سوچ کا سفر

نور وجدان

لائبریرین
الف کے واسطے دل بھی ہے

الف کے واسطے دل بھی ہے
الف کے لیے یہ جہاں بھی ہے۔
الف نے رنگ سجایا ایہہ دنیا دا
الف نے میم دے واسطے سوانگ رچایا۔

میم ساڈے دل دی ہستی وچ سمایا ہے۔
میم ساڈے انگ انگ وچ ،ذات نوں مست بنایا
میم دی ہستی مستی اجی ویکھی کوئی نا
میم نے فر وی دل وچ وسیب بنایا ہے


بے خود کیے دیتے ہیں اندز حجابانہ
آ ! دل میں تجھ میں رکھ لوں اے جلوہ جاناں
جب اللہ تعالیٰ پیارے آقاﷺ کے پیار کی قسمیں اپنے کلام میں کھاتا ہے تو ہم کیوں نہ کھائیں ۔ وہ پیارا نبیﷺ جس کو ہادی بر الحق کہا اللہ تعالیٰ نے اور ان کو رسالت و نبوت سے سرفراز کیا۔ آپﷺ پر قرانِ حکیم پر قران کریم اتارا گیا۔ وہ کلام جو حکمتوں سے بھرپور ہے ۔ میرے پیارے مولاﷺ کی قسمیں بھی بڑی پیاری ہیں ۔۔۔۔۔۔ اللہ پاک کی قسموں میں پیار اور دلار ہوتا ہے ۔​

وہ رب جس نے آقا ِ دو جہاں کو اپنے کرم و فضل سے نوازا۔ وہ رب جس نے میرے پیارا آقاﷺ کی تعریف کی ۔ وہ رب جس نے سدرۃ المنتہیٰ تک آپ کے ساتھ روح الامین کو رکھا ۔ وہ رب جس نے معراج کا تحفہ بخشا ۔ اس پیاری سی قسم کے ہم کیوں نہ قربان جائیں ۔ اس کو قرانِ پاک کا دل کہتے ہیں ۔ اللہ پاک کے کلام کے دل یعنی مرکز اور اس کی ابتدا میرا مالک پیارے محبوب ﷺ کے نام سے کر رہا ہے ، جب ابتدا اِس پیارے نام سے ہے تو انتہا کیا ہوگی ۔ انتہا بھی ابتدا ہے اور ابتدا بھی انتہا ہے ۔ اس سے پہلے بھی کچھ نہیں ہے اور اس کے بعد بھی کچھ نہیں ہے ۔ یہ میرے اللہ کا ہم سب لوگوں کو ایک تحفہ ہے کہ ہم تک قرانِ پاک موجود اسی حالت میں ہے ، جس حالت میں اللہ تعالیٰ نے اتارا تھا۔ آپ کو مستقیم راستے پر استوار کرکے بھیجا گیا تاکہ دنیا کی تمام رہ جانے والی امتیں اس راہ پر آجائیں ۔ وہ راہ جو اچھائی کی ہے اس راہ پر چلنے والے ہی اللہ تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کو حضور پر نورﷺ کا پیرو کار بنایا۔ ہم کو اسی راستے پر چلنا ہے ۔​

حق ! سیدھے راستے کی ایقان ہر کسی کو ملے گی ۔ اس کی پہچان کرنے والے تو ہدایت پا جائیں گے مگر اکثر لوگ اس راستے کو ماننے سے انکار کردیں گے بالکل اسی طرح کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ۔ جو اس راستے کو جان کر اپنے آپ کو ہدایت کی راہ پر لے آئیں گے وہی اللہ تعالیٰ کے پاس مقبول و منظور ہوں گے


افسوس ! دکھ ! رنج اور ندامت ۔۔۔۔۔۔۔۔​

کس بات پر ۔۔۔ اس بات پر جس کے پاس حق پہنچے اور وہ حق کو نہ مانے اور نہ ماننے والے کو وعید سنا دی گئی ہے ۔ جس طرح ایک مفلس دنیا کی لذتوں کو محسوس نہیں کر سکتا مگر حسرت تو رکھتا ہے ۔۔۔! مایوسی کے خواہش پوری نہ ہوسکی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ جو حق کو ماننے سے انکار کرتے ہیں یا انکار دیں گے ان کے دل و دماغ ، ان کے اعصاب ، ان کے روح و جسم سب پر دنیا اپنے نشان ثبت کر دے گی اور وہ ان نشانات کو مٹا نہ سکیں گے ۔ ان نگاہوں کے پردے کبھی حق کے لیے نہ اٹھیں گے اور نہ ہی ان کا دل حق کی مالا جپ سکے گا، اس سے برا ان کے لیے کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟ ان کا انکار اس ہدایت کو ماننے سے انکاری ! بالکل ویسے ہی جیسے رب تعالی نے پہلے انبیاء کرام بھیجے ، حضرت موسی علیہ السلام کو بھیجا اور لوگوں نے ان سے رسول ہونے کی نشانی مانگی ۔۔۔آسمان سے من و سلوی اتارا گیا۔ اور معجزات کو ان کے ہاتھ اور عصا میں استوار کیا گیا۔ اور حضرت عیسی کو ''قم با اذن اللہ '' کا معجزہ دیا گیا ۔ان لوگوں نے باری تعالیٰ کی روشنیوں پر اعتبار نہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کیا رب کا محبوب جس کا مجسم تمام معجزوں کو لیے ہوئے ہے اس بابرکت ذات کو ''رد'' کرنا اللہ کو منظور کہاں !ً جس کو تسبیح ملائک پڑھتے ہیں اور جس کا مدح خواں رب باری تعالیٰ کی ذات خود ہے ۔ اس ذات کی نفی گویا کائنات کی نفی ہے ، اپنی ذات کی نفی ہے ۔​

میری خوش قسمتی کی میں آپﷺ کی امتی ۔۔۔۔۔ وہ ذات جو نفاق سے پاک ، کینہ پروری سے پاک ہے ۔ شافع دو جہاں ہمارے لیے روتے رہے ہیں اور قیامت کے دن بھی روئیں گے ۔رحمت کا سوچوں تو نبی پاکﷺ کا خیال آتا ہے کہ طائف والے ہیں ، چاہتے تو ۔۔۔! اگر چاہتے تو ہلاک کرنے کی بد دعا دیتے اگر چاہتے تو ! ہندہ ! جس نے سید الشہدا حضرت حمزہ رض کا جگر چبا ڈالا ، اس کو بد دعا دیتے مگر آپ ٹھہرے نا ! رحمت ٹھہرے تمام عالم کے لیے ۔۔۔ ! اس لیے امت کے لیے راتوں کو جاگ جاگ کر روتے ۔ یہ نہیں کہ اپنے عہد کے لوگوں کے لیے دعا فرماتے بلکہ آنے والے عہد کے لیے بھی دعا فرماتے ۔ وہ نبی ! میرے نبی ۔۔

میں کیوں نا حق ادا کردوں ۔۔۔
حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا۔۔۔۔۔۔!
نبی نبی ۔۔ یا نبی،ﷺ یا نبیﷺ
دل سے نکلے ،یا نبی ﷺ
زباں بھی پڑھے ،یا نبی ﷺ
کلمہ میں بھی ہو یا نبیﷺ
قراں میں رب کہے۔ یانبیﷺ
مدینہ و مکہ کی صدا۔ یا نبی ﷺ
ہند و ایران میں ہے صدا یا نبیﷺ
اقصیٰ میں انبیاء کہیں یانبیﷺ
عرش کے مکین بولے یا نبی ﷺ
فرش کی ہے یہ صدا یا نبیﷺ
قطرہ قطرہ بدن میں کہے یا نبیﷺ
آؤ ! سارے مل کر تو بولیں یا نبیﷺ
نبی ﷺ نبیﷺ ، نبیﷺ میرے نبیﷺ
مسلک ہوئے ختم اس صدا پر یا نبیﷺ
انساں سارے ہیں کہے یا نبیﷺ
عشق و عاشق کا نعرہ ہے یا نبیﷺ

ان پر ایمان لانے سے سارے گناہ اس طرح دھلنے لگتے ہیں جس طرح صابن سے ہاتھ کی میل ، سارے راستے متوازی ہوجاتے ہیں ۔ آنکھیں تو آنکھیں۔۔۔۔! بصارت بھی مل جاتی ہے ۔ امامت و سالاری کو چھوڑیے ، اس کو شفاعت کا حق بھی مل جاتا ہے ۔ جب آنکھ نبیﷺ کا وضو کرے تو دل میں نعت کے پھول کھلتے ہیں


اس بات میں اور اس بات میں!
آپ نظر آتے ہو ہر ذات میں!
بہروپ پھرتے ہیں دیوانے!
چلتے ہیں شانے ملانے!
کون کس کا محرم حال جانے!
صحرا کو جنگل اب کیا جانے!
اس دنیا میں انسان کی قیمت!
صورت و مورت سے بصیرت!
حرص و تکبر کی لکڑی!
او لکڑی! دنیا مکڑی!
کیا جانے درد کا حال!
ذرہ ذرہ ہے نڈھال!
ہو گئے ہم تو مست حال!
کون جانے کس کی کھال!
اللہ اللہ کرکے سارے!
''ھو ''نال گلاں ماریے!
''ھو'' نے انگ انگ وچ!
کردی سج دھج!
اب تو ناچ سنگ!
''الف'' اور'' م ''کا رنگ
مٹا اب سب زنگ
چل زنگی! اٹھ رنگ نال!
ناچ تے مار دھمال!
ہجر نے ہن ستانا!
اب تو ہے نبھانا!
چل ہوگیا یارانہ!
اور مل گیا پرانا!
سانس مہک اٹھی!
جاں لہک اٹھی!
چھلکا یہ پیمانہ!
مٹ گیا تفرقانہ!
جان جاناں! دور نہ جاناں!
دل تم پہ قربان جاناں​
 

نور وجدان

لائبریرین
آگہی ایک عرفان !

کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک پل میں شمع جل کر راکھ ہوگئی ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ دل پر بوجھ سا پڑجاتا ہے کہ اب کچھ کرنا ہے اور کچھ قرض ہے ۔ اس ادراک کی افہام سے دل میں زلزلے آجاتے ہیں ۔ سیلاب اور زلزے اور پھر بھی خاموشی ۔۔۔۔

یہ آگہی کا عذاب بڑا عجیب ہوتا ہے مگر جب بھی ملتا ہے وہ خوش نصییب ہوتا ہے ۔

آگہی ایک عرفان !
آگہی تو پہچان!
اس سے ہو ایقان!
یہ ذات کا وجدان !
دل کہتا کہ اب مان!
محبوب کی نہ ٹال!

بس اس کے آگے زبان کو تالے لگ جاتے ہیں ، انسان جو مست خرامی ۔۔۔۔ خراماں خراماں باد صبا کی طرح مہک رہا ہوتا ہے اس کا دل جل اٹھتا ہے ، خوشبو بن کر جلنا کیسا ہوتا ہے َ

خوشبو بھی ، روشنی بھی !
جستجو میں مدہوشی بھی !
اس آڑ میں اک بے بسی بھی !
پھیل کر رہے گی روشنی بھی!

سب مایا زندگی میں بھاگ رہے ہیں. کس کو اپنے رب کی پرواہ نہیں ہے.یہ لاپرواہی کہیں کھا نہ جائے. کوئی تو اس کی طرف لپکے. کوئی تو اس کی طرف سجدہ کرے. سجدے کرنے والے مرغوب بارگاہ خدا وندی میں. زندگی میں ایسا سجدہ ضرور کرنا کہ حق سارا ایک سجدے میں ادا ہو جائے

زندگی جلتی رہے گی!
آگ سے بہکتی رہے گی !
تجھ میں تابندگی صدا!
نور کے نور سے رہے گی!
تو کون ہے؟ میں کون؟
لکھا ازل سے نور جائے گا!
جسم کو دہکا کر!
ترے انگ انگ کو!
آگ بنایا جائے گا!
من کو مٹی سے سلگا کر!
دہکتا انگارا بنا کر !
درخشندہ ستارہ بنا کر!
اپنے عدم پر لایا جائے گا.!
من کی مٹی کی بھٹی!
نظارا کرے گی !
اس بھٹی میں کون جانا؟
تو جانا؟ اور جانا؟
جس پر لاگے !
وہی بس جانا!

تن کو چھوڑ دو۔۔۔ من بڑا اداس ہوگیا ہے ، سارا سمندر آنکھ کے بند میں بندھ گیا ہے ۔ ہائے ! بند کیسے کھلے گا، ہچکیاں کب لگیں گی ، روئی بدن کا ذرہ کب اڑے گا۔ اور ذرہ کب ، کہاں کہاں اڑے گا۔ اس کی بساط ، مگر اڑے گا اور مہک کر روشنی دے گا۔ اس میں تن کا جلنا شرط ہے تو شرط سہی ، ہم کو تو یہ شرط بھی ماننی ہے کہ تن ، من کا جلا ایک دروازے سے کھڑا اس کو کھول چکا ہے اور دروازے کھلنے پر ایک لق و دق صحرا ہے ، مگر یہ صحرا دروازے پر کھڑے رہنے سے اچھا ہے ، صحرا کے طویل مسافت کے بعد ایک اور دروازہ اور آگہی و عرفان کے در کھلتے جائیں گے ۔

اے کوچہ ویراں !
اے شبِ ہجراں !
درد ہے بیکراں !
کوئی نہیں یہاں !
کون سنے فغاں!
کر سب اب نہاں !
یوں نہ کر عیاں !
چل پھر یہاں وہاں !
ترا کام ہے جہاں !
جام بھی ہے جہاں !
ساز بھی ہے یہاں !
کچھ نہیں پنہاں !
جلوہ اس کا ہے نُما!
جاناں! ہے وہاں !
لوگ ملے گے جہاں!

درد کا راستہ و سفر شروع ہے ۔ ساری شوخی و مستی ہیچ ہوگئی ہے ۔ اب بے بسی میں مزہ ہے اور اس میں اک نشہ ہے ، شراب کا نشہ کون چھوڑے گاَ؟ اس کی لت جس کو لگ جائے تو بس چھوٹتی نہیں ۔ قطرہ قطرہ قلزہ لگتا ہے اور اس قطرے میں ڈوب جانے کو من بھی کرتا ہے جبکہ ذات رل جاتی ہے اور رل بھی جائے تو اس کو رل جانے دو۔۔۔۔ یہ سفر بھی ایک اعجاز ہے اور رب کا شکریہ اس نے کسی ذرے کو روشنی دی ۔ ورنہ ذرہ کیا حیثت رکھے ۔

کچھ اب یاد نہیں آتا!
حال کو حال نہیں آتا!
زبان ہر نام نہیں آتا!
دل پر ذکر نہیں جاتا!
شب کو ہجر نہیں جاتا!
صبح کو میلا نہیں جاتا!
تنہا کوئی نہیں آتا!
تنہا کوئی نہیں جاتا!
نام خالق کا دل میں !
چہرہ میں چھپا وہ ہے!
ظاہر وہ نہیں ہوتا!
باہر کون نہیں ہوتا!
اندر کا دل قیدی !
سب ہے سفیدی!

جو جان لے محبت کا احساس وہ کبھی بھی ہجرت ہر آمادہ نہیں ہوتا مگر اس کی اساس ہجرت ٹھہری ... درد کی ٹیس سے کیا ہوتا ہے دل نکلے تو مزہ آتا ہے۔۔۔!!!مگر کچھ بھی تو اختیار میں نہیں اور ہوتا بھی تو کیا ہوتا ... انسان نام تو جھک جانے کا اور مٹ جانے کا...مٹنا چاہیں تو کیسے ... اس سوال کا جواب ڈھونڈ کر مٹ ہی جائیں تو اچھا ہے ....

بڑی اذیت میں تخلیق!
صدیوں کا درد تخلیق!
ہجر کا ہن ہے تخلیق!
وصل دا چن تخلیق !
دنیا کرتی تخلیق!
ذات سے ذات تخلیق!
کرتی ہے تفریق!
بنتی ہے صدیق !
کون جانے زندیق !
خاکی مقید صدیق !
ہجو کرتی ہے تخلیق!
کام کرتی ہے نرالے !
تخلیق کی قاتل تخلیق!

راگ ہے نا ساز پھر بھی بارات ... یہ کیسی شب براءت ہے. آنسو ہیں نم ہے دل مگر پھر بھی پیاس ہے ... ... اے درد! تو کتنا بڑا کارسازہے مجھے بہ جانے دے مجھے مٹ جانے دے .... ..محبت میں مادہ اور روح کیا اہمیت رکھتا یے.... روح بھی مادہ اور مادہ بھی روح ... سب ایک ہے.... پھر بھی خود سے دور ہوں ...آئینہ! کدھر گیا کیا مجھ سے بچھڑ گیا؟ میرا چہرہ چھپ گیا.. . ...؟ عکس خالی سا ہے ...؟ خاکی مٹ رہا ہے ...خاک کو مٹ جانے دو اور نشاط و کیف درد سے ہے وہ کسی چیز میں کہاں؟

شادی کی کیفیت!
منادی کی کیفیت!
آزادی کیوں مانگ!
چل دے اب بانگ!
کام ترا ہے اذان!
مٹ گیا ترا نشان!
تو کون یہ کوئی نہ جانے!
رب کو ساری دنیا مانے!
اپنی اپنی نہ کر اب!
میری میری کر اب!
مقصود ترا رب!
قاصد کی کیا شب!

ہم کہ اپنے خوابوں میں رہنے والے اور نت نئے عذابوں میں والے، کہاں سے لائیں عشق سرابوں والے،.... اب موسم بھی ہے سحابوں والا... برکھا کی رم جھم ... رم جھم اور ٹپ ٹپ کرکے گریں ... کتنے قطرے گرے؟ کیا ہم ہے حسابوں والے ..... موج سے قطرہ ملا اور مچ گیا شور ...... اس شور میں آواز مدھم مدھم لرزتی رہی اور ساحل سے مل کر روتی رہی ..رم جھم ہوتی رہی .. رم جھم ہونے دو ..... بوند بوند گرنے میں مزہ ہے ... کسی دن موج کو سمندر خود میں سمو لے گا اور ہجرت کا احساس ختم ہوجائے گا. .. سمندر کے پاس ایک بڑی شمع دان میں سلگتی آگ موج کو رواں رکھے ہوئے ....نہ حکایت ساز ہوں، نہ روایت ساز ہوں ..... مگر پھر بھی گزارش کرنے میں حرج کیا ہے. کبھی تو اپنی بات سنا دوں اور مسکرا دیں آپ..!!کشش " یہ "کشش " کچھ کہنے بھی نہیں دیتی اور چپ رہنے بھی نہیں دیتے ... رسی کو دونوں جانب سے جس طرح کھینچا جاتا ہے .. کبھی "کشش " ایک طرف بڑھ جائے اور توازن بگڑ جائے تو اچھا ہے ...توازن بگڑ جائے تو اچھا ہے اور درد سے دل بھرجائے تو اچھا ہے .. درد کے نشاط میں دھمال ڈال ڈال کر میں پہنچ جاؤں ... جہاں مجھے جانا ہے ...مگر اے درد! بتا تو سہی کہ ہم.جائیں تو کدھر جائیں ...... تعین کر پائیں تو اچھا ہے

بیاں ہو رہی حکایت !
چل رہی ہے روایت!
اب گھلے گی حلاوت!
دور ہوگئی ملاوٹ !
ہائے! رے یہ فطانت!
بن رہی ہے کہانت !
کس کو ملے ہے ضمانت !
جہاں سے جاں کی شامت !
وصل و ہجر کی بیانت !
چاند سے دوری سوہانت​
 

نور وجدان

لائبریرین
راز حقیقت ''کن فیکون ''
جب لب ہلیں اور حرف واجب ہوجائیں تو تاثیر ختم ہوجاتی ہے ۔ احساس جس چڑیا کا نام ہے اس پرندے نے ہر ذی نفس کے جسم میں پھڑپھڑانا ہے ۔ جس طرح ہر ذی نفس نے ذائقہ الموت پہنچنا ہے اس کے لیے لازم ہے عہد الست کو یاد رکھے اور پنچھیوں کو اپنے آشیانوں کے بجائے درختوں کی شاخوں پر پڑاؤ کرنا پڑتا ہے ۔قانون قدرت ہے کہ ہجرت پرندوں کا مقدر ٹھہرتی مگر اس سے پہلے لازوال تمثیل ان کے روبرو ہوکے سارے غم غلط کر دیتی ہے ۔ تب خودی میں ڈوبنے والے ذات کا سراغ پانے کے بعد اپنی ذات سے مبراء محبوب کا کان ، ناک ، ہونٹ بن جاتے ہیں ان کے ہونٹوں سے ادا ہونے لفظ ، آنکھوں کی جنبش اور ہاتھوں کی لررزش مکمل ابلاغ کی حامل ہوتی ہے اور اس کو اپنے محبوب تک پہنچنی کے لیے فلک تا عرش کوئی راستہ نہیں روک سکتا ہے ۔ جب تری دعا، تری التجا اور مدعا محبوب تک ایسے پہنچنے لگے تو تجھے چاہیے کیا ِ؟ انسان کا کام ہے کہ ادھر ادھر چھپے مظاہر سے جستجو کا سفر جاری رکھے اور یہاں واں کھانے پینے سے زندگی کو دوام کہاں ملتا ہے ۔ مدام خوشی و ہجر اپنے وقت ء معین سے نکلتے رہتے ہیں مگر ان کے دائرے کبھی فضائے بسیط میں داخل ہو جائیں تو لامکان کی بلندیوں اور عرش کی حلقہ بندیوں میں چھپے اسرار عیاں ہونے لگتا ہے ۔ یہاں سے راز حقیقت ''کن فیکون '' اس تک پہنچنے لگتا ہے جس کا وعدہ بوقت تخلیق اللہ نے مشت ء خاک سے کیا تھا ۔ اس کے بعد نوازشات کی بے انتہا بارش سے انسان نہا جاتا ہے اور بعد اس کے ناشکری پر رب تعالی نے فرمایا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ِ؟ یہی پیغام اسی تحریر کے نہاں گوشوں سے نکلتا سرر و سحر کی کیفیتات کا موجب بنتا ہے اور بتاتا ہے آدم و حوا کی بنا کسی مقصد کے پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ آدم کی پسلی سے نکلنی والی حوا نے اسی کی نسل کو چلانے کا کام سر انجام دیا اور آدم کو بحثیت نائب روح انسانی پر تعینات کیا ہے ۔۔ قدرتی نظام انہی پنچھیوں سے چلتا ہے جن کے سردار انبیاء اور اولیاء ہیں جن کے کشف و کرامات کے قصے آج بھی انمول نقش رکھتے ہیں اور جو کہے کہ یہ تو قصہ ہیں وہ صرف حقیقت نہیں جانتے ہیں ۔ ان کو بس اپنی خودی چاہت مبتلا کرتی ہے ۔ انہی باتوں سے دور عشاق کا قافلہ اپنی علیحدہ درجہ بندہ کیے ہوئے ہیں اور یہی لوگ بالیقین منازل صراط عبور کرنے والے ہوتے ہیں ۔ ان کے فرائض وقت بڑھاتا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ درجہ پانے والے بنتے جاتے ہیں ۔ نفس ملحمہ پر استوار روحیں جبروت ، ملکوت و لاہوت کی انتہا تک پہنچ مطمئنہ کی منزل قرار لیتے ہیں اور پھر اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ اس سے اچھا اجر رب عالمین کے پاس سے کس کو مل سکتا ہے کہ رب اس کو محبوب رکھے جو اس کو محبوب رکھتا ہے اور جو اسکے محبوب کو محب جانتا ہے ۔وصل یار سے ہوتے نور کو پاتے عین العین کی منازل عبور کرنے والے ہوتے ہیں اور پھر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم اپنے
رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔​
انسان کو اللہ تعالیٰ کبھی اپنی ہمت و استطاعت سے زیادہ نہیں آزماتا ہے ۔ جو جتنا برداشت کرتا ہے اس دنیا میں ، دوسرے جہاں میں صراط سے گُزرنا اتنا ہی قوی پاتا ہے ۔ دنیا آخرت پر مستوی ہے اور اس دنیا کا استوا ہمارا یقین ہے جو ہمیں آزمائشوں کے صراط سے نبرآزما ہونے کی توفیق دیتا ہے ۔ اس بات کی سمجھ کبھی نہیں آئی تھی کہ سب سے زیادہ برداشت اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کیوں کرنا پڑا اور صبر کی مثال جناب حضرت ایوب علیہ سلام سے کیوں مستعار لی جاتی ہے ۔ یہ دنیا ایک عالم ہے جہاں روحیں بستی ہیں اور روح بھی ایک خیال ہے اور خیال یعنی روح بھی اپنا عالم رکھتی ہے ۔ کوئی روحیں صرف شوق جستجو رکھتی ہے اور عشق کی آگ میں ابد تا ازل جلتی رہتی ہیں ۔ کاغذ چونکہ ایک خیال نہیں ہے اس لیے اس کی راکھ نظر آتی ہے اور روح چونکہ ایک خیال ہے اس لیے اس کا جلنا دکھتا نہیں اس کی راکھ بھی نہیں ہوتی مگر جلتی رہتی ہیں اور جتنے شوق سے جلتی ہے اسی لگن کا چراغ بنادی جاتی ہے ۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ عشق کے لیے پیدا کیے گئے کہ جلنا ہر کسی کے بس کا بات نہیں مگر یہ بھی سچ ہے ہر روح جلتی ہے ، اس کی کاغذ کتنا بڑا ہے یا خیال جتنا بڑا ہوتا ہے ، اس کے مطابق جلتی ہے اور جو جلنا محسوس کرتی ہیں ان کو روشنی دے دی جاتی ہے ،ہم اس نبی کے امتی ہیں جن کو شوق کی پُھونک سے بنایا گیا ۔ ہمارا قافلہ عشاق کا قافلہ ہے جو جہاں سے چلا ہے وہیں سے اٹھے گا ، جو عشق دنیا رکھے گا وہ اس کو پا لے گا ، جو حدت جاوادانی کی شراب میں نشاط غم کے مزے لے گا ، اس کو شراب سے میخانہ بنا دیا جائے گا ۔ یہ تو اللہ کی عطا پر منحصر ہے کہ وہ کسی کو کیا بناتا ہے اور کس کو کتنا دیتا ہے اسکی دین کے مطابق ہمیں برداشت کی طاقت بھی مل جاتی ہے ۔​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین


صُبح کا تارا ظُلمت کا پردہ چاک کرکے، خود کو دوام بخش کے، اسلام کو زندہ کرکے ، قربانی کی تجدید کرکے شاہد و شہید ہوکے اپنی سرداری کی دلیل دے کر گئے ۔ہم آج ان کی یاد میں دو چار لفظ کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے محرم کا پہلا عشرہ اس عظیم قربانی کی یاد میں گُزار دیا۔ قُربانی کی تمثیل یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے چلتی حضرت عبداللہ رض کو پُہنچی جن کے والد حضرت عبدالمطلب کے نو بیٹے تھے اور منت مانی تھی کہ دس بیٹے ہوئے تو دسواں قربانی کردیں گے ۔ جب حضرت عبداللہ رض پیدا ہوئے تو جناب عبدالمطلب کا دل نہیں کیا کہ اپنے دُلارے اور چھوٹے سے بیٹے کو قربان کردیں ۔ سردارانِ قریش و کاہنوں کے مشورے پر چلتے ہوئے سُو اونٹ قُربان کردیے گئے ۔حضرت ابراہیم کی نسل میں دو دفعہ قربانی ٹل گئی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس دنیا میں آنا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قُربانی کی یاد میں عید الضححٰی منائی جاتی ہے اور حضرت عبداللہ کی بیٹے جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آنا تھا ، ان کے آنے میں خُوشی میں عید میلاد النبی منائی جاتی ہے ۔ اس قربانی کی تکمیل نبوت کی تکمیل کی لیے ضروری تھی کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ واسلم کو اس دنیا میں آنا تھا اور السلام کو پھیلانا تھا اس لیے حسنین کی قربانی نے نبوت کی تکمیل کرتے ہوئے اسلام کو زندہ کردیا ۔ حضرت امام حسن علیہ السلام زہر دے کر شہید کردیئے گئے اور حضرت امام حسین نے پورے کنبہ ء رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی دے کر آسمان پر مکین روح الامین جبرائیل کو بھی بے چین کردیا۔​

صدقء خلیل بھی ہے عشق،صبرء حُسین بھی ہےعشق​
معرکہء وجود میں بدرو حُنین بھی ہے عشق​


کچھ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کردیکھتے ہوئے میں نے تعصب کا چشمہ اتار پھینکا ہے ۔ میرا کوئی مسلک نہیں ہے : میں نہ شیعہ ہوں ، میں نہ سنی ہوں ، میں نہ اہل حدیث ہوں ، میں نہ بریلوی ہوں اور نہ ہی دیوبندی ہوں ۔ میں ایک ذلیل و عاجز ، سیہ کار و گُنہ گار مسلمان ہوں جس کا مقام اتنا گرا ہوا ہے کہ اس کو سفل سے نچلے درجہ کا بھی کہا جائے تو بجا ہوگا مگر کیا کروں کہ اسفل الاسافلین سے نچلا درجہ کوئی نہیں ہے ، یہ ہاتھ ، میرا دل ، میری زُبان اپنے تمام جُملہ شیطانی اوصاف رکھتے ہوئے بھی ان پاک ہستیوں کا نام لینے پر مجبور ہیں ۔ شاید اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سعادت سے محروم نہیں رکھا ہے اس بات پر میرا سجدہء شُکر ہے کہ میں آج ان پاک ہستیوں کو لکھ کر اپنی سیہ کاری کو چُھپانا چاہ رہی ہوں ۔ جنگ ء جمل و صفین نے دینِ اسلام کی متحد صفیں بکھیر دیں تھیں ۔ اسلامی حکومت دو حصوں میں بٹ کر خلافت و بادشاہت میں بدل چکی تھی ۔ ایک طرف حضرت علی رض حکمران تھے جو کہ بنو ہاشم سے تعلق رکھتے تھے تو دوسری طرف حضرت معاویہ رض حُکمران تھے جو بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ بنو ہاشم و بنو امیہ کی لڑائی واقعہء کربلا کا شاخسانہ بنی ۔ عبدالمناف کے دو جُڑواں بیٹے پیدا ہوئے جن کے دھڑ ایک دوسرےکے ساتھ منسلک تھے ان کو تلوار سے علیحدہ کردیا گیا ۔نجومیوں نے پیشن گوئی کی کہ ان دو کے درمیان لڑائی جاری رہے گی حضرت امیر معاویہ نے کے دور ء حکومت کے تین کام جس نے خلافت کو بادشاہت میں بدل دیا : بیت المال کی ذاتی تصرف ، یزید کی ولی عہدی اور سب علی یعنی خطبہء جمعہ کے بعد حضرت علی رض کو گالیاں و برا بھلا کہنے کا رسم کی شُروعات ۔ اس صورت میں وہ ساتھی جو حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے ان کو شیعانء معاویہ اور جو حضرت علی رض کے ساتھ ان کو شیعانء علی کہا جاتا تھا۔حضرت علی رض کی شہادت کے بعد حضرت عمرو بن العاص نے امیر معاویہ کو یزید کی ولی عہدی کا مشورہ دیا اور اپنے وصیت نامے میں کچھ ہدایات لکھ گئے کہ اس وقت حجاز میں پانچ اشخاص ایسے ہیں اگر وہ تمھارے حق میں بیعت کرلیں تو پورے حجاز نے بیعت کرلی ۔ ان میں سے دو اشخاص بیعت کرلیں تو سمجھو سب افراد تمھارے تابع ہیں ۔ ایک حضرت امام حُسین رض ہیں ، جن کے بارے میں کہا کہ وہ قرابت دار ہیں ، جہاں ملیں حُسن سلوک کا مظاہرہ کرنا اور جو شخص تمھیں لومڑی کی طرح چالاک اور شیر کی طرح بہادر نظر آئے وہ حضرت عبداللہ بن زبیررض ہیں ۔ وہ جہاں نظر آئیں ان کو فورا قتل کرنا۔ یزید نے اپنے افراد حجاز بھیجے تاکہ ان سے بیعت لی جاسکی ۔ دونوں نے مہلت مانگی اور حضرت عبداللہ رض حجاز سے فرار ہوگئے جبکہ حضرت امام حُسین رض کوفہ کی طرف کوچ کرچکے تھے ۔ یہیں پر واقعہء کربلا پیش آیا ۔ جس کی ساری رُوداد ہم سنتے ہیں تو دل موم ہوجاتے ہیں اور چشم نم ہوجاتی ہے ۔​

شیعان علی رض وہ لوگ جو حضرت امام حُسین رض کو اپنی وفاداریوں کا یقین دلا چکے تھے مگر ان کو پورا نہیں کرسکے ۔ دوست نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت امام حُسین رض کی دوستی اللہ تعالیٰ سے کیسی تھی اور سوچوں میری دوستی کیسی ہے تو مجھے اپنا آپ انہی لوگوں کے کردار میں ملتا ہے جو دوست کی دوستی کا حق ادا نہیں کرتے ۔ دوست تو گواہی مانگتا ہے ۔ کُوفیوں کی گواہی ملاحظہ کیجئے اور امام عالی مقام رض کی گواہی ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے اپنے خون سے کلمہء حق کو زندہ کرتے ہوئے دی کہ کربلا کی خاک تو بہت روئی تھی ، کاش میں وہ خاک ہی ہوتی جس پر اس پاک خون سے لا الہ الا اللہ کا کلمہ شاہد ہوگیا کہ اللہ کا دین غالب ہوگیا کہ وہ غالب ہوکر رہے گا اور باطل کا نام مٹ گیا کہ وہ مٹنے کے لیے ہی ہے ۔ ان شہادتوں پر ماتم کرنا بذات خود امام عالی مقام کی توہین ہے ان کی قربانی کی توہین ہے ۔ شہید تو زندہ ہیں اور قیامت تک زندہ رہیں گے​

کہ دو غم حسین منانے والوں کو​
مومن کبھی شہدا کا ماتم نہیں کرتے​
ہے عشق اپنی جان سے بھی زیادہ آل رسول سے​
یوں سر عام ہم انکا تماشہ نہیں کرتے​
روئے وہ جو منکر ہے شہادت حسین کا​
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے​

اس قربانی میں حکمت کیا تھی ، اسلام کیسے زندہ ہوا ۔ آپ اگر یزید کی اطاعت کرلیتے تو اسلام کی اصل شکل اور روح ہم تک نہیں پُہنچ پاتی ۔میرا مسلک تو وہی ہے جو مجھے چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک ہستی نے بتایا ۔ میں اس وقت موجود ہوتی تو خوش نصیبوں میں ہوتی ۔ مجھے دکھ ہے میں کسی طرح بھی ان کے ساتھ نہیں رہ سکی اور نہ کسی غزوہ و معرکہ میں شرکت کرسکی ، میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتی اگر میں حضرت امام حسین رض کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیتی ۔ میں اس بات پر روتی ہوں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی نہیں رکھا ۔ میرے دل میں خواہش رہی کہ ان بڑی ہستیوں کے طریقے پر چل سکوں مگر میں نہیں چل سکتی ۔ میں کچھ بھی نہیں کرسکی ہوں ۔ میں سوچتی ہوں میں کسی مسلمان ہوں ِ؟ کیا واقعی ہی میں مسلمان ہوں ؟ یہ کیسا اسلام میرے دل میں ہے جو مجھے ایثار و بے لوث محبت نہیں کرنے دیتا جو مجھے نفسی نفسی کا سبق دیتا ہے ۔ میں تو اب سوچتی ہوں کہ میں انسان بھی ہوں؟ مجھے کوئی بتائے کہ میں انسان کہلائے جانے کے لائق ہوں ؟​
 

نور وجدان

لائبریرین

لکھتے ہوئے شبنم نے گھاس پر گرنا شُروع کیا ہے ۔ کاش سبزہ بھی اس شبنم کے گرنے کو نہیں بچا سکتا ہے کہ شبنم کے لیے بہترین جگہ تو گُلاب کو پھول ہے ۔ واصف علی واصف کا کلام ہے ، میں نعرہء مستانہ ۔۔۔۔ بہت سے ایسے کلام ہیں جو انسانی سوچ کی پیداوار نہیں ہے ۔ سوچ تو مظاہر کی تابع ہوتی ہے ، سوچ کو ترقی تب ہی ملتی ہے جب وہ کسی اور جہاں کی سیر کرچکی ہوتی ہے اور یہ وجدانی صلاحیتیں تب ہی بیدار ہوتی ہیں اور انسان یک دم ، یک سکت لکھتا چلا جاتا ہے جیسا کہ اقبال کا قلم لکھا کرتا تھا ۔ ہم سے سب اپنے دائروں میں مقید ایسی ہی جنت کے متلاشی ہیں جس کو آپ حسرت کا نام دیتے ہیں اور میں اس چراغ کا نام دیتی ہوں کہ لاکھ آندھیاں اور طوفان بھی نہیں بجھاسکتے ہیں جو شمع اندر ہوتی ہے وہ باہر نہیں ہوتی ہے ۔ وہی بات کہ جب میں باہر تمھیں دیکھوں تو سب مظاہر میں تم نظر آتے ہو اور جب میں اندر دیکھوں تو مجھے اندر بھی گہرائیوں میں تمھاری دید ہوجاتی ہے میں اس گہرائی میں کھو کر سب کچھ بھلادوں ۔ یہ کچھ بابا بلھے شاہ کے کلام میں بات پائی جاتی ہے ۔


میرے خواب کی حقیقت کیا تم جان پاؤ گے . میں کبھی جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہوں اور کبھی بند آنکھیں نیند کی وادیوں میں گھسیٹ کر مجھے وہ صورت مجسم کردیتی ہے جس کی جستجو ہوتی ہے . میری زندگی کی حقیقت میں سراب بھی حقیقت ہے اور حقیقت بھی سراب ہے . تم ان کہے گئے لفظوں سے دھوکا مت کھانا . مجھے اپنے مجاز کے سراب میں حقیقت دکھتی ہے اپنی حقیقت جان کر مجھے دنیا سراب لگتی ہے . مجھے یہاں رہنا ہے مگر میرا ٹھکانہ تو کہیں اور ہے . میری روح کسی اور جہاں کی اسیر ہے . اسے سر سبز وادیاں ، آبشاریں اور جھرنے اس لیے عزیز ہیں کہ یہ حقیقت میں جنت کی تمثیل ہے . تم پھر دھوکے میں کھو جاؤ گے کہ مجھ میں جنت کی خواہش حرص بن رہی ہے . میں اس دنیا میں ان نظاروں کو اس کی حقیقت کا آئنہ سمجھتی ہوں . میرے سارے دکھ ان نظاروں میں کھو کر بے مایا ہوجاتے ہیں . مجھے سرسبز کوہساروں میں درخت پر بہتی شبنم صبح نو کی نوید دیتی ہے تو وہیں مجھے صبح کی نوخیزی جگنو بنادیتی ہے میں گلاب کا طواف کرنا چاہتی ہوں جس میں پسینہِ اطہر کی خُوشبو ہے . یہ پاک خوشبو مجھے معطر معجل مطاہر کردیتی ہے . اندر کی دنیا کے باسی کو محبوب کا پسینہ بہت ہے . جب وہ خوش ہوتا ہے تو روح کی سرشاری مجھے مست و بے خود کردیتی ہوں . لوگو ! میں ہی حقیقت ہو کہ میرا وجود مجھ سے بڑی حقیقت لیے ہوئے ہے . اس کو سلام کرنا میرا فرض ہے . اس سوچ میں رہتے ہوئے مجھے بندگلیاں اور رنگ راستے بھی کشادہ راہیں نکال دیتے ہیں . مشکلوں میں آسانیاں مجھے مل جاتی ہیں .

ہر قدم میرا قید ہے مگر میں اس قید میں بہت خوش ہوجاتی پر کبھی کبھی لطافت مجھے لحجاتی ہے . میں کبھی باہر کی دنیا کی سیر کرتی ہوں اور جہاں جہاں جاتی ہوں کھو سی جاتی ہوں اور اندر کی دنیا کیسی ہوگی . یہ دنیا شریانوں میں محسوس ہوتی شہ رگ میں مقید ہوجاتی ہے . اس مقید شے مجھے اپنا عکس نظر آتا ہے . اس عکس میں مجھے کون محسوس ہوتا ہے . وہ جو میری جاں سے قریں ہے ، وہ جو میری جبل الورید سے قریب ہے . اس کا ذکر میرے خون میں چلنے والی سانسیں کرتی ہیں . مگر میں اپنے خرابات میں کھوجاتی ہوں . مجھے سمجھ نہیں آتی کیا درود بھی پھولوں کا دستہ ہے جس کا ہر پھول ایک گل دستہ ہے . میں نے جب اس دردو سے اپنے تن میں خوشبو لگائی تو میرے اندر کی جمالیت نے مجھے حسن عطا کردیا ہے . مجھے خود کو حسین ترین کرنے کی طمع ہونے لگی ہے .​
 

نور وجدان

لائبریرین
مسافتیں قدم قدم ساتھ رہتی ہیں اور ہمارے یقین سے کھیلتی ہیں ۔ زندگی کے گُزرے ماہ و سال نے میرے یقین کو پایہ یقین تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ وہ یقین جو سوچ سے شروع ہوتا ہماری سوچ ختم کردیتا ہے ، وہ یقین جو فہم و ادراک سے ہوتا ہمیں ناقابل ِ فہم اشیاء کی طرف لے جاتا ہے یا سادہ الفاظ سے وراء سے ماوراء کا سفر کرا دیتا ہے ۔ بے یقینی نے میرے یقین کو دھندلا کیا اور میں نے اللہ سے ضد شُروع کردی ۔ انسان اللہ سے ضد کرے اور اللہ پھر اس کو اپنی طرف کھینچے یعنی کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہیں تھامتے بلکہ اس کی رسی ہمیں ایسا جھنجھوڑتی ہے کہ ہماری رگ رگ اس کی حمد و تسبیح کرتی ہے ۔ اس یقین و بے یقینی کے سفر کو کچھ سطور پر مربوط کرتے آپ سب کے سامنے رکھ رہی کہ ہونا وہی جو اللہ کی چاہت ہے ۔ آدم و حوا لاکھ چاہیں اس کے مخالفت کریں وہ کر نہ سکیں اگر اللہ نہ چاہے اور لاکھ چاہیں ۔میں نے اسی سفر کو عہد الست میں دہرایا تھا اور یہ جو لکھا ہے شاید اس کو پہلے سے لکھ چکی ہوں ، میں آپ کے سامنے ناقابل فہم تحاریر رکھے دیتی ہوں اور آپ لوگوں کا حسن ظن ہے کہ اس کو پڑھے جاتے ہیں کہ میں ایک مسافر ہوں جس نے زندگی میں یقین کے مدارج سیکنڈز میں طے کرنے ہیں اس لیے میری تشنگی کو سمجھنے والے کوئی کوئی ہیں ۔میرا دل سوختگی و شکستگی کے باوجود کسی بھی مکمل انسان سے بہتر ہے کہ میں نامکمل اس لیے ہوں کہ جان چکی ہوں اللہ کا گھر شکستہ دلوں میں جلد بن جاتا ہے۔ یہ دل کثرت کے جتنے جام پیے جاتے ہیں اتنے ہی اس کے قریب ہوتے جاتے ہیں کہ جتنی چاندنی دنیا میں بکھری ہیں وہ اپنی جگہ مکمل ہوتے ہوئے بھی نا مکمل ہے ، جیسے چاند رات کے بغیر اور دن سورج کے بغیر ادھورا ہے ۔ پہاڑ ، سمندر، زمین ،صحرا ، جنگل سبھی مظاہر ایک دوسرے کے بھروسے پر قانون قدرت کے نظام کو رواں دواں کیے ہوئے ہیں ۔​

میں سائنس دان بننا چاہتی تھی اس لیے فزکس میرا پسندیدہ مضمون ہوا کرتا تھا۔ بچپن میں خوابوں کی دنیا میں اپنی تجربہ گاہ سجائی ہوئی تھی اور میں اپنے خیالوں میں مختلف تجربات کیا کرتی تھی ۔ میں نے سوچا تھا میں ایسا ڈیوائس یا آلہ بناؤں گی جس سے میں مختلف رنگوں کی شعاعوں کو آپس میں ملا کے طاقت حاصل کرسکوں ۔ یوں اگر خود کو دیکھوں تو مجھے طاقت حاصل کرنے کا جُنون رہا ہے مگر ایسا ذریعہ جو میرا اپنا ایجاد کردہ ہو ۔ طاقت کا جُنون مجھے دنیا کی تسخیر کی طرف لے جانے کی طرف مجبور کرتا اور اللہ کی جانب سے اسی شدت سے میں واپس بلا لی جاتی تھی ۔ یونہی میں ایک محفلِ نعت پر بلا لی گئی ۔حمد و ثناء کی محفل میں فلک سے عرش تک نور کی برسات تھی یوں کہ عالم روشنی میں نہا گیا ہو اور میں اس کیف میں مبتلا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، جب رات اس ذکر میں گُزری تو علی الصبح میں نے پڑھنے سے انکار کردیا اور علی الا علان قرانِ پاک کے حفظ کا ارادہ کیا۔قرانَ پاک کُھول کُھول کے ہمیں کہاں بتایا جاتا ہے ۔ ہمیں اپنے محبوب کا کلام رٹا لگوانے کے لیے دیا گیا ہے ؟ اس کو سوچتی رہی کہ مجھے دنیا سے کیا لینا دینا ، مجھے تو سب اس کتاب سے ملنا ہے ۔ میرے دل پر رقت طاری رہی تھی ۔مجھے لگا میرا دل کسی موم کی مانند ہے اور وہ گھُل گیا ہے۔ چاک سینہ ، چاک جگر ۔۔۔۔یہ الفاظ اس کیفیت کو بیان کرنے سے قاصر ہوں کہ میری آنکھ سے آنسو بہت کم نکلا کرتے تھے کُجا کہ پورا دن روتے روتے گُزار دوں ۔ درحقیقت مجھے خُدا یاد آگیا تھا ، اپنے ہونے کا مقصد مجھی دنیا سے دور لے جاتا مگر دنیا مجھے اپنی طرف کھینچتی ۔میں نے رسی کا توازن بگاڑ دیا۔ دنیا میں بھی رہتی اور اس کی فکر میں بھی ۔ میرا یقین بھی منتہی کو پُہنچ کے بے یقینی کی بُلندیوں میں غرق ہوگیا۔ اس غرقابی سے مجھے نکال کے دوبارہ یقین پر استوار کردیا گیا اور یہ ذات وہی ذات ہے جو انسان پر رحم کرتی ہے ورنہ انسان کس قابل ہے ۔​


ایف ایس سی سے قبل راقم نے ارادہ کیا کہ پاکستان اٹامک نیوکلیئر انرجی کمیشن میں بحثیت سائنس دان کے کام کرنا ہے مگر معاشی حالات نے گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ میں پڑھنا چاہتی تھی اور جو خواب بُن چکی تھی ان کا پایہ تکمیل تک پُہنچانا چاہتی تھی ۔ میرا اس اصول پر یقین رہا تھا کہ انسان حالات کو اپنے اختیار میں لاتا مفتوح کرتا خود فاتح ہوتا ہے اور وہ کمزور انسان ہوتے ہیں جو حالات کے مفتوح ہوجاتے ہیں ۔ اس لیے ہر وہ کام جو مشکل ہوتا میں وہ جان کے اختیار کرتی کہ آسان تو ہر کوئی کرتا ہے مگر مشکل کوئی کوئی کرتا ہے ۔زندگی مشکل نبھاتے نبھاتے گُزرتی رہی اور یقین کے بخشے حوصلے سے ضُو پاتی رہی ۔ اپنی فیلڈ بدل کے بیوروکریٹ بننا خواب یا جُنون رہا ہے ۔یا یوں کہے لیں کہ طاقت حاصل کرنا میرا جُنون رہا ہے اور میں وہ مجنوں جس نے دُنیا کو لیلی بنائے رکھا ۔م چونکہ گھر بھی خود چلانا پڑا اور پڑھائی کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے بنا وقت ضائع کیے پرائیویٹ امتحان دینا شروع کیے ۔ یہاں پر میری زندگی کا مقصد جس کا بچپن سے خواب بُنا تھا ، وہ مجھے دور جاتا محسوس ہوا میں نے پناہ اختیار کرتے مذہب میں امان دھونڈتا شروع کردی ۔​
ا​
میٹرک میں شہاب نامہ پڑھا رکھا تھا ۔ اس کا اثر اس مقصد کے ٹوٹ جانے یعنی یقین کے ختم ہونے کے بعد'' نیا یقین'' بیدار ہونے پرا ہوا اور میں نے سوچا مجھے ''سی ایس ایس'' کرکے اعلی عہدے پر تعینات ہونا ہے ۔ یقین جب ٹوٹ جائے تو کبھی کبھی اس کا سفر مخالف سمت میں شروع ہوجاتا ہے ۔ میں نے اللہ سے ضد لگانا شروع کردی ۔ہر وہ کام کرتی جو مجھے لگتا اللہ کا ناپسند ہوسکتا ہے ۔ خاندان والے شیعہ ،سنی ،وہابی کے اختلاف میں پھنسے رہتے میں نے ہر فرقے سے لا تعلقی اختیار کرلی ۔ نماز جو ساری زندگی کبھی قضا نہیں کرتی تھی میں نے پڑھنا چھوڑ دی اور وہ قران پاک جس کی سب سے بڑی سورۃ کی سحر کے وقت بیٹھ کے تلاوت کرتی تھی اسی کو ہاتھ لگانا چھوڑ دیا اور جب مجھے کہا جاتا نماز پڑھو تو صاف انکار کرکے کہے دیتی کہ مجھے اللہ نماز میں نہیں ملتا ۔وہ کہتی دُعا مانگ لیا کر اپنے لیے کہ اللہ محنت سے زیادہ دعا پر نواز دیتا ہے مگر میرا کہنا تھا کہ دعا کچھ بھی نہیں ہوتی سب کچھ انسان کی اپنی جستجو ہوتی ہے ۔ انسان کی اپنی جستجو ہی سب کچھ ہوتی ہے چاہے وہ ضد سے چاہے وہ اس کی سمت میں ہو مگر جو اس'' ضد اور سمت'' یعنی نفی اور اثبات کے درمیاں ہوتے ہیں وہ نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ اُدھر کے ہوتے ہیں میں اپنی دہریت میں ہر مذہبی تعلیم کو رد کرچکی تھی ۔​

راقم نے بیک وقت صبح ، شام نوکری کے ساتھ اپنے تعلیمی ادراے کی کلاسز لیتے زندگی کی صبح میں تیز دھوپ کا سامنا کیا ہے ۔ یوں تعلیم کا ماخد کتاب نہیں بن سکا اور پہلا چانس بنا پڑھے دے آئی جس میں چھ مضامیں چھوڑ دیے اس بے یقینی پر کہ میں پڑھے بغیر کچھ نہیں ہوں ۔ نتائج نے ثابت کیا کہ میں بنا پڑھے سب کچھ ہُوں کہ مستقبل قریب شاندار نتیجہ لاتا اور امید سحر کی جانب لے گیا ۔ ہر ماہ کچھ کتابیں خریدتے وقت پڑھ لیا کرتی ۔ اس طرح ایم اے انگلش کی کلاسز پڑھانا شُروع کردیں اور ساتھ سی ایس ایس کے کلاسز ملتان کے سب سے بڑے ادارے میں دنیا شُروع کردیں کہ مری قابلیت کے اساتذہ معترف تھے اور نتیجے سے پہلے مجھے اپنے ادارے میں پڑھانے کی پیش کش کردی ۔ جُوں جُوں وقت گزرتا رہا ، وقت نے حالات بدلے اور نئے سلسلے بھی شُروع ہوگئے ۔ مظہر سے جُڑنا گویا حقیقت سے ملنا ہے اور یہی سلسلہ بھی ساتھ ساتھ چلا ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جو منکرین محبت تھے ان کو اقرار محبت کرنا پڑا اور یوں وقت کے ستم ظریفی کہ یقین کے بعد بے یقینی کا سفر شُروع کردیا گیا ۔ اسی سفر کی بے یقینی اور بڑھا دی گئی جب راقم نے اگزامز میں پاس ہونے کے بعد ایلوکیشن میں مشکلات کا سامنا پایا ۔ ایسی مایوسی ہوئی کہ کتابیں جلا دیں اور کچھ کسی کو دے دیں کہ بھلا ہوجائے گا اور کچھ ردی کے مول پر اور کچھ بک شاپس پر بیچ ڈالی ۔ جس بات نے مجھے ضرب لگائی میں نے اسی سے کنارا کرنا شروع کردیا ۔ میں نے اللہ کی مکمل نفی کر دی اور کہ دیا کہ اللہ تو کہیں بھی نہیں دکھتا اور اگر دکھتا تو مجھے ایسے رُسوا نہیں کرتا ۔مجھ پر کُفر کے فتوی بھی لگے اور کسی نے کہا دوبارہ کلمہ شہادت پڑھو ۔ یوں شہادت دیتے اس کی ذات کی گواہی دیتے دوبارہ سے یقین کی جانب سفر شُروع ہوا۔​


میں نے اس کی جناب میں گستاخی کر ڈالی ، اس کے موجودگی سے انکار ڈالا مگر اس نے اپنی رحمت کی ٹھنڈی آغوش میں لے لیا باکل ایسے جیسے ایک ماں اپنی بچے کو لوری اور تھپکی دے کے سلاتی ہے ۔میں اب اللہ سے انکار نہیں کرتی اور نہ ہی اس کو للکارتی ہوں ۔ جب انسان اس کو للکارتا ہے تو وہ منہ کے بل گرتا ہے اور جب اس سے التجائیں کرتا ہے تو اس کو اپنی آغوش میں چھپا لیتا ہے ۔میں نے اب جو جو چاہا یوں لگ رہا ہے کہ بنا سوال کے یا بن مانگے مل رہا ہے ۔میں نے جو ارادے اس کی ضد میں یا اپنی ''خدائی'' میں بنائے، وہ ٹوٹتے رہے اور وہ جو اس نے لوح َ ازل پر قلم کر رکھا ہے وہ پورا ہوتا رہا ہے اور بے شک اسی کو پورا ہونا ہے۔ اسی کو ہم ''کن فیکون'' کی تکوین کہتے ہے کہ ا نسان اپنے اصل کی طرف لوٹتا ہے ۔میں اب کسی پر کفر کا لیبل نہیں لگاتی کہ اللہ جسے چاہے نواز دیتا ہے اور جسے چاہے اوج ثریا سے زمین و کھائیوں میں پہنچا دیتا ہے ۔ اس تحریر کا مقصد اتنا ہی کہ میں نے اپنے ارادے کے ٹوٹنے اور بننے سے اللہ کو پہچانا ہے کہ میں خدا نہیں بلکہ خدا تو عرش کی رفعتوں پر مکین مجھے بڑے پیار سے دیکھ کے مسکراتا ہوگا کہ یہ میری بندی بڑی نادان ہے میرے خلاف جاتی ہے جبکہ اس کو لوٹنا میری طرف ہے ۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
عشق حقیقی کا سفر

جو ہو اِس بات میں یا پھر ُاس بات میں!
'تم' نظر آتے ہُو اب تو ہر ذات میں!
شمع کی ُضو سے پروانے جو اُڑتے ہیں!
بھَر کے بہروپ دیوانے وُہ پھرتے ہیں !
حرص و لالچ کی لکڑی ُتو ہے بن چکی !
دنیا جالا جو مکڑی کا ہے بُن چکی !
اس جہاں مول دل کا ہی تو لگتا ہے !
حسن و صورت سے سب کام جو چلتا ہے!
دنیا میں کون محرم غمِ دل کا ہے!
میں کہوں کس سے جو حال بسمل کا ہے!
چرخ کو ہے ضرورت مسیحائی کی!
تیر و خنجر نے کچھ یوں پذیرائی کی!
دشت ہجراں میں 'اے ابر باراں' برس !
دید کو میری آنکھیں گئی ہیں ترس!
ذکر یاراں سے چھلکا جو پیمانہ ہے!
عاشقی میں بنا وہ ہی میخانہ ہے!
شام غم کی درود و وُضو میں َبسر
رات جام و ُسبو میں گئی ہے ُگزر
صبح ُگل سے جو ُخوشبو گئی ہے ِبکھر
رنگ و بو سے جہاں بھی گیا ہے نکھر
محفلِ نور ساقی کے دم سے چلے!
بادہ و مے سے سب داغ دل کے ُدھلے​
 

نور وجدان

لائبریرین


تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے

تو جلتا اک چراغ روشنی کی خود مثال ہے
جِلو میں تیرے رہنا زندگی کا بھی سوال ہے

مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے

مقامِ طُور پر یہ جلوے نے کِیا ہے فاش راز
کہ اَز فنائے ہست سے ہی چلنا کیوں محال ہے

ِفشار میں َرواں تُو جان سے قرین یار ہے
جو دورِیاں ہیں درمیاں، فقط یہ اک خیال ہے

نگاہِ خضر مجھ پہ ہے کہ معجزہ مسیح ہے
عروجِ ذات میرا تیرے ساتھ کا کمال ہے

تری طلب کی جستجو میں جو اسیر ہوگئی
تجھے علم کہ کس پڑاؤ اوج یا زوال ہے

تو بحربے کنار ، خامشی ترا سلیقہ ہے
میں موج ہُوں رواں کہ شور نے کیا نڈھال ہے​
 

نور وجدان

لائبریرین
اے خُدا تجھ سے میں کہوں کیسے !

اے خُدا تجھ سے میں کہوں کیسے !
درد کو میں بھی اب سہوں کیسے!
میرے دُکھ کی دَوا تُو کردے اب !
رنج سارے دھواں تُو کردے اب!
''پُرکٹھن زندگی کی راہوں میں۔۔۔!
آندھیوں کا مقابلہ تھا کیا !
جیسے ساحل کنارے کوئی چٹاں ،
موج در موج شور سہتی رہی ،
حوصلہ تب بھی تھا رہا قائم ،
تجھ پہ میرا یقیں رہا دائم ،
زندگی کی اُداس شاموں میں،
میں نے سینچا شجر تھا خوابوں کا ،
خواہشوں کا ہرا بھرا وہ درخت،
آندھیاں بھی اُکھاڑ تو نہ سکیں،
اور یقیں کو پچھاڑ بھی نہ سکیں ،
اے خُدا تجھ سے میں کہوں کیسے !
درد کو میں بھی اب سہوں کیسے!
ہاتھ اٹھے ہی رہے دعا میں مرے،
اور سجدے میں سر جھکا ہی رہا،
شدتوں کا اثر ہوا اتنا۔۔۔!
آسماں نے زمیں کو تھام لیا۔!
میری چاہت کو تو نے جان لیا۔۔!
رنگ میرا نکھر گیا ہے اب
روپ میرا سنور گیا ہے اب
اے خُدا ! سن لی تو نے بھی آخر!
کچھ دوا میرے دکھ کی تو نے کی!
ساتھ اپنا نواز کے یا رب
زندگی کو اُجال کے یارب
ہجر کو اب زوال دے یا رب
مجھ کو اب تو وصال دے یا رب
ابرِ رحمت میں رکھ کے اب یارب
مجھ کو اپنی جناب میں لے لے
اجر بھی بے حساب مجھ کو دے​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
خواب میں کوئی اشارہ تو ملے

خواب میں کوئی اشارہ تو ملے
بحر کو کوئی کنارا تو ملے

دیپ الفت کےتو جلنے ہیں صدا
رات کو کوئی ستارہ تو ملے

پھول کھلتے ہیں، صبا چلتی ہے
اس جنوں میں بھی خسارہ تو ملے

زخمِ دِل اُن کو دکھائیں بھی تو کیوں!
حشر برپا ہے ، کنارا تو ملے

جب دوا نورؔ نہ کام آئی کوئی
زہر دو! کوئی سہارا تو ملے
حق کا نعرہ میں لگاتی ہوں صدا
دل جلے! مجھ کو کنارا تو ملے

مے کشوں کو تو اجل مست کرے
ماہ کے رخ کا اشارہ تو ملے!

جب ملے خاکِ نجف کا سُرمہ
وصل ہو میرا !وہ پیارا تو ملے

خاکِ در جان کی اے کاش بنوں
رخ ترے سے وہ نظارہ تو ملے​
 

نور وجدان

لائبریرین
محبت تو ایک استعارہ ہے لوگو

محبت تو ایک استعارہ ہے لوگو
شبِ وصل نے مجھ کو مارا ہے لوگو​


بصارت کھو جائے گی ہجرت میں کیا غم !
مجھے قرب نے کب سہارا ہے لوگو​


گرایا گڑھے میں حسد کے ہے مارے
ہمارا وُہ بھی کوئی پیارا ہے لوگو​


پیالہ مجھے زہر کا پینا ہوگا
کہ شہرت نے مجھ کو تو مارا ہے لوگو​


دو عالم منور ترے نور سے ہیں
محمدﷺ تو رحمت کا تارا ہے لوگو​


مرا خوں سحر کی بنے گا بشارت
نہیں فکر اب کیا خسارہ ہے لوگو​
 

نور وجدان

لائبریرین


کرم ہو حج کا مبارک مہینہ ہے!
دفینہ نور کا ہے یا سفینہ ہے !
مدینہ ہو یا کہ مکہ جدھر گئی
جبیں جھکی کہ ادب کا قرینہ ہے
چراغ نور کی لو جو جلاتی ہے
قدم ہر ایک تو یاں نوری زینہ ہے
جمال یار کا ہو ، نورؔ کا بھی دل
خزینہ ہو کہ بڑا یہ کمینہ ہے
بنا ہے نور کا دل قبلہ کعبہ اب
ادا ہو سجدہ بنا دل نگینہ ہے
اندھیرا دور ہو سجدے میں صبح ہو
رہی تو میری یہ خواہش شبینہ ہے​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
یوم الست سے میں تیری دیوانی

یوم الست سے میں تیری دیوانی
عشق نے برپا کی ہے ہیجانی
آئنہ آئنے سے مل رہا ہے
بارشیں ہو رہی ہیں رحمانی
ہم تو راضی عنایتوں پر ہیں
حکم تیرا دوں کوئی قربانی
زندگی ہم تجھے جئیں کتنا
ہم بھی کرتے رہے تھے نادانی
اشک آنکھوں سےاب نہیں جاتا
رقص میں روح میری مستانی


دُھواں دھُواں میری ذات ہے ۔ اس سے نکلتا دھواں کبھی ختم نہیں ہونا جیسے کہ اس میں ایسا سسٹم نصب ہے جس کو بقاء ہے جو خرچ کرنے کے باوجود جلتا ہے ۔ جس کی روشنی جگنو کی جیسے ہوتی ہے اور جس کے دھواں میں خُوشبو گلاب کے پھول جیسے ہوتی ہے ۔ ہیر کی مانند رانجھے کو ڈھونڈنے نکلی میری روح صحرا میں کھڑی ہے اس کے پاس کوئی سواری نہیں ۔زاد راہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔پاؤں کی آبلہ پائی میرے شوق کا نشان ہے اور ان سے بہتا خون میری رفاقت ۔۔۔اس دوری میں ۔۔۔ اس ہجرت میں ۔۔۔ اس درد میں اور سوز میں بھی ایسا مزہ اور سرور ہے جس کو مل جائے وہ دنیاؤی آسائشات کو لات مارے ۔ کیا ہے دنیا ؟ مٹی کا پیالہ ۔۔۔ جس کو گھونٹ نہ پی سکی اور تشنہ رہے جبکہ وصل کی شراب میں پیمانہ بھر بھی جائے تو پیمانہ بے قرار رہتا ہے ۔۔کبھی کبھی گُمان ہوتا ہے روح جسد خاکی سے نکل رہی ہے اور شوق کی منزل کی جانب رواں ہے کبھی اس کو اپنے ذات سے بالا معلق پاتی ہوں تو کبھی سرحدوں سے دور ۔۔۔۔ ایک ایسی وادی ہے جہاں پر یار غار رہتے ہیں اس میں روح جانے کو بے قرار رہتی ہے کہ جیسے کائنات میں اس جاء سے معجل اور معطر جگہ کوئی نہیں ---یہ وہ پیاری جگہ جہاں آقائے دو جہاں ---- نے قیام فرمایا ہے ۔۔ان کی اطاعت ہر ہوش و خرد اور اہل عقل جب کرتا ہے تو کبھی واپس نہیں جاتا ۔۔۔ یہ وہ مقام ہے جس کو ہم عشق کہتے ہیں ۔ جب آنکھ کی نمی خوشی دیتی ہے اور جب کوئی آواز سنائی دیتی ہے اور جب کوئی اشارہ ملتا ہے تو روح کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا ہے اور اس کو دوبارہ پانے کی لگن ہر روح کو ہوتی ہے مگر جو ان کے پیچھے بھاگتے ہیں وہ کہیں کے نہیں رہتے ۔۔۔ ایک شاپر پر ہم گرہ باندھتے ہیں جب وہ بہت زور سے بندھ جاتی ہے تو اس کو پیار سے کھولا جاتا ہے اور بعض اوقات گرہیں اتنی سخت ہوتی ہے کہ ان کو کاٹ دیا جاتا ہے ہماری مثال بھی ایسی ہے کہ دل میں دنیا کی گرد نے روح کے اجلے پن پر جالے بنا دیے ہیں اور جالے روح کے نور پر گرہیں بناتے جاتے ہیں جن کو محبت اور عشق کی گرمی اور حدت کھول سکتی ہے اور نفرت تور دیتی ہے اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ روح اتنی گنجلگ ہوجاتی ہے کہ اس کو قفل لگ جاتا ہے ۔۔۔

آسمان کی وسعتوں میں بڑے حجاب پنہاں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
خاکی !
یہ حجاب تیرے پر اٹھنے والے ہیں ۔۔ ذرا حوصلے سے دھیرے سے قدم رکھ کہ آئنہ ترا مقدر ہے اور نور تیری منزل ہے ۔۔۔ جہاں میں رہ کر فقیری کرنا عام بات نہیں ہوتی مگر کرنے والے دنیا کو لات مار دیتے ہیں ۔ ان کے دل محبوب کی جگہ بن جاتے ہیں ۔ اس صنم خانے سے جاری ایک قسم کی شراب سے ان کا دل معطر ہوتا ہے اور روح شادمانی کے نغمے گاتی ہیں ۔ کبھی بلندیوں پر شاہین کی مانند بسیرا کرتی ہے تو کبھی سدرہ المنتہی کے پاس کھڑی منتظر ہوتی ہے تو کبھی صحرا کی خاک چھانتی ہے تو کبھی مدینہ کا طواف کرتے خانہ کعبہ میں پہنچتی ہے تو کبھی اپنے اندر کو پہچان کے روح ساجد بن جاتی ہے اور ایسے راز آشکارا ہوتے ہیں کہنے والے تاب نہ لاتے ہوئے انا الحق کا نعرہ مارتے ہیں ۔۔ نعرہ مستانہ بن جا ! اپنے ہستی کا پروانہ بن جا کہ شمع تیرے اندر پنہاں ہے ۔ اس سے لُو لگا لے اس سے ربط بنالے۔۔۔ تجھے کوئی غم دنیا کا نہ بھائے گا ۔۔۔تیرے دل شاد ماں رہے گا اور تیرا کام خودی میں بسنے والے جہاں ساز لوگوں کی جوتیاں سیدھیاں کرنا ہوگے تاکہ ادب کے ساتھ محبت کے ساتھ خلق کی خدمت کر ۔۔۔

شوق کے سفر کے ہر قدم پر آگہی ہے اور ہر قدم پر آزمائش میں کامیابی تکمیل کی زینہ ہے ۔ راہی پابہ رنجیر ہوتے ہوئے بھی دل میں سب کچھ پالیتے ہیں ۔ کوئی قرن میں رہتا ہوا شوق سے مضطر رہتا ہے تو کسی کو فارس کی صبا راس نہیں آتی تو کوئی سرداری کو لات مار کے خادم بن جاتے ہیں ۔ ایسے ایسے لوگ آئے جن کی قربانیاں حق کی راہ میں شاہد ہوگئیں اور حق والوں نے ان کا مشاہدہ کیا ۔ ان سے سبق سیکھتے اپنے مثالیں قائم کیں ۔ کوئی جگنو بنا تو کوئی سرمہ نجف بنا تو کسی نے مدینہ کی خاک کو چوما ۔۔آسمان کی بلندیاں اور زمیں کی پستیاں ---زمانہ ء حال سے لامکاں کا سفر اسی حال میں ممکن ہوا ہے جو جتنا کندن ہوا اس نے اتنا گوہر پالیا ۔۔۔ اس کے ذمے اتنی آزمائشیں آئیں اور جس نے اس دنیا کے امتحان پاس کرلیے اس کے لیے آخرت کے امتحان کیا حیثیت رکھتے ہیں ۔

عشاق کا قافلہ رواں ہے اس میں ''تو'' بھی شامل ہے ۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے کوئی آگے ہے یا پیچھے ! یہ بھی بڑے نصیب کی بات ہے کہ بندہ اس قافلے میں شامل ہے ۔۔ ایک سفر اور لکھا ہے تیرے لیے ! ایک حجاب اور ہے ۔۔۔۔ حجاب در حجاب جب میرے پاس آئے گا ۔۔تو میں بھی کھلتا جاؤں گا اور تو بھی خالص آئنہ بنتا جائے گا ۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں

کیا ہے شوق نے مضطر کہ ایک حمد کہوں
ہوا ہے کشف یہ مجھ پر کہ ایک حمد کہوں
غمِ حیات نے چھوڑا ہے ایک پل کے لئے
کہوں یہ حمد میں آنکھوں میں اشک اب کہ لیے
جو پہلا حرف دلِ بے قرار کا تھا لکھا
دلِ ستم زدہ میں حشر سا ہوا تھا بپا
بدن کی قید میں مانند موم دل پگھلا
حضورِ یار میں ہرحرف دل کا تھا سلگا
وصالِ شوق میں دل بے قرار تھا کتنا
تڑپ سے بڑھتا ہوا اضطرار تھا کتنا
نمازِ عشق سے پہلے جو دے رہا تھا اذاں
زباں پہ آ نہ سکے دل کے وجد کا وہ بیاں
نگاہ نامہِ اعمال پر مری ہے پڑی
مجھے سزا کہیں یوم ِ حساب ہو نہ کڑی
کرم تھا حال پہ میرے کرم وہ اب ہی نہیں
کہ بے وفا ہوں خطاوارِ شرک میں بھی نہیں
اگر گِنوں میں گنہ بے شمار ہیں میرے
کہ حشر میں بھی سزاوار ہوں گے ہم تیرے
ملے اگر مجھے نشتر تو فکر بھی ہے کہاں
مسیح ذات کا میری ہے خالقِ دو جہاں
مٹائی آئینہِ دل سے گرد تم نے جب
نصیب جلوہِ جاناں تمھیں نہ ہو کیوں اب
مری خودی میں چھپا جلوہ بھی تو تیرا ہے
تری شبیہ بسی مجھ میں کیا یہاں مرا ہے
ہےرنگ میرا جو تیرے ہی آئنے کی جھلک
جلا دے اس کو کہ خورشید سی ہو مجھ میں دمک
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

روح کی حقیقت ہے لا الہ الا اللہ

روح کی حقیقت ہے لا الہ الا اللہ
نفس کی قناعت ہے لا الہ الا اللہ
شمس کی دَرخشانی پر ،قمر کی تابش پر
یہ رقم شہادت ہے لا الہ الا اللہ
آسمان کی عظمت پر زمیں کی پستی پر
نقش یہ علامت ہے لا الہ الا اللہ
قلب کے وجودِ فانی پہ گر ہو تسخیری
کرتا یہ دلالت ہے لا الہ الا اللہ
خالقِ جہاں کا اب نور بس گیا مجھ میں
زیست کی صداقت ہے لا الہ الا اللہ
تار تار سازِ جسم کا ثنا میں ہے مصروف
تن کی بھی عبارت ہے لا الہ الا اللہ
اسمِ ''لا'' سے اثباتِ حق کی ضرب پر میرے
دل نے دی شہادت ہے لا الہ الا اللہ
روزِ حشر نفسا نفسی کے شور و غوغے میں
عفو کی سفارت ہے لا الہ الا اللہ
خون کی روانی میں نقش ''لا ''عبارت ہے
عبد کی عبادت ہے لا الہ الا اللہ​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اللہ کی اطاعت
نور حجاب کی بات ہو یا نور انسان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمانی کی بات ہو یا بشریت کی ------------مٹی کی بات ہو یا روح کے امر کے ----------- سب میں ایک راز پنہاں ہے ۔ انسان پر جب تیسری آنکھ کھُلتی ہے اصل راز کھلتا ہے کہ اندر کی دنیا پر حجاب دراصل تیسری آنکھ ہے اور جس کی تیسری آنکھ بیدار ہوگئی ------------اس نے حقیقت کی جانب قدم رکھ لیا -------وہ قدم جس کی سیرھیاں خار دار تاروں سے بھرپور ہیں ، جن پر مسافروں کے نقش پا ہیں ۔۔کچھ لوگ نقش پا کی کھوج میں وقت برباد کر دیتے ہیں اور کچھ قدم قدم دھیرے دھیرے رحمان کی جانب قدم بڑھانا شروع کردیتے ہیں ۔ کچھ لوگ فیاضی سے تو کچھ لوگ عفو سے تو کچھ لوگ اخلاق سے اللہ کو پاتے ہیں ۔ سب سے کامل درجہ اخلاق کا ہے جس نے خلق کو اپنے اخلاق سے مسخر کرلیا اس پر تمام حجابات کے نقاب اتر گئے اور راز کے انکشاف اس جہاں پر لے گئے جس کو روح کی معراج کہا جاتا ہے ۔ نصیب والے ہوتے ہیں جو اس دنیا میں وصل عشق میں ہجر کے بعد وصال پاتے ہیں گویا وہی دیدار الہی کے سچے حق دار ہیں اور روز قیامت ان کا درجہ شاہدوں سے بڑھ کے صدیقوں میں ہوگا -------------اللہ کی حکمتوں کی شہادت ہر ذی نفس دیتی ہے مگر اس کی جانب حجابات ہر روح پر دور ہونا بہت مشکل ہے ۔ اس راہ میں بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں ۔​

ذکر اللہ کا
نام اللہ کا
کام اللہ کا
جلوہ بھی اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں اشکوں کی لڑی ہو
دل کی زمین میں نمی بڑی ہو
محبوب کی یاد دل سے جڑی ہو
دل کی حالت سٰیخ کباب کی سی ہو
حیرت کے مقام پر غلام کھڑی ہو
عطا تیری جنبش کی منتظر میں ہے
کرم کی اب سوغات دے دے​


کسی کو یہ جلوہ لیلی میں مل جاتا ہے تو کسی کو یہ جلوہ محبوب کے محبوب میں مل جاتا ہے ۔ نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کے امتی ہونے کا ایک فائدہ ہمیں حاصل ہے ۔ موسی علیہ سلام کو اللہ نے کہا کہ موسی تم مصطفی صلی علیہ والہ وسلم کی آنکھوں میں دیکھ لینا ------تجھے رب کا دیدار ہوجائے گا------------جبکہ نبی کے امتی اس پر فوقیت لے گئے ۔ ان کے راستے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم سے جڑے ہیں ۔۔۔۔ جب ان کے نقش پا کو ہم اس راستے میں پاتے جائیں گے تو ہم بھی اس منزل تک پہنچ جائیں گے جس مقام پر میرے مصطفی صلی علیہ والہ وسلم پہنچے کیونکہ ان کی اتباع و پیروی ان کے راستے پر چلنا ہے ۔ بے شک محبوب جیسا کوئی نہیں ہے اور ناہی ان جیسا کوئی ہوگا مگر ان کے راستے پر چلنا عین عشق ہے اور اس راستے میں صعوبتوں کو برداشت کرنا عین الرضا ہے ۔ اس لیے اللہ تک پہنچنے کا راستہ نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی


محبت کی انتہا ہے عشق
نفس کے انکار میں عشق
حق کے ہے اقرار میں عشق
شوخی و ہیجانی ہے عشق
بے سروسا مانی ہے عشق
جستجو کا قصہ ہے عشق​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
بادِ صبا کی نرم نرم بوندیں پھُوار بن کے دونوں کے اوپر برس رہی تھیں۔ دونوں جھیل کے کنارے ایک بڑے پتھر پر بیٹھے تھے، پتھر دوسرے بڑے پتھروں سے متصل پہاڑی سے جُڑا ہوا تھا۔ پہاڑیوں نے جھیل کو گھیرے میں لے کر اس کی نیلاہٹ میں اِ ضافہ کر دیا تھا۔ گُلاب کی خوشبو چاروں طرف مہک رہی تھی تو دوسری طرف موتیا کے پھول حُسن میں اضافہ کر رہے تھے ۔ غزل نے نیلے پانی کے اندر جھانکا ، ایک دم واپس ہوئی ۔۔۔ڈری گھبرائی غزل سے شکیب نے پوچھا : کیا ہوا؟

میں پانی میں اپنا عکس نہیں دیکھ پائی ۔۔ ۔ مگر ! ایک پل کو توقف کیا۔۔۔!

'' پانی میں ارتعاش پیدا ہوگیا ، میرا عکس ان لہروں میں کھو گیا ہے ''

اٗس نے غزل کی بات سُن کے ایک قہقہ لگایا اور بولا:

''گویا تم پتھر ہو! پانی میں پھینکا اور لہریں نے شور مچا کے رقص شروع کردیا ! کمال کرتی ہو تُم۔۔۔!!!اچھا ایک کام کرتے ہیں۔۔آج شامِ غزل میں جانا تھا مجھے ، تمہیں بھی ساتھ لے چلتا ہوں! چلو گی ؟

غزل نے حامی بھرلی اور جھیل کے پاس بیٹھ کر اس کی گہرائی کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔!!! جب اپنا چہرہ پانی کے قریب کرتی ، پانی کی لہریں رقص شروع کردیتیں۔۔ ۔ ناجانے اس کو کیا خیال آیا اور اُس نے پانی میں انگلی ڈال دی ۔۔۔ پانی نے شور مچادیا ۔۔آبشار کی طرح پانی نے حرکت شروع کردی ۔ غزل کی حیرت کی انتہا نہ رہی ۔۔اُس نے حیرت سے پانی کو دیکھ کر شکیب کی طرف چہرہ کیا ۔ وہ تو انجان تماشائی بنا بیٹھا تھا۔

تُم نے پانی کی لہروں کو رقص کرتے ہوئے دیکھا ؟

نہیں! غزل کیا ہوگیا ہے ؟

مجھے آج احساس ہو رہا ہے کہ غزل کیا ہوتی ہے ! انجماد میں لہروں کا موسیقی اور رقص کا آہنگ ۔۔۔ ! اس میں اپنا عکس نظر نہیں آتا۔۔۔


''شکیب نے پانی میں جھانکا اور اپنا عکس دیکھ کے اطمینان کیا اور بولا : مجھے تو سب نظر آرہا ہے ۔ چلو ! شام قریب ہے ، محفل میں چلیں!!


اُس نے غزل کا ہاتھ تھاما اور زمانے کے مختلف مکانوں سے ہوتے ہوئے محفل میں پہنچ گئے ۔ سازندے علیحدہ جگہ بنائے بیٹھے تھے ،رُباب چل رہا تھا ۔ گائک ابھی خاموش تھا۔ سامعین خاموش بیٹھے تھے کہ ان کے کان صرف آواز کو سُن رہے تھے ، ایک سحر سا سب پر طاری تھا۔ سحرزدہ غزل مدہوش کے عالم میں فرشی نشست پر بیٹھ گئی شکیب نے غزل کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا کہ جیسے وہ بھاگ جائے گی ۔اور غزل کی لے پر سر دھننا کے مست و بے خود ہوگیا۔

نظر نے نظر سے ملاقات کرلی
رہے دونوں خاموش اور بات کرلی
زمانے میں اس نے بڑی بات کر کی
خود اپنے سے جس نے ملاقات کرلی

انسان کی خود سے مُلاقات ہوگئی یا غزل ہوگئی ۔۔۔۔! ذات کی ملاقات بڑا تڑپاتی ہے ، روح جسم سے باہر نکل جاتی ہے ، جسم کی قیود میں زمانہ قید رہ بھی کیسے سکتا ہے ۔ اب کہ غزل نے ہاتھ چھڑانا چاہا کہ بڑی بے چین ہو کر اٹھی ۔ یوں لگا کہ شیکیب اس کی ہاتھ سے دوڑی کی طرح بندھا ہے ، جیسے ہی اس کا رقص شروع ہوا، شکیب ایک کٹھ پتلی کی طرح ساتھ رقص کرتا رہا، دونوں بہت خوبصورت لگ رہے کہ دونوں ایک دوسرے کی لیے لازم و ملزوم تھے ۔مگر غزل کی بات اور تھی ، ایک کو فنا اور دوجے کو بقا ہونا تھا۔ ایک نے آبِ حیات پی لیا تھا اور دوجے نے زہر کا پیالہ ۔۔۔ رقص دونوں کر رہے تھے ، جام دونوں پی چکے تھے مگر پیمانے اور تھا، ساقی ایک ہی محفل کا تھا مگر خزانہ دونوں کا اور تھا۔۔۔ ! دونوں مست و رنجور تھے ۔۔۔! اب دھمال ڈالنے کے بعد ہمت کی بابت کوئی بات نہ ہوئی ، بس ہوش کہاں تھا۔۔رات کی خاموشی میں مدہوش ہوتی غزل نے ہاتھ چھڑانا چاہا ۔ اس کو ایک آواز سُنائی دی

'سنو ! تم مجھ سے چاہ کر بھی ہاتھ نہیں چھڑا سکتی ! میں جب تھا ، تم نہیں تھی ، جب تم نہیں ہوگی ، تب بھی میں رہوں گا ، میں ازل سے ابد تک ساتھ ہوں ۔۔ میں مکاں کی قید سے آزاد ہوں ۔۔۔۔ !!! تمھارا نام مجھ سے جڑا رہ کر ہی امر ہوگا۔۔۔ !!!

غزل نے اس کے ہاتھ کو پکڑ لیا کہ جیسے سکندر ، خضر سے جدا ہوجائے ، اضطرار کی کیفیت میں اس کی گرفت اس کے ہاتھوں پر مضبوط ہوگئی ۔ اور کہ دیا:

کون ہو تم ؟ تم شکیب نہیں ہو!! تم خضر ہو ۔۔۔!! زہر کے پیالے کا تریاق نہیں ہوتا ہے ، میں اس جہاں فانی سے چلی جاؤں گی اور تم رہ جاؤ گے ، افسوس! محبت کچھ نہیں ہوتی ، یہ صرف ایک قید ہوتی ہے ، جس طرح تم میرے اندر قید ہوکے بھی امرت کا پیالہ پی چکی ہو اور میں تم سے باہر رہتے ہوئے بھی زہر کا اثر زائل نہیں کر سکتی ۔۔آہ ! اس سے برا کیا ہوگا میرے لیے۔۔۔!

رات کی سیاہی سحر کے طلوع ہونے کا اشارہ رے رہی تھی ۔ارواح کے رقص دائروی سے ہوتے ہوئے زائروی ہوگئے ،اپنے مرکز کے گرد گھومتے ہوئے اپنا اصل پالیا جاتا ہے ، یہی کچھ اس رقص بسمل میں ہوا۔۔ دونوں تب تک رقص کرتے رہے جب تک کہ دونوں کا آہنگ ، رقص کی تال ، ایک سی نہ ہوگئی اور جب دونوں ایک ہوئے تو ہوش ختم ہوگیا ، کائنات تھم گئی ۔

زندگی نے دوبارہ آنکھ کھولی تو وہ دونوں اسی وادی میں پتھر پر بیٹھے تھے ، جہاں سے وہ کوچ کیے تھے ۔سورج نے چاند کو اپنی اوٹ میں چھُپا کے زمین کو تنہا کردیا۔۔۔ پتھر پر بیٹھے بیٹھے غزل نے آنکھیں بند کی ، آنکھ بند کرتے ہی عکس اور منظر پسِ عکس بدل گیا۔۔۔۔ ! جھیل ایک صحرا میں بدل چکی تھے ۔ دائروی بگولے چار سو گھومتے ہوئے غزل کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے ۔ اچانک آندھی آئی اور وہ غائب ہوگئی ۔۔۔! شکییب غزل کے پیچھے بھاگتا ہوا پتھرا پر بیٹھا اور خود کو آنکھیں بند کرنے پر مجبور پایا۔ جیسے ہی اس نے آنکھیں بند کی ، اس لگا ۔۔! اسے لگا جہاں وہ کھڑا ہوا تھا ، وہاں پر غزل کھڑی ہے اور وہ غزل کی جگہ پر بیٹھا ہوا ہے ۔۔۔ جھکڑوں کی گرج دار آواز میں وُہ غائب ہوچکا تھا۔۔جبکہ غزل کھڑی مسکرا رہی تھی ۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
جمال والا ،حسین صورت نظر تو آئے


جمال والا ،حسین صورت نظر تو آئے
مراد ہوپوری حسن سیرت نظر تو آئے
فگار دل ہوں، جلائے شعلہ مجھے سدا یہ!
جلن بڑھے ! نورِ حق بصیرت نظر تو آئ
لگاؤں حق کا میں دار پر چڑھ کے ایک نعرہ
مجھے زمانے کی اب حقارت نظر تو آئے
کہ نعش میری بہائی جائے جلا کے جب تک
دھواں مرا سب کو حق کی صورت نظر تو آئے
کٹے مرا تن کہ خوں ' پڑھے میراکلمہ'' لا ''کا
کہ خواب میں بھی یہی عبارت نظر تو آئے
میں جو کہوں وہ عمل مری ذات کا بنے گر!
حسیں خَلق کی بھی مجھ میں طینت نظر تو آئے
 

نور وجدان

لائبریرین
آج موسم کتنا اچھا ہےاور تم میرے ساتھ ہو. کیا یہ تمہارے ہونے کا احساس ہے یہ موسم ِ بہار ہے جو پھول کی خوشبو چار سو پھیل چکی ہے. دیواریں شفاف ہوگئیں اور ان میں نمودار آٰئینے بہت روشن ہیں. ایک پل کو میں آگے بڑھی کہ شاید آئینہ نہ ہو ......!​

جیسے ہی آئینے کو چھوا، ایک دروازے کی طرح یہ وا ہوتا گیا۔۔۔۔۔! اور اک نئی دنیا میں قدم رکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ فرش پر جوتے نہ لگاؤں کہ کہیں یہ ٹوٹ نہ جائے۔۔۔۔۔ اس لیے بہت آرام سے ان کو اتار کر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔.آسمان بھی، زمین بھی، اور چار سو مجھے اپنا عکس نظر آنے لگا. میرا عکس.... ! میرا عکس کھو چکا تھا.... میِں کس کو پھر دیکھ رہی تھی .....؟​

تھوڑا دور چل کر پاؤں میں نرمی کے احساس نے سبزے کی ٹھنڈک سے روح کو معطر کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔.ان راستوِں پر چلتے چلتے فضا میِں وائلن کی دھن نے مجھے مست کر دیا۔۔۔۔۔. کیا کسی نے میری دھن چرا لی ہے...؟ وہ کون ہے جو میری دھن چوری کرکے نئے ساز چھیڑ کر کائنات کی کیمسٹری کو بے ترتیب کر رہا ہے .....؟​

میں آواز کا پیچھا کرتے کرتے دھن ساز کے پاس پہنچ گئ مگر ایک عجیب سا کیف تھا یا حال کہ دھن ساز جو میرے سامنے .... وہ ہو بہو میری شکل ..... میں نے وائلن بجانا شروع کیا، مگر رقص بھی میں خود کر رہی تھی ... چھن چھن .... یہ آواز کس کی تھی .....؟​

سبز کارپٹ کے قالینوِں کے پاس ندی سے بہتا پانی رواِں بھی تھا مگر بہ ساکت بھی تھا....! جھرنے کی آواز اتنی اچھی لگ رہی کہ ندی کے ٹھنڈے ٹھنڈے لمس کا احساس محسوس نہیں ہوا .... کیا واقعی ہی محسوس نہیں ہوا....؟​

سرشاری کی کیفیت میں بلبل میرے کاندھے پر بیٹھ کر اپنی نغمگی کا احساس دلانے لگی.۔۔۔۔۔ میرے کاندھوں پر اس کے لمس نے مجھے مست کردیا.۔۔۔۔۔!!! ایسا لگ رہا تھا کہ کائنات جھوم رہی تھی اور آئینے ۔۔۔ یہ کبھی تو میرے سامنے ابھرتے اور پھر کبھی اوجھل ہوتے ۔۔۔۔ اور بلبل کا عکس ان میں نظر نہیں آتا مگر دو عکس نظر آتے .... دوسرا عکس کس کا ہے ....؟​

آہا! کیسا انوکھا سا احساس ہے، جس کو نام نہیں دے سکتی کہ جہاں بھی جاتی مجھے میرا عکس نظر آتا ۔۔۔۔۔.. اور کبھی اِس ،تو کبھی ُاس آئینے میں عکس دیکھ کر، کہیں میں ہوش و خرد سے بیگانہ نہ ہوجاؤں ..۔۔۔۔۔؟.. میں نے واپس جانے کے لیے قدم بڑھائے۔۔۔۔!. سبز مخملیں کارپٹ مجھے چھوتے چھوتے ختم ہوگیا اور پھر میں آئینہ ِ فرش پر کھڑی تھی ... دروازہ آئینہ کھول چکا تھا .... وہ آئینہ کون تھا ....؟​
 

نور وجدان

لائبریرین
کبھی تم نے ندی میں 'ندی ' کا عکس دیکھا ہے؟ کبھی اس عکس میں چُھپے بھید کو تلاشنے کی کوشش کی ہے ؟ آؤ ! ندی میں ڈوب جائیں!!!!

نہیں ! ڈوبنا نہیں ہے !ڈوبنے والے روشنی کو تاریکی نہیں دے سکتے مگر تاریکی میں جا کر روشنی دیتے عدم کی جانب رواں دواں رہتے ہیں ................مجھے ڈوبنا ہے! ڈوب جانے دو ! مٹ جانے دو ! لہریں تو نہیں ہیں ! اس میں مٹ کر مجھ عکس ہوجانے دو.

دھیرج ! دھیرج ! آرام سے ! پیار سے ! پیار کرنا بڑا افضل ہے مگر محبوب ہونا اس سے بھی زیادہ افضل ہے ....!!!

چھن ! چھن ! چھناکے ! آواز کا تاثر غائب ہوگیا ! کیا کوئی ڈوب گیا ہے ؟ کوئی جھلا سا ، بھلا مانس سا بندہ ہے! ڈوب کے بھی کیا کرنا ہے ! سوچتا ہی نہیں! سوچے تو ...!

ندی کا پانی شفافیت سے بھرپور ، ٹھنڈا ، میٹھا ، سرمدی احساس .........! جاوداں ! جاوداں ! جاوداں ! پانی نے ملمع کاری تو نہیں کی .....ملمع تو اتر جاتی ہے ! محبت پر کیسا کھوٹ ...! محبت تو اک احساس ہے ...! اس کو محسوس کرتے کرتے خاک کے ذرے ...! خاک کے ذرے خزاں کی طرح جھڑنے لگے .......! زرد پتے ! سوکھے پتے ! سرخ پتے ! گرتے رہے اور جھڑتے رہے..!

پتوں کا پانی میں کیا کام...! ہے نا ...! پتے تاریکی میں جائیں گے اور ان سے ڈھونڈنے والے راہ پالیں گے...!!!

اچھا ..!! تو یہ بات ہے !! میں خود جھاڑتی ہوں پتوں کو ...! مجھ کو گُلاب پسند ہے ...!مہکتا گلاب ! گلاب ہلکا ہلکا ...پنک سا ...!!! کہاں ملے گا...؟

پت جھڑ کا موسم ! جاناں ! چلا گیا ....! یہ پت جھڑ تو نہیں ! یہ بہار کا موسم ہے ! جمال کا موسم ہے ...!!! گلاب کو موسم ہے !! کہاں ملے گا ..! ڈھونڈ !!! ڈھونڈنے والے نئی دنیا پالیتے ہیں...!!!

میں ندی سے نکل کر گلاب کی خوشبو کے تعاقب میں جانا چاہ رہی تھی ۔۔۔وہ گُلاب جو شجر سے منسلک ہے ۔۔۔اس دنیا میں اس کا ٹھکانہ ہے۔۔۔وہ گُلاب جو سب سے مشرف ہے۔۔۔ !!

ابھی ندی سے پاؤں قدم نکالنا ہی چاہا...انتہائے حیرت ! حیرت نے جُھنجھلا کر مجھ سے پوچھا !
پاؤں کا نشان نہیں.......پاؤں نظر نہیں آرہا ہے .......! ایک پل ..یک ٹک ..! لمحے گُزر گئے..اور گزرتے گزرتے احساس ہوا کہ ہلکا سا عکس پاؤں کا موجوس ہے...میں ندی سے نکلی تو بڑی سرشار تھی...مجھے پاؤں نظر نہیں آرہے تھے مگر میں چل رہی تھی ... جانے کیسے !!

چلتے چلتے ! ہاں چلتے میں مدہوش ہورہی ہوں...مجھے گلاب کی پھول کی مہک آرہی تھی ...یوں لگا زمین نے نغمہ سُنا دیا ہے اور گھومنے لگی ہے اور ایک دم سے کالی گھٹا چھا گئی ہے یا کہ رات نے نیم واہی کی حد کردی ہے ... زمانے کا زمانے مہک رہا ہے ..مکاں سے لامکاں تک نور کی خوشبو ہے...واہ ! واہ! کیسی مسحور کن خوشبو ہے...!!!

میں نے چلتے چلتے ! ہاں چلتے چلتے شجر گلابوں کا دیکھا...... ایک حقیقت! گلاب کا شجر کہاں ہوتا مگر شجر تھا....مجھ میں پھول توڑنے کی ہمت نہ ہوئی مگر میں نے قریب جا کر اپنی حس کو لطافت ضرور دی ...اک عطر تھا...یا کوئی خوشبو کا دریا...میرا روم روم...رگ رگ...خوشبو سے بھر گیا...اور مجھے اپنا ہوش نہ رہا...!

جب مجھے ہوش آیا تب ایک عجب بات ہوئی ۔۔۔! وہ کہ درختوں کو دیکھنے پر درخت مجھ میں نظر آتے۔ پھولوں کو دیکھوں تو پھول میرا وجود۔۔۔خاک کی طرف نگاہ کروں تو خاک مجھے تاکے ہے۔۔ !! مجھے اپنا آپ نظر نہیں آتا مگر مجھ میں ارد گرد کا عکس آئنہ ہونے لگا۔۔۔۔۔! ایک سوچ ہے کہ میں کون ہوں؟ کیا میرا ہے؟ کچھ بھی تو نہیں ہے میرا۔۔۔۔۔! کچھ کیسے ہو۔۔مجھے تو مستی ان آئینوں کی بہانے لگی ہے۔۔میں موجود ہو کر بھی موجود نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

 
Top