نور وجدان
لائبریرین
شدم چوں مبتلائے او، نہادم سر بہ پائے او ---------حصہ دوم
''تمام ارواح جن کی نسبت نور محمد صلی علیہ والہ وسلم سے ہے ان سب کے ذکر کو رب باری تعالیٰ نے بلند کیا ہے ... مہر رسالت نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم شمع اولیاء ہیں ... تمام پروانے ان سے ضو پاتے ہیں اور نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بدولت ان کا ذکر بھی بلند کر دیا جاتا ہے ......''
یہ باتیں برگد کے درخت کے گرد بیٹھا برگد نشیں اسے بتا رہا تھا اور سالارِ قافلہ اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا ....اچانک فضا میں اک صدا ابھری ....
''نعرہ مستانہ ......''
اس کے بعد برگد نشین نے تیسرا دائرہ کھینچا اور سالار سے کہا کہ اب اس دائرے میں قدم رکھو .. اور دونوں آلتی پالتی مارے بیٹھے گئے ....
" میں تو کافی عرصے سے راہ تک رہا تھا ، تم نے واپسی کو دیر لگا دی ...... سناؤ کیا ماجرا ہوا؟ برگد نشیں نے سالار سے پوچھا
" جب میں آپ کے ساتھ توحیدی میخانے میں داخل ہوا تب پہچان نہیں سکا کہ سردار ولایت کون ہیں مگر جب میں ساز کے لے پر رقص کرتا، لہولہان پاؤں لیے ان کے پاس پہنچا تو تب انہوں نے میری طرف توجہ کی اور میں نے جانا وہ سیدنا حضرت علی رضی تعالی ہیں ... ان سے بہت دور ایک اور شبیہ دیکھی ... یوں لگا وہاں کوئی اور محفل ہے، اس محفل کی سرکردگی جناب سیدنا رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
برگد نشیں اس کی بات بخوبی سن رہا تھا. ... بولا ...
''اب تمھارا سفر پھر سے شروع ہو رہا ہے. .. تم اب دربار رسالت میں پہنچے تو میرا سلام کہنا .... . .! میرا کام تمھیں ان تک پہنچانا تھا ..... باب العلم حیدر کرار سے ہوتے تمھیں جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ سے جس کے حوالے کیا جائے کہ عین قرین کہ تیری تربیت سیدنا امام حسین رض کریں. .......''
سالار بہت غور سے باتیں سن رہا تھا کہ برگد نشین نے اسے کہا کہ آنکھیں بند کرو. ....!
جب سالار نے آنکھیں بند کیں تو اسے خلقت کا ہجوم دکھا ..جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہی تھی. .سالار وہاں پہ موجود لوگوں کو غلاف چومتے دیکھتا ہے تو اس کی نظر نور کی شعاعوں پر پڑتی. .ایسا مست نظارہ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا. . اس منطر کو تحت الثریا تک اس کی بصارت نے اور اس برق رفتار روشنی کا سفر عرش بریں تک بصارت نے دیکھا. .....اس کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں ،تو برگد نشیں کے پوچھنے پر سارا احوال بتا دیا. ..
" اب آنکھیں بند کر و. .بتاؤ کیا دیکھا "
اب کی بار بہت سی کالے لباس میں خواتین جاتی نظر آئیں جن کے سر نظر آرہے تھے. . جنگل میں کہیں کہیں روشنی میں ملیح ہو جاتی ہے اور اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو دل چاہتا. .. جا بجا مقامات پر نوری روشنی نظر آنے لگی اور سالار کا دل اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو.مچلنے لگا. .....اس کے بعد منظر بدل گیا. ..اس کو اک مسجد نظر آئی جو کہ لگتا تھا کہ پہاڑوں کے بلندو و بالا سلسلے میں موجود ہے ...اس جگہ خاموشی بھی باتیں کر رہی تھی اور ہر ذی نفس کو مجذوب بنارہی تھی. .. اس میٹھی میٹھی خاموشی میں اسے بہت سے ستون نظر آئے جن کو ایک بلندو بالا چھت نے تھام رکھا تھا ۔۔۔ یہیں سے وہ ہال نما کمرے میں داخل ہو گیا.تو کیا دیکھتا ہے کہ سیدنا مجتبی حضور پرنور صلی علیہ والہ وسلم کی محفل ہے اور ان کے سینے سے نور نکل کے دور دور تک پھیل رہا ہے. تمام محفلین اسی روشنی میں جذب و سرر میں مدہوش سے دکھے ۔۔۔ سالار نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ برگد نشیں کے سینے سے بھی نور نکل رہا ہے. ....
برگد نشین اس کو دیکھ کو مسکرایا ۔۔۔ اس کی مسکراہٹ میں پرسراریت تھی اور لہجہ بھی اس کیفیت کو لیے ہوئے تھا ۔ وہ بول رہا تھا مگر یوں لگ رہا تھا کہ مظاہر بول رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
نیک اور سعید روحیں بوقت پیدایش ہی اصل قطبی مقناطیس سے براہ راست کشش رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جو سب کو سمت دیتا ہے مگر اس کی کوئی سمت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی روشنی چار سو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی روحیں شوق میں دنیا اور آخرت کو بھلا کے ، دوستی کے رتبے پر فائر ہوتی ہیں آپ صلی علیہ والہ وسلم.کے اصحاب روشن مثال.ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ ہے جس کو چاہے عزت دے دے اور جس کو چاہے ذلت دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ جو ، جو مٹی کو انسانی صورت دے کر اس کو اپنے نور سے اجال دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔وہی اللہ ہے۔۔ایسی تمام ارواح جو مرکز سے براہ راست کشش کے نظام پر استوار ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ واحد کی واحدانیت پر اپنے یقین و مشاہدات سے ایمان لاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کبھی چاند ، ستارے تو کبھی سورج کو اپنا خدا خیال کیا اور پھر مظاہر سے پہچان کرتے خالق سے جاملے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے عشق کو قربانی ء اسماعیل علیہ سلام سے اور آتش نمرود سے پرکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا حضرت خدیجہ رض ، سیدنا حضرت علی رض اور سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض ایسی ہستیاں ہیں جو اللہ پر ایسے ایمان لائے ، جیسے رسول خدا صلی علیہ والہ وسلم لائے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔''
'' میرا ساتھ تم سے زندگی بھر رہے گا مگر تمھارا سفر یقین پر استوار رہے گا ''
یہ کہتے ہی برگد نشین کا وجود برگد کے درخت میں سمانے لگا اور سالار کو اپنے قافلے کی گھنٹی سنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے جانے کا وقت ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹھا اور اپنے قافلے کی سالاری سنبھال لی ۔
''تمام ارواح جن کی نسبت نور محمد صلی علیہ والہ وسلم سے ہے ان سب کے ذکر کو رب باری تعالیٰ نے بلند کیا ہے ... مہر رسالت نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم شمع اولیاء ہیں ... تمام پروانے ان سے ضو پاتے ہیں اور نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بدولت ان کا ذکر بھی بلند کر دیا جاتا ہے ......''
یہ باتیں برگد کے درخت کے گرد بیٹھا برگد نشیں اسے بتا رہا تھا اور سالارِ قافلہ اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا ....اچانک فضا میں اک صدا ابھری ....
''نعرہ مستانہ ......''
اس کے بعد برگد نشین نے تیسرا دائرہ کھینچا اور سالار سے کہا کہ اب اس دائرے میں قدم رکھو .. اور دونوں آلتی پالتی مارے بیٹھے گئے ....
" میں تو کافی عرصے سے راہ تک رہا تھا ، تم نے واپسی کو دیر لگا دی ...... سناؤ کیا ماجرا ہوا؟ برگد نشیں نے سالار سے پوچھا
" جب میں آپ کے ساتھ توحیدی میخانے میں داخل ہوا تب پہچان نہیں سکا کہ سردار ولایت کون ہیں مگر جب میں ساز کے لے پر رقص کرتا، لہولہان پاؤں لیے ان کے پاس پہنچا تو تب انہوں نے میری طرف توجہ کی اور میں نے جانا وہ سیدنا حضرت علی رضی تعالی ہیں ... ان سے بہت دور ایک اور شبیہ دیکھی ... یوں لگا وہاں کوئی اور محفل ہے، اس محفل کی سرکردگی جناب سیدنا رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
برگد نشیں اس کی بات بخوبی سن رہا تھا. ... بولا ...
''اب تمھارا سفر پھر سے شروع ہو رہا ہے. .. تم اب دربار رسالت میں پہنچے تو میرا سلام کہنا .... . .! میرا کام تمھیں ان تک پہنچانا تھا ..... باب العلم حیدر کرار سے ہوتے تمھیں جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ سے جس کے حوالے کیا جائے کہ عین قرین کہ تیری تربیت سیدنا امام حسین رض کریں. .......''
سالار بہت غور سے باتیں سن رہا تھا کہ برگد نشین نے اسے کہا کہ آنکھیں بند کرو. ....!
جب سالار نے آنکھیں بند کیں تو اسے خلقت کا ہجوم دکھا ..جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہی تھی. .سالار وہاں پہ موجود لوگوں کو غلاف چومتے دیکھتا ہے تو اس کی نظر نور کی شعاعوں پر پڑتی. .ایسا مست نظارہ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا. . اس منطر کو تحت الثریا تک اس کی بصارت نے اور اس برق رفتار روشنی کا سفر عرش بریں تک بصارت نے دیکھا. .....اس کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں ،تو برگد نشیں کے پوچھنے پر سارا احوال بتا دیا. ..
" اب آنکھیں بند کر و. .بتاؤ کیا دیکھا "
اب کی بار بہت سی کالے لباس میں خواتین جاتی نظر آئیں جن کے سر نظر آرہے تھے. . جنگل میں کہیں کہیں روشنی میں ملیح ہو جاتی ہے اور اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو دل چاہتا. .. جا بجا مقامات پر نوری روشنی نظر آنے لگی اور سالار کا دل اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو.مچلنے لگا. .....اس کے بعد منظر بدل گیا. ..اس کو اک مسجد نظر آئی جو کہ لگتا تھا کہ پہاڑوں کے بلندو و بالا سلسلے میں موجود ہے ...اس جگہ خاموشی بھی باتیں کر رہی تھی اور ہر ذی نفس کو مجذوب بنارہی تھی. .. اس میٹھی میٹھی خاموشی میں اسے بہت سے ستون نظر آئے جن کو ایک بلندو بالا چھت نے تھام رکھا تھا ۔۔۔ یہیں سے وہ ہال نما کمرے میں داخل ہو گیا.تو کیا دیکھتا ہے کہ سیدنا مجتبی حضور پرنور صلی علیہ والہ وسلم کی محفل ہے اور ان کے سینے سے نور نکل کے دور دور تک پھیل رہا ہے. تمام محفلین اسی روشنی میں جذب و سرر میں مدہوش سے دکھے ۔۔۔ سالار نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ برگد نشیں کے سینے سے بھی نور نکل رہا ہے. ....
برگد نشین اس کو دیکھ کو مسکرایا ۔۔۔ اس کی مسکراہٹ میں پرسراریت تھی اور لہجہ بھی اس کیفیت کو لیے ہوئے تھا ۔ وہ بول رہا تھا مگر یوں لگ رہا تھا کہ مظاہر بول رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
نیک اور سعید روحیں بوقت پیدایش ہی اصل قطبی مقناطیس سے براہ راست کشش رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جو سب کو سمت دیتا ہے مگر اس کی کوئی سمت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی روشنی چار سو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی روحیں شوق میں دنیا اور آخرت کو بھلا کے ، دوستی کے رتبے پر فائر ہوتی ہیں آپ صلی علیہ والہ وسلم.کے اصحاب روشن مثال.ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ ہے جس کو چاہے عزت دے دے اور جس کو چاہے ذلت دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ جو ، جو مٹی کو انسانی صورت دے کر اس کو اپنے نور سے اجال دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔وہی اللہ ہے۔۔ایسی تمام ارواح جو مرکز سے براہ راست کشش کے نظام پر استوار ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ واحد کی واحدانیت پر اپنے یقین و مشاہدات سے ایمان لاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کبھی چاند ، ستارے تو کبھی سورج کو اپنا خدا خیال کیا اور پھر مظاہر سے پہچان کرتے خالق سے جاملے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے عشق کو قربانی ء اسماعیل علیہ سلام سے اور آتش نمرود سے پرکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا حضرت خدیجہ رض ، سیدنا حضرت علی رض اور سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض ایسی ہستیاں ہیں جو اللہ پر ایسے ایمان لائے ، جیسے رسول خدا صلی علیہ والہ وسلم لائے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔''
'' میرا ساتھ تم سے زندگی بھر رہے گا مگر تمھارا سفر یقین پر استوار رہے گا ''
یہ کہتے ہی برگد نشین کا وجود برگد کے درخت میں سمانے لگا اور سالار کو اپنے قافلے کی گھنٹی سنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے جانے کا وقت ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹھا اور اپنے قافلے کی سالاری سنبھال لی ۔
آخری تدوین: