڈر اور مذہبی جنونی حمایتی جو میڈیا بلکہ ہر ہر جگہ ہمارے درمیان بیٹھے ہیں، انہوں نے پھر اسی شریعت کو استعمال کرتےہوئے طالبانی فتنے کی سوات ڈیل کی پامالی کا دفاع شروع کر دینا ہے۔
 
1973ء کا متفقہ آئین منظور کرنے والوں نے تو پورے ملک میں ایک آئین کے نفاذ کی تمنا کی تھی ایک عدالتی نظام کو لوگوں کے لئے انصاف کا سرچشمہ بنایا تھا ۔اب سوال پیداہوتاہے کہ اس نظام عدل کے تحت ہونے والے فیصلوں کو کسی دوسری عدالت میں چیلنج کیا جا سکے گا یا نہیں؟ اگر یہ نظام کامیابی سے ہمکنار ہوا تو کیا اسی نوع کا نظام ملک کے دوسرے حصوں میں بھی رائج کیا جائے گا اگر یہ نظام عوام بشمول خواتین کو ان کے حقوق نہ دے سکا تو کیااسے شریعت کی ناکامی کا نام دینا ممکن ہوگا؟
 
انتظارکرو اور دیکھو۔
اگر قوم کا یہ فیصلہ منظور نہیں تو دعا کرو کہ یہ ناکام ہو۔ امن ختم ہو۔ اور ظالم اپ کی گردن ناپے اور اپ ظالم کے گن گاو۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ میرا انٹرویو ہو رہا ہے؟

کیا آپ حقیقت میں اتنے ہی ناسمجھ ہیں یا بظاہر ناسمجھ نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟

اگر آپ ناسمجھ ہیں تو ایسی صورت میں آپ کو سنجیدہ موضوعات پر گفتگو میں شریک ہونے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی سنجیدہ خبروں کی خبر رسانی کرنا چاہیے تاوقتیکہ آپ کے اندر سنجیدہ موضوعات کو سمجھنے اور ان پر گفتگو میں شریک ہونے کا حوصلہ پیدا ہو جائے ۔

اگر آپ ناسمجھ نہیں ہیں اور بظاہر ناسمجھ نظر آنے کی کوشش کر رہے ہیں تو پھر آئیں بائیں شائیں کرنے کی بجائے حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمت و جرات آپ میں ہونی چاہیے بجائے اس کے کہ سوال گندم جواب چنا کرنے لگیں !!


 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
بیٹی تفصیلی و جامع جواب تو بعدمیں‌لکھوں‌گا انشاللہ
ابھی اتنا ہی کہ موجودہ قانون جو پاکستان ہو ہندوستان میں‌ہے ایک ہی ہے جو انگریز نافذ کرگیا ہے
جبکہ نظام عدل ایک دوسرا نظام ہے جس ک ماخد اسلام ہے۔



بیٹی کہا توہے کہ

زحمت نہ ہو تو قومی اسمبلی کی کاروائی کا متن پڑھ لیں تاکہ کیا قرارداد منظور ہوئی اپ کی سمجھ میں‌اجائے اور تعزیرات پاک و ہند بھی پڑھ لیجیے تاکہ یہ معلوم پڑے کہ کونسا قانون پاکستان میں چلتاہے۔
اب اپ ہی کچھ محنت کرو شابش



یہ دونوں پیغامات آپ کے ہی ہیں ناں !!

چند ہی گھنٹوں کے اندر آپ نے اپنا بیان تبدیل کر دیا ۔ یا تو آپ نے پہلے بغیر سوچے سمجھے لکھ دیا تھا یا پھر بعد والا بیان بغیر سوچے سمجھے لکھ دیا ہے ۔ آپ بزرگ ہیں آپ محنت کرنا شروع کیجیے ہم جونیئرز ضرور آپ کا ساتھ دیں گے البتہ اگر آپ کی سوچ یہ ہو کہ صرف ہم جونیئرز ہی محنت کریں تو پھر بہت مناسب ہو گا کہ آپ بغیر سوچے سمجھے محض باتیں کرنے سے اجتناب کیجیے تاکہ ہم جونیرز کماحقہ محنت کرسکیں ۔ شکریہ


 
Top