سوچ کا سفر

نور وجدان

لائبریرین

لمحہ لمحہ ملا ہے درد صدیوں کا
ایک پل میں سہا ہے درد صدیوں کا

ساز کی لے پہ سر دھنتی رہی دنیا
تار نے جو سہا ہے درد صدیوں کا

چھیڑ ! اب پھر سے ،اے مطرب! وہی دھن تُو۔۔۔!
اب کہ نغمہ بنا ہے درد صدیوں کا

گیت میرے سنیں گے لوگ صدیوں تک
شاعری نے جیا ہے درد صدیوں کا

ہوش کر ساز کا قوال تو اپنے۔۔!
ہر کسی کو دیا ہے درد صدیوں کا۔۔۔!

میرا نغمہ ، مرا سُر ، ساز بھی اپنا
آئنہ سا بنا ہے درد صدیوں کا

میری ہی دُھن پہ محوِ رقص ہے کوئی ۔۔؟
ساز کس کا بنا ہے درد صدیوں کا ؟​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

وصلِ سوزِ موج نے دیوانہ کیا
آشیانہ شہرِ دل کا ویرانہ کیا
قطرہ قطرہ زہر کا قلزم بن گیا
درد نے اب حال سے بیگانہ کیا
نور ؔ نے شیشہ محل کرچی کر دیا
اُلجھنوں نے بے طرح دیوانہ کیا
رتبہ محشر میں شہادت کا پاؤں گی
اب اجل نے دار پر مستانہ کیا
مے کدے میں جلوہِ حق کو دیکھ کر
سات پھیروں نے مجھے پروانہ کیا
شرم ساری ختم کیسے ہو عصیاں کی
رب! گلہ تجھ سے جو گستاخانہ کیا
صبح نو کی اک جھلک دکھلا دیجئے
ان غموں نے ذات سے بیگانہ کیا​
 

نور وجدان

لائبریرین
جانتے ہیں لوگ کیا اس کو حقیقت۔۔؟
ملتی ہے بس زندگی میں ہی اذیت!

یہ تجسس میں ہی تجھ کو مار ڈالیں
کیسی لگتی ہے مجھے اب یہ نیابت​

ْپوچھتے ہیں کیوں سکندر سے یہ سارے
کیا ہے مکڑی کی جہاں میں کوئی وقعت​

کھوج کر کے کہتی دنیا یہ مجھے ہے
میرے لفظوں کو ہے دیتی روح طاقت​

لفظ میرے پھیلے خوشبو کے ہیں جیسے
آگہی سے پائیں گے سب اب مشیت​

ہو شناسائی کبھی جو نورؔ حق سے
پوچھنا تم رب سے کیا ہے اب حقیقت۔؟​

اس زمیں کی مست حالت تم بھی دیکھو
ٹک سے دیکھے جائے ہے چندا کی رویت​

روح گھومے گول، کھوئے حجم بھی اب
جسم مانگے اس اذیت کی بھی ہیئت​

سسکیوں سے گونج اٹھتا ہے جہاں بھی
آہوں پر ہوتی ہے سب کو کیوں ندامت

بانٹے وحشی جو سکوں کی یاں پر دولت
غم بھی کرتا یوں رہے گا پھر تجارت

کون میری دھو رہا ہے اب کثافت
اب لطافت کو ملی ہے اور اضافت

ملتی ہے زنداں میں لوگوں کو ملاحت
کیوں میں مانگوں روح کی جاں سے ہی ہجرت​
 

نور وجدان

لائبریرین
تیری شانِ کریمی نے سنبھال لیا

تیری شانِ کریمی نے سنبھال لیا
گرتے گرتے مجھے پھر سے اقبال دیا
میں جو منزل سے میلوں کی دوری پہ تھی
ان کی نظروں نے سائے میں اپنے چھپایا
ساقی کی محفل ِ نوری چلتی رہے گی
سوزِ دردِ جگر کو عشق میں ڈھال دیا
کملی والی نے دامن میں دی ہے پناہ
چشمِ نمیدہ کو مستیِ خمار ملا
روزِ حشر شفاعت سے پہلے کہوں میں
یانبی سلام علیک یا نبی سلام علیک


تیری شان کریمی ہے ! تیری ذات رحیم ہے ! آقائے دو جہاں عرض و فریاد میری سن لے ! میرے حال پر رحم کرلے ! میں مجبور و بے بس تیرے در پہ کھڑی ہوں ۔ آہٹ آہٹ پر چونکتی ہوں ! کبھی تو دید کی حسرت ہوگی پوری ! جلوہ جاناں کے جلوؤں سے میری روح معطر ہوگی ! اے میرے محبوب ! سن لیجئے ! بڑے دل سے آپ کے پاس عرض سنانے لگی ہوں ! میں اس قابل نہیں تیری شان میں کچھ کہوں ! مگر کیا کروں جب پیدا ہوئی تو محبت تیری دل میں پائی ! اس فطرت کو ہوا آپ نے دے دی ! میرے شوق کو مولا جلا دے دی ! مجھے معاف کردے ! ہم تو اس قابل نہیں ہیں کچھ تیری جناب میں کچھ کہ سکیں مگر مولائے کریم ! اللہ نے کیا خوب آپ کی ثناء کی ہے ! اللہ نے کہا : ورفعنا لک ذکرک! محبوب کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر ہے ! مالک جہاں نے خود کو آپ سے علیحدہ نہیں کیا ہے !
اللہ جانے ! اللہ جانے ! ہم آپ کی ثناء کرتے ہیں اور جی جان سے کرتے ہیں ! وہ جانتا ہے دل بھی کبھی آپ کا کلمہ پڑھتے پڑھتے آپ کی شان میں کھو جاتا ہے ! اللہ جانے ! کیسے انسان کی ہستی طوفان سے تعمیر ہوجاتی ہے ! وہ جو بجھتے ہوئے چراغ سے ترتیب دیتے اسے چراغ نو میں بدل دے ! وہ جو گنہ گار کے دل میں عشق کا سوز بھر دے ! وہ جو مستی کو ہستی میں ملا دے ! وہی تو ہے جو یاد میں حال بپا کردے اور وہی تو ہے جو یہاں وہاں جلوہ کرادے ! مولا سائیں ! نہ تیرا اور نہ تیرے محبوب کا جلوہ ہوتا ہے ! کیوں محروم ہوں میں ! کیوں کہوں میں ! میں تیری آں مولا! میری ذات تے کج وی نئیں ! پر مولا ! میری دل اس شوق میں تڑپتا ہے تو سوال آجاتا ہے ! سوال آتا ہے مجھے کس لیے بنایا تھا ؟ اپنے نبی ﷺ کی محبت سے جام بھرنا تھا یا مجھے آپ تک پہنچنا تھا ! اگر سوچوں تو اس سوچ سے آگے سوچ محال ہوتی ہے کہ مالک تو ''تین '' تیرا نور نبی میں بحثیت بشر ''چار'' کل ملا کے ''سات'' مولا کریمی کائنات میں سات سے سارے کام چلے ! سات آسمان ہیں تو سات زمینیں ہیں ! سات دن ہیں ہفتے کے تو سات دوستی کے مدارج ہیں ! سات انسان کے دل کی گرہیں جو کھل جائیں تو سب کھل جاتا ہے ! دنیا کا نور کیسے پھیل گیا ! یہاں وہاں مولا ! اسی محبت میں دل کہتا ہے

تو مالک کل اور وہ رحمت ِ کل !
تو مالک جہاں ! وہ محبوب دو جہاں
تو ہی شان جل جلالہ
تو ہی سبحانہ و تعالیٰ
نور کائنات کا ہالہ
پیمانہ بنا ہے میخانہ
میخانہ کو ملے میخانہ
بندگی میرا نذرانہ
ذات میری عاجزانہ
ذات تیری تجلیانہ
سوز نے بھرا پیمانہ
پارہ جسم سے بکھرے بھی تو
رگ رگ تیری ثنا میں تو ہے
میری نظر مجرمانہ
میرا عمل منافقانہ
تیری شان رحیمی کریمی
ورد زباں کریمی کریمی
تیری طاعت ان کی طاعت
مومن کے ایمان کے نشان
لفظ لکھیں گے کہانی
تیری بات میری زبانی
تیرا حکم پر تسلیم خم
ہر وقت آنکھ رہتی ہے نم
سلام شوق تجھ پر بھیجوں
جوں جوں درد کو سینچوں
ریشم کی دوڑی پر لکھا تیرا نام
تیری ہر بات ماننا میرا کام
سوا تیرے کوئی نظر نہیں آتا
خود میں بھی اپنا آپ نظر نہیں آتا
ذکر میں تیرا جلوہ ہے
فکر میں تیرا چہرہ ہے
کدھر جاؤں تجھے چھوڑ کے
میرا ذرہ ذرہ تیرا ہے
تیری ذات میری بچھونا ہے
لطف یہ کہ تیری یاد میں رونا ہے

انسان کاہے کو روتا ہے جبکہ اس کو رونا سکون دیتا ہے ! کچھ تو ہے جس کی بے حجابی ہے
کچھ تو جس کو نہاں خانوں نے عیاں کر دیا ہے ! سمجھ لیجیے ! کیا ہے
ادھر بھی تو ہے
ادھر بھی تو ہے
کہاں کہاں تو ہے
کہاں نہیں تو ہے
جلوہ تیرا چار سو
نور پھیلا چار سو
زمین کا خالق تو
آسمان کا مالک تو
شجر و حجر تیری نشانی
قمر و آفتاب تیری ضوفشانی
اشجار بولیں تیری بولی
موجوں کے ذکر میں تو
آنکھوں کی فکر میں تو
دل کے شیشے میں تو
رگ کی رگ میں بھی تو
اندر وی تو باہر وی تو
او مالک ! کتھے نئیں تو!
کتھے جاواں ! کتھے ٌپاؤاں
تو مینوں ویکھداں ایں
یا میں تینوں ویکھدی آں
میں تیری بندی ---تو خالق
میں نیچی تے ذات تیری اچی​

انسان جب التجا کرتا ہے یا عرضی ڈالتا ہے تو بس محبوب سنبھال لیتا ہے ! تیری عرضی بھی سنبھال لی گئی ! انسان کو چاہیے وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے ! محبت کا نشہ اور ہے اور عشق کی ہستی اور ہے ۔ مستی میں بھی ہستی ہے ۔ عقل تجھ پر حکمران ہے ! عقل کی نگرانی چھوڑ دی اور میری رحمت کی آغوش میں آجا! میں تو کب سے بلا رہا ہوں ! ایک تو ہے کہ سنتی نہیں! او بندی ! میری محبت کی چاہ کبھی ایسے کی جیسے میں نے کی ؟ اگر ایسے کرتی تو عرضی نہ ڈالتی ! میں بن کہے پوری کرنے والا ہوں ! کیا میں تیرے حال سے واقف نہیں ہوں ! کیا تجھے علم نہیں کہ جو میرے محبوب سے محبت رکھتا ہے وہ میرا محبوب ہے ! جب سب علم ہے تو یہ سوال کس لیے ! او بندیے ! یہ اضطراب کس لیے ! سارے پردے ! سارے حجاب کھلنے والے ہیں مگر صبرا کے ساتھ اس مقام عشق کو پار کرنے والے میرے پاس پہنچتے ہیں ! میرے بندوں سے محبت کی لُو لگالے ! تیرے سارے درد کی دوا ہو جائے گی ! تجھے بن کہے سب مل جائے گا​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
خالق اور تخلیق
سن او رنگی ۔۔ دیکھ حقیقت کے رنگ ۔۔۔۔​

سورہ العلق کو پڑھ سمجھ اور جان لے ... کہ پڑھے جب کائنات کو تو نام لے اللہ سچے خالق کا ..اللہ کو جہاں میں اس کی قدرت سے دیکھ.......اس کی تسبیح کر...... اس نے رنگا رنگ جہاں پیدا کیا تاکہ انسان غور و فکر کرے اور جانے کہ خالق کون ہے اور تخلیق کون ہے ؟. اللہ نےجب ہمیں کہا غور و فکر کرنے کا تو یہ نوازش ہے اس کی ۔۔۔ ہم اس کی اشرف المخلوقات ہیں.اللہ نے پہاڑ کیوں پیدا کیے کیونکہ یہ زمیں کو توازن دیتے ہیں ، سمندر کو کیوں بنائے کیونکہ یہ ہواؤں کو ٹھنڈا کرتے ہیں ، پانی کا توازن کائنات میں برقرار کھتے ہیں اور جب اس نظام کی طرف دیکھیں کہ یہ کیسے چل رہا ہے تو ہمارا غوروفکر اس حقیقت کو ہمارے سامنے کھول دیتا ہے کہ اس کائنات کو چلانے والی ہستی کوئی بہت بڑی قوت ہے اور ہم اس قوت کو پہلے جانیں اور جاننے کی بعد اس کی بڑائی تسلیم کرتے اس عظیم ہستی اللہ کی وحدانیت کا اقرار کریں .مویشی سے ہم نعمت پاتے ہیں اور زمین مویشیوں کے لیے نعمت ہے ، بارش زمین کے لیے نعمت ہے جبکہ ہوا کے چلتے نظام پر غور کرو کہ ہوا کا ماخد کہاں سے ہے......یہ کس کے حکم سے چلتی ہے ؟........

ہوا جو ہمیں بولنے و س سننے کے قابل بناتی ہے ، اس کا ماخد زمین کے گرد ایک کرہ ہے اس کرہ کو ہمیشہ اک جیسا برقرار رکھنے میں بھی اک قوت دکھتی ہے ۔ جسے کشش ثقل کہا جاتا ہے ...کس نے ترتیب دیا یہ عالیشان نظام جو وقت کی قید سے آزاد جانے کب سے رواں ہے .. بلا شک وہ اللہ ہی ہے جس نے ہوا کو زمین سے کشش کے ذریعے جوڑ رکھا ہے اور سمندر بھی اسی کشش کی وجہ سے اپنی جگہ پر قائم ہیں .......کائنات میں ایک غیر مرئی قوت ہر لحظہ مصروف عمل ہے ۔ اور کائنات اس کے دم سے چل رہی ہے ۔


یہ غیر مرئی قوت جو کائنات کی روح کا درجہ رکھتی ہے ۔ یہی قوت اللہ سچے خالق کے ہونی کی شہادت دیتی ہے ......
کائنات کے تخلیق کے بعد مالکِ دو جہاں انسان کو انسان کی تخلیق کی بابت توجہ دلاتا ہے ۔ اور فرماتا ہے کہ کہ اللہ کی کائنات دیکھ چکنے کے بعد اپنی ذات پر غور کرو اور سوچو تمھارے اندر موجود نظام کون چلا رہا ہے ....بے شک اللہ ہے اللہ کے سوا کون ہے ۔ جس نے فنا سے پاک ازلی و ابدی غیر مرئی روح کو ہمارے جسم کی ہئیت کو ایک قالب میں متحرک رکھا ہوا ہے ... روح کے ساتھ جسم کو مربوط کیا ہے.....انسان کی پیدائش جمے ہوئے خون سے ہوئی ہے اور کیسے ہوئی ......کس نے کی ؟
جما ہوا لوتھڑا خود میں مکمل نشانی سموئے ہوئے ہوتا ہے .....ان کی نشانی جو انسان کے ماں باپ ہیں .......اس کے خالق اس دنیا میں موجود ہیں جو مادیت کے پیرائے میں ہیں ۔


انسان کی اصل تو خاک ہے وہ خاک جس سے بحکم ربی پتلا بنا ۔ اور با امر ربی روح کے نفخ سے سرفراز ہو ۔ اور اللہ کی جانب سے علم سے نوازا گیا ۔ فرشتوں کے سجود کا حق دار ہوا ۔ سو یہ علم ہی کی نعمت ہے .......انسان کی تخلیق کا مقصد یہی علم ہے جو انسان کو حواس پر مبنی عقل و شعور دیے ہوئے ہے .......یہی حواس انسان کا قلم ہے اور اور دماغ پروسیسیر یا کاغذ ہے........انسان جو دیکھتا ہے اس کا تجزیہ کرتا ہے یعنی اس کی تراش خراش کرتا ہے اس کو دماغ میں محٖفوظ کرلیتا ہے..........اور وقت پر اسے زبان سے اشارے سے ابلاغ کی صورت دیتا ہے ۔ ہر زبان ہر اشارہ کسی نہ کسی لفظ کی صورت انسان کے تجزیے کو بیان کرتا ہے ۔ یہ زبان کی کہلاتی ہے ۔۔ جس سے علم کا ابلاغ ہوسکے ۔۔۔ کیا ہی زبردست اللہ ہے ۔ جس نے لفظوں کو بھی انسانی ذہن میں تخلیق کیا اور مختلف الفاظ اسی وجہ آربٹریری تعلق رکھتے ہیں یعنی بنا کسی قانون کے وجود میں آنے والی زبان انسانی فہم کی عکاس ہے اور اس کا فہم عطا کرنے والا اللہ ہے..سو جھک جا اس کے حضور ۔۔ عجز اختیار کر ۔۔۔۔ وہ تجھے اپنے علم سے نواز دے گا ۔
رب زدنی علماء .............
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
فنائے ہستی بعد، دید کی طلب میں رہ گئی
کہ زندگی مری ملن کی ہی تڑپ میں رہ گئی

ازل کے نوری آئنے کی جستجو میں زندگی
جنونِ عشق کے تڑپ میں اور کسک میں رہ گئی

خودی میں ہے چھُپی اُحد کی وہ نشانی، نور کے
وجود میں ڈھلی تو زندگی سبب میں رہ گئی

عجب زمانے کا چلن ، اسیر سب مکان کے
مری ہی روح لامکان کے پلٹ میں رہ گئی

یہ جذب ، شوق بے قرار رکھتا ہے بہت مجھے
کہ ہستی رازِ کن فکاں کی ہی طرب میں رہ گئی
٭٭٭٭٭

یہ آرزو ہے کہ ختم اب یہ انتظار تو ہوتا
یا ان کی چاہ میں دل میرا بھی فگار تو ہوتا

مری اک اک نس میں خوشبو آپ کی بس جاتی
کہ میرا بھی جو بسیرا اسی دیار تو ہوتا

بلا لیں اس دلِ بے قرار کو پاس اپنے
کہ میرے دکھ کا اظہار شہرِ یار تو ہوتا

قفس سے روح نکل جاتی آپ کے در پر ہی
کہ نقش یہ قصہ کوچہ و دِوار تو ہوتا

جدھر مکیں والی دنیا اور مدینے کے حاکم
اسی کی خاک میں میرا بھی اک مزار تو ہوتا



٭٭٭٭٭
میں جوگن سرکار کی ، نیچی میری ذات
وصف ان کا کیسے ہو بیاں ، میری کیا اوقات
٭٭٭٭٭
محبوب کی محفل میں جب میں نے پڑھی تھی نعت
جھوم کے سب کہنے لگے کیا ہیں میرے جذبات
٭٭٭٭٭
احمد فلک کا نور ہیں ، چاند سبھی تاروں کے
تقسیم رحمت ہوتی ہے ان کے ہی اشاروں سے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
عجب زندگی کا چلن اور طرز ہے . ہم تاجر نہیں ہوتے مگر ہمیں تجارت کرنی پڑ جاتی ہے . یونہی کبھی کبھی ہم حاکم نہیں ہوتے مگر حکمران بنا دیے جاتے ہیں . کوئی فقیری میں بادشاہی کرتا ہے تو کوئی بادشاہ فقیر بنا دیا جاتا ہے . زندگی کا پہیہ کبھی تھمتا نہیں ہے بلکہ مدار میں حرکت کرتا ہے جیسے چاند بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے . عجب کہ سورج کی جسامت ایک سی رہتی ہے جبکہ چاند کی جسامت گھٹتی بڑھتی ہے . اللہ کرم رحمتوں کی تقسیم میں سب سے آگے ہے اور انسانوں میں جناب سیدنا حضرت محمدﷺ ..........

انسان جب رحمانی اوصاف اپنانا شُروع کرتا ہے تو اس کا وصف بھی عطا کرنے والے میں شامل کیا جاتا ہے . اس کی مثال سورج کی سی ہوجاتی ہے جس کی روشنی میں کمی نہیں آتی مگر اس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے . کائنات کا سب سے بڑا سورج سیدنا حضرت محمد ﷺ ہیں اور ان کے پیروکار جس کا وصف دینے والوں میں سے ہوں . قربانی دینا ---------اللہ کی راہ میں اپنی بیش بہا چیز کی قربانی دینا کیا آسان کام ہے ؟ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی اپنے بیٹے سیدنا حضرت اسماعیل علیہ سلام کی قربانی دینا--------- حضرت محمد ﷺ کی اپنے نواسوں کی قربانی دینا......سیدنا عمر رض کی اپنے گھر کے آدھے سامان کی قربانی ، سیدنا ابوبکر رض کی اپنے پورے گھر کے سامان کی قربانی ، سیدنا ابور طلحہ کی اپنے باغ کی قربانی ، یا جنگ احد میں اپنے ہاتھ کی قربانی ......... قربانی پر چلنے والے اپنی دانست اور استطاعت کے مطابق دینا جانتا ہے ، تقسیم کرنا جانتے ہیں جبکہ لینے والی مخلوق چاند کی مانند ہے جس کی روشنی گھٹتی بڑھتی ہے کیونکہ اس کی روشنی مستعار لی ہوئی ہوتی ہے .


دور قدیم سے جدید کی سفر کرتے ہمیں اولیاء اللہ قربانی کے سفر میں محو عین الرضا کے مقام پر چلتے دکھتے ہیں . اللہ تعالیٰ نے ہر ذی نفس جو دینے کی صلاحیت رکھتا ہے یا رکھتی ہے اس میں ایک خاص وصف کے ساتھ پیدا کیا ہے . اس وصف کو اپنی زبان میں '' مامتا '' سے تعبیر کرتے ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مثال بھی ماں کے پیار سے دی ہے کہ وہ ستر ماؤں سے بڑھ کے پیار کرتا ہے . اس لیے اللہ کے دوست خود میں '' مامتا '' کا وصف رکھتے ہیں . جس طرح بچہ پیدا ہوتا ہے اور ماں کے دل میں بچے کی محبت جاگ اٹھتی ہے اسی طرح اللہ کے دوست انسانیت کے لیے پیدا ہوتے ہی درد مند دل رکھتے ان کی خدمت پر معمور ہو جاتے ہیں . اللہ کے یہ بندے بے نیازی کی صفت میں خود میں رکھتے اللہ سے محبت کی جستجو میں محو رہتے ہیں . وہ اپنا صلہ مخلوق سے مانگنے کے بجائے اللہ سے مانگتے ہیں .یہی لوگ اللہ کے قریب ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر اپنے اسرا ر کھولتا ہے . ہر ذی نفس اس مے کی ذائقہ اپنے انداز میں محسوس کرتا ہے اور اس کے بعد اس کا اپنا کچھ نہیں رہتا ہے بلکہ محبوب اس میں سما جاتا ہے . محبوب کا آئنہ بن جاتا ہے یا محبوب اس کا آئنہ ہوجاتا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
نور الھدی کا آئنہ ہو ں ۔۔۔نور باقی رہے گا
سانس جب اندر کو کھینچی جاتی ہے تب مجھے ''ھو'' کی آواز سُنائی دیتی ہے ۔ یہ کون میرے من کے دریچوں میں صدا دیتا ہے ؟ یہ کس کا کلمہ میرا روح کی کُنجی بن گیا ہے ۔ یہ کونسا قُفل میری روح کا کھُل گیا ہے ۔ وہ قُفل جو کبھی تھا ہی نہیں بس میری نگاہ اس طرف نہیں تھی ۔جب میں نے ایک نعرہ مستانہ لگایا تو دل میں 'ھو' کی گونج نے میرے دماغ کے اسرار خانوں کے مقفل کھول دیے اور میرے اندر کی نیلاہٹ --------میری ہجرت کا دکھُ ، میری مستی کا ذریعہ ، میری روح کا نغمہ ، میری جان کی جان --------دل کی نہاں خانوں میں چھُپا کون ہے ؟​
'حق ھو ، حق ھو '
تو ہی تو ہے سائیاں !
''تو'' کی پکار 'ھو '
ذات کی پہچان ''ھو'
عشق کا عرفان ''ھو ''
صدیق کا بیان ''ھو''
ملائک کی زبان ''ھو''
مردوں کی فغان ''ھو''
زندوں کانشان ''ھو''
ذرے ذرے میں نہاں ''ھو''
ستار و غفار کس کے ہیں نام ؟
مالک و مختار کس کے ہیں نام؟
کس کی ملک میں دوجہان ہیں ؟
ہر جانب اسی کا جلوہ ہے چار سو
میری ذات کی پکار ''ھو ''
عشق کی للکار '' ھو''
ارض و سماء ، جن و ملائک ، سبھی خلائق کی تسبیح ایک ہی اسم ذات پر ہے ۔ یہی وہ کلمہ جس کو ہم ''ھو '' کہتے اندر لے جاتے ہیں اتنا ہی خالق کے قریب ہوجاتے ہیں ۔ جس شدت سے اس کی پکار اس عرش تک پُہنچتی ہے اسی شدت سے انسان پر حال کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔اللہ تعالیٰ سبحانہ نے انسان کی اسی پہچان و معرفت کے لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے اندر کی کھوج کرتے خالق سے جاملے ۔ خالق بندے کو اپنے قریب کرلیتا ہے اور اس پر نگاہ الطافانہ ہوجاتی ہے ، جس سے دوئی کا احساس غائب ہوجاتا ہے ۔یہ وہ احساس ہے جس میں ہم اپنے ہی مدار میں گھومتے رہتے ہیں ،گویا سورج ہمارے اندر ہے اور چاند اس سورج کا طواف کر رہا ہے ۔ سورج کے جتنا قریب چاند ہوگا ، روشنی پاتا رہے گا اور جتنی دور جائے گا اس کی روشنی میں کمی آتی جائے گی ۔ کبھی کبھی انسانی ذات پر اماوس کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔ اس کیفیت کو ہم روح پر قفل لگ جانا کہتے ہیں ۔ جب یہ کیفیت غالب رہنے لگے اور مطلع سے چاند طلوع نہ ہو تو سمجھ لیجئے کہ اللہ نے ان کے سامنے چراغ یا آگ روشن کی ،اس کی روشنی بڑھا دی اور اس روشنی سے فائدہ اُٹھانے کے بجائے انہوں نے دلوں میں چھپے نور کو بجھا دیا ۔ ایسی تمام ارواح مایوسی کا شکار ہوتے ،یاسیت میں رہتے زندگی مفلسی میں گزار دیتی ہیں اور وہ ارواح ------جن کی مثال خود سورج کی سی ہوجائے کہ نہ دوئی کا فرق رہا -------''میں '' نہ رہا بس '' تو '' رہا ۔۔۔وہ کامیاب روحیں فلاح کی جانب نکل جاتی ہے کہ ان کی دی گئی روشنی سے عالم کی تیرگی کو روشنی میں بدلنا ہوتا ہے ۔اسم اللہ کی ضرب اگر کسی دل پر پورے احساس سے لگ جائے تو دل پر بجلی گرنے کا گُمان ہونے لگے یا روح وصل پاتے جام ابدیت نوش کرلے ۔​
کیا رہا ، کیا ہے ، کیا رہے گا ؟
''تو '' ازل سے ابد تک رہے گا
فنا کے بعد مجھ میں کیا رہے گا؟
نور الھدی کا آئنہ ہو ں ۔۔۔نور باقی رہے گا
 

نور وجدان

لائبریرین
عشق کا اصل

سیانے کہتے ہیں کہ عشق باؤلا ہے ، عشق اندھا کردیتا ہے ۔ عشق کا نام تاریخ نے متنازعہ کردیا ہے ۔ کوئی اس کو بربادی سے منسوب کرتا ہے تو کوئی اس کو حیاتی سے ملا دیتا ہے ۔ انسان دنیا میں آتے ہی محبت کا طالب ہوتا ہے اور اس کی ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے ۔ کون ہے جو اس کی ضروریات کو خیال رکھتا ہے ؟ کون ہے جو اس کو محبوب رکھتا ہے ؟ مجاز اور حقیقت انسان کی جستجو میں رہتے ہیں تو انسان کس کی جستجو میں ہوتا ہے ؟​

انسان بھی عشق کی جستجو میں ہوتا ہے کیونکہ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پہچانا جائے ، اسی سبب کوئی دنیا کے صنم اندر بٹھا لیتا ہے اور ہر بھگوان کی علیحدہ علیحدہ پوجا شُروع کردیتا ہے ۔ جلد یا بدیر اس کے اندر موجود خٗداؤں میں جنگ شُروع ہوجاتی ہے اور اس کی ہستی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہے ۔ آئنہ دل کی کرچیاں اکٹھی کرتے اس کو سچے خالق کا خیال آجاتا ہے اور یک دم اس کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے کُل سے بچھڑا ہے ۔ کائنات کی تقسیم در تقسیم میں وہی چھُپا ہے تو سوچو انسان جتناٹوٹتا جائے گا وہ کس کے قریب ہوگا ؟ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں پر آزمائشوں کے پہاڑ توڑ دیتا ہے ۔ کوئی کو کنویں میں گرادیا جاتا ہے تو کوئی مچھلی کے پیٹ میں سما جاتا ہے ؟ کوئی کوئلوں پر لٹا دیا جاتا ہے تو کسی پر پتھروں کی یلغار سے لہولہان کردیا جاتا ہے ۔ کسی کو اپنے جائے پیدائش سے رخصت ہونا پڑتا ہے تو کوئی یتیم و مسکین پیدا ہوتا ہے ۔

انسان کے اندر محرومی کا احساس اس کی سمت درست کردیتا ہے اگر اس کو اپنی حقیقت یاد آجائے ! اگر وہ جان جائے کہ اصل کا آئنہ ہے ۔ یہ حقیقت اس کی بصارت اور سماعت کو کُھول دیتی ہے اور اس کی بصیرت حد درجہ بڑھ جاتی ہے ۔ باطن کی آنکھ جب کُھل جائے تو انسان کا عشق باؤلا ہوتے ہوئے بھی بربادی کی طرف نہیں لے جاتا اور انسان کے دل میں اگر مجازی خداؤں کا بُت خانہ بن جائے تو اس کی تگ و دو میں زندگی گُزرتے اپنے خود پسندی میں کھو جاتا ہے ۔ دوسروں کی سننے کے بجائے اپنی سنوانا اور منوانا پسند کرتا ہے ۔ یعنی کہ انسان خود خُدائی کی طرف آجاتا ہے ۔ ایسا عشق جس میں انسان خود کو خُدا سمجھنے لگے وہ بربادی کی طرف لے جاتا ہے اور وہ عشق جو اس کے ہونے کے بجائے خالق کے ہونے کا احساس دلائے ، انسانی فلاح کا راستہ ہے

 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
وہ بندے جو میرے محبوب ہوتے ہیں

اضطراب کی حد کیا ہو سکتی ہے ؟ انسان پر ایک ایسا وقت آتا ہے جسب سب غم مٹ جاتے ہیں اور اس کی جان ، جاناں کی یاد میں محو رہتی ہے . اس کا ذکر ، فنا سے بقا کی طرف لے جاتا ہے . ہستی دُھواں بن کے اڑتی محسوس ہوتی ہے جس طرح پہاڑ روز حشر سیر کرتے پھریں گے بالکل اسی طرح ہستی کے پرزے پرزے ہوجاتے ہیں اور چراغ بن کے بکھر جاتے ہیں . روح ازل سے ابد تک جلتی ہے مگر فنا نہیں ہوتی بلکہ جلنے باطن کی سیاہی دور ہوجاتی ہے اور سب منور ہوجاتا ہے . انسان اپنے اندر جھانکتا ہے تو خود کو روبرو پاتا ہے .جب اپنا آئنہ دیکھتا اور باربار سوچتے اس نہج پر پہنچتا ہے کہ میں خوب ہوں تو میرا خالق کتنا خوبصورت ہوگا. اس کی مسکان سے کتنے چہروں پر نور پھیل جاتا ہے . ہم چونکہ خود میں محو رہتے ہیں اس لیے

کسی نہ کسی بہانے دل کے جھروکوں میں
چھن چھن جھانکتا ہے اور پوچھتا ہے کہ
'' میں ہوں ہر سو تیرے اندر...
تو کون ہے رنگی ؟
تیرے بکھرے رنگ کس کے ہیں ؟
تیری روشنی میری ہے
تیرا کیا ہے ؟

میرا؟
میرا کیا ہے ؟ مولا !
سب کچھ تیرا ہے
میری ہستی دھواں
ورد میں ہے ہر رواں
میں تیری جوگن ہوں
بانسری بجانا کام میرا
میرا کیا ہے ؟ موالا !
میرا کوئی رنگ ہے ؟
جو ہے ، وہ تیرا ہے
میرا کوئی روپ ہے ؟
جو ہے ، وہ تیرا ہے


مولا سائیاں ....... جب میں کچھ نہیں ہوں اور تو مجھ میں ہے تو کپڑا جلنے دے نا ! اس کے جلنے سے گُلاب کی خوشبو پھیل جاتی ہے . روح کی اس خاص خوشبو کو محسوس کیا جاسکتا ہے مگر بیان سے باہر ہے . مولا ! میری جان ، میرا دل ، میری سوچ ، میری خاک ، میرے لفظ ........سب تیرا ہیں . مولا ..میرا کیا ہے ؟یہ بات باعثِ مسرت بات ہے ، اے کریم ، اے رحیم کہ میرے من کے دریچوں سے'' تو ''جھانکتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کب پاس آنا ہے ؟

پھر مجھے پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ ...
آجا !
او رنگی ..آتی کیوں نہیں ؟
دیکھ میں تجھے بُلاتا ہوں ..
تو نے میری چاہت کی ہے
دیکھ ! میں تیری چاہت کرتا ہوں
تو میرا نغمہ ہے اور تجھے میں سُر دیتا ہوں
تو میرا سنگیت ہے ، تجھے لفظ میں دیتا ہوں
تو میری حقیقت ہے ، تجھے گویائی میں دیتا ہے
تو میرا نور ہے اور تجھے اس کا علم میں دیتا ہوں
تو میری عاشق ہے اور تجھے شوق میں دیتا ہوں
تو میرے ہجر میں مبتلا ہے اور وصل میں دیتا ہوں
تو قدیم ہے اور تجھے جدت میں دیتا ہوں
تو ہی ''اصل" ہے ، پہچان میں دیتا ہوں
میں کل ، تو جزو ---احساس میں دیتا ہوں

او میری بندی .....!
میں نے تجھے کیا کیا نہ دیا ؟
تو میرے شوق کا آئنہ ہے
تو میری ذات کا بیان ہے
تجھ میں نہاں ہوں ..
تجھ پر ظاہر میں ہوتا ہوں
سبھی راز جو تجھ پر کھلتے جاتے ہیں
ان کی کُنجیاں میں دیتا ہوں

آجا ....! آ پاس ... تجھے تیرا رب پُکارتا ہے . آ ! میری بندی ... میں تجھ سے خوش ہوں ، تجھ سے راضی ہوں ، میری رحمت کی آغوش میں پناہ لے لے . اب کہ وصل کے مزے لوٹ لے ، جنت کی سیر کرلے ، باٖغ ِ جنت کی سیر میں طائرین پر نظر ڈالتے میرا خیال تجھے آ لے گا ، پتوں کی سراسراہٹ کا نغمہ '' ھو '' کی بولی بتائے گا. ملائک میری تسبیح کے علاوہ کچھ نہ کرتے ملیں گے ، آسمان پر میری مخلوق کی اطاعت دیکھتے ، تو جا ........... زمین والوں کو بتادے کہ اللہ تم سب سے ایسی اطاعت کا خواہاں نہیں ہے بلکہ وہ تم سے خدمت خلق کا خواہاں ....ایک دوسرے میں مجھے تلاشو ...میرے روپ ان گنت ...مخلوقات بے شمار ..سبھی میں جلوہ میرا ہے تو تم میری نشانیاں تلاش کرو ، مجھے دھونڈو اور اگر ان میں مجھے پالو، تو میں تمھیں نظر آجاؤں گا ... تمھیں میرا جلوہ ہو جائے گا.خاکی... ..تیرا قدم اس جگہ پر ہوگا ، جہاں پر میں مکین ہوں اور تجھے پیار سے دیکھتا ہوں . تجھ پر نوازش کی انتہا کردی .مجھے تیرا عشق مطلوب ہے کہ میں تجھ سے اس سے زیادہ شوق سے دیکھتا ہوں . میں وہ ہوں جو .... نمود ِ سحر کے وقت ساتویں آسمان پر آتے پکارتا ہے ..........

کوئی بندہ ہے ؟
کوئی ..........
ہے کوئی جو مجھے یاد کرتا ہو
ہے کوئی جو میرا نام لیتا ہو
ہے کوئی جو مجھے مانگتا ہو
ہے کوئی جو مجھے چاہتا ہو
ہے کوئی جو مجھے ڈھونڈتا ہو
ہے کوئی جس کو میری تلاش ہے
ہے کوئی جس کو صرف میری آس ہے
کوئی ہے ......؟
میں بے نیاز ہوں سب سے
مگر سوا ان کے جو مجھ سے طلب رکھیں
جن کی چاہت میں میرا جلوہ ہو.......

جو کوئی رات کو طلوع سحر سے پہلے قیام کرتے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو میں اس کی دعا کبھی رد نہیں کرتا ...میں اس کے یقین سے بڑھ کے نوازتا ہوں ... میں اس وقت اپنے بندوں کی تلاش میں ہوتا ہوں جو میرے ذکر میں مصروف ہوتے ہیں ..جب تک وہ میرا ذکر کرتے رہیں گے میں آسمانوں پر اپنی مخلوق سے ان کا ذکر کرتا رہوں گا ..........بے شک یہ میرا احسان ہے اور اس کو تو نوازش جان ....

 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

وہ تو حقیقت کو حقیقت سے ملا دیتا ہے ۔

عدم کی مٹی کسے نصیب ہوتی ہے ۔ انسان جب اپنی بساط سے بڑھ کے محبوب کا ہوجاتا ہے ۔ جب اس کے اندر جذب ِ حقیقی پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی قدموں کی زنجیروں سے پیدا ہونے والی آواز میں موسیقیت گونج اٹھتی ہے ۔ جب خواب میں اس کو رُخِ یار نصیب ہوتا ہے اور اس مست نینوں کے پیچھے پنچھی روح اپنا آپ قربان کردیتی ہے ۔ عشق کی اصل کیا ہے ۔ اس بات کو سُوچنے بیٹھیں تو سوچیں کیا صرف قُربانی ہے ؟ عشق ایسا لافانی جذبہ ہے ، جس روح میں پیدا ہوجائے اس کو ابدیت کا جام پلا دیتا ہے ۔ زُلیخا کو جنابِ یوسف ؑ سے عشق ہوا اور اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے ۔ سیف الملوک کو عشق ہوا تو بادشاہت چھوڑ دالی ۔ جو روح مجاز کی محبت کا مزہ پاتی ہے ، اس پر اصل حقائق کھلتے ہیں کہ اس کی ہجرت سے پیدا ہونے والا سوز ، درد اور الم ۔۔۔۔۔ سب اس کو حقیقی ہجرت کی یاد دلاتی ہے ۔ اس لیے جب کوئی مسافر وطن سے روانہ ہوتا ہے تو اس پر ہجرت کا درد بخوبی عیاں ہوجاتا ہے ۔

جو ارواح جذب پیدا کرلیں یا.ان.کو.عطا ہو جائے ان کا اضطراب ان کو حقیقت کے روبرو لا کھڑا کرتا ہےہے اور اسی اضطراب پر شاید محبوب خوش ہوتا ہوگا کہ.
دیکھو! .
میرے وصل کی تڑپ میں یہ میرا بندہ بے قرار ہے ..
.دیکھو ...میری.چاہت کا.نشہ.ہے ...
دیکھو مجھے پہچانتی ہے ...
کیا.اچھا ہو آخرت کو بھی پہچان جاؤں ...

اصل.کیا ہے ...؟
.مولا..فرق کیا.ہے؟
تضاد تو مٹی ہے ..
.مٹی کی مجال.کیا؟
مولا کیامجال.؟
مولا پھر واصل بالحق کردے۔

حقیقت کے قریب انسان جوں جُوں ہوتا جاتا ہے. بادل برستے ہیں زمین سیراب ہوجاتی ہے ....نعمت ہے۔۔ان آنسوؤں کا جمع ہونا جو محبوب کی یاد میں بہائے جائیں کہ یہی رحمت کا ابر بن جاتے ہیں۔جب سے مجھ پرآپ کا کرم ہوا ہے ..زندگی نے مجھے درخت کی گھنی چھاؤں میں بٹھا دیا ....یار کا ہجر بھی یار سے منسوب ہے کہ وصل کو بھی ہجرت سے نسبت ہے ۔ انسان اسی شش و پنج میں سوالی بنتے سوال سنتا ہے اور جواب دیتا ہے
کیا تم مفلس ہو؟
ارے نہیں میں عشق میں ہوں ...
تم اضطراب میں ہو؟
ارے نہیں میں یاد میں محو ہوں ..
تم کیا.چاہتی.ہو
کیا بہتر جانتے ہو آپ مولا .....
میں کیا چاہتی ہوں .......
آجا! پاس ....
کیسے؟
جیسے جیسے محبوب پاس بلاتا ہے، یاد کرتا ہے ..مستی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انسان سُدھ بدھ کھو دیتا ہے ۔ اس کی آرزو میں جنون کی خواہش رہتی ہے کہ ہوش میں رکھا کیا ہے ۔ سب کچھ تو اسی عشق کی شعلے کی پیداوار ہے ۔آئنے ہوں یا عکس ہوں؟ میں خود کا عکس دیکھتی ہوں اور خود کو آئنے میں پاتی ہوں مگر آئنے میں یار کا جلوہ ہوتا ہے .....اس کے پاس بیٹھی ہوں وہ میرے پاس ہے ...محبوب مجھے دیکھے اور اپنی ہوش نہ رہے ...اس کو دیکھو ں آئنے میں اور میں خود سنورتی جاؤں ....مجھے بتاتا جائے ...سمت اس کی جانب کی رہے بس ۔۔!
جب زبان پر ذکرِ یار آتا ہے
دل میں پھر نقشِ یار آتا ہے
روح جب مسرور ہوتی ہے
دل کو مستی ِ خمار ملتا ہے
گنبد کی سنہری جالی کا تصور
آنکھوں میں پھر بار بار آتا ہے
دل کے صحرا میں بارش سے
گل کھلتے ہیں ، صبا چلتی ہے
موسم پھر سدا بہار کا رہتا ہے
وہ جگہ جہاں محبوب رہتا ہو. وہ کتنی خوبصورت جگہ ہوتی ہے. ہم تصورات میں خود کو اڑتا پائیں گے ..اک نئے جہاں پہنچیں گے. جس کا اس جہاں سے کوئی تعلق نہ ہوگا. وہ جہاں .....جہاں چرند پرند نہ جا سکیں، مٹی کی مجال کیا ہوگی؟ روشنی کی مثال ہے نا...انسان روشنی بن جائے اور روشنی سے مل جائے ....روشن ہو جائے اور تفرقہ مٹ جائے ...وہ عہد یاد آتا ہے جب میں تمام اراواح کے ساتھ کھڑی تھی اور مجھے جب اصل سے جدا کیا گیا تو پوچھا گیا کون ہے خالق تمھارا خالق کون ہے ؟...میں نے کہا جس نے مجھے تخلیق کیا ....جس نے میری مٹی میں مجھے پھونکا گیااور کہا! مجھے پھونکا اور جان دی ۔
خاکی!
یہ یاد رکھنا کہ تمھیں جب جب کوئی بات، منظر، کوئ جگہ لگے کہ یہ ہوچکی ہے تو اس کو اک نشانی جاننا کہ تم کو میں نے تخلیق کرتے وقت یاد کے تار ساتھ جوڑ دیے تھے ...جب جب تجھے وہ تار جڑے ملتے ہیں تو ساز کی طرح بجتا ہے .....
خاکی تو کثیف ہے ....مگر تیری خلق احسن الخالقین پر ہے ...دیکھ تضاد ...میں نے نورکو خاک کے ساتھ ملایا ...تاکہ جان لو کہ تم مجھے کتنا یاد رکھے ہوئے ہو اور میں تمھیں کتنا یاد رکھے ہوئے ہوں ۔۔۔۔!
تیری پہچان کہ میری پہچان؟
اس پہچان میں کیسا ہیجان؟
ساز، تار مل کے بجیں گے
مٹ جائیں گے اب سب ارمان.
بلا لیجیے پاس اپنے مجھے
میرے مولا! تجھ پہ میں قربان
میں ذکر میں نہیں مگر پھر بھی مولا...
ہجر کے مار ے پھٹتی ہے شریان
زندگی کی اوقات کیا ہے میرے سامنے
کیوں نفس بنا میرا پھر تا ہے شیطان
بس تیری خوشبو سے من کا محل سج رہا ہے
دل میں مچل رہے ہیں جانے کتنے طوفان

جب تڑپ اٹھے روح
چمک اٹھے جب دل
فلک کرے سجدے
زمین کرے ہے شکر
یہ عہد انسانی نہیں
یہ عہد الہی کی نشانی ہے
رقم میری پیشانی پہ ہے
میں نے پایا تجھ کو انسان میں
میں نے دیکھا تجھ کو اشجار میں
تیرا جمال کانظارہ بہار ہے
تیری ہجر کی نشانی خزاں ہے
تجھے سنا پرندوں کی تسبیح میں
اللہ.ھو کی بولی بول
میرا ساتھ رشتہ جوڑ ...
مجھے اپنا ساتھی سمجھ
میں یارا تیرا پرانا ہوں
مجھے پانا کتنا سہانا ہے
میرا ادب تیری نشان ہے
تو شاہد ہے مگر انسان ہے
میں معبود تو عبد میرا
میں الہ تیرا .....
کون تجھ میں سوا میرے

عشق کی ابتدا میں انسان کے دل میں کیا ہوتا ہے ۔ اپنا تصور دل میں گھومنا شروع ہوجاتا ہے ۔ میں ہی حقیقت ہوں مگر ایک پنجرے میں قید ۔۔میں ایک پرندہ ہوں جس کو پرواز ملی ۔۔۔۔میں شہباز ہوں مگر پھر بھی مجبور ہوں ، میں اڑتی ہوں ، پھرتی ہوں مگر قید رہتی ہوں ۔۔کب دور ہوگی یہ قید ؟ روح جب دیار اصل میں مقیم ہوگی تو سب حجاب اٹھتے جائیں گے ، اس جگہ جہاں سب کچھ اصل ہوگا اور اصل ، اصل کو دیکھتے اپنی پہچان کرسکے گا۔۔۔۔جس نے اپنی پہچان کرلی ، درحقیقت اس نے یزدان کی حقیقت جان لی ہے ۔۔۔وہ کن فکاں ہستی ہے ، جس نے ساز جسم میں اپنے اسرار چھپا رکھے ہیں ، وہ بس مطرب کی مانند گیت کی نئی دھنیں دیتا جاتا ہے ۔۔۔نور۔۔۔۔۔لو ! یہ دھن تیرے لیے ہے ، اس کو تو سُنا ہوں ۔۔۔۔
میں ؟
میں کہ گم اس کی بارگاہ میں۔
میں ریاکار ہوں مگر کتنا کرم ہے مجھ پر۔
میں با ادب ہوں ، سر اٹھاؤں تو کچھ کہوں۔
مجھے اذن گفتگو مل بھی جائے تو۔
آداب گفتگو تو نہیں ہے
کوئی تو ہو جو مجھے بتادے کہ میں نے اب تیرے پاس کھڑے زندگی کیسے گزارنی ہے ؟ میری روح تیرے پاس ہے اور جسم مادی ، مادی دنیا میں ۔۔۔۔۔۔میرا دل تجھے دیکھتا ہوں اور میں دنیا میں خود کو دیکھتی ہوں کہ نظر یار کی مجھ پر ہے ۔۔۔۔یار نے کرم کردیا ہے اور میں اس کے پاس کھڑی ہوں یا بیٹھی ہوں ، بیٹھی ہوں کہ یا جھوم رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میں نہیں جانتی ہوں ۔۔۔۔۔نہ کبھی جان سکتی ہوں ۔۔
وہ تو حقیقت کو حقیقت سے ملا دیتا ہے ۔
جام سب کو کچھ اس طرح پلا دیتا ہے ۔۔۔
نشہ مئے سرور کا جاتا نہیں پھر کبھی
ہر روح کو مئے خوار بنا دیتا ہے
اس کی محفل میں جس کو ملے حضوری
رواں رواں پھر روشنی جہاں کو دیتا ہے
یہ کون میرے دل میں مقیم مجھ میں ہی
دل ِ مضطر کے اضطراب کو ہوا دیتا ہے
میں نے اس کو قریب سے دیکھا تو جانا
وہ تو ہر آئنے کو اپنا جلوہ کرا دیتا ہے
اس کو دیکھتے میں خود سنورتی جاتی ہوں
آئنے کو آئنہ کچھ اس طرح ملا دیتا ہے
وصل کی مئے ابدی جس کو بھی ملے
ابتلا میں مبتلا میں بھی مسکرا دیتا ہے
خود کے گنبد میں کعبہ نور کو دیکھ کے
سجدہ شکر میری ہر رواں کرتا ہے
کبھی سبز گنبد تو کبھی حرم کعبہ بنتا ہے
جلوہ حق میں یار خدا جو دکھتا ہے​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

کالا رنگ

پاس حرم ہے اور ایک کالا کپڑا ہے. دل چاہتا ہے کالا کپڑا چڑھا دوں...؟

''نور کو کالے کپڑے کی ضرورت نہیں ہے . بس سب رنگوں کی کے پردے ہیں. ان رنگوِں کو نفی اثبات کرنا مقصود ہے.

''تم کون؟

''میں کالا رنگ ہوں؟
رنگینیاں کے ڈھانپے ہوئے ہوں.
ایک طرف خاکی رنگ اور دوسری طرف نوری رنگ.

"نور " بولا ... کالا رنگ بھی مجھ سے نکلا ہے. یہ میرا حجاب ہے

کالا رنگ!!!
" کیسا حجاب ہے؟
سب خاکی مجھ سے گزرتے ہیں میری حیثیت کیا ہے؟
وہی نسبت جو روح الامین کی تھی.

"نور" یہ بے تابی کیسی؟
اضطرابی پہلے تو نہ تھی؟

اوئے رنگی
تیرے توں جیہڑا وی لنگے
اوہی پہچان چھڈے تے لنگے
تو کیہڑ یاں فکراں پالیاں؟

اے خاکی! وڈا کثیف!
اے پلیتی تے پاکی وی
ایڈی پلیتی اچ لنگی حیاتی وی
ایڈیاں پلیتیاں تو پردے پاندی
تیری بے رنگی اے ذاتی وی

کالا رنگ: میڈا سائیں ..
تیرا حکمتاں مالک میں کیہ جانڑاں؟
''او مالک''
میرے تو لنگدے خاکی

اپنے رنگ چھڈ تیرے کول
آندے تے جاندے
میرا رنگ کیہڑ اے؟
میں رنگاں نوں سونگاں آں
مینوں پر کج نہ پلے
ای کیہڑا راز.

نور ": اس وجہ سے تو تیرا رنگ کالا ہے کہ تجھ پر خاکی رنگ نہ چڑھے اور خاکی پر نوری رنگ چڑھے.
یہ وہ حکمت تو جان نہ سکے. تو خاک کے لیے ہے مگر خاک تجھ سے نہیں بالکل اسی طرح جس طرح خاک مجھ سے ہے[​
 

نور وجدان

لائبریرین
کُچھ لوگ ساری زندگی نقالی میں گُزار دیتے ہیں. سوچتے ہیں کہ انہوں نے شخصیت پرستی نہیں کی جبکہ نقال شخصیت پرست ہوتا ہے اور وہ لوگ جو من کی صدائیں سنتے ہوئے ان پر عمل کرتے ہیں ان کی زندگی میں مشاہدات ، تجربات اندرونی عوامل کو متحرک کرتے ہیں. انسان اس لیے ہیدا نہیں کیا گیا کہ بیرونی دنیا کو کھوجے جبکہ اندر کی دنیا کھوج بنا مر جائے. ایسے لوگ ماسوا حسرت کے کیا اس جہاں سے لے جاسکتے ہیں. جن کی اپنی.تلاش کے سوت اک بڑے مرکزی دھارے سے مل جاتے ہیں ان پر عیاں ہوجاتا ہے کہ دنیا میں انسان مسافر ہے. اس کی مثال مٹی کے بت جیسے ہے جس کو روح نے جان دی ہے. روح کے لباس کئ ہوسکتے ہیں مگر سعید روحیں "نور " ازلی و ابدی کی حقیقت کو پالیتیں ہیں اور جان لیتی ہیں کہ موت کی ساعت وصل کی منتہی کا نام ہے.

وصال کیا ہے؟ موت کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ انسان مٹی کا پتلا ہت جس نے پتھروں کی دنیا میں دل پتھر کردیا.انسانی دل جب ٹوت جاتا ہے تو کبھی چشمہ پھوٹ جاتا ہے تو کبھی پانی مل جاتا ہے تو کبھی پانی کو راستہ مل جاتا ہے. .انسانی دل کی زمین کو پانی تخریب سے مل جاتا ہے. جب چشم پھوٹ جاتا ہے تو خون میں "ھو " "ھو " کی صدا ٹکراتی رہتی ہے. جب انسان مکمل "ھو " کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے تو وہ ""مطیع الرسول و اللہ " " ہوتا ہے. وہ نقال کے بجائے راہ کی سمت دیتا ہے اور اس کو ابدی ہاتھ خود اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں تب وہ وصل و موت کی حقیقت کا راز شناس ہو جاتا ہے

محبوب ایک آئنہ کی مانند نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ تمثال گر ہوتا ہے. جوں جوں عکس واضح ہونا شروع ہو جاتا ہے ویسے ویسے انسان میں تفریق کا خاتمہ ہوجاتا ہے . جب جب اُس کا ذکر ہوتا ہے تو گُلاب کی خوشو کوچہ و دیوار میں بسیرا کرلیتی ہے. انسان کا سفر مالک کل کی طرف آسان ہوجاتا ہے. اسی واسطے انسان کو پیدا کیا ہے. اس میں عقل کا بیج رکھا تاکہ وہ سمجھ سکے اور دل میں الوہی چراغ پھونک ڈالا. اب عقل کا.کام سمت متعین کرنا ہے کہ یہ اک راستہ واحد، احد، صمد کی طرف جانے کا. اور انسان اس سے برائی کی طرف راغب ہوجائے تو اس کا قبلہ شیطان بن جاتا ہے یہی بات جو مرکز سے ہٹا دیتی ہے.

دوست دوست کی پہچان کرتا ہے اور دوست پہچان کرا دیتا ہے. اس کی شناخت کے جا بجا مظاہر بکھرے ہوئے ہیں. پھول جمع کرتا جاتا ہے اور خوشبوپاتا جاتا ہے اور دل کا کعبہ سنورتا جاتا ہے اور انسان جھکتا چلا جاتا ہے اس کی سانس محبوب کی مرضی سے نکلتی ہے اور آواز بھی اس کا نام کی صدا لیے ہوتی ہے. وہ حقیقت شناس کراتا ہے تو روح اپنے مرکز کے گرد طواف کرنا شروع کردیتی ہے اور بے سمت انسان کو سمت مل جاتی ہے. اس کا ہر ہر قدم محبوب کی طرف سے ہو جاتا ہے اس لیے س کے قدم کبھی گناہ کی طرف نہیں جاتے کیونکہ وہ ُپر یقین ہوتا ہے کہ اللہ کو س پر یقین ہے ۔جس کے باعث قدم لڑکھڑاتے نہیں بلکہ قربانی کی طرف چل نکلتے ہیں. انسان قربانی کیا دیتا ہے؟ کبھی تو نفس قربان کر دیتا ہے تو کبھی زندگی تو کبھی ہر رشتہ مالک کی رضا سے ُبنتا ہے. خون کے رشتے ہوں یا انسانیت کے سب ...اس کی رشتہ داری سب سے ہی ہو جاتی ہے۔ہر روح کا اپنا سُر ہوتا ہے جس کے گرد وہ محو رقص ہوتی ہے. اس کی شعاع جب حقیقت سے مل کے منعکس ہوتی ہے تو روشنی عالم پاتا ہے. سب کچھ ان روشنی کی شعاعوں سے ہوتا فلک کے پار لے جاتا ہے. انسان زمین پر ہوتا ہے مگر روح و دل کسی کے پاس رہ جاتی ہے. محبوب کی محبت کی قسم ...اس کے پاس روح سی ملتی ضو سے عجب خوشبو بس جاتی ہے جس کو کسی عطر کی ضرورت نہیں ہوتی​

تم ایک گناہ کی جانب راغب ہونے لگو اور عجب نہیں کہ اس کا ارادہ کرلو مگر تمھیں روکنے والا کون ہے؟ خالق!

تمھیں نیکی کی طرف مائل کرنے والا کون؟ مالک
تمھارے گناہوں کی عیب پوشی کرنے والا کون؟ ستار
تمھارا گناہوں کا بھرم ر کھ کے تمھیں معاف کرنے والا کون؟ غفار
تمھیں روحانی قالب میں ڈھالنے والا کون؟ کریم
تمھیں حسین و جمیل کرنے و بنانے والا کون؟ مصور
تم پر بارشیں کرم کی کرنے والا کون؟ رحمان
تمھارے بدن کو رزق پہنچانے والا کون؟ رزاق
تم اس کو یاد کرتے ہو تمھیں یاد کرنے والا کون؟ سبحان
اس سے زیادہ بندے کے لیے کرم کی بات کیا ہے کہ بندے کو خدا یاد کرے اور وہ اس ادا پر مر نہ جائے؟ کیا وہ اس پر راضی نہ ہو جائے؟ کیا وہ مومن نہ ہو جائے؟ ایمان کے سانچے میں ڈھل جانے والے فولادی انسان ..جن کے یقین پر آگ ٹھنڈی ہوجاتی اور چاند ٹکرے ٹکرے ہوجاتا ہے ... جن مظاہر کو انسان معبود بناتا ہے وہی انسان کے حکم کی تعمیل کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ اللہ نے ایک بندے کو تم میں بھیج دیا ہے جو تم میں ایسے یقین پیدا کرتا رہے گا جس کی خالق کو آرزو ہے. یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ وہ بے نیاز ہے مگر وہ جو اس کو محبوب رکھتے ہیں ،وہ ان کی طرف بھاگتا اور لپکتا ہے کہ میرے بندو! میرے پیارو! میں نے جس کو تمھارے پاس بھیجا ہے ، تم اس کی طرح ہو جاؤ! کبھی میں انبیاء کو بھیجتا رہا تھا مگر جب دین مکمل ہوگیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے امتیوں میں سے منتخب روحیں تم میں بھیجتا رہتا ہوں. وہ پاک روحیں میری جانب سے اپنے بندوں کے لیے تحفہ ہوتی ہیں.
زمانے کی چاہت لے ڈوبے
زمانے کی نفرت لے ڈوبے
زمانے کی حسرت لے ڈوبے
اگر دل میں پیار اللہ کا نہ رہے
تو زمانے کو تم، تم زمانے کو لے ڈوبے
پیار دل میں خالق کا ہوگا گر
تو دنیا کے پیار سے چمک اٹھے
اس پیار سے روح بھی مہک اٹھے
اس پیار سے شعر سارے چہک اٹھے

 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
مٹی کے ذرے

لمحہ موجود میں قفس سے روشنی کی شعاع نے اندھیرے میں چراغ کا سماں بپا کردیا تھا ۔ دور کہیں اس اندھیری وادی میں سُروں کے سنگیت پر ایک شہزادی بھاگ رہی تھی ۔ اس کی آواز کانوں میں حلاوت بخشتی جاتی اور وہ رقص کُناں ایک ہی لے کا نغہ روز سنا کرتی تھی ۔ دوران رقص روشنی قفس کے اندھیرے ختم کر رہی تھی ، ملجگے اندھیرے ، سیلن زدہ دیواریں ، روشن ہوتی اس میل کچیل کو صاف کر رہی تھی ۔ جوں جوں روشنی کی مقدار بڑھی ، ساز کی آواز تیز تر ہوتی گئی ۔ شہزادی وصل کے لیے بے قرار رقص میں محو وراء سے ماورا کی طرف سفر کر رہی تھی ۔۔ ہر لمحہ سلگتا، جوار بھاٹے کا من میں شور ، روشنی کا سمندر اس کی ذات کو تقسیم کیے جارہا تھا ۔ صحرا کی تپش میں گلشن کی سیر میں محو نغمہِ آہو کا خاتمہ ہوا ۔ نفرت کی دبیز تہ نے محبت کی روشنی چار سُو بکھیر دی ۔ مٹی کے ذرے ہوا میں اپنا حجم کھورہے تھے ۔ مشرق و مغرب کی سمت سے بے نیاز صبا اپنی دھن میں ان ذروں کی ضوفشانی میں مصروف تھی ۔ رات کے اندھیرے میں سورج اپنی پوری تابناکی سے ان ذروں کے حجم کو واضح کیے دے رہا تھا ۔ جو ذرے ''طوھا کرھا '' اس سمت روانہ ہوئے تھے ۔ تحلیل شدہ ذروں کو نیا خمیر عطا ہوا تھا ۔ بے بسی ، بے قراری ، بے کیفی اور بخارات سے بادل بننے کے بجائے روشنی کے سفر پر ترجیح دیتے یہ خود پر نازاں تھے کہ مقام ایزدی سے جو مقام ان کو ملا ہے وہ کم کم کسی کو عطا ہوتا ہے ۔ تفریق کی مٹی نے اپنا وجود جب واحد و یکتا کے حوالے کرتے یہ نغمہ سنایا

ھو احد
ھو صمد
ھو المالک
ھو الخالق
ھو المصور
ھو الباری
ھو الرحیم
ھو الرحمان
ھو الکریم

اس سرمدی نغمے سے ایک صدا ابھرتی رہی اور وجود فانی اپنی تسخیر پر نازاں یار کے روبرو نظارے میں مصروف تھا ۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
دنیا میں نظامِ کائنات کی تشکیل کے لیے سکوت اور حرکت کے مختلف وقفوں کو ایام کے نام سے منسوب کرتے ''امر کُن '' لاگو ہوگیا ۔ پیدائشِ انسانی سے پہلے کائنات کی تشکیل کے مراحل مخلوقات کی تخلیقات پر لاگو ہوئے ۔ ''نور '' کی پیدائش نے قدوسیوں کی جماعت پیدا کی ۔ وہ جماعت جو مکمل سجدے کی حالت میں ہے یا مکمل رکوع کی حالت میں ہے یا مکمل قیام کی حالت میں یا تسبیح میں مصروف ہے ۔ ان کی ضد میں '' نار '' کو تشکیل کیا گیا ۔ ''نور '' اور '' نار '' ایک دوسرے کی ضد میں قدرت کے اٹل حقیت ''صبح و رات ، سحر و شام ، اجالا روشنی '' کے فرق کو واضح کیے ہوئے ہیں ۔ انسان کو جب پیدا کیا گیا تو اس میں '' نار و نور '' دونوں طرح کی قوتوں کو ''وہم و یقین '' کی صورت پیدا کردیا گیا ۔ ''شک و یقین '' کی قوت کو توازن میں لانے کے لیے عقل یا شعور عطا کیا گیا ۔ شعور انسانی کو چلانے کے لیے ''حواس خمسہ '' کو نگہبان کیا ۔

تخلیق آدم کے بوقت '' نور '' کی تجلی کو پہلے پیدا کیا گیا ۔ آئنہ کی تشکیل کے بعد سجدے کا حکم ہوا ۔ سجدہ گویا خالق کو سجدہ اور انکار گویا خالق کی کبریائی سے انکار تھا ۔ جس نے انکار کردیا ، گویا اس نے خالق کو پہچان کر کبریائی کا دعوی کردیا۔ ایسی مخلوق جس نے معرفت حاصل کرلینے کے بعد '' نورِ ازل '' کی واحدانیت کو ماننے سے انکار کردیا گویا وہ '' اندھا ، بہرہ اور گونگا '' ہوگیا ۔ وہ تمام لوگ جو ابلیس کے پیروکار ہوئے ، وہ تمام کے تمام حواس کو بروئے کار لانے کے باوجود '' اندھے ، گونگے ، بہرے ہوگئے ، گویا وہ اللہ کے حکم کو پہچان لینے کے بعد پہچان نہیں پائے یا آئنہ میں '' نورِ حقیقت '' کا چراغ بجھ جائے ۔ اس کے بعد انسان کی حیثیت '' نار '' کی سی ہوجاتی ہے ۔


''نار '' کے برعکس ایک گروہ ایسا بھی ہے جس کو آزمائش میں مبتلا کیا گیا ۔ آزمائش کی مثال ''پل صراط '' کی سی ہے ۔ جو اس آزمائش کو پار کرگئے تو گویا وہ اپنے رب اور اس کی حقیقت کو پہچان گئے ۔ دوست ، دوست میں فرق کہاں رکھتا ہے جب ایک ہستی اپنی ''ناری '' حیثیت سے دستبردار ہوتے '' سراپا نور '' بن جاتی ہے جس کو خالق نے قران پاک میں ''نفس مطمئنہ '' کے نام سے ہمیں آگاہ کیا ہے ۔ ''نفس ملحمہ '' پر استوار روحیں جب منزل شناس ہوجاتی ہیں ، ان پر جبروت و لاہوت کے نشانیاں بتائیں جاتی ہیں ۔ ایسے راستے ہیں جس کی آگاہی ہر روح کے لیے جاننا ضروری ہے ۔ اس کی پہچان ہی دراصل ' محشر ' اور انصاف والے '' دن پر یقین کامل پیدا کرتی ہے ۔ گویا جو لفظ ''زبان '' نے ادا کیے اس کا ''عملی '' نظارہ روح کرلے ، اس کا شُمار کاملین میں ہوتا ہے ۔ انبیاء کرام کی روحیں پر جو عطا تھی وہ نبی آخر الزمان صلی علیہ والہ وسلم پر ختم ہوگئی ۔ اب ارواح کے مدارج ہیں جن کو ''صدیقین ، شہید ، صالحین میں شمار کیا جاتا ہے

نور سے نار کا سفر کرتے رہے
کینہ حسد جو خود میں بھرتے رہے
نور نے حقیقت کو قریب سے دیکھا
مشاہدہ ، شاہد ہوکے وہ کرتے رہے

 

نور وجدان

لائبریرین
ورفعنا لک ذرکرک

انسانی اعمال بار گاہ خداوندی میں پیش کیے جانے کے بعد ایک عمل پسندیدہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ بندے کی بندگی و محبت و عشق کو بصورت عمل بہت محبوب رکھتا ہے ۔ عرش سے لیکر خلائے بسیط پر محیط محفل یزداں میں اس بندے کا ذکر فخر سے کرتے کہتا ہے کہ میرا فلاں بندہ یا بندی میری محبت ، میرے ذکر کی چادر اوڑھے ہوئے ہے ۔

ملائک ! اس کی تعریف کرو
میرا بندہ میری تعریف کر رہا ہے

میرا کون سا عمل مالک کی بارگاہ میں مقبول ہوگا اور کون سا بار ندامت بنتے باعث اشک ہوگا ... کس بات پر وہ مجھ پر نازاں ہوگا اور میرا ذکر اپنی بارگاہ میں کرے گا ؟ وہ کہتا ہے '' فاذکرونی اذکرکم '' اور جب اللہ ایسے بندے کا ذکر کرتا ہے تو اس کے ذکر کی آواز دنیا میں بلند کردیتا ہے .خالق کا ارشاد ہوتا ہے کہ اس بندے کا ذکر اس ذکر سے ستر گنا زیادہ کرو ، جتنا یہ بندہ یا بندی میرا ذکر کیے ہوئے ہے ۔۔۔قران پاک میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے

فاذکرونی اذکرکم ۔۔۔۔۔۔

تم میرا ذکر کرو میں تمھارا ذکر کروں گا ۔۔۔۔

اللہ کا ذکر کیا ہے ؟ اللہ کا ذکر نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم پر درود بھیجنا ہے ۔۔۔ جو اس ذکر کو ترجیح دیتا ہے ، اس کو اس پر بے حد و حساب اجر دیا جاتا ہے ۔۔ کائنات میں پھیلے مظاہر پر فکر ، خدمت انسانی کے بعد انسانی روح ذکر کی چادر میں ڈھل جاتی ہے ۔ مولا فرماتا ہے کہ ورفعنا لک ذکرک '' آپ صلی علیہ والہ وسلم کا ذکر بلند کر دیا گیا اور کیسے بلند کردیا گیا . اللہ کا ذکر تو درود ہے . جس نے اللہ کے محبوب پر درود بھیجا . اس کے لیے محبت کے دروازے کھل گئے اور بارگاہ خالق ِ دو عالم میں اس کو قبولیت کی سند بخش دی گئی .. جو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ذکر کرے گا تو اس کا ذکر جب مکان کی قید سے لامکان کی سرحدوں کو پار کرے گا تب اللہ جل شانہ اس بندے کا ذکر بلند کردیں گے


ان کی خوشبو نے مست کر دیا ہے
نوری ہالے سے جذب مل گیا ہے
ان کی محفل حضوری کی خاطر
نور کا دل مچلتا جا رہا ہے
معجزہ یہ نگاہ یار کا ہے
جینے کا اب قرینہ مل گیا ہے
خاک مرقد پہ یاد کا کتبہ
جاوداں زندگی کو کر گیا ہے
رحمتَ دو جہاں ! فغاں سن لیں
ہجر کے غم سے سینہ پھٹتا ہے




مالک کریم ! بندہ محبوب کا سینہ کھول دیا جاتا ہے ...اس کے سینے پر نور کی بارش کردی جاتی ہے ... جس انسان پر انوار کی بارش ہوجاتی ہے یعنی اس کو علم لدنی سے نواز دیا جاتا ہے . اس کی زیست کی روشنی عمل کی صورت دوسرے کے لیے مثال ٹھہرتی ہے . سورہ النشرح میں مالک فرماتا ہے

الم نشرح لک صدرک

نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کا سینہ کھول دیا گیا . آپ کو علم اکبر سے نواز دیا گیا ... امی یعنی ان پڑھ ہوتے ہوئے بھی تمام علوم پر دسترس رکھتے ہیں . جو نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کی اتباع کرے گا ، اس کا سینہ بھی اس علم کے لیے کھول دیا جائے گا .. اس کے دل میں رحم بٹھا دیا جائے گا اور اس کو خدمت خلق پر معمور کردیا جائے گا ... اس انعام سے تمام امتیوں کو نواز دیا گیا ... دل کی تمام کثافتوں کو دھو دیا جاتا ہے اور بندہ خدا کا دل نور ازل و ابد کی روشنی سے جل تھل ہوجاتا ہے ...... انسانی جسم پر نور کی تجلی سے دل کی کثافتٰیں دھل جانے کے بعد اس پر عسرت ہٹا دی جاتی ہے اور دل کو فراخی عطا کی جاتی ہے ... انسان روشن سینہ لیے جب بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتا ہے تو نواز دیا جاتا ہے ..اس کی نعت بطور سند قبول کی جاتی ہے ، جو درود بندہ خدا پڑھتا ہے ، اس کی قبولیت کی گاہے گاہے اس کو ملتی رہتی ہے ... کبھی وہ محفل نور میں تو کبھی محفل حضور میں ہوتا ہے . زندگی کی آزمائشوں میں سرخرو ہونے والوں کو خالق اپنی محبوبیت کی سند عطا کرتا ہے .​
 

نور وجدان

لائبریرین
تو نورِ سماوی، تو نورِ زمانی
نبی سارے تیری ہیں نوری نشانی

رحیمی ، کریمی ، جمالی ، جلالی
سبھی صفتیں تیری بہت ہیں مثالی

ملائک ، خلائق ، شجر ، حجر" مولا"
سبھی میں چھپی تیری تمثیل اللہ

کلامِ سماوی ہیں تیری تجلی
بصورت ہے آدم کی تو نورِ اصلی

محمد ﷺ میں تیری ہے حکمت مکمل
بشر کی وہ صورت میں تیرا تجمل

بدم مصطفی ﷺ کے ملی ہے ہدایت
سمجھتے رہے سب نیابت کی حکمت

تفکر سے ملتی ہے معراج بشری
مقامِ ولایت حقیقت ہے اصلی

فنا کے بعد اوج بقا کی ہے منزل
خودی میں چھپے نور سے آ کے پھر مل

کبھی نور کی نورؔ جانو حقیقت
سفارت ، نیابت میں کیا ہے مشیت
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
منور، مطہر محمدﷺ کی سیرت
تصور سے بڑھ کےحسیں انکی صورت

وہ نبیوں کے سردار ، ولیوں کے رہبر
نہیں کوئی انسان ان کا ہے ہمسر

مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی

خشیت سے جسمِ مطہر تھا کانپا
خدیجہ(رض)نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا


منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ

چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں جس کی، خدا کی ملےدید



احد کی حقیقت سبھی کو بتائی
نہیں شرک سے بڑھ کے کوئی برائی

تیقن سے سینے ہوئے سب کے روشن
گرفتار اندیشوں میں ان کے دشمن



اویسی ، بلالی صحابہ کی نسبت
محمد ﷺ سےالفت نے بخشی یہ عظمت

محبت کا میٹھا کنواں یا محمدﷺ
ترے ذکر میں ہر رواں یا محمدﷺ

مرا دل بھی اسمِ محمدﷺ سے چمکے

سبھی تارے اسمِ محمدﷺ سے دمکے
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
شاہد اور مشہود

جو پاک ذات ہوتی ہے وہ قربت اور دوری کا کھیل کھیلتی ہے . محبت کو فطرت میں رچا بسا دیتی ہے اور پھر اس کو آزمائش کی بھٹی میں ڈال کے حساب طلب کرتی ہے . دنیا میں جن سے حساب لیتی ہے ، ان کے لیے آخرت کا دن ابدی وصال مئے کا ہوتا ہے . اللہ عزوجل نے کہیں اپنی ستاری تو کہیں غفاری کی قسمیں کھائیں تو کہیں انصاف کے دن کے قائم کیے جانے پر ، تو کہیں سمیع اور بصیر ہونے پر ... ہمیں تو حواس عطا کردیے گئے کہ انہی حواس کی زریعے ہم حقیقت کی کنجی کھولتے ہیں ... وہ نغمے جن کے دھنیں اور ساز ہر زمانے کے لیے نئے ہوتے ہیں ، اپنی ذات پر بیتتے محسوس کرتے ہیں . انسان کے باطن میں موجود چھپی حقیقت علوم کا خزانہ ہے ، زینہ بہ زینہ اس پر چڑھتے اصلی حقیقت کی جانب پرواز کرتے ہیں .

زمین میں بنے ہوئے تالاب میں جمع پرندوں کو ہوا میں اچھال دو تو وہ پرواز حاصل کرلیتے ہیں، اڑتے ہوئے آسمان میں معلق ہوتے بکھرے رہتے ہیں کہ جیسے اذن حضوری کی طلب میں ہوں . وہ پرندے جو فنا کی مٹی کی بود وباش تھے ، جن کو ایک کمہار نے خوب بنایا تھا ، وہ اپنی منزل کی طرف روانہ چاند کی چاندنی سے ضو پاتے ، شمس کی جانب جاتے ہیں . جیسے جیسے ذرے چاند سے چاندنی پاتے جاتے ہیں ان کو شمس اپنے جلوے قرائے دیتا ہے . جب سبھی پرندے بمثال ذروں کے روشنی پاتے جاتے ہیں تو حقیقت کے ساتھ وصل میں پاتے بقا کا پانی پی لیتے ہیں . فنا کے بعد بقا کی منزل اصلی منزل ہوتے ہے


انسانی آنکھ ان حقائق کا پانہیں سکتی مگر بصارت کے ذریعے مشاہد ، مشہود کا تعلق استوار ہوجاتا ہے . روح قفس میں رہے یا چھوڑ دی جائے ، اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ جو اپنے محبوب کو پہچان لیتے ہیں ان کے دل باوضو رہتے ہیں اور جاری نہروں کی پاکی کا باعث بنتے ہیں . جسم کثیف کی ہئیت جسم لطیٖف کی سی ہوجاتی ہے ... کچھ روحیں جیسا کہ انبیاء کرام کا جسم لطیف اتنا روشن ہوجاتا ہے کہ ان کی کثافت پر غلبہ پالیتا ہے اور ان کے مادی وجود کا روشنی سایہ نہیں بنا سکتی ہے کیونکہ وہ خود روشنی ہوتے ہیں .... وہ خود نور ہوتے ہیں اور ان کی نورانیت ، حقانیت پر شاہد ہوتی ہے .. ایسے لوگ شہید کہلاتے ہیں جن کے بارے میں قران پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ شہید کو مردہ مت کہو ....... شہید کا تن مٹی کھا نہیں سکتی کیونکہ زندگی میں ہی آزمائش پر چلتے ، پل صراط پار کرتے ، اپنی فطری قدسی صفات کو غالب اور شیطانی صفت کو مغلوب کرچکے ہوتے ہیں ...سورہ الشمس میں جب اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسانی نفس کو نیکی اور بدی کے الہام کے ساتھ پیدا کیا گیا کہ انسان نہ تو فرشتہ ہے اور نہ ہی شیطان .. دنیا میں انسان کی مقصد صرف اور صرف اللہ کی پہچان ہے اور اس کی معرفت کبھی بھی جسم کثیف یعنی خواہشوں بھرے جسم میں نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہوس ، لالچ والی روحیں اس پر منتخب ہوتی ہے ... نبی کریم ﷺ کی امت میں کچھ خاص لوگوں کے خالق اپنے مشاہدے اور جلوے کے لیے چن لیتا ہے .. خالق کو پہچان لینے کے بعد ، اپنی معرفت کرلینے کے بعد .... ان کے اور رب باری تعالیٰ کی بات میں تضاد بہت کم رہ جاتا ہے ... اللہ رحمان ہے تو وہ رحمان کے بندے ، اللہ کریم ہے تو وہ کریم کے بندے ، اللہ سامع ہے تو وہ سمیع کے بندے ، اللہ بصیر ہے تو بصیر کے بندے ، اللہ مالک ہے تو عبد یت کی اعلی مثال ہے ، اللہ خالق تو وہ مخلوق کی اعلی مثال یعنی مخلوق کے وجود پر سردار اور خالق اور بندوں کے درمیان سفیر کا کام کرتے ہیں ... اللہ تعالیٰ کے سفیر ، اللہ کے نائب ، اس کو پہچاننے اور جان لینے کے بعد اس کے کان ، ناک ، ہونٹ اور ہاتھ ہوجاتے ہیں ..........

 

نور وجدان

لائبریرین

رانجھے کی پکار -------آ پاس میرے
ہیر کا دلدار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آ پاس میرے
سائیں اسی تے ہوگئے تیڈھے
اساں آپاں آپوں نکل دے جاندے
تیڈھے نال دل نوں لاندے جاندے
ساڈھی خدائی نے سانوں مار چھڈیا
تیڈھی خدائی نے سانوں بچا لئیا
ہن تے کرم دی بارش ہووے
میہ کرم دا ہن تے وس جاوے
ایڈھ نال نچاں تیرے نام لے کے
میں نچ نچ کے تینوں پکاراں
تو کہوے مینوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''او میری بندیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
کون میرا محبوب۔۔۔۔،
میں کہواں ۔۔۔۔۔۔،
اوہی ۔۔۔،
جیہڑا قاب و قوسین دی رفعت پاوے،
جیڈھے واسطے توں دنیا دا تماشا رچایا،
۔۔۔ اوہ کہوے ۔۔،
میڈھی بندیے ۔۔،
تیری گلاں مینوں لگدیاں چنگیاں،
تو بول دی جا ۔۔۔،
میڈھے محبوب دی گلاں کر دی جا۔۔۔،
میروں تو چنگاں سامع کیہڑا ایہہ؟
میڈے توں چنگاں بصیر کیہڑا ایہہ؟
او چلی ! میں علیم تے حکیم،
میں سمیع تے میں ہی آں ولی،
جیہڑا محبوب نوں جانڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوہی مینوں جانڑے


نوری وجود وہی ہے جس کی ہر نشانی میں جہاں پوشیدہ ہے اور جہاں کے اندر جہاں یعنی کائنات کے اندر کائنات کا نظام چلانے والی ہستی ''کامل کل '' ہستی ہے ۔ جب اس کی نشانی اس کی حمد و ثنا کرتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے کہ بندہ حق نے بندگی کا حق ادا کیا ۔ اپنی خوشی کا اظہار قدسیوں میں کرتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانی حقیقت کا حقیقت سے مل جانا ہی زندگی کا نصب العین ہے ۔ توحید کا حق اس طرح ادا ہوتا ہے کہ بندہ بس بندگی میں رہے اور پہچان بھی کرلے ۔وصال بھی فراق بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،یہ سب امتحان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔، اس کے پاس کمی نہیں ہے مگر یہ جہاں نور علی نور کی روشنی میں ہے ، وہ نور جو حضرت ابراہیم علیہ سلام سے حضرت موسی علیہ سلام سے حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم تک تمام اصحاب و الیاء اللہ تک پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سب ایک ہی حقیقت کا حصہ ہیں ۔ سب ہی اس کی توحید کی شمع اٹھائے دوسرے ہاتھ میں آخرت کی شمع کو روشن رکھتے ہیں ۔ اللہ جی ! کیوں نہ ایسے بندوں کو وصل کی دولت دے دو ۔ او مولا میرے مولا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہجر سے برا حال ہوگیا ہے ۔اب یار سے ملنے کو جی چاہتا ہے ۔ اب کہ دل بہت بے قرار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاک سینہ اور چاک گریبان کے ساتھ صحرا کے ریگستانوں سے ہوتا ہوا اب جنگل کی جانب کوچ کرنے کو یہ انسان ، اب تجھ سے تجھ کو مانگتا ہے ۔ مولا کردے نا کرم ! رکھ دے نا میرا بھرم ! مالک تو بہت پیارا ! ہر ستارہ تیرا استعارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وصل کی انتہا کیا ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب شعلہ جاوادن ، الوہی چمک لیے زیتون کے درخت میں شرقی و غربی سمت سے بے پروا ، نور الھدی کا آئینہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے ایسے آئینے گرزے کہ اب تو بس پہچان کرنے والے عارفین اور پیغام الہی پھیلانے والے نائبین نے آنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس بات پر کڑوڑوں درور آپﷺ کی ذات پر کہ بے شک جس نے نبی اکرمﷺ کی ذات کو پہچان لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے اللہ کو ایسے پہچانا جیسے دوست دوست کو پہچانتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ لاشریک ہے ، وہ یکتا ہے ، وہ خالق ہے ، وہ مالک ہے ، وہی ولی ہے ، وہی قہار ہے ، وہی جبار ہے ، وہی ستار ہے ، وہی علام الغیوب ہے ، وہی سب کچھ ہے ، ہر شے میں تجلی ہے کہ شجر کو انسان سے ملادو اور حجر کو انسانی دل سے ملادو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو پتھروں کی اقسام سمجھ آجائے گی کہ مالک فرماتا ہے کہ دل بھی پتھر کی طرح ہے جب تک اس میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسانی دل میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے تو وہ اللہ کو پہچانتا ہے کہ اس کو تشنگی ، کسی انہونی کمی کا احساس ہوتا ہے اور جب اس کمی کے ساتھ درد اکٹھا ہوتا ہے تو دل ٹوٹتا ہے ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دل نہریں لیے ہوتے ہیں تو کچھ چشمے تو کچھ پانی ۔۔۔۔۔۔۔اگر دل نہ ٹوٹے تو کیا ہوتا ہے کہ دل پتھر سے بھی سخت ہوجاتا ہے جس میں نور الہی کی تجلی کا پایا جانا کیسے ممکن ہو کہ روشنی چار سمت پھیلتی ہے ، کبھی مقید نہیں رہ سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روشنی چہار سو پھیلتی ہے جیسے سورج کی روشنی پھیلتی ہے اور اس کے پھیلتے ہی انسانی وجود ، نوری وجود میں ڈھل جاتا ہے ، اس کو رضا ، شکر کے درجے سے ہوتے محبوبیت کا درجہ مل جاتا ہے جس کو عرف عام میں ولائیت کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اپنے بندوں کو محبوب رکھتا ہے اور ان پر رحم و فضل کرتا ہے جبکہ کچھ بندوں کو اپنے قریب کرلیتا ہے اور ان کو اپنا جلوہ کراتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کو رحمت خاص میں لیتے اپنی رحمانیت کا مظاہرہ کرتے ، خلقت کا ان سے رشتہ جوڑ دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
بے شک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
وہی احد ہے۔۔۔،
وہی الصمد ہے۔۔۔،
وہ نور ہے۔۔۔،
وہ ظاہر میں ظہور ہے۔۔۔،
وہی باطن میں موجود ہے۔۔۔،
وہی عیاں میں پنہاں ہے۔۔۔،
وہی پنہاں میں عیاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
وہ خالق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
بلاشک ! وہ خالق ہے ۔۔۔۔۔۔،
اس کی مثال کوئی نہیں ہے کہ وہ مثال سے بالا ہے۔۔۔،
وہی میری ہادی ہے ، وہی میرا راشد ہے ۔۔۔۔۔۔،
اک نگاہِ کرم کا سوال ہے شاہا۔۔۔،
اک جھلک کی بات ہے شاہا ۔۔۔،
اک نظر نے کہاں سے کہاں پہنچایا۔۔۔۔،
ساقی کی محفل کا مئے خوار بنادیا۔۔۔۔،
مئے ملے گی ، پیمانے بھریں گے ، کام چلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔،
دل ملےگا ، نگاہ جھکے گی ، تو تار ہلیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔،
یا الہی ! تیری عطا کی عطا پر سلام۔۔۔۔،
یا الہی! تیرے محبوب کی محبت پر سلام۔۔۔،
یا الہی!آئنہ نور کی روشنی کو سلام۔۔۔!!
 
آخری تدوین:
Top