خرم
محفلین
یہ تمام تاثرات بالکل درست ہیں۔ دیکھئے ہم اسمیں ایک دو باتیں بھولتے ہیں۔ پہلی بات جو آپ نے نوٹ کی کہ سواتی طالبان سے شکوہ نہ رکھتے ہوئے بھی تمام لوگوں نے یہ کہا کہ غیر سواتی طالبان نے مسلمانوں پر مظالم شروع کر دئے تھے اور ایک طرح کی فرقہ بندی شروع ہو چکی تھی طالبان کے درمیان۔ دوسری بات یہ کہ لوگوں کو صرف اپنے پیٹ سے غرض ہوتی ہے اور عوام سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں رکھنا چاہئے۔ میں محفوظ ہوں تو بس سب ٹھیک ہے۔ میری دوکان چل رہی ہے بس سب اچھا ہے۔ طالبان جب سوات آئے تو ہماری اپنی حکومتوں کی اور پولیس وغیرہا کی نااہلی کی وجہ سے ایک طرح بنا کسی مزاحمت کے داخل ہو گئے۔ اس لئے لوگوںکو ان کا آنا ابتداء میں نہیں کچھ بُرا نہیں لگا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ بھارتی فوج کسی سرحدی قصبے پر بنا لڑائی قابض ہو جائے اور اس قصبے کے حصول کے لئے لڑائی شروع ہو جائے تو لوگ کہیںگے کہ ہمیں بھارتیوں نے تو کچھ نہیں کہا تھا ہاں پاکستانیوں کی بمباری کی وجہ سے ہمیں گھر بار چھوڑنا پڑا۔ یقیناَ طالبان کے سوات پر قبضہ میں حکومتی نااہلی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن ہمیں عوامی چلن کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ لوگوں نے بھی صرف اپنی ناک تک دیکھنے کو ہی اپنا شعار رکھا اور آج اس اجتماعی بے حسی کی سزا سوات والے زیادہ لیکن ان کے ساتھ پوری قوم کچھ نہ کچھ بھگت رہی ہے۔
دوسری بات یہ کہ فوجی آپریشن کی اپنی ڈائنامکس ہوتی ہے۔ گولہ باری کروانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ توپ کا پہلا گولہ کبھی بھی درست نہیں ہوتا۔ پہلے گولے صرف ابتدائی کوآرڈینیٹس پر مارے جاتے ہیں۔ ان کے گرنے کے بعد گولے کا نشانہ درست کیا جاتا ہے۔ یہ جتنابھی عام آبادی کا نقصان ہوتا ہے وہ ان پہلے گولوں سے ہی ہوتا ہے لیکن اس نقصان سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ لوگوں کو کیونکہ صرف وہی پہلے گولے نظر آتے ہیں سو وہ انہیں کے متعلق بات کرتے اور واویلا کرتے ہیں۔ باقی کے سینکڑوں کا نہ انہیں علم ہوتا ہے اور نہ وہ ان کی بات کرتے ہیں۔ سوات تباہ ہے، یقیناَ تباہ ہے لیکن یہ قصور تمام معاشرہ کا ہے کہ ہم قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی لڑائی کو اوروں کی لڑائی سمجھتے رہے اور اس آگ نے ہمارا دامن بھی بالآخر تھام لیا۔ اسی غلطی میںآج بھی کئی پاکستانی مبتلا ہیں کہ اس آگ کو اگر نہ روکا جائے تو یہ خود ہی بُجھ جائے گی۔ ایسا ہونے کا نہیں۔ اگر آج سوات میں آپریشن نہ ہوتا توایک ماہ بعد حسن ابدال یا اس سے ایک ماہ بعد ٹیکسلا کی پہاڑیوں پر یہ لڑائی لڑی جارہی ہوتی۔ بھارت نے انتہائی ہوشیاری سے کشمیر کے بدلے میں ہم پر ہماری مغربی سرحدوں سے جنگ مسلط کی ہے اور جس طرح کارگل کے دنوں میں بھارت "آل آؤٹ" گیا تھا، اسی طرح پاکستان کے پاس اس وقت آل آؤٹ جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ فوجی آپریشن کی اپنی ڈائنامکس ہوتی ہے۔ گولہ باری کروانے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ توپ کا پہلا گولہ کبھی بھی درست نہیں ہوتا۔ پہلے گولے صرف ابتدائی کوآرڈینیٹس پر مارے جاتے ہیں۔ ان کے گرنے کے بعد گولے کا نشانہ درست کیا جاتا ہے۔ یہ جتنابھی عام آبادی کا نقصان ہوتا ہے وہ ان پہلے گولوں سے ہی ہوتا ہے لیکن اس نقصان سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ لوگوں کو کیونکہ صرف وہی پہلے گولے نظر آتے ہیں سو وہ انہیں کے متعلق بات کرتے اور واویلا کرتے ہیں۔ باقی کے سینکڑوں کا نہ انہیں علم ہوتا ہے اور نہ وہ ان کی بات کرتے ہیں۔ سوات تباہ ہے، یقیناَ تباہ ہے لیکن یہ قصور تمام معاشرہ کا ہے کہ ہم قبائلی علاقوں میں لڑی جانے والی لڑائی کو اوروں کی لڑائی سمجھتے رہے اور اس آگ نے ہمارا دامن بھی بالآخر تھام لیا۔ اسی غلطی میںآج بھی کئی پاکستانی مبتلا ہیں کہ اس آگ کو اگر نہ روکا جائے تو یہ خود ہی بُجھ جائے گی۔ ایسا ہونے کا نہیں۔ اگر آج سوات میں آپریشن نہ ہوتا توایک ماہ بعد حسن ابدال یا اس سے ایک ماہ بعد ٹیکسلا کی پہاڑیوں پر یہ لڑائی لڑی جارہی ہوتی۔ بھارت نے انتہائی ہوشیاری سے کشمیر کے بدلے میں ہم پر ہماری مغربی سرحدوں سے جنگ مسلط کی ہے اور جس طرح کارگل کے دنوں میں بھارت "آل آؤٹ" گیا تھا، اسی طرح پاکستان کے پاس اس وقت آل آؤٹ جائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔