محمود احمد غزنوی
محفلین
کیسے پتہ چلے گا کہ جن چیزوں کو ہم بے جان سمجھتے ہیں، وہ واقعی بے جان ہیں؟۔۔۔
آخری پیراگراف کے بارے تو کچھ یوں سمجھ لیجئے کہ جینیٹک رپلی کیشن یعنی کاپی تیار ہونے کے عمل میں غلطی کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس لئے کاپی کے عمل کے بعد جانچ ہوتی ہے اور غلطی فوراً ہی کاٹ کر الگ کر دی جاتی ہے اور غلط طور پر تیار شدہ پروٹین ری سائیکل کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ غلطیاں کسی وجہ سے ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں جس کی وجہ سے میوٹیشن پیدا ہوتی ہے۔ یہ میوٹیشن بعض اوقات اچھی اور اکثر اوقات بری ہوتی ہے
کیسے پتہ چلے گا کہ جن چیزوں کو ہم بے جان سمجھتے ہیں، وہ واقعی بے جان ہیں؟۔۔۔
ہوسکتا ہے وہ چلاتا ہو لیکن ہم سن نہ پاتے ہوں۔۔۔چٹکی لے کر دیکھیں۔ اگر وہ چلّائے تو سمجھیں جاندار ہے۔
ہوسکتا ہے وہ چلاتا ہو لکن ہم سن نہ پاتے ہوں۔۔۔
بدلے میں اگر اس نے اس سے بھی بڑھ کر کچھ کہہ دیا تو؟۔۔۔نا بابا ناںتو آپ کہہ دیجئے گا:
در فٹے موونھھ
اور آگے بڑھ جائیں۔
ارتقاء دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ہے ہاریزینٹل اور ایک ہی پیرالل۔ پیرالل میں تو اضافہ بھی ممکن ہے، کمی بھی اور تبدیلی بھیجینیٹک ریپلی کیشن یا بہتر سائنسی اصطلاح میں جینیٹک ڈپلکیشن میں بھی ارتقائے اصطلاحی کا کوئی وجود نہیں۔ اور میوٹیشن کے بارے میں لکھ ہی چکا ہوں کہ میوٹیشن پہلے سے موجود جین میں تبدیلی تو کر سکتی ہے لیکن اس میں اضافہ نہیں کر سکتی۔ اور تبدیلیوں میں بھی ہمیں معلوم ہے کہ مثبت میوٹیشن کا ریٹ ہزاروں میں ایک بھی نہیں ہے۔
بدلے میں اگر اس نے اس سے بھی بڑھ کر کچھ کہہ دیا تو؟۔۔۔ نا بابا ناں
کیسے معلوم ہوگا۔ جب ہم سن ہی نہ سکے۔۔۔اس سے تو شائد الٹا یہ ثابت ہوگیا کہ ہم بہرے ہیں وہ گونگا نہیں۔۔۔۔تو اس سے معلوم ہو جائے گا کہ وہ جاندار ہے۔
کیسے معلوم ہوگا۔ جب ہم سن ہی نہ سکے۔۔۔ اس سے تو شائد الٹا یہ ثابت ہوگیا کہ ہم بہرے ہیں وہ گونگا نہیں۔۔۔ ۔
پس یہ ثابت ہوا کہ ضارب و مضروب، دونوں ہی زندہ ہیںجب آپ سن ہی نہیں سکتے تو اس کے کچھ کہنے سے آپ کو کس بات کا خوف؟
کہنے کا خوف نہیں بلکہ اسکے کہے کو نہ سن سکنے پر اسکے بے جان ہونے کا نتیجہ نکالنے کا خوف ہے۔۔۔جب آپ سن ہی نہیں سکتے تو اس کے کچھ کہنے سے آپ کو کس بات کا خوف؟
ارتقاء دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ہے ہاریزینٹل اور ایک ہی پیرالل۔ پیرالل میں تو اضافہ بھی ممکن ہے، کمی بھی اور تبدیلی بھی
جہاں تک بات ہے ہاریزینٹل کی، تو اس پر بات کر لیتے ہیں
بنیادی طور پر ارتقا بہتری کو کہتے ہیں یا سادہ حالت سے پیچیدگی کی طرف منتقلی۔ آپ ان میں سے کس پر بات کر رہے ہیںجی۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ جینیٹک میوٹیشن سے ارتقا ممکن نہیں۔ کیونکہ ارتقا کے لیے جین میں اضافہ ضروری ہے۔ تبدیلی نہیں۔
کہنے کا خوف نہیں بلکہ اسکے کہے کو نہ سن سکنے پر اسکے بے جان ہونے کا نتیجہ نکالنے کا خوف ہے۔۔۔
تو پھر آپ کا ٹیسٹ تو فیل ہوگیا۔۔۔خود ہی آپ ایک ٹیسٹ بتاتے ہیں اور خود ہی اسکو رجیکٹ کرتے جارے ہیں۔۔۔ویسے تو آپ کسی سانپ یا مچھلی وغیرہ کو بھی چٹکی لے لیجئے تو وہ کچھ نہیں بولے گی۔
بنیادی طور پر ارتقا بہتری کو کہتے ہیں یا سادہ حالت سے پیچیدگی کی طرف منتقلی۔ آپ ان میں سے کس پر بات کر رہے ہیں
لنگور بندر ہے جنکہ انسان اور چمپینزی گریٹ ایپجی مجھے معلوم ہے ارتقا۔ اس لیے میں نے ارتقائے اصطلاحی لکھا تھا۔ یعنی ڈائی ورجنٹ ایولیوشن۔ جس کے تحت لنگور انسانوں میں تبدیل ہوگئے۔
اسی عمل کو ارتقا کہتے ہیں کہ حقائق کو پرکھ کر مفروضے قائم کیے جائیں اور پھر ان کو ریجیکٹ کر کے نئی تھیوری پیش کر دی جائے۔تو پھر آپ کا ٹیسٹ تو فیل ہوگیا۔۔۔ خود ہی آپ ایک ٹیسٹ بتاتے ہیں اور خود ہی اسکو رجیکٹ کرتے جارے ہیں۔۔۔
لنگور بندر ہے جنکہ انسان اور چمپینزی گریٹ ایپ