مزمل شیخ بسمل
محفلین
ایک وضاحت کر دوں کہ لفظ زمانہ کافی الجھانے والا ہے کہ کائنات کے باہر نہ تو زمانہ ہے اور نہ ہی مکاں۔ یعنی نہ تو کوئی سپیس ہے اور نہ ہی کوئی وقت
اسی طرح ہمارے علوم و اصول محض ہماری کائنات کی حد تک ویلڈ ہیں۔ اس کے بعد کیا ہے اور کیا نہیں، کچھ نہیں علم
آپ کبھی ورچوئل ذرات کے بارے پڑھئے تو بہت لطف آتا ہے کہ ادھار کی توانائی پر ایک ذرہ پیدا ہوتا ہے اور ادھار چکتا کر کے مر جاتا ہے۔ بعض اوقات اسے اتنا ادھار مل جاتا ہے کہ وہ اپنا پیدائشی ادھار چکتا کرتا ہے اور پھر وجود قائم رکھتا ہے
کیا پتہ ہماری پوری کائنات بہت بڑے پیمانے پر یہی کچھ ہو؟ شاید 60 کی دہائی میں سائنس فکش کے مصنفین نے اس سے ملتے جلتے خیال یعنی جس طرح ایٹم کا مرکزہ اور اس کے گرد گھومتے الیکٹران ہوتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ہماری کائنات میں ہمارا نظام شمسی دراصل کسی اور کائنات کے ایک ایٹم کے برابر ہو جس میں سورج مرکزہ ہو اور ہمارے سیارے الیکٹران، پر بہت کچھ لکھا
متفق۔ اسی لیے میں نے سمجھانے کی غرض سے اسے خلا لکھا دراصل تو وہ "ہونا" کی نفی ہے۔ ہم صرف کائنات کے اندر ہی کا حال جان سکتے ہیں۔ کیونکہ سائنس میں "ہے" کا لفظ کائنات تک محدود ہے۔
میر کا شعر ہے:
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر "جا" جہانِ دیگر تھا
اس شعر میں بہت وسیع مفہوم میں یہ بات واضح ہوتی ہے۔