سوات ڈیل مبارک ہو

arifkarim

معطل
عبداللہ آپکے حسین سے دستخط پر صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ پاگل وحشی بھیڑے یعنی امریکہ نے ہی یہ پاگل کتے یعنی طالبان تخلیق کیے ہیں۔
 

جہانزیب

محفلین
لوگ اتنی محنت سے یہ ثابت کرنے میں‌ لگے ہیں‌ کہ ایسا کچھ واقعہ پیش ہی نہیں‌ آیا، کالم پر کالم چھاپے جا رہے ہیں‌ لیکن سچ چھپا نہیں‌ رہ سکتا
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبہ سرحد کی حکومت کی رپورٹ کے مطابق سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کا واقعہ تین مہینے پرانا ہے اور امن معاہدے کے بعد اس معاملے کو میڈیا پر اچھالنے سے پاکستان اور اسلام کا امیج متاثر ہوا ہے
ماخذ
لیکن اب یہاں‌ ایسے لوگ بھی ہوں‌ گے جو وفاقی وزیر اطلاعات سے بھی زیادہ خبردار ہوں‌ شائد ۔
 
لوگ اتنی محنت سے یہ ثابت کرنے میں‌ لگے ہیں‌ کہ ایسا کچھ واقعہ پیش ہی نہیں‌ آیا، کالم پر کالم چھاپے جا رہے ہیں‌ لیکن سچ چھپا نہیں‌ رہ سکتا

ماخذ
لیکن اب یہاں‌ ایسے لوگ بھی ہوں‌ گے جو وفاقی وزیر اطلاعات سے بھی زیادہ خبردار ہوں‌ شائد ۔

جہانزیب آپ ایک بار پھر غور سے کمشنر مالا کنڈ کا بیان پڑھیں یعنی اس مبینہ ویڈیو کے علاوہ اطلاعات ہیں کہ کوئی اور واقعہ جس میں کوڑوں کی سزا دی گئی تھی وہ سوات میں امن معاہدے سے پہلے کا ہے جس میں کسی لڑکی کو بند کمرے میں یہ سزا ناجائز تعلقات کے شبہ میں سنائی گئی لیکن اس واقعے کی بھی مکمل تفصیلات موجود نہیں ہیں یہ ساری کنفیوژن اسی لیے پھیل رہی ہے۔اور دوسری بات یہ کہ وزیر اطلاعات یہ اطلاع سرحد حکومت کی رپورٹ کی بنیاد پر دے رہے ہیں اور اب نہ صرف کمشنر مالاکنڈ بلکہ وزیر اعلی سرحد بھی اس واقع کو جھٹلا چکے ہیں۔
 

زینب

محفلین
الطاف حسین کووہ دور دوسرے صوبے کے پہاڑی علاقے کی نامعلوم لڑکی سے ہمدردی ہے کہ اسے سیاست چمکانےا ور 2 تین گھنٹے ٹیلی فونک خطاب کا بہانہ چاہیے پر اسے اسی کے صوبے میں سندھ میں سکھر کی اس عورت سے کوئی ہمدردی نہیں جس کے شوہر نے اسے کاری قرار دے کے اس کی ناک کاٹ دی اور وہ ہسپتال میں زیر علاج ہے۔۔۔۔یہ واقعہ دو دن پہلے کا ہے پر شاید الطاف حیسن کو اسیی باتیں سنائی نہین دیتیں ۔۔۔الو کا کان
 

زینب

محفلین
لے کے کل سوات کے لوگوں نے ہی جلوس نکال ڈالا اس ویڈیو کے ساتھ ساتھ الطاف حسین کا بھی چلو باقی سب لوگ تو محنت کر رہے ہیں اس واقعے کو جھوٹ ثابت کرنے کی پر سوات کے لوگ۔۔۔۔۔۔۔ایک دو نہیں پورا سوات تو اسی کوشیش میں نہیں ہے نا کہ یہ واقعہ چھپایا جائے یا ہوا ہی نہیں جبکہ ثمر من اللہ نے بھی کہا کہ 9 ماہ پرانی ہے کمشنر مالا کنڈ نے تو قسم کھاکے کہا کہ ایساکوئی واقعہ نہین ہوا۔۔۔۔۔اب کس کی مانیں کس کی نا منیئں سمجھ نہیں آتی
 

زینب

محفلین
میرا خیال ہے کہ طالوت آپ کو کچھ زیادہ ہی بخیے ادھیڑنے کی عادت ہے ۔ سوات کے لوگ خود اس واقعہ کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ اور آپ کو مذمت کرتے ہوئے شرم آرہی ہے ۔ بیکار کے جواز پیدا کر رہے ہیں ۔ اگر اس غیر انسانی فعل کی مذمت اور اس پر ملامت نہیں کر سکتے تو کم از کم خاموش ہی رہیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دھاگے کا عنوان واقعہ اور حالات کی مناسبت سے بلکل صحیح ہے ۔

سر جی مزمت تو تب ہو گی نا جب یقین ہو گا کہ واقعی یہ ہوا ہے۔وہاں امریکہ میں بیٹھ کے آپ نے یقین کی مہر لگا دی اور وہاں سوات میں کل لوگوں نے جلوس نکال دیا ان سب کا جو اس کی مزمت کر رہے ہیں سوات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب جھوٹ ہے سوات کے لوگوں کو بدنام اور امن معاہدے کو ختم کرنے کی سازش ہے۔اب بتایئں کہ کس کی بات سچ لگتی ہے ایک دو سواتی ہوتے تو مان لیتے کہ جھوٹ بول رہے ہیں پر کل تو پورا سوات جمع تھا اب سب کے سب سوات والے جھوٹے اور باہر والے سچے ایسا کیسے ہو سکتا ہے سر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:rolleyes:
 

arifkarim

معطل
سچ یہ ہے کہ سیاست دان بیوقوف عوام کو اس فلم میں الجھا کر (جو ایکٹنگ بھی ہو سکتی ہے) اس دوران میں اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں!
 

ساقی۔

محفلین
محترم ذرا لبرل فاشسٹ کی تعریف کر دیں تو عنایت ہوگی ۔ میرا سوال تو وہیں ہے آپ دو کالم نگاروں کے کالم اٹھا کر لے آئے ۔ میں نے آپ لوگوں کی رائے پوچھی تھی دوسروں کے کالم نہیں ۔ میرے سوال ذرا غور سے پڑھئیے اور جواب دیجئے

دوسری بات جہاں تک اس واقعے کی حقیقت ہونے یا نہ ہونے کی تو اگر یہ جھوٹا ہے ( جیسے بہت سے ظالمان نواز افراد اور ادارے بشمول نام نہاد حکومت سرحد کا فرمان عالیشان ہے ) تو ایسی مذموم کوشش کرنے والوں کو منظر عام پر لائیے ۔ لیکن حکومت اور ظالمان کی پھرتیوں پر قربان جائیے جو انہوں نے کوشش کی اس سے کچھ مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں

پہلا سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تھا تو پھر ظالمان ترجمان کو کیا ضرورت تھی اس سلسلے میں پہلے تصدیقی اور پھر تردیدی اور پھر تصدیقی بیان دینے کی ۔ ۔ ۔ ؟
حکومت کو کیسے خواب آیا کہ یہ فلم کسی چاند بی بی نامی خاتون کی تھی ۔۔؟ اور پھر آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ظالمان کے زیر سایہ رہنے والے وہ لوگ جنہیں پہلے ہی دن رات انجانے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اس واقعے کو جبکہ یہ واقعہ عالمی نظروں میں آچکا ہے اور اس ویڈیو کے عام ہونے کے بعد ان کے گھروں میں ظالمان حاضری بھی لگا چکے ہیں اور اعلیٰ حکومتی اہلکار بھی ، اس واقعے کو تسلیم کریں گے ۔ جب کہ وہ جانتے ہیں کہ ظالمان ایک ہی بات جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف اور جو ہمارے خلاف ہے واجب القتل ہے ۔

واہ !حضرت آپ کس دنیا کے باسی ہیں. ؟ آپ سے گزارش ہے کہ اس واقعے کے شروع سے لے کر آج تک کی خبروں تجزیوں ، کالمز ، ٹاک شوز کو دوبار از سر نو پڑھئے ، سنیئے ، !آپ کو تو حالات تک کا ابھی تک ٹھیک سے اندازہ ہی نہیں ہو سکا، طالبان کے موقف کو بھی دوبارہ سنیئے. اور آنکھیں اور کان اس دوران کھلے رکھیئے . میرے خیال سے آپ دوسروں کی دیکھا دیکھی بغیر کچھ جانے بوجھے دو خبریں پڑھ کر افلاطون بننے کی کوشش کر رہے ہیں.
آپ سے پھر مودبانہ گزارش ہے کہ اگر آہ اپنے سوالوں کے جواب چاہتے ہیں تو تین دن سے لیکر آج تک جو خبر بھی میڈیا میں اس ویڈیو کے متعلق آئی ہے اسے پڑھیئے اسی میں آپ کا جواب پوشیدہ ہے . . اتنے فارغ ہم نہیں کہ دوبارہ ہر چیز کی وضاحت کرتے پھریں .
 

ظفری

لائبریرین
سر جی مزمت تو تب ہو گی نا جب یقین ہو گا کہ واقعی یہ ہوا ہے۔وہاں امریکہ میں بیٹھ کے آپ نے یقین کی مہر لگا دی اور وہاں سوات میں کل لوگوں نے جلوس نکال دیا ان سب کا جو اس کی مزمت کر رہے ہیں سوات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب جھوٹ ہے سوات کے لوگوں کو بدنام اور امن معاہدے کو ختم کرنے کی سازش ہے۔اب بتایئں کہ کس کی بات سچ لگتی ہے ایک دو سواتی ہوتے تو مان لیتے کہ جھوٹ بول رہے ہیں پر کل تو پورا سوات جمع تھا اب سب کے سب سوات والے جھوٹے اور باہر والے سچے ایسا کیسے ہو سکتا ہے سر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:rolleyes:
مس جی آپ اور طالوت ایک ہی طرح سوچتے ہیں ۔ آپ اسی دھاگے پر یہاں کی ایک سنیئر رکن کا مراسلہ پڑھ لیں جن کا تعلق سوات سے ہے ۔ انہوں نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے ۔ آپ نے دبئی میں بیٹھ کر میرے امریکہ ہونے پر اعتراض جڑ دیا ۔ جبکہ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ میرا تعلق بھی سوات سے ہے ۔ مجھے میرے رشتہ داروں نے بتایا ہے کہ یہ واقعہ یہاں‌ ہوا ہے اور ایسے کئی واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں ۔ آپ لوگ بات کو کہاں سے کہاں ‌لے جاتے ہیں ۔ ایک واقعہ آپ کے سامنے آیا گیا ہے ۔ اب اس میں سچائی ہے تو ا سکی مذمت میں کیا برائی ہے ۔ قرآنی سزاؤں کا اطلاق اس لڑکی پر تب ہوگا جب اس نے یہ گناہ کیا ہے ۔ کوئی تحقیق نہیں ہے ۔ کوئی عدالت قائم نہیں ہوئی ہے ، کوئی گواہ سامنے نہیں آیا ہے ۔ کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا گیا ہے ۔ اور اللہ کے قانون کا اطلاق اس لڑکی پر رضاکارانہ طور پر کردیا گیا ہے ۔ اور سزائیں بھی وہ ہیں جو انتہائی درجے کی سزائیں ہیں ۔ جن کو دینے کے لیئے اللہ نے پورا قانون بیان کیا ہے ۔ مسلم خان ہر بات میڈیا پر آکر اپنا بیان بدل رہا ہے ۔ اس کے سارے پیغامات کو یکجا کریں تو آپ کو حقیقت معلوم ہوجائے گی ۔ سوات کے لوگ طالبان کے خونی چوک پر لٹکنا نہیں چاہتے اس لیئے مجبوراً ان کی حمایت کررہے ہیں کہ معاہدے کے بعد طالبان کلی طور پر ان کے حاکم بن گئے ہیں ۔ اپنی نااہلی ، کمزوری اور غلطیوں کو چھپانے کے لیئے آپ لوگ انڈیا اور امریکہ کی طرف گیند اچھال دیتے ہیں ۔
بات اتنی سی ہے کہ اگر یہ واقعہ غلط ہے اور اس کا اطلاق غلط کیا گیا ہے تو مزاحمت یا اس ظلم کے خلاف دو بول بولنے میں کیا حرج ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا ۔ اگر لڑکی سے واقعی یہ گناہ سرزد ہوا ہے تو پھر یہ انتہائی سزا لڑکی کو اللہ کے قانون کے تقاضوں کو ایک طرف رکھ کر کیوں دی گئی ہے ۔ اعتراض صرف اتنا ہے کہ پہلے زمینی حقائق کی تحقیق کریں اور پھر یہ کالم کے کالم شائع کریں کہ کتنے پیسے مل رہے ہیں ان کو لکھنے کے لیئے ۔۔۔۔ مس جی ۔۔۔۔
 

ساقی۔

محفلین
سچ یہ ہے کہ سیاست دان بیوقوف عوام کو اس فلم میں الجھا کر (جو ایکٹنگ بھی ہو سکتی ہے) اس دوران میں اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں!

دو دن پہلے تو تم بھی اپنا الو ہی سیدھا کر رہے تھے . اور آج ایکٹنگ تک تو آ پہنچے ہوئے . آگے آگے دیکھیئے ہوتا ہے کیا. کیسے رنگ بدلتے ہیں گرگٹ آہستہ آہستہ
 

ساقی۔

محفلین
بے شک گرگٹوں کا وقت اب ختم ہوا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تھا تو پھر ظالمان ترجمان کو کیا ضرورت تھی اس سلسلے میں پہلے تصدیقی اور پھر تردیدی اور پھر تصدیقی بیان دینے کی ۔ ۔ ۔ ؟

حکومت کو کیسے خواب آیا کہ یہ فلم کسی چاند بی بی نامی خاتون کی تھی ۔۔؟ اور پھر آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ظالمان کے زیر سایہ رہنے والے وہ لوگ جنہیں پہلے ہی دن رات انجانے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اس واقعے کو جبکہ یہ واقعہ عالمی نظروں میں آچکا ہے اور اس ویڈیو کے عام ہونے کے بعد ان کے گھروں میں ظالمان حاضری بھی لگا چکے ہیں اور اعلیٰ حکومتی اہلکار بھی ، اس واقعے کو تسلیم کریں گے ۔ جب کہ وہ جانتے ہیں کہ ظالمان ایک ہی بات جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف اور جو ہمارے خلاف ہے واجب القتل ہے ۔

آپ کی بے خبری پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے. کیا دوبیئ میں نیوز چینل رک رک کر چلتے ہیں جو آپ کو خبریں ٹھیک طرح سے سنائی نہیں دیتی.یا آج کل لندن والے دوبئی میں آئے ہوئے ہیں.؟
 
چلو ایک لمحے کے لیئے تصور کر لیجئے کہ میں ٹی وی نہیں دیکھتا ۔ یا میرے پاس ٹی وی نہیں ہے تو ایسے میں کیا میرا حق نہیں ہے کہ یہ سوال پوچھوں ۔ یہاں پر میری بات آپ لوگوں سے ہو رہی ہے ۔ کسی دوسرے کے تجزیات کو بطور دلیل کوٹ کرکے کیا آپ اپنی رائے کو چھپا سکتے ہیں سوال دہراتا ہوں شاید پوسٹس میں کہیں پیچھے چلا گیا ہو

1۔ اگر یہ ویڈیو جعلی ہے تو اس مذموم حرکت کے کرنے والوں کو سامنے لایا جانا چاہیئے لیکن ایک جعلی ویڈیو کے متعلق ظالمان کے ترجمان کا بیان تین مختلف مواقع پر پہلے تصدیق ۔ پھر نفی اور پھر تصدیق ۔۔چہ معنی دارد
2۔ ایک لمحے کو تصور کر لیں کہ یہ ویڈیو جعلی ہے اسکی کوئی اساس نہیں تو بھی وہ واقعے کا اعتراف کونسے والے کا کیا گیا تھا اور کیا اس واقعے میں اسلامی ضروریات کو سامنے رکھا گیا تھا میرا مقصد تفویض اختیارات سے ہے یعنی منفذین حد کو اس تنفیذ کا حق کس نے دیا اور اس حق کو دینے والے کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ یہ سزا سنا کر اسکی تنفیذ کرائے ۔ نہ صرف یہ بلکہ کیا اسلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ کوئی بھی کہیں بھی ایک گروہ بنا کر عوام میں سے گناہ گاروں کی چھانٹی کرکے انہیں سزائیں سناتا رہے یا کہ اس سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ادوار میں کو ئی منظم مثال ملتی ہو کہ انہوں نے نظام عدل کیسے قائم کیا تھا اور یہاں کیسے ہو رہا ہے ۔
سزائیں سنانے میں کس معیار کو سامنے رکھا جاتا ہے ۔ کیا اسلامی معیار یا ظالمانی معیار اگر دونوں ایک ہیں تو اس معیار کی کچھ شرح فرما کر ہم کم علموں کے علم میں اضافہ فرما دیجئے ۔
ظالمان کا تصور سزا کیا ہے ۔ اس میں خواتین کا کیا مقام ہے وغیرہ وغیرہ
اگر کوئی قاضی یا ظالمان کوئی غلط فیصلہ یا عمل کر بیٹھتا ہے تو اسکی کیا گرفت ہے ۔ اور کیا ان فیصلوں کا کوئی ریکارڈ رکھا جاتا ہے یا نہیں ۔ اگر نہیں تو کیوں اگر ہاں تو کہاں
 

مہوش علی

لائبریرین
4 مئی کو میری پوسٹ سے ایک اقتباس:
۔ چیف جسٹس نے نیک نیتی سے بھی اس کا از خود نوٹس لیا ہے تب بھی انصآف کی توقع رکھنا شاید ممکن نہ ہو سکے۔
یہ لڑکی اور لڑکا، ان کے گھر والے ان کے رشتے دار، اس کیس کے تمام تر گواہ، یہ سب کے سب پہلے سے ہی طالبان کے رحم و کرم پر ہیں‌۔ ڈڑ و خؤف کا وہ عالم ہے جو کہ چنگیز خآن اور ہلاکو خان کے دور میں‌ہوتا تھا۔



۔ اپنے آپ سے سچ بولیں‌ تو طالبانی ناسور میڈیا میں فوج میں‌ پولیس میں حکومت میں ملک کے کونے کونے میں سرایت کر چکا ہے۔ یہ لوگ طالبان کا اسلام ہی ملک میں‌نافذ‌کرنا چاہتے ہیں‌اور اپنی اس شریعت کے لیے ہزاروں‌معصؤموں کی جان لینا ان کے لیے جنت خریدنے کے برابر ہے۔

۔ واحڈ طاقت جو انکا عسکری لحآظ‌سے مقابلہ کر سکتی ہے اور انہیں‌غیر مسلح کر سکتی ہے وہ جی ایچ کیو ہے، مگر وہ بھی شاید ابھی تک سٹڑیجک گہرائی کے خواب کے نام پر سوائے دکھاوے کے انکے خلاف کوئی اور کاروائی نہیں کر رہے ہیں

اے این پی کی سرحد حکومت اور سرحد کی پولیس

سرحد پولیس کے آئی جی اور دیگر افسران کی بیانات میں تضاد ہے جو انہوں نے سپریم کورٹ میں دیے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے انہیں تنبیہ بھی کی ہے کیونکہ بعض اس واقعہ کا سرے سے انکار کر رہے ہیں اور کچھ تین مہینے پرانا اور کچھ نو مہینے پرانا۔ اور وفاقی حکومت کا موقف ان سے الگ ہے۔
اے این پی کے رویے کے متعلق میری پچھلی تحریر سے اقتباس

- اے این پی کی سمجھ نہیں‌ آتی

۔ اے این پی پارٹی کا ترجمان اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کو ظلم کے خلاف آؤاز نہیں‌سمجھ رہا ہے بلکہ صؤفی صاحب کے ساتھ امن معاہدے کے خلاف سازش قرار دے رہا ہے۔

۔ مزید یہ ترجمان کہہ رہا ہے کہ امن معاہدے کے بعد پورے علاقے میں حکومتی رٹ‌بحآل ہو گئی ہے، جبکہ جیہ کہہ رہی تھیں کہ پہلے 75 فیصڈ تھا مگر اب 100 فیصڈ علاقے میں طالبان کا قبضہ ہے۔


۔ اے این پی پارٹی ترجمان ہر صورت اسے 3 جنوری کا واقعہ ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ساتھ میں‌ویڈیو کو جعلی بھی قرار دیتا ہے۔ حالانکہ اگر 3 جنوری کو بھی یہ واقعہ پیش آیا ہے تب بھی یہ ویڈیو جعلی نہ ہوئی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ
سرحد کی اے این پی کی حکومت اور اسکے پولیس افسران [کہ جن میں سے کوئی بھی بذات خود اس علاقے میں طالبان کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا] کے برخلاف ہیومن رائیٹس کی مس ثمر اور میڈیا کے نمائندے اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ یہ واقعہ پیش آیا ہے۔

ڈان اخبار کی خبر

MINGORA: The man who witnessed as well as filmed the Taliban flogging a teenage girl in Swat has spoken out. The flogging was featured in a two-minute long video shot from a mobile phone and shows a burqah-clad woman lying on the ground while being whipped by the Taliban.



Shaukat is the only eye-witness who has come forward and spoken to Dawn News about the incident.


He claimed that the incident took place two weeks ago.

Giving the incident's background, Shaukat said the allegation against and the treatment meted out to the girl was actually a punishment against her for refusing a marriage proposal.

The man who proposed to marry her joined the ranks of the Taliban after the rejection and this was how he took his revenge from the 17-year-old girl, Dawn News quoted Shaukat as saying.



When asked about the reaction of the people who had witnessed the whole episode, Shaukat said the people in Swat are so scared that no one has the courage to stand up and speak out against the Taliban and their verdicts.


Dawn News


اور بی بی سی کی اردو خبر تو آپ پڑھ ہی چکے ہیں جہاں انہوں نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے۔ اس لیے اسے دوبارہ یہاں نہیں لگا رہی۔

’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’’

ابن حسن اور ساقی وغیرہ سارے الزام کا رخ لبرل فاسشٹ کے نام پر ہماری طرف کر رہے ہیں، جبکہ:

۱۔ یہ آپکی غیر لبرل فاسشٹ پاکستانی طالبان کا مسلم خان ہی تھا جس نے جھوٹ پر جھوٹ بولے ہیں۔
اسی نے کہا تھا کہ یہ عورت واقعی زنا کی مرتکب اور سنگسار کیے جانے کے قابل ہے۔
اسی نے کہا تھا کہ یہ اپنے سسر کے ساتھ تین سال سے رہ رہی ہے اور اس لیے اسے سزا دی گئی۔
اسی نے اعتراف کیا تھا کہ فضل اللہ کی غیر لبرل فاشسٹ تنظیم خواتین کے ساتھ ماضی میں ایسی سزائیں دینے کا ارتکاب کر چکی ہے۔

مگر آپ کا سارا زور لبرل فاشسٹ [جس کا مفہوم مجھے ابھی تک نہیں پتا] پر ہے اور یہ سب کچھ ہضم کر گئے۔
حالانکہ جب ایسے متضاد بیانات آتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ شکوک و شبہات میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔


۲۔ جب فرخ نے اس واقعہ کا لنک پوچھا تھا تو میں نے انہیں گارجین اخبار کا لنک دیا تھا۔ اس پر فرخ نے اعتراض کیا تھا کہ اس میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ امن معاہدے سے قبل پیش آیا ہو۔

اس پر میں نے فرخ کی تردید کی اور نہ تائید، بلکہ بذات خود میں مزید اطلاعات کی منتظر تھی۔

اور گارجین کے بعد مزید اطلاعات پاکستانی میڈیا سے جو آئیں وہ بھی اس واقعے کی تائید کر رہی تھیں کہ یہ امن معاہدے کے بعد ہوا ہے۔

ایسے میں اگر لوگ غلط فہمی کا شکار ہوں تو کیا وہ واقعی لبرل فاشسٹ بن جاتے ہیں؟

اور اس بات کی اہمیت زیادہ نہیں کہ یہ واقعہ سوات ڈیل کے بعد پیش آیا یا بعد میں، مگر اس ویڈیو کو جھوٹا بیان کرنا صرف قیاسات ہیں جن کے بل بوتے پر اتنا اچھلنا ٹھیک نہیں۔

اور سوات ڈیل کے بعد کیا واقعی طالبان سدھر گئے ہیں؟ کیا واقعی انہوں نے اسکے بعد کوئی غیر قانونی کاروائی نہیں کی ہے؟َ
کیا ان قاضی عدالتوں نے طالبان کے زمرد کی کانوں پر غیر قانونی قبضوں پر ایکشن لیا ہے؟ بلکہ کیا قاضی عدالتوں نے کسی بھی معاملے میں طالبان کے خلاف ایکشن لیا ہے؟ اس لڑکی کا واقعہ ڈیل سے پہلے کا ہو یا بعد کا، مگر حقیقت بات یہ ہے کہ طالبان اپنی تمام تر دہشتگرد کاروائیوں کو یونہی جاری رکھیں گے اور کوئی قانون کوئی قاضی عدالت انہیں کٹہرے میں نہیں لا سکتی بلکہ اب وہ ایک طریقے سے قانونی طور پر قانون سے بالاتر ہو گئے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اب اوریا جان مقبول اور انصار عباسی وغیرہ کے شبہات کے جواب میں نذیر ناجی کا کالم:

قوت انکار....سویرے سویرے…نذیر ناجی

یہ خودکش حملے جعلی ہوتے ہیں۔ اگر یہ اصلی ہوتے تو دھماکے سے اڑتے ہوئے خودکش حملہ آوروں کو دکھایا کیوں نہیں جاتا؟ ڈرون حملوں میں ہمیشہ بے گناہ مرتے ہیں۔ اگر کوئی دہشت گرد مارا جاتا‘ تو اس کے جسم کے ٹکڑوں یا راکھ کو جمع کر کے تصویر کیوں نہیں اتاری جاتی؟ اغوا برائے تاوان کی تمام وارداتیں جعلی ہوتی ہیں۔ چھ سال سے اوپر کی بچیوں کو مجاہدین سے زبردستی بیاہنے کی خبریں جھوٹا پراپیگنڈہ ہیں۔ سکیورٹی فورسز پر فائرنگ ‘ خود کش حملے اور انہیں اغوا کرنے کی خبریں اسلام دشمنوں کا پراپیگنڈہ ہیں۔ فاٹا اور سوات میں صحافیوں کو ہلاک کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے واقعات من گھڑت ہیں۔جیوٹیلی ویژن کے نمائندے کو سوات میں ہلاک کرنے والے قاتل فرضی تھے ۔ایک لڑکی کو ڈنڈے مارنے کی فلم تو جعل سازی کا نمونہ ہے۔ یہ ساری حرکتیں اسلام کو بدنام کرنے کی خاطر کی جاتی ہیں ۔حیرت ہے کہ طالبان اور ان کے حامیوں کو اب تک اسلام کو بدنام کرنے والی خبروں اور تصویروں میں ہونے والی جعلسازی کا خیال کیوں نہ آیا؟ خیر اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ قرآنی آیات و احادیث پڑھ کر کفر کے فتوے اور جہنم کی خبریں پہنچانے والوں کو مستعد رہنا چاہیے اور جب بھی خودکش حملے یا عورتوں کو سزائیں دینے کی اطلاع آئے ‘ انہیں فوراً اپنا کام شروع کر دینا چاہیے۔ موقع محل ہو نہ ہو‘ کچھ آیات یا احادیث دوہرا کر‘ من مرضی کے فتوے جاری کرنے کی مشق جاری ہے۔
مجھے تو اس پر بھی حیرت ہے کہ سوات میں لڑکیوں کے سکول جلانے کی جو خبریں مجاہدین کو بدنام کرنے کے لئے پھیلائی گئی تھیں۔ ان سے کسی کا جذبہ ایمانی مجروح کیوں نہیں ہوا؟ ورنہ ایسی خبریں پھیلانے والوں اور تباہ شدہ سکولوں کی تصویریں چھاپنے والوں کو نظرانداز نہ کیا جاتا۔
قوت انکار کا استعمال نئی چیز نہیں۔ گزشتہ روز بی بی سی کے ایک تبصرہ نگار نے یاد دلایا کہ آخری عباسی خلیفہ معتصم باللہ نے‘ ہلاکو خاں کے بغداد میں داخلے پر یقین نہیں کیا تھا۔ بہادرشاہ ظفر آخری لمحے تک اپنی شکست سے انکار کر رہے تھے۔ اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سر دیکھنے کے بعد وہ مان گئے ۔ آج کا دور ہوتا تو وہ بھی نہ مانتے اور اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو جعلی قرار دے کر اسلام دشمن انگریزوں کو شرمندہ کر دیتے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان‘ آخری دنوں تک مٹھی بھر سات کروڑ بنگالیوں کا مزاج درست کردینے پر یقین رکھتے تھے۔اگر ہم خودکش بمباروں کو مسلمان بھائی‘ لڑکیوں کے سکول جلانے والوں کو مجاہدین اسلام‘ پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملے کرنے والوں کو اسلام کے محافظ اور کلمہ گو مظلوموں کے سر کاٹ کر ان کی لاشیں سڑک پر پھینک دینے والوں کو اسلامی نظام نافذ کرنے والا‘ نہیں سمجھتے تو یہ ناخلفی ہے۔بزرگوں کا احترام اسی میں ہے کہ جب تک تباہی سر پہ نہ آ جائے۔ اس سے انکار کرتے رہنا چاہیے۔ قوت انکار کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ حقائق بدلیں نہ بدلیں۔ تباہی کی قوتیں رکیں نہ رکیں۔ انسان کا اپنا دل مطمئن رہتا ہے۔ طالبان افغانستان میں تھے اور ہم مطمئن تھے۔ وہ فاٹا میں آئے ۔ہم مطمئن ہیں۔ سوات میں آئے۔ ہم مطمئن ہیں۔ دیر اور بونیر پر قابض ہونے لگے۔ ہم مطمئن ہیں۔ سرحد کے تمام اضلاع میں ان کی جڑیں پھیل گئیں۔ ہم مطمئن ہیں۔ اب اسلام آباد سے لاہور تک خودکش حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم مطمئن ہیں۔ ہم مطمئن ہی رہیں گے اور سات ہزار میل دور بیٹھے ہوئے لوگ خودکش بمباروں سے لڑنے کے لئے آ رہے ہیں۔ یہ جنگ ان کی ہے۔وہ طالبان کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر تو انتہائی اعتماد سے خبر دے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست ہو گئی۔امریکہ اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے مزید فوج لا رہا ہے۔امریکیوں کو ہارنے کا بہت شوق ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں ہار کے بھاگ لیتے ہیں اور جس مقبوضہ ملک کو چھوڑتے ہیں‘ وہاں خوشحالی کا دوردورہ ہو جاتا ہے۔ ان کی بمباریوں سے ہونے والی تباہی جعلی ہوتی ہے۔ ویت نام‘ عراق اور اب افغانستان نے کھنڈرات میں بدل کر امریکیوں کو بھگا دیا۔ یہ منور حسن کی روایت ہے۔ امریکیوں نے پاکستان کا رخ کیا تو ہم بھی انہیں ناک رگڑنے پر مجبور کر دیں گے۔ منورحسن‘ عمران خان‘ بیت اللہ محسود اور ملا عمر کا یہی خیال ہے۔
مردوں کے ہجوم میں ایک لڑکی کو سزا دینے کا منظر ٹی وی پر دکھایا گیا‘ توعجیب ردعمل دیکھنے میں آیا۔ سواتی طالبان کے ترجمان مسلم خان صاحب نے پہلے کہا کہ ہم تو عورتوں کو چاردیواری کے اندر سزا دیتے ہیں۔ پھر کہا یہ اسلامی سزا ہے۔ ہم اس پر مناظرے کے لئے تیار ہیں۔ایک بار کہا کہ یہ معاہدہ امن سے پہلے کا واقعہ ہے اور پھر سٹوری ڈویلپ ہوتے ہوتے جعل سازی کے الزام تک آ گئی اور آخر میں یہ موقف اختیار کر لیا گیا کہ کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی طالبان کے وکیلوں نے ماہرانہ تبصرے شروع کر دیئے۔ جعلسازی کا سب سے بڑا ثبوت یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ لڑکی 34 ڈنڈے کھانے کے بعد کھڑی کیسے ہو گئی؟ کیا زبردست دلیل ہے؟ مردمومن مرد حق‘ ضیاالحق‘ جب صحافیوں‘ وکیلوں‘ مزدور لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے لگا رہے تھے‘ تو میں کوٹ لکھپت جیل میں تھا اور میرے سیل کے سامنے وہ گراؤنڈ تھی‘ جہاں کوڑے تیار کئے اور لگائے جاتے تھے۔ یہ کوڑا یا درہ چمڑے سے گندھا ہوتا تھا۔ جسے رات بھر تیل میں ڈبو کے رکھا جاتا اور صبح ایک ہٹاکٹا شخص‘ اسلامی مارشل لا کی گرفت میں آئے ہوئے مظلوم شہری کی پشت پر کوڑے برساتا۔ یہ بہت خوفناک کوڑا ہوتا تھا۔ بیشتر لوگ اسٹریچر پر جاتے۔ مگر کئی ایسے ہوتے تھے‘ جو یہ کوڑے کھانے کے بعد بھی اپنے پیروں پر ہسپتال کی طرف چل دیتے۔ کیونکہ کوڑے لگانے کے بعد طبی معائنہ ہوتا تھا۔ جو کوڑے لڑکی کو مارے گئے‘ وہ دراصل ایک ڈنڈا تھا۔ جسے زور سے مارا جاتا رہا۔ اس طرح ڈنڈے کھانے کے بعد لڑکی کا کھڑے ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ میں اس ویڈیو کو حقیقی ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں صرف اس پر کئے گئے اعتراضات کا بودا پن ظاہر کر رہا ہوں۔ اس جعلی ویڈیو میں دکھائے گئے منظر کے دفاع میں ‘طالبان کے ایک وکیل نے قرآن پاک کی آیات سنا دیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ اس اسلامی سزا پر اعتراض کرنے والے کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ گویا انہوں نے تسلیم کر لیا کہ جو سزا ویڈیو میں دکھائی گئی ہے‘ وہ اسلامی ہے۔ مسلم خان صاحب نے بھی اس سزا کا دفاع کیا۔اگر فلم جعلی ہے تو اس میں دکھائی گئی سزا کو اسلامی کہہ کر ‘ اس کے دفاع میں قرآنی آیات سنانے کی ضرورت کیا تھی؟ اور اگر دکھائی گئی سزا شرعی ہے‘ توویڈیو کو جعلی قرار دینے کی ضرورت کیا ہے؟

اوریا جان مقبول نے اعتراض کیا ہے کہ یہ کوڑے ڈرامہ تھے، اور لڑکی کو کوئی تکلیف ان سے نہیں پہنچی اور وہ صرف چیخنے کا ڈرامہ کر رہی تھی۔

ْابن حسن، اس ویڈیو کو پھر غور سے دیکھیں، اور جواب دیں:

۔ کیا اس میں کوڑا یا بید آپ کو جعلی نظر آ رہا ہے؟
۔ کیا اس میں مارنے والا آہستہ رفتار سے کوڑا مار رہا ہے؟
۔ اور بے چاری لڑکی کی بے حرمتی ایسے ہو رہی ہے کہ بید کھاتے ہوئے اسکے اوپر والے کپڑے تک اپنی جگہ سے ہل گئے ہیں اور اگر نیچے اس نے لکڑی یا لوہے کی کوئی ڈھال رکھی ہوتی تو وہ صاف محسوس ہو جاتی۔ مگر کیا واقعی آپ کو ایسی لکڑی یا لوہے کی ڈھال محسوس ہو رہی ہے؟
ْ۔ اور کیا بید لگنے سے واقعی ایسی آواز آ رہی ہے جیسے لکڑی یا لوہے پر لگنے سے آتی ہے؟

تو کس بنیاد پر پھر اوریا جان مقبول کہہ رہے ہیں کہ لڑکی کو کوئی تکلیف نہیں ہو رہی اور وہ بس ڈرامہ کر رہی ہے؟

ابن حسن تو جواب دیں یا نہ دیں، مگر آپ سب لوگوں کو پھر ایک بار دعوت ہے کہ آپ اس ویڈیو کو پھر سے دیکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ صرف لڑکی کے خوف کے مارے سزا کے بعد فورا اٹھ کر کھڑے ہو جانے کی بنیاد پر اوریا جان مقبول کا یہ الزام لگانا واقعی درست ہے کہ لڑکی کو کوڑے پڑنے کی کوئی تکلیف نہیں ہو رہی اور یہ سب ڈرامہ ہے؟

اسی طرح اوریا جان مقبول کا دوسرا اعتراض بھی لغو ہے کہ کسی کی تصویر نہیں دکھائی دی، جبکہ کوڑے مارنے والے اور تین پکڑنے والوں کی بالکل صاف اور واضح تصاویر موجود ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اور میں نے تو حامد میر کے خلاف واہ فیکٹری کے واقعے میں باقاعدہ ثبوت پیش کیا تھا، مگر اسکے باوجود مجھ پر الزامات کی بارش تھی۔
حالانکہ انہی لوگوں کا گریبان ہے جس سے یہ ہارون الرشید کے خلاف الزام بازی کر رہے ہوتے ہیں۔


کس کی شریعت ؟....ناتمام…ہارون الرشید

شریعت اسلامی کے بارے میں کس کی رائے کو معتبر مانا جائے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی یا صوفی محمد۔ وہ جو شریعت کے علمبردار ہیں ، صوفی محمد کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں ۔ صوفی صاحب کا تازہ ترین ارشاد یہ ہے ”جمہوریت کفر ہے اور کفر کے سوا کچھ بھی نہیں“۔ ان کا یہ ارشاد جماعت اسلامی کے ایک جریدے میں خاص طور پر لئے گئے انٹرویو میں من و عن چھپا ہے ۔ ایک طرف برادرم انصار عباسی اور سید منور حسن ہیں دوسری طرف عزیزم رؤف کلاسرا اور محترم و مکرم قائد انقلاب السید الطاف حسین۔ بیچ میں اہل سوات اور اہل پاکستان حیران کھڑے ہیں ۔ بیچ میں سچائی ششدر کھڑی ہے۔ نماز کا وقت آ پہنچا۔ جنگل میں مسافروں کو قبلہ کا رخ معلوم نہیں۔ سید منور حسن اور انصار عباسی اگر یہ کہیں کہ وہ پنج وقتہ نمازی ہیں تو بالکل ٹھیک کہیں گے لیکن رؤف کلاسرا اور الطاف حسین بھی تو ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔
قوم کو اتفاق رائے کی ایسی ضرورت کبھی نہ تھی لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ تقسیم در تقسیم ہے، کشیدگی ہے اور فساد ہے۔ کل شب یہ بات نجم سیٹھی نے کہی ۔ خوشگوار حیرت اس پر ہوئی جب انہوں نے کہا: مسئلہ امریکہ کے خلاف بے قابو عوامی نفرت ہے اور خود امریکہ ہی اس نفرت کا ذمہ دار ہے۔ پھر سارا زور بیان انہوں نے طالبان کے خلاف صرف کر دیا۔ امریکہ کو جھاڑ پونچھ کر الماری میں رکھ دیا کہ بعد میں اسے دیکھ لیں گے۔ طالبان کا صفایا کرنے کے بعد۔ سید صاحب نے بھی یہی کیا۔ طالبان کو انہوں نے چوما چاٹا ، نہایت احترام سے طاق میں سجایااور پھر یہ ارشاد کیا کہ عالم انسانیت کو امریکی عفریت کے خلاف متحد ہو جانا چاہئے۔ بجا بالکل بجا۔ بنی نوع انسان کو تاتاریوں کے خلاف متحد ہونا چاہئے لیکن طالبان کی بلائیں کیوں لی جائیں۔ انہیں شریعت اسلامی کا پاسدار کیسے مان لیا جائے۔ وہ طالبان جو بیچ میدان کھلاڑیوں کے سر مونڈ دیتے ہیں اور اتنے ہی بڑے بال رکھنے والے مجاہدین کو اسلام کا سچا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔ وہ صلاح الدین ایوبی کے جانشین کیسے ہو گئے جس نے یروشلم کی فتح کے ہنگام ، صلیبیوں کو معاف کر دیا تھا جن کی پچھلی نسلوں کے گھوڑے اس حال میں گلیوں سے گزرے تھے کہ ان کے ٹخنے لہو میں ڈوب گئے تھے۔ مورخ ہیرلڈ لیم نے لکھا ہے ”بادشاہ نہیں وہ ایک ولی تھا۔ تاریخ انسانی میں ایسا واقعہ اس سے پہلے کبھی رونما نہ ہوا تھا“۔ ہیرلڈ لیم کو معلوم نہ تھا ۔وہ فتح مکہ کی تاریخ سے بے خبر تھا۔ وہ جانتا نہیں تھا کہ اس روز صلاح الدین تو میدان جنگ میں محض ایک سنت تازہ کی تھی۔ رسول اللہ اس سے پہلے الپ ارسلان نے اور صلاح الدین کے بعد ٹیپو سلطان نے۔
سارے پیمبر سچے تھے، سبھی کی پیروی لازم تھی لیکن جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، صرف محمد کو رحمة للعالمین کہا گیا۔ صرف وہ ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ ایک نمونہٴ عمل رہیں گے۔
اب اللہ کے آخری رسول کا طریق کیا ہے؟ کتاب محفوظ ہے۔ حدیث محفوظ ہے اور تاریخ بھی۔ یوں ہے کہ شراب کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا۔ ”تم نماز کے قریب بھی نہ جاؤ ، اگر تم نشے میں ہو“ اصحاب کبار تو چھوتے ہی نہ تھے اب باقی محتاط ہوئے۔ تب شراب کی حرمت کا فیصلہ صادر ہوا اور محمد کی زبان سے جو اہل ایمان کو آیات الٰہی سے آشنا کر تی تھی، لیکن یا للعجب ، یا للعجب شراب کی فروخت پر پابندی نہ لگائی گئی۔ فوراً ہی قانون کیوں نہ بنا۔ فوراً ہی نافذ کیوں نہ ہوا۔ اس لئے کہ اللہ کے رسول سب جاننے والوں سے زیادہ جانتے تھے۔ صرف سچائی ہی نہیں صبر بھی ۔ صرف صبر ہی نہیں حکمت بھی۔ آنے والی تمام نسلوں کے لئے واحد حتمی اور آخری معیارِ حق ۔ مہلت مقصود تھی کہ ان میں سے جو مفلس ہیں مشرکوں کو بیچ باچ ڈالیں۔ سب کا ایمان ابوبکر صدیق  جیسا نہیں ہوتا۔ کمزوروں کو ساتھ لے کر چلا جاتا ہے۔ ارتقا ہے ، ایک تدریجی عمل ہے ۔ سب کے سب رفعت نہیں پاتے۔ پھر آخری فیصلے کا دن آ پہنچا ”شراب بیچنے والا اتنے ہی بڑے جرم کا مرتکب ہے جتنا کہ پینے والا“ تاریخ یہ کہتی ہے کہ مدینے کی گلیوں میں اس روز بادہ پانی کی طرح بہتا رہا۔ کتنا ہی سنگین سہی، شراب تو ایک جرم ہی تھا مگر جب سود سے متعلق آیات نازل ہوئیں تو ایسا لگا کہ نواح مدینہ میں آتش فشانی پہاڑوں کے کروڑوں برس پرانے پتھر بھی پگھل جائیں گے۔ سود خوروں کے لئے وہ الفاظ برتے گئے کہ اس سے پہلے بدترین مشرک ہی جس کے سزاوار ٹھہرے تھے۔ بد ترین انسانوں میں سے بھی بدترین۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ ایسی ہولناک مذمت اور ایسی کڑی ممانعت کے باوجود سود کو فوری طور پر ختم کرنے کا فرمان جاری نہ ہوا۔ ملتوی رکھاحتیٰ کہ حجة الوداع کا دن آ پہنچا۔ پھر ایک لاکھ قدوسیوں کے مقابل وہ کھڑے ہوئے اور یہ کہا ”عہد جاہلیت کے سب سود میں باطل قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کا سود“۔ کیوں آخر کیوں ؟آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ اللہ کے رسول نے اللہ کا حکم نافذ کرنے میں تاخیر کیوں روا رکھی؟ ظاہر ہے اس لئے کہ یہ بھی اللہ کا حکم تھا۔ اپنی آرزو سے تو وہ کچھ کہتے نہیں تھے ۔ تاخیر اس لئے روا رکھی کہ مہ و سال میں صدقات کا متبادل نظام استوار کر دیا گیا۔ اب کسی بیچارے، کسی خوددار کی مجبوری اس کا کلیجہ نہ نوچ سکتی تھی۔ اہل خیر تھے ۔ قبیلہ ذمہ دار تھا۔ ریاست تھی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور رسول اللہ کے بعد ان کے جانشین۔ اب کوئی بھوکا نہ مر سکتا تھا۔ اب بے بسوں کا لہو چوسنے اور زرداروں کو عفریت بنانے والے سودی نظام کو ایک لمحہ بھی گوارا نہ کیا جا سکتا تھا۔
محض حکم اور قانون نہیں اس سے کہیں زیادہ اسلام تعلیم ہے۔ وہ تربیت کا ایک نظام اور ماحول ہے۔ اوپر سے مسلط کیا جانے والا نہیں بلکہ انسانی قلب و دماغ میں بتدریج پروان چڑھنے والا ایک داخلی نظم۔ اسلامی معاشرہ تدریج کے ساتھ وجود میں آتا ہے۔ کردار کے اعلیٰ ترین عملی نمونوں سے ، علم سے، تلقین سے، محبت ، الفت اور انس کے ساتھ۔ اسلامی معاشرے میں سزا تو ان بدبختوں کا مقدر ہوتی ہے جو رزق کی فراوانی کے باوجود نقب لگائیں۔ ماحول کی پاکیزگی کے باوجود اپنے اندر کے شیطانوں کو گنے کا رس پلاتے رہیں۔ عمر  ابن خطاب نے قحط میں چوری کی سزا معطل کر دی تھی۔ 1970ء کو گلبرگ کے ایک جلسہ عام میں سید ابوالاعلیٰ مودودی نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ جماعت اسلامی کو اقتدار ملا تو پردہ حکماً نافذ نہ کیا جائے گا۔ اپنی کتاب رسائل و مسائل میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس معاشرے میں اسلامی سزائیں نافذ کرنے کا کوئی جواز نہیں جو گندگی ، جرم اور استحصال سے بھرا ہو۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود سید منور حسن صوفی محمد کی حمایت کرتے ہیں جن کا ارشاد یہ ہے کہ ”جمہوریت کفر ہے اور کفر کے سوا کچھ بھی نہیں“۔ سید منور حسن اور برادرم انصار عباسی سے مودبانہ سوال یہ ہے کہ عالم کون ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی یا صوفی محمد؟۔ کس کی رائے پر غور کیا جائے ، کس کی بات سنی جائے۔ کس کی بات مانی جائے۔ کون سی شریعت اس ملک میں نافذ ہو گی۔ بیروزگاروں کو غیر سودی قرضے دینے والے ٹیپو سلطان اور فتح مکہ کی یاد تازہ کرنے والے صلاح الدین ایوبی یا عورتوں کو برسر بازار کوڑے مارنے والے طالبان کی شریعت؟
 
Top