ماخذایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبہ سرحد کی حکومت کی رپورٹ کے مطابق سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کا واقعہ تین مہینے پرانا ہے اور امن معاہدے کے بعد اس معاملے کو میڈیا پر اچھالنے سے پاکستان اور اسلام کا امیج متاثر ہوا ہے
لوگ اتنی محنت سے یہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ ایسا کچھ واقعہ پیش ہی نہیں آیا، کالم پر کالم چھاپے جا رہے ہیں لیکن سچ چھپا نہیں رہ سکتا
ماخذ
لیکن اب یہاں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو وفاقی وزیر اطلاعات سے بھی زیادہ خبردار ہوں شائد ۔
میرا خیال ہے کہ طالوت آپ کو کچھ زیادہ ہی بخیے ادھیڑنے کی عادت ہے ۔ سوات کے لوگ خود اس واقعہ کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ اور آپ کو مذمت کرتے ہوئے شرم آرہی ہے ۔ بیکار کے جواز پیدا کر رہے ہیں ۔ اگر اس غیر انسانی فعل کی مذمت اور اس پر ملامت نہیں کر سکتے تو کم از کم خاموش ہی رہیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دھاگے کا عنوان واقعہ اور حالات کی مناسبت سے بلکل صحیح ہے ۔
محترم ذرا لبرل فاشسٹ کی تعریف کر دیں تو عنایت ہوگی ۔ میرا سوال تو وہیں ہے آپ دو کالم نگاروں کے کالم اٹھا کر لے آئے ۔ میں نے آپ لوگوں کی رائے پوچھی تھی دوسروں کے کالم نہیں ۔ میرے سوال ذرا غور سے پڑھئیے اور جواب دیجئے
دوسری بات جہاں تک اس واقعے کی حقیقت ہونے یا نہ ہونے کی تو اگر یہ جھوٹا ہے ( جیسے بہت سے ظالمان نواز افراد اور ادارے بشمول نام نہاد حکومت سرحد کا فرمان عالیشان ہے ) تو ایسی مذموم کوشش کرنے والوں کو منظر عام پر لائیے ۔ لیکن حکومت اور ظالمان کی پھرتیوں پر قربان جائیے جو انہوں نے کوشش کی اس سے کچھ مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں
پہلا سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تھا تو پھر ظالمان ترجمان کو کیا ضرورت تھی اس سلسلے میں پہلے تصدیقی اور پھر تردیدی اور پھر تصدیقی بیان دینے کی ۔ ۔ ۔ ؟
حکومت کو کیسے خواب آیا کہ یہ فلم کسی چاند بی بی نامی خاتون کی تھی ۔۔؟ اور پھر آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ظالمان کے زیر سایہ رہنے والے وہ لوگ جنہیں پہلے ہی دن رات انجانے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اس واقعے کو جبکہ یہ واقعہ عالمی نظروں میں آچکا ہے اور اس ویڈیو کے عام ہونے کے بعد ان کے گھروں میں ظالمان حاضری بھی لگا چکے ہیں اور اعلیٰ حکومتی اہلکار بھی ، اس واقعے کو تسلیم کریں گے ۔ جب کہ وہ جانتے ہیں کہ ظالمان ایک ہی بات جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف اور جو ہمارے خلاف ہے واجب القتل ہے ۔
مس جی آپ اور طالوت ایک ہی طرح سوچتے ہیں ۔ آپ اسی دھاگے پر یہاں کی ایک سنیئر رکن کا مراسلہ پڑھ لیں جن کا تعلق سوات سے ہے ۔ انہوں نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی ہے ۔ آپ نے دبئی میں بیٹھ کر میرے امریکہ ہونے پر اعتراض جڑ دیا ۔ جبکہ آپ کو معلوم نہیں ہے کہ میرا تعلق بھی سوات سے ہے ۔ مجھے میرے رشتہ داروں نے بتایا ہے کہ یہ واقعہ یہاں ہوا ہے اور ایسے کئی واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں ۔ آپ لوگ بات کو کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں ۔ ایک واقعہ آپ کے سامنے آیا گیا ہے ۔ اب اس میں سچائی ہے تو ا سکی مذمت میں کیا برائی ہے ۔ قرآنی سزاؤں کا اطلاق اس لڑکی پر تب ہوگا جب اس نے یہ گناہ کیا ہے ۔ کوئی تحقیق نہیں ہے ۔ کوئی عدالت قائم نہیں ہوئی ہے ، کوئی گواہ سامنے نہیں آیا ہے ۔ کوئی ثبوت مہیا نہیں کیا گیا ہے ۔ اور اللہ کے قانون کا اطلاق اس لڑکی پر رضاکارانہ طور پر کردیا گیا ہے ۔ اور سزائیں بھی وہ ہیں جو انتہائی درجے کی سزائیں ہیں ۔ جن کو دینے کے لیئے اللہ نے پورا قانون بیان کیا ہے ۔ مسلم خان ہر بات میڈیا پر آکر اپنا بیان بدل رہا ہے ۔ اس کے سارے پیغامات کو یکجا کریں تو آپ کو حقیقت معلوم ہوجائے گی ۔ سوات کے لوگ طالبان کے خونی چوک پر لٹکنا نہیں چاہتے اس لیئے مجبوراً ان کی حمایت کررہے ہیں کہ معاہدے کے بعد طالبان کلی طور پر ان کے حاکم بن گئے ہیں ۔ اپنی نااہلی ، کمزوری اور غلطیوں کو چھپانے کے لیئے آپ لوگ انڈیا اور امریکہ کی طرف گیند اچھال دیتے ہیں ۔سر جی مزمت تو تب ہو گی نا جب یقین ہو گا کہ واقعی یہ ہوا ہے۔وہاں امریکہ میں بیٹھ کے آپ نے یقین کی مہر لگا دی اور وہاں سوات میں کل لوگوں نے جلوس نکال دیا ان سب کا جو اس کی مزمت کر رہے ہیں سوات کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب جھوٹ ہے سوات کے لوگوں کو بدنام اور امن معاہدے کو ختم کرنے کی سازش ہے۔اب بتایئں کہ کس کی بات سچ لگتی ہے ایک دو سواتی ہوتے تو مان لیتے کہ جھوٹ بول رہے ہیں پر کل تو پورا سوات جمع تھا اب سب کے سب سوات والے جھوٹے اور باہر والے سچے ایسا کیسے ہو سکتا ہے سر جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچ یہ ہے کہ سیاست دان بیوقوف عوام کو اس فلم میں الجھا کر (جو ایکٹنگ بھی ہو سکتی ہے) اس دوران میں اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں!
بے شک گرگٹوں کا وقت اب ختم ہوا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ ڈرامہ اسٹیج کیا گیا تھا تو پھر ظالمان ترجمان کو کیا ضرورت تھی اس سلسلے میں پہلے تصدیقی اور پھر تردیدی اور پھر تصدیقی بیان دینے کی ۔ ۔ ۔ ؟
حکومت کو کیسے خواب آیا کہ یہ فلم کسی چاند بی بی نامی خاتون کی تھی ۔۔؟ اور پھر آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ظالمان کے زیر سایہ رہنے والے وہ لوگ جنہیں پہلے ہی دن رات انجانے دباؤ کا سامنا رہتا ہے اس واقعے کو جبکہ یہ واقعہ عالمی نظروں میں آچکا ہے اور اس ویڈیو کے عام ہونے کے بعد ان کے گھروں میں ظالمان حاضری بھی لگا چکے ہیں اور اعلیٰ حکومتی اہلکار بھی ، اس واقعے کو تسلیم کریں گے ۔ جب کہ وہ جانتے ہیں کہ ظالمان ایک ہی بات جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے خلاف اور جو ہمارے خلاف ہے واجب القتل ہے ۔
ہمت ہے بھئی۔حق گوئی؟
ظہور بھائ یہ پنجاب کا چھلا چقندر تو نری بکواس کے سوا کچھ اور کرتا ہی نہیں
۔ چیف جسٹس نے نیک نیتی سے بھی اس کا از خود نوٹس لیا ہے تب بھی انصآف کی توقع رکھنا شاید ممکن نہ ہو سکے۔
یہ لڑکی اور لڑکا، ان کے گھر والے ان کے رشتے دار، اس کیس کے تمام تر گواہ، یہ سب کے سب پہلے سے ہی طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔ ڈڑ و خؤف کا وہ عالم ہے جو کہ چنگیز خآن اور ہلاکو خان کے دور میںہوتا تھا۔
۔ اپنے آپ سے سچ بولیں تو طالبانی ناسور میڈیا میں فوج میں پولیس میں حکومت میں ملک کے کونے کونے میں سرایت کر چکا ہے۔ یہ لوگ طالبان کا اسلام ہی ملک میںنافذکرنا چاہتے ہیںاور اپنی اس شریعت کے لیے ہزاروںمعصؤموں کی جان لینا ان کے لیے جنت خریدنے کے برابر ہے۔
۔ واحڈ طاقت جو انکا عسکری لحآظسے مقابلہ کر سکتی ہے اور انہیںغیر مسلح کر سکتی ہے وہ جی ایچ کیو ہے، مگر وہ بھی شاید ابھی تک سٹڑیجک گہرائی کے خواب کے نام پر سوائے دکھاوے کے انکے خلاف کوئی اور کاروائی نہیں کر رہے ہیں
اب صورتحال یہ ہے کہ- اے این پی کی سمجھ نہیں آتی
۔ اے این پی پارٹی کا ترجمان اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کو ظلم کے خلاف آؤاز نہیںسمجھ رہا ہے بلکہ صؤفی صاحب کے ساتھ امن معاہدے کے خلاف سازش قرار دے رہا ہے۔
۔ مزید یہ ترجمان کہہ رہا ہے کہ امن معاہدے کے بعد پورے علاقے میں حکومتی رٹبحآل ہو گئی ہے، جبکہ جیہ کہہ رہی تھیں کہ پہلے 75 فیصڈ تھا مگر اب 100 فیصڈ علاقے میں طالبان کا قبضہ ہے۔
۔ اے این پی پارٹی ترجمان ہر صورت اسے 3 جنوری کا واقعہ ثابت کرنا چاہتا ہے۔ ساتھ میںویڈیو کو جعلی بھی قرار دیتا ہے۔ حالانکہ اگر 3 جنوری کو بھی یہ واقعہ پیش آیا ہے تب بھی یہ ویڈیو جعلی نہ ہوئی۔
MINGORA: The man who witnessed as well as filmed the Taliban flogging a teenage girl in Swat has spoken out. The flogging was featured in a two-minute long video shot from a mobile phone and shows a burqah-clad woman lying on the ground while being whipped by the Taliban.
Shaukat is the only eye-witness who has come forward and spoken to Dawn News about the incident.
He claimed that the incident took place two weeks ago.
Giving the incident's background, Shaukat said the allegation against and the treatment meted out to the girl was actually a punishment against her for refusing a marriage proposal.
The man who proposed to marry her joined the ranks of the Taliban after the rejection and this was how he took his revenge from the 17-year-old girl, Dawn News quoted Shaukat as saying.
When asked about the reaction of the people who had witnessed the whole episode, Shaukat said the people in Swat are so scared that no one has the courage to stand up and speak out against the Taliban and their verdicts.
Dawn News
قوت انکار....سویرے سویرے…نذیر ناجی
یہ خودکش حملے جعلی ہوتے ہیں۔ اگر یہ اصلی ہوتے تو دھماکے سے اڑتے ہوئے خودکش حملہ آوروں کو دکھایا کیوں نہیں جاتا؟ ڈرون حملوں میں ہمیشہ بے گناہ مرتے ہیں۔ اگر کوئی دہشت گرد مارا جاتا‘ تو اس کے جسم کے ٹکڑوں یا راکھ کو جمع کر کے تصویر کیوں نہیں اتاری جاتی؟ اغوا برائے تاوان کی تمام وارداتیں جعلی ہوتی ہیں۔ چھ سال سے اوپر کی بچیوں کو مجاہدین سے زبردستی بیاہنے کی خبریں جھوٹا پراپیگنڈہ ہیں۔ سکیورٹی فورسز پر فائرنگ ‘ خود کش حملے اور انہیں اغوا کرنے کی خبریں اسلام دشمنوں کا پراپیگنڈہ ہیں۔ فاٹا اور سوات میں صحافیوں کو ہلاک کرنے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کے واقعات من گھڑت ہیں۔جیوٹیلی ویژن کے نمائندے کو سوات میں ہلاک کرنے والے قاتل فرضی تھے ۔ایک لڑکی کو ڈنڈے مارنے کی فلم تو جعل سازی کا نمونہ ہے۔ یہ ساری حرکتیں اسلام کو بدنام کرنے کی خاطر کی جاتی ہیں ۔حیرت ہے کہ طالبان اور ان کے حامیوں کو اب تک اسلام کو بدنام کرنے والی خبروں اور تصویروں میں ہونے والی جعلسازی کا خیال کیوں نہ آیا؟ خیر اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ قرآنی آیات و احادیث پڑھ کر کفر کے فتوے اور جہنم کی خبریں پہنچانے والوں کو مستعد رہنا چاہیے اور جب بھی خودکش حملے یا عورتوں کو سزائیں دینے کی اطلاع آئے ‘ انہیں فوراً اپنا کام شروع کر دینا چاہیے۔ موقع محل ہو نہ ہو‘ کچھ آیات یا احادیث دوہرا کر‘ من مرضی کے فتوے جاری کرنے کی مشق جاری ہے۔
مجھے تو اس پر بھی حیرت ہے کہ سوات میں لڑکیوں کے سکول جلانے کی جو خبریں مجاہدین کو بدنام کرنے کے لئے پھیلائی گئی تھیں۔ ان سے کسی کا جذبہ ایمانی مجروح کیوں نہیں ہوا؟ ورنہ ایسی خبریں پھیلانے والوں اور تباہ شدہ سکولوں کی تصویریں چھاپنے والوں کو نظرانداز نہ کیا جاتا۔
قوت انکار کا استعمال نئی چیز نہیں۔ گزشتہ روز بی بی سی کے ایک تبصرہ نگار نے یاد دلایا کہ آخری عباسی خلیفہ معتصم باللہ نے‘ ہلاکو خاں کے بغداد میں داخلے پر یقین نہیں کیا تھا۔ بہادرشاہ ظفر آخری لمحے تک اپنی شکست سے انکار کر رہے تھے۔ اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سر دیکھنے کے بعد وہ مان گئے ۔ آج کا دور ہوتا تو وہ بھی نہ مانتے اور اپنے بیٹوں کے کٹے ہوئے سروں کو جعلی قرار دے کر اسلام دشمن انگریزوں کو شرمندہ کر دیتے۔ ایوب خان اور یحییٰ خان‘ آخری دنوں تک مٹھی بھر سات کروڑ بنگالیوں کا مزاج درست کردینے پر یقین رکھتے تھے۔اگر ہم خودکش بمباروں کو مسلمان بھائی‘ لڑکیوں کے سکول جلانے والوں کو مجاہدین اسلام‘ پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر ہلاکت خیز حملے کرنے والوں کو اسلام کے محافظ اور کلمہ گو مظلوموں کے سر کاٹ کر ان کی لاشیں سڑک پر پھینک دینے والوں کو اسلامی نظام نافذ کرنے والا‘ نہیں سمجھتے تو یہ ناخلفی ہے۔بزرگوں کا احترام اسی میں ہے کہ جب تک تباہی سر پہ نہ آ جائے۔ اس سے انکار کرتے رہنا چاہیے۔ قوت انکار کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ حقائق بدلیں نہ بدلیں۔ تباہی کی قوتیں رکیں نہ رکیں۔ انسان کا اپنا دل مطمئن رہتا ہے۔ طالبان افغانستان میں تھے اور ہم مطمئن تھے۔ وہ فاٹا میں آئے ۔ہم مطمئن ہیں۔ سوات میں آئے۔ ہم مطمئن ہیں۔ دیر اور بونیر پر قابض ہونے لگے۔ ہم مطمئن ہیں۔ سرحد کے تمام اضلاع میں ان کی جڑیں پھیل گئیں۔ ہم مطمئن ہیں۔ اب اسلام آباد سے لاہور تک خودکش حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم مطمئن ہیں۔ ہم مطمئن ہی رہیں گے اور سات ہزار میل دور بیٹھے ہوئے لوگ خودکش بمباروں سے لڑنے کے لئے آ رہے ہیں۔ یہ جنگ ان کی ہے۔وہ طالبان کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر تو انتہائی اعتماد سے خبر دے رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست ہو گئی۔امریکہ اپنی شکست کی خفت مٹانے کے لئے مزید فوج لا رہا ہے۔امریکیوں کو ہارنے کا بہت شوق ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں ہار کے بھاگ لیتے ہیں اور جس مقبوضہ ملک کو چھوڑتے ہیں‘ وہاں خوشحالی کا دوردورہ ہو جاتا ہے۔ ان کی بمباریوں سے ہونے والی تباہی جعلی ہوتی ہے۔ ویت نام‘ عراق اور اب افغانستان نے کھنڈرات میں بدل کر امریکیوں کو بھگا دیا۔ یہ منور حسن کی روایت ہے۔ امریکیوں نے پاکستان کا رخ کیا تو ہم بھی انہیں ناک رگڑنے پر مجبور کر دیں گے۔ منورحسن‘ عمران خان‘ بیت اللہ محسود اور ملا عمر کا یہی خیال ہے۔
مردوں کے ہجوم میں ایک لڑکی کو سزا دینے کا منظر ٹی وی پر دکھایا گیا‘ توعجیب ردعمل دیکھنے میں آیا۔ سواتی طالبان کے ترجمان مسلم خان صاحب نے پہلے کہا کہ ہم تو عورتوں کو چاردیواری کے اندر سزا دیتے ہیں۔ پھر کہا یہ اسلامی سزا ہے۔ ہم اس پر مناظرے کے لئے تیار ہیں۔ایک بار کہا کہ یہ معاہدہ امن سے پہلے کا واقعہ ہے اور پھر سٹوری ڈویلپ ہوتے ہوتے جعل سازی کے الزام تک آ گئی اور آخر میں یہ موقف اختیار کر لیا گیا کہ کوڑے مارنے کی ویڈیو جعلی ہے۔ اس کے ساتھ ہی طالبان کے وکیلوں نے ماہرانہ تبصرے شروع کر دیئے۔ جعلسازی کا سب سے بڑا ثبوت یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ لڑکی 34 ڈنڈے کھانے کے بعد کھڑی کیسے ہو گئی؟ کیا زبردست دلیل ہے؟ مردمومن مرد حق‘ ضیاالحق‘ جب صحافیوں‘ وکیلوں‘ مزدور لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے لگا رہے تھے‘ تو میں کوٹ لکھپت جیل میں تھا اور میرے سیل کے سامنے وہ گراؤنڈ تھی‘ جہاں کوڑے تیار کئے اور لگائے جاتے تھے۔ یہ کوڑا یا درہ چمڑے سے گندھا ہوتا تھا۔ جسے رات بھر تیل میں ڈبو کے رکھا جاتا اور صبح ایک ہٹاکٹا شخص‘ اسلامی مارشل لا کی گرفت میں آئے ہوئے مظلوم شہری کی پشت پر کوڑے برساتا۔ یہ بہت خوفناک کوڑا ہوتا تھا۔ بیشتر لوگ اسٹریچر پر جاتے۔ مگر کئی ایسے ہوتے تھے‘ جو یہ کوڑے کھانے کے بعد بھی اپنے پیروں پر ہسپتال کی طرف چل دیتے۔ کیونکہ کوڑے لگانے کے بعد طبی معائنہ ہوتا تھا۔ جو کوڑے لڑکی کو مارے گئے‘ وہ دراصل ایک ڈنڈا تھا۔ جسے زور سے مارا جاتا رہا۔ اس طرح ڈنڈے کھانے کے بعد لڑکی کا کھڑے ہونا کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ میں اس ویڈیو کو حقیقی ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ میں صرف اس پر کئے گئے اعتراضات کا بودا پن ظاہر کر رہا ہوں۔ اس جعلی ویڈیو میں دکھائے گئے منظر کے دفاع میں ‘طالبان کے ایک وکیل نے قرآن پاک کی آیات سنا دیں اور یہاں تک کہہ دیا کہ اس اسلامی سزا پر اعتراض کرنے والے کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ گویا انہوں نے تسلیم کر لیا کہ جو سزا ویڈیو میں دکھائی گئی ہے‘ وہ اسلامی ہے۔ مسلم خان صاحب نے بھی اس سزا کا دفاع کیا۔اگر فلم جعلی ہے تو اس میں دکھائی گئی سزا کو اسلامی کہہ کر ‘ اس کے دفاع میں قرآنی آیات سنانے کی ضرورت کیا تھی؟ اور اگر دکھائی گئی سزا شرعی ہے‘ توویڈیو کو جعلی قرار دینے کی ضرورت کیا ہے؟