سوچ کا سفر

نور وجدان

لائبریرین
شدم چوں مبتلائے او، نہادم سر بہ پائے او ---------حصہ دوم

''تمام ارواح جن کی نسبت نور محمد صلی علیہ والہ وسلم سے ہے ان سب کے ذکر کو رب باری تعالیٰ نے بلند کیا ہے ... مہر رسالت نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم شمع اولیاء ہیں ... تمام پروانے ان سے ضو پاتے ہیں اور نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بدولت ان کا ذکر بھی بلند کر دیا جاتا ہے ......''

یہ باتیں برگد کے درخت کے گرد بیٹھا برگد نشیں اسے بتا رہا تھا اور سالارِ قافلہ اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا ....اچانک فضا میں اک صدا ابھری ....

''نعرہ مستانہ ......''

اس کے بعد برگد نشین نے تیسرا دائرہ کھینچا اور سالار سے کہا کہ اب اس دائرے میں قدم رکھو .. اور دونوں آلتی پالتی مارے بیٹھے گئے ....

" میں تو کافی عرصے سے راہ تک رہا تھا ، تم نے واپسی کو دیر لگا دی ...... سناؤ کیا ماجرا ہوا؟ برگد نشیں نے سالار سے پوچھا

" جب میں آپ کے ساتھ توحیدی میخانے میں داخل ہوا تب پہچان نہیں سکا کہ سردار ولایت کون ہیں مگر جب میں ساز کے لے پر رقص کرتا، لہولہان پاؤں لیے ان کے پاس پہنچا تو تب انہوں نے میری طرف توجہ کی اور میں نے جانا وہ سیدنا حضرت علی رضی تعالی ہیں ... ان سے بہت دور ایک اور شبیہ دیکھی ... یوں لگا وہاں کوئی اور محفل ہے، اس محفل کی سرکردگی جناب سیدنا رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔''

برگد نشیں اس کی بات بخوبی سن رہا تھا. ... بولا ...

''اب تمھارا سفر پھر سے شروع ہو رہا ہے. .. تم اب دربار رسالت میں پہنچے تو میرا سلام کہنا .... . .! میرا کام تمھیں ان تک پہنچانا تھا ..... باب العلم حیدر کرار سے ہوتے تمھیں جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ سے جس کے حوالے کیا جائے کہ عین قرین کہ تیری تربیت سیدنا امام حسین رض کریں. .......''

سالار بہت غور سے باتیں سن رہا تھا کہ برگد نشین نے اسے کہا کہ آنکھیں بند کرو. ....!

جب سالار نے آنکھیں بند کیں تو اسے خلقت کا ہجوم دکھا ..جو خانہ کعبہ کے گرد طواف کر رہی تھی. .سالار وہاں پہ موجود لوگوں کو غلاف چومتے دیکھتا ہے تو اس کی نظر نور کی شعاعوں پر پڑتی. .ایسا مست نظارہ اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا. . اس منطر کو تحت الثریا تک اس کی بصارت نے اور اس برق رفتار روشنی کا سفر عرش بریں تک بصارت نے دیکھا. .....اس کے بعد اس نے آنکھیں کھول دیں ،تو برگد نشیں کے پوچھنے پر سارا احوال بتا دیا. ..

" اب آنکھیں بند کر و. .بتاؤ کیا دیکھا "

اب کی بار بہت سی کالے لباس میں خواتین جاتی نظر آئیں جن کے سر نظر آرہے تھے. . جنگل میں کہیں کہیں روشنی میں ملیح ہو جاتی ہے اور اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو دل چاہتا. .. جا بجا مقامات پر نوری روشنی نظر آنے لگی اور سالار کا دل اس ملیح روشنی میں جذب ہونے کو.مچلنے لگا. .....اس کے بعد منظر بدل گیا. ..اس کو اک مسجد نظر آئی جو کہ لگتا تھا کہ پہاڑوں کے بلندو و بالا سلسلے میں موجود ہے ...اس جگہ خاموشی بھی باتیں کر رہی تھی اور ہر ذی نفس کو مجذوب بنارہی تھی. .. اس میٹھی میٹھی خاموشی میں اسے بہت سے ستون نظر آئے جن کو ایک بلندو بالا چھت نے تھام رکھا تھا ۔۔۔ یہیں سے وہ ہال نما کمرے میں داخل ہو گیا.تو کیا دیکھتا ہے کہ سیدنا مجتبی حضور پرنور صلی علیہ والہ وسلم کی محفل ہے اور ان کے سینے سے نور نکل کے دور دور تک پھیل رہا ہے. تمام محفلین اسی روشنی میں جذب و سرر میں مدہوش سے دکھے ۔۔۔ سالار نے آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ برگد نشیں کے سینے سے بھی نور نکل رہا ہے. ....

برگد نشین اس کو دیکھ کو مسکرایا ۔۔۔ اس کی مسکراہٹ میں پرسراریت تھی اور لہجہ بھی اس کیفیت کو لیے ہوئے تھا ۔ وہ بول رہا تھا مگر یوں لگ رہا تھا کہ مظاہر بول رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔


نیک اور سعید روحیں بوقت پیدایش ہی اصل قطبی مقناطیس سے براہ راست کشش رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ جو سب کو سمت دیتا ہے مگر اس کی کوئی سمت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی روشنی چار سو ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی روحیں شوق میں دنیا اور آخرت کو بھلا کے ، دوستی کے رتبے پر فائر ہوتی ہیں آپ صلی علیہ والہ وسلم.کے اصحاب روشن مثال.ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ ہے جس کو چاہے عزت دے دے اور جس کو چاہے ذلت دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اللہ جو ، جو مٹی کو انسانی صورت دے کر اس کو اپنے نور سے اجال دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حق ۔۔۔۔۔۔۔۔وہی اللہ ہے۔۔ایسی تمام ارواح جو مرکز سے براہ راست کشش کے نظام پر استوار ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ واحد کی واحدانیت پر اپنے یقین و مشاہدات سے ایمان لاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کبھی چاند ، ستارے تو کبھی سورج کو اپنا خدا خیال کیا اور پھر مظاہر سے پہچان کرتے خالق سے جاملے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے عشق کو قربانی ء اسماعیل علیہ سلام سے اور آتش نمرود سے پرکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا حضرت خدیجہ رض ، سیدنا حضرت علی رض اور سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رض ایسی ہستیاں ہیں جو اللہ پر ایسے ایمان لائے ، جیسے رسول خدا صلی علیہ والہ وسلم لائے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔''

'' میرا ساتھ تم سے زندگی بھر رہے گا مگر تمھارا سفر یقین پر استوار رہے گا ''

یہ کہتے ہی برگد نشین کا وجود برگد کے درخت میں سمانے لگا اور سالار کو اپنے قافلے کی گھنٹی سنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے جانے کا وقت ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹھا اور اپنے قافلے کی سالاری سنبھال لی ۔​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اللہ تعالیٰ و سبحانہ کی رحمت

سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں ایسا خالق کہاں ملے گا جس کی ذات نے اپنے اوپر تخلیق کے لیے رحمت لازم کردی ۔ وہ واحد روشنی ہے جو تمام اندھیروں پر غالب ہے یعنی وہ واحد روشنی ہے جس نے تمام آنے والے نسلوں کو روشنی دی اور گزری مخلوقات نے اسی سے ہی روشنی پائی ۔۔۔۔ حال میں رہنے والی مخلوقات بھی اس سے روشنی پاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات اور دن کی مخلوقات ----------جاندار اور بے جان ۔۔۔۔۔۔۔۔تمام اس کے تابع ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی تو ہے جس نے کائنات کو ردھم مداروی گردش سے دیی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ذی نفس اس دائرے سے باہر نکل نہیں پایا اور کون نکل سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سورج ، چاند ، ستارے ، پہاڑ ، بادل اور زمین کو کنٹرول کرنے کی لیے نوری مخلوق بھی اس کے تابع ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افلاک کی گردش جو کائنات کی تعمیر سے تکوینی عمل کی محتاج ہوئی ، اس کی تخریب بھی اسی کے اشارے سے ہوئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو سب کو خوراک دیتا ہے ، سب کا رزاق ہے مگر خود اس کو خوراک کی ضرورت نہیں ہے ، سب کو نیند کی ضرورت ہے ، سب کو اونگھ دوپہر کے اوقات میں آتی ہے مگر اس کو اونگھ کی حاجت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مخلوق مکان کے قاعدے میں ہے تو لامکانی ہستی خالق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر جگہ ، ہر لحظہ جانداز مخلوق کا تنفس اور بے جان مخلوقات کی گردش ، احساس دلاتی ہے کہ وہی غالب حکمت والا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمام خزانے ، تمام علوم کی کنجیاں ، اسی کے پاس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ غالب اور مخلوق مغلوب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ خود مختار ، مخلوق محتاج ، اللہ معلم مخلوق طالب علم ، اللہ واحد ، مخلوق کثیر ، اللہ حاکم ، مخلوق محکوم ، اللہ بے نیاز ، مخلوق نیاز مند ---------------------------------------------- اللہ حاکم کی نشانیوں کی گواہی ہر شے دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارا دماغ جو ہمارے تمام نظاموں کو چلاتا ہے ، اس کو چلانے والا کون ہے ؟ سورج جو خوارک مہیا کرتا ہے مگر سورج کو چلانے ، روشنی دینے والا کون ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ہے ، وہ یکتا ہے ، وہ احد ، احد ،واحد ، لا محدود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا حکم چھوٹی سی چیونٹی سے لے کے پہاڑ و سورج تک چلتا ہے۔۔۔۔۔۔ دنیا کے اندر رہتے ہوئے اگر ہم اس کی نعمتیں جھٹلاتے جائیں گے تب آخرت میں ہم کیا پہچان پائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں صراط پر نہ چل سکے تو آخرت میں کس یقین پر صراط پر چلیں گے ۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں رہتے ہوئے کھانے ، اوڑھنے اور نسل بڑھانے کے علاوہ ہمارے کون سے مقاصد ہیں اگر ان کو پہچان نہیں پائیں گے تو آخرت میں ہم کیسے پہچان پائیں گے اور مالک کل کا دیدار کیسے کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بندگی میں نماز خشوع خضوع سے خالی رہے گی ، اس کی یاد میں نماز میں دل نہیں لگے تو اس کے پاس اکٹھے ہوں گے تو کیسے نماز عشق ادا کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو تو حاجت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو ہمیں دیکھتا ہے کہ ہم اس کی پہچان کرتے ہیں یا دنیا میں کھو جاتے ہیں ، اس کو ڈھونڈنے میں مگن رہتے ہیں یا عیال داری میں زندگی گزار دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے کلام سے اس سے ربط بڑھاتے ہیں یا ہم اس کی آیات سے اپنی من پسند تاویلیں لاتے ہیں تاکہ زندگی کو آسان کرسکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اللہ سے کہاں محبت کی ہے جس نے ہمارے لیے اپنی رحمت کو لازم کردیا مگر ہماری تو صلاحیت اتنی بھی نہیں ہے کہ ہم اس کی رحمت کو پہچان سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات پر دکھ ، بے حد دکھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افسوس------------ بے حد افسوس ہے کہ ہم نے اپنے مالک کو بھلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ہم پر احسان کیا مگر ہم نے یاد نہ رکھا ، اس نے ہمیں اپنا جلوہ دیا مگر ہم نے کبھی خود میں جھانک کر نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ہمیں عزت دی ہم نے تکبر کیا ، اس نے ہمیں دولت دی ہم نے ظلم کیا ، اس نے ہمیں وسائل دیے اور ہم نے اس کی وحدانیت کو جھٹلا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون خسارے میں ہے ؟ ہم خسارے میں ہیں یا اس کو ہماری بے نیازی سے کوئی نقصان پہنچتا ہے ؟ یقیناً وہ بے نیاز ، ہر حجت سے پاک ہے مگر ہم اس کو بھلا کے کس رحمت کے طلب گار بنتے ہیں۔​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
اللہ جل شانہ نور عظیم ہے اور اس کے پاس تمام علوم کی کنجیاں ہیں . جوں جوں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے قریب ہوتے جاتے ہیں ، علم کی دولت سے مالا مال کر دیے جاتے ہیں . اس علم کی نعمتِ عظیم کی بدولت مالکِ ُکل کو حجابِ اکبر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے . وہی ذات کبھی صحائف تو کبھی الہامی کتب سے بندوں سے ربط رکھتی ہے . اس کا کلام ہر زمانے کے لیے روشنی ہے ۔اسی کے انبیاء کرام اس کے ستارے ہیں جن کی روشنی نے تمام مخلوقات مستفید ہوتی ہیں . ہر روشنی خالق کل کے گرد متوفی ہے اور اس کے گرد ایک خاص ردھم میں حرکت کرتی ہے . اللہ تعالیٰ سے روشنی پاتے ہی ان ستاروں کو قطب بنا دیا جاتا ہے جو بنی نوع انسانی کی نسلوں کو سمت دیتے ہیں اور اپنی روشنی رکھتے ہوئے زمانے میں روشنی کی تقسیم کرتے ہیں ........... ہر نبی و رسول کے آنے سے پہلے زمانے میں اندھیرا تھا ، ہر نیک روح خود میں اجالا رکھتی ہے ،زمانے کے اندھیرے جو وقت کی تقسیم پر محیط ہیں ان کو کو ختم کرتی ہے یعنی کہ ہر نبی کا اپنا زمانہ ہے اور خالق نے اس زمانے کی قسم سورہ العصر میں کھائی ہے کہ زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے .....

انسان خسارے میں کیوں ہے ؟ انسانی عمر چالیس کے ہندسے کو عبور کرتے ، شعور و لا شعور کی یکساں منازل طے کرتے ہوئے تدبر و تفکر کی دنیا میں داخل ہوتی ہے اور جب وہ گھتیاں سلجھانے کی قابل ہوتی ہے یعنی اللہ کی پہچان کر سکتی ہے ........... اللہ کی پہچان کرنے والے عارفین ہوتے ہیں ....... اس عمر میں اللہ کا جلوہ انسانی ذہن پھر سے یاد کرنے کی کوشش کرتا ہے یعنی روز الست == ''قالو بلی'' کا عہد پھر سے یاد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ........ انہی گھمن پھیریوں میں وہ زمانے کو پرکھتے و دیکھتے اور غور کرتے ہوئے خود کوپرکھتا ہے اور اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے ....... انسانی عمر کی اس ''عصر کی قسم'' .......... اللہ کریم نے کھائی ہے !........ یا انسانی عمر کی اس اوسط کی قسم جو زمانوں پر محیط ہے یعنی تمام انبیاء پر سردار الانبیاء کی ہدایت و پیغام کو ماننا لازم کردیا گیا کہ وہی ہے جو تمام زمانے پر محیط ادیان کی تکمیل کے لیے چنے گئے ........... اس گرزے زمانے --- اور آنے والے زمانے کے درمیاں کے زمانے کی قسم'' خالقِ ُکل ''نے کھائی ہے کہ قسم ہے زمانے کی کہ انسان خسارے میں ہے ............ انسان کے خسارے کی قسم ......'' اللہ جل شانہ'' نے اپنی ذات کی قسم کھاتے پورا کی کہ جب ''سورہ الانعام'' کی پہلی آیت میں ہمیں بتاتا ہے کہ وہی ''واحد ''روشنی ہے جو ''تمام اندھیروں'' کو روشنی میں بدلتی ہے ........ وہی ذات خاص ہے جس نے اپنے اوپر ''رحمت'' کو لازم کر دیا یعنی کہ اس نے تمام انبیاء اکرام کو مختلف زمانے کے لیے شمع ہدایت و رحمت بنایا اور سیدنا رحمت َ دو عالم کو تمام زمانوں اور تمام انبیاء کرام پر رحمت بنا کے بھیجا اور اللہ جناب محمدﷺ کی ہستی کے لیے ''رحمان'' بنتے اپنی رحمت عام زمانے پر اور اللہ کی ''رحمتِ خاص'' انبیاء کرام پر کرتے اور'' خاص الخاص'' سیدنا محمدﷺ کی ذات پر کردی ..

خسارے میں کون سے لوگ ہیں؟ وہ جو'' اسفل سافلین'' ہیں اور انعام کن پر ہے؟ وہ جو اللہ کی پہچان کر گئے اور پہچان کے بعد دنیا کی حقیقت جان لینے کے بعد'' عبدیت'' کو اپناتے ''مدوامت عمل'' کرتے رہے .... اس کا ذکر ''صبر'' سے کرتے رہے اور مستقل مزاج رہے .. اس کی راہ میں تکالیف کے سامنے ''سیسہ پلائی ہوئی'' دیوار ہوگئے ..ہر'' صابر مومن'' کو اس کے'' یقین ''کے مساوی ''نوری مخلوقات'' عطا کی جاتی ہے اس لیے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کے کچھ اصحاب ''سو لوگوں'' کی ''جماعت'' پر تو کچھ ''ہزار کی جماعت ''پر غالب آجاتے تھے. ..سبحان اللہ! یہ دو باتیں ہمارے خسارے اور نفع کا بتارہی ہیں یعنی پہچان کی.بنیاد " علم " ہے " علم " حجاب اکبر " ہے ... ''عارف '' ہی علم رکھتا ہے اس لیے مستقل مزاج رہتا ہے. ..ایسے لوگ جو ''مشہود ''پر'' شاہد'' ہوجاتے ہیں وہ صالحین، انبیاء کرام، صدیقین اور ولی اللہ کہلائے جاتے ہیں. جہاد ا''کبر و اصغر'' کرتے ''شہادت'' کی ''متمنی روحیں'' اس کے ''دیدار ''کی شاہد ہو جاتی ہے اور اس کو وصل کو ہر دم مشتاق رہتی ہیں.... اللہ.تعالیٰ شہید کو نہ دنیا میں نہ آخرت میں بے آبرو کرے گا. ..ایسے لوگ ہی نفع میں ہیں.

خسارے میں کون سے لوگ نہیں ہیں ......... وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے یقین کیا یعنی کہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرلیا ...... یعنی اصل حقیقت کی جانب رجوع کرلیا ...... وہی خالق ہے جس نے اپنی پہچان کے لیے کائنات بنائی ہے ......جو لوگ اللہ تعالیٰ کی پہچان کر گئے وہ جان گئے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے ....انسان مسافر کیوں ہے ...... اللہ تعالیٰ کی کائنات بنانے کی وجہ ء تخلیق کیا ہے ......... ایسے لوگ مداومت عمل سے یقین کی قوت کو بڑھاتے رہتے ہیں .....سیدنا امام حسین کی مستقل مزاجی اور صبر کا نظارہ میدانِ کربل میں دیکھئے کہ سر سجدے میں کٹ گیا ، ظالموں نے بدن کو لہولہان کر دیا مگر اس کی بارگاہ میں سجدہ نہیں چھوڑا کیونکہ یہ سر تو اس کی بارگاہ میں جھکنے کے لیے پیدا ہوا ہے تو دنیا کے آلام چاہے جتنے بھاری کیوں نہ ہوں ، اللہ جل شانہ کو ایسی ہستیاں کہاں چھوڑ سکتی ہیں کیونکہ ان کی ارواح خسارے سے بالکل پرے ہوتی ہے .....بالکل ایسے ہے جیسے ''طائف کے بازار'' میں سیدنا محمدﷺ نے پتھر کھائے مگر رحمت دو عالم کی رحمت بد دعا کے لیے ہاتھ نہ اٹھا سکی بلکہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھے ۔۔ دشمنان اسلام کے لیے'' رحمت'' بنے رہے ..........آپﷺ کی مداومت عمل اور مستقل مزاجی ہمارے لیے روشن نمونہ ہے ......یقینا جب ایسی جید ہستیاں یقین کی قوت سے آگ کو ٹھنڈا کرسکتی ہیں۔ زندگ خاردار راہ کی مانند ہےجس میں ملنے والی ہر مصیبت پر صبر سے کام لینا کامیابی کی عین دلیل ہے​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
تخلیق وجہِ بشر

وہ جو روح کی اساس ہے
اسی سے بجھتی پیاس ہے
لا الہ سے بنائی گئی ہے کائنات
الا اللہ سے سجائی گئی کائنات
محمد رسول اللہ سے جلا پائی کائنات

انسان سوچتا ہے کہ کائنات کا جھمیلا ، رولا کیا ہے ؟ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ وہ اوپر مسند پر بیٹھا ہے اس کو کیا ضرورت ہے انسان کی ؟ ملائک کی اس کی رکوع ، سجود ، قیام کی مختلف حالتوں میں عبدیت کا حق ادا کر رہے ہیں ۔ انسان کیوں خلیفہ بنایا گیا جبکہ تحقیق کا مادہ تو جنات کے پاس بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مادہِ تحقیق و شک --- جس کی بنا پر ابلیس نے تکبر کیا اور بارگاہ ایزدی میں ملعون و محجور ہوا ۔۔۔ آدم علیہ سلام کو خلافت دی گئی اور تمام مخلوقات میں نیابت کی تلوار تمھا دی گئی ۔۔۔۔۔ابلیس جس نے ہزار ہا سال رکوع میں تو ہزار ہا سال سجدے میں ، ہزار ہا سال قیام کی حالت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا تو کیا وجہ تھی وہ آدم علیہ سلام کو دیکھ کے متکبر ہوگیا کہ وہ عبادت میں آگے ہے ۔ آدم علیہ سلام کو سب ملائک نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔۔۔ سوچ ، خیال ، وہم ، شک کا مادہ تو ابلیس کو دیا گیا مگر وہ اپنے رب کو پہچان نہیں سکا ۔۔۔اگر وہ عارف ہوتا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ انکار کیسے کرتا ؟ سالہا سال کی عبادت نے خالق کی پہچان نہ کرائی اور آدم علیہ سلام تخلیق کے وقت بھی عارف تھے ۔۔۔۔۔۔۔ جب حضرت آدم علیہ سلام نے ممنوعہ شجر کو چکھا تو غلطی کا ادراک بھی ہوگیا ۔۔۔۔ ان کی غلطی میں تکبر میں نہیں تھا اس لیے توبہ کی گنجائش رکھ دی گئی اور توبہ بارگاہ خداوندی میں مقبول بھی ہوگئی جبکہ ابلیس کو ہمیشہ کے لیے جہنم واصل کردیا گیا ۔۔تکبر اتنا بڑا جرم ہے کہ یہ شرک تک لے جاتا ہے ۔ ابلیس نے یہی غلطی کی کہ اس نے سمجھا کہ اس کی عبادت سے اس کو بھی خدائی مل گئی ہے جبکہ وہ تو بہت چھوٹا ثابت ہوا ۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل نے سب گناہوں کا کفارہ رکھا ہے مگر شرک کا نہیں رکھا اور نہ ہی اس کی کوئی معافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔


انسان کے اندر شک و یقین دونوں کے مادے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ شک کا مادہ انسان کے اندر رکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ یہی انسان کو بے سمت خلا کا مسافر بنا دیتا ہے اور جب یقین کو مستحکم کرتا ہے تو یہی انسان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پہچان کرا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔ کائنات کا سیاپا انسان کے لیے سجایا گیا ۔۔۔۔۔۔اللہ کی تلاش کے لیے ادھر ادھر بھاگنے سے نہیں بلکہ خود کی ذات میں محو رہنے سے ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ ذات خدا باری تعالیٰ کا جلوہ ، خود میں معجزن ہے ۔۔۔ اس کے لیے کسی در سے بھیگ مانگنے کی ضرورت نہیں کہ جب آپ کے اندر سوال اٹھنے شروع ہوجائیں تو سمجھ لیجئے کہ علم کی جانب سفر کا آغاز کرلیا ہے ۔ جب سوالات کے جواب ملنا شروع ہوجائیں تو جان لیجیے کہ معرفت کے راستے پر قدم رکھ لیا ہے ۔۔ اپنے اندر کے سوالات پر غور کرنے سے انسان نئی دنیا تلاش لیتا ہے ۔۔۔جبکہ اپنی ذات میں موجود سوالات کے چراغ بجھانے سے نور الہی کی جانب کے سبھی راستے تاریک ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہائے ! انسان اس دنیا میں دنیا کو فتح کرلے تو کیا حاصل کہ سکندر دو گز زمین کا ٹکرا ہی بوقت موت لے پایا جبکہ علم ذات سے نفع حاصل کرنے کے بعد قلندر دنیا کو پاؤں کے نیچے رکھتا ہے ۔۔۔۔۔قلندر کے دل کی دنیا کی اتنی وسیع و روشن ہوتی کہ دنیا سے رخصت کے وقت اس کے پاس وسعتوں کا جہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔بلاشک ! انسان اس دنیا سے کچھ نہیں لے کے جائے گا مگر اپنی ذات کے علاوہ !

کائنات کا سیاپا انسان کی پہچان سے شروع ہوا ۔۔۔۔۔جوں جوں احساس کی مٹی سے محبت کے سوتے خالق کل کی جانب رواں دواں ہونے لگتے ہیں تو اس رولے و سیاپے کی سمجھ آنا شروع ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔اندر بڑا نور ہے ! اندر بڑا جلوہ ہے ! اندر رہنمائی ہے ! اندر کبریائی ہے ! کائنات کی ابتدا و انتہا کے سبھی سوالات کا جواب ''اندر'' سے ملتا ہے ! بندے باہر کی دنیا بناتے ہیں ۔ بنگلے ، گاڑی ، نوکر چاکر اور تعیشات زندگی حاصل کرنے کے لیے عمر گنوا دیتے ہیں ، نور خدا کو بجھادیتے ہیں ! حاصل ذات ! ان کے پاس دم رخصت جاتے وقت اس جہاں سے کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حسرت بھری نگاہ سے پیاروں کو دیکھتے ہیں کہ یہی پیارے ان سے منہ موڑے بیٹھے ہیں کہ جن کے لیے زندگی میں رشوت لی ، چوری کی ، برے کام کیے ! آج وہی بھول گئے ! خالق کے لیے کیا کیا ؟ اپنے لیے کیا کیا ؟ کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر بسی کائنات کی مسند پر ''نور الھدی'' جلوہ گر ہے جب انسانی ذات اپنے سارے وہم و شکوک ختم کرکے اللہ کی جانب رجوع کرلیتی ہے تو جان لیتی ہے کہ حقیقت اصلی و بشری کیا ہے ؟ انسانی نیابت و خلافت کا احساس -------وہ احساس جو سید البشر بوقت تخلیق لے کے پیدا ہوئے تھے کہ ان کی روح اللہ کی قربت میں تھی ---- انسانی روح جوں جوں اللہ کے قریب جاتی ہے تو اس کو ''قالو بلی '' کا عہد تازہ ہوجاتا ہے ۔۔۔وہ عہد جو اللہ سبحانہ نے تمام ارواح سے لیا تھا ! اللہ چھپا ہوا خزانہ ہے ! جب ایک پہچان کا در وا ہوتا ہے تو شیطان ''سو وہم'' انسان دل میں جگا دیتا ہے اور جب بشر ان اوہام کو مارتے اللہ کی جانب دوسری پہچان کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو شیطان ہزار قسم کے وساوس اس کے دل میں بھر دیتا ہے !
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین



تخلیق آدم میں چھپی حکمت تو ہر ذی نفس جانتا ہے ۔ ہر روح خالق دو جہاں کا آئنہ ہے اور نور العلی نور کے ہوتے انسان شیطان کی جانب کیسے راغب ہوسکتا ہے ! نور حقیقی تک رسائی انسانی نفس کو ملنے والے یقین سے ہوتی ہے۔ عقل اس سفر میں زادہِ رہ ہے ۔ انسان اس دنیا میں مسافر ہے ۔ مسافر کا کام عقل کو استعمال کرتے نور الھدی تک رسائی ہے ۔ چونکہ شیطان بآسانی ان لوگوں کو جھٹلانے میں کامیاب ہوجاتا ہے جو عقل کو اپنے اوپر حکمران کرلیتے ہیں اور عقل کو علمِ کُل سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسانی اصلاح کے لیے اللہ-----'' ھو الصمد'' نے پیدائشی عارفین پیدا کیے بالکل اسی طرح جیسےسیدنا ابو البشر کو معرفت کو نور حاصل ہوا ۔ آپ کو اللہ کی جانب صحائف عطا کیے گئے تاکہ کلام الہی سے لوگوں کی اصلاح کریں اور ان کو شیطانی چُنگل سے نکالتے راہِ راست تک لائیں ! ایسی تمام ارواح اللہ ------ ھو الصمد ، ھو احد '' کی جانب کشش رکھتے اپنی اصلاح کرتے باقی دنیا کی اصلاح کرتی ہیں -------- انبیاء کرام ، صالحین ، شاہدین اسی "نور کی تخلیق " سے تخلیق ہیں جس سے سیدنا آدم علیہ سلام سے سیدنا حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم کو خلق کیا گیا ۔۔۔۔۔۔ انبیاء کرام کے بعد ایسی تمام ارواح کو ایک خاص نوعیت کا علم عطا کیا گیا۔۔۔۔۔۔یہی علم ہے جس کی وجہ سے انسانی روح کو افضلیت کا درجہ حاصل ہے ، اسی علم کی وجہ سے روح عبدیت کا درجہ حاصل کرتی ''اس'' ذات کی محبوب ترین ارواح میں شامل ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حق کی بات زمانے سے کر
حق کے ساتھ ذکر تو کر،
حق کی محبت کو دیکھ لے ،
حق کی محبت کو بانٹ دے ،
حق کی صحبت کو پا لے ،
حق کی بات کو پھیلا دے ،
حق کے ساتھ مل کے ولی ہو جا،
ولی سے نور کامل تو ہوجا،
پہچان میں تفریق کا فرق کھوجا ،
واحد کی گواہی سے'' لاشریک'' بول ،
واحد کی گواہی سے ''ھو احد'' بول،
واحد کے کلمے سے'' الا الا اللہ ''بول ،
واحد کے کلمے سے ''ھو العلیم، ھو الحکیم'' کر
واحد کے کلمے کی ورد میں کھو جا ،
واحد کی وحدانیت میں کھو جا ،
واحد سے احد کا سفر کرلے ،
اس کی ملک میں حکومت کرلے ،
اس کی ولایت کی قسم !
نور سے نور کی تفریق نہ کر !

زمانے کو پہچان کی ضرورت ہے ! زمانہ تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ اٹھ نور ! تاریکی کے پردے ہٹا دے ! یار کو یار سے ملا دے ! آنکھ سے آنکھ کو ملا دے ! سب ذکر بھلا کے میری فکر میں کھو جا ! اٹھ نور ! اٹھ ! اب تیری بات کا وقت آگیا ہے ! یار سے مل لے ! آجا ! میرے پاس ! دیکھ میں تجھے کتنا محبوب رکھتا ہوں ! تو میرے شوق کا آئنہ ہے ! میں تجھے دیکھتا ہوں تو گویا خود کو دیکھتا ہوں ! مت سوچ ! کیوں گمان میں ذات ڈالتی ہے ! یقین کے پل صراط پر چل کے مجھ سے دولت وصال لے جا ! میری ہو جا! تیری راہ کو میں تکتا ہوں ! آجا میری بندی ! اس عطا پر حیران مت ہو! میں نے اس کو لوح و قلم پر لکھ دیا تھا ! بھلا کوئی میری تقدیر کے دائرے سے نکل پایا ہے ؟ بھلا کوئی ۔۔۔۔؟ بس کچھ سر پھرے ، جو اپنی ذات منوانے چلتے ہیں ، زمانے کی چوٹ کھاتے میری طرف لوٹ آتے ہیں ! آجا بندیے !

صبحِ نورِ کی روشنی میں جل رہی ہے محبت
صبح نور کی تابندگی سے مل رہی ہے محبت
زمانے کو اسی نور مل رہی ہے حلاوت
زمانے کو اسی نور سے ملی ہے روحانت
وصال یار سے ملی سکون کی دولت
جمالِ نور کے دم سے پائی ہے عزت


مخلوق ''مجسم اوہام '' بن کے راستہ کاٹے تو میرا نام تجھے کافی ہے ! مخلوق میری ہے مگر شیطان میرا نہیں ، ذکر میرا ہے اس کا واسطہ وہم کی سرزمین سے نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں یقین ہوں اور ہر یقین والے بندے کو معرفت کی دولت عطا کردیتا ہوں ، کوئی میری پہچان فارس کی سرزمین سے کرتا ہے تو کوئی'' بو ذر'' بن کے اس دولت کو پالیتا ہے ۔ کبھی "بصری "کی سرزمین پر "رابعہ "کی صورت مخلوق کو اپنا پتا دیتا ہوں تو کبھی "قرن "کی سر زمین پر میرے شوق کا نغمہ پھوٹٹا ہے ، تو کبھی "حسین رض "میری غیرت پر جان کی شہادت دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ان تمام روحوں سے نسبت میں رکھتا ہوں !ان کو عطا کرتے ہوئے میں ان کو احسان یاد دلاتا ہوں کہ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ! کیا احسان کے سوا کچھ ہے ؟ سنو! اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ کس کس احسان پر شکر ادا کرو گے ؟ ایک ہی دفعہ میری ہوتے فرق مٹا دے !

سبھی فرق ہم نے شوق میں مٹادیے
دیار عشق میں پہچان کے فرق مٹا دیے
رہ مسافت میں غبار آلود ہستی نے
زمانے کو میری یاد کے سبق لا دیے ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
انسانی فکر کی شمع جب بلندی کی جانب پرواز کرتی ہے تب اسے اپنی ذات کا آئنہ دکھنا شُروع ہوجاتا ہے ۔کبھی حسن مجسم بنتے ذات کا ساجد بن جاتا ہے تو کبھی من سے '' اللہ ھو '' کے ذکر کے سرمدی نغمے پھوٹنے شروع ہوجاتے ہیں ۔ عالمِ ذات میں اس کا وجود منقسم ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ ایک سے دو اور دو سے چار کرتے متعدد ذاتیں نکلنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ عاشق مرکز میں بیٹھا رہتا ہے اور اس کے منقسم متعدد آئنے ' اللہ ھو '' کے ضرب سے ضُو پاتے جاتے ہیں ، جیسے جیسے شمع کی توجہ ان کی جانب ہوتی جاتی ہے تو وہ اٹھ کھڑے قلندی دھمال میں رقص کرنا شروع ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ذات کے کچھ پنچھی آسمان کی جانب پرواز ہوجاتے ہیں تو کچھ زمانوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں تو کچھ '' عالم ھو '' میں مست رہتے ہیں تو کچھ انوار و تجلیاں سمیٹنے کے لیے رواں دواں ہوتے تاکہ حاجی کہلا سکیں ! ایک ذات کے اتنے آئنے وجود میں تب آتے ہیں جب عاشق اس کی ذات میں مست ہوجاتا ہے ، اس کا نظارہ --- اس کا جلوہ مستی و سرور پیدا کرتا ہے اور تقسیم ذات ہستی کی طرف لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔

تخلیق کی وجہ تب سمجھ میں آنے لگتے ہیں کہ رب نے اتنے لاتعداد آئنے بنائے ہیں جو زمانوں و مکان کے دائروں پر محیط ہیں ---- کچھ انبیاء کرام ہیں تو کچھ رسول ہیں تو کچھ ولیاء اللہ ہیں ۔۔۔۔۔۔خالق نے اپنی پہچان کو محمد صلی علیہ والہ وسلم کا نور بنایا ۔۔۔۔تمام ارواح خالق کے شوق کے آئنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جہاں ، مٹی ، پہاڑ ، سبزہ ، درخت کی وجہ تخلیق کی سمجھ آنے لگتی ہے ۔۔۔ارض و سماء کو نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کے لیے سجایا گیا ۔ زمانوں ، نبیوں کا نظام آپ کی ہستی کی خاطر بنایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔''نور'' ان مشاہدات میں بھی ہے اور ''نور ''خلیفہ الارض میں بھی ہے ، مشرف ذات انسان کی ہوئی کہ اس کو ''علم اور سوچ ''عطا کی جس کی وجہ سے فرق کرسکے کہ وہ کون ہے ؟ اس کی وجہِ تخلیق کیا ہے ؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے شوق اور محبت کے عالم میں انسان کی تخلیق فرمائی ۔۔۔۔۔ انسان خود کو پہچان سکے گا تو رب کو پہچانے گا ۔۔۔

تخلیق آدم کی وجہ کیا ہے ؟ جب آدم علیہ سلام کو تخلیق کیا گیا تو سبھی ارواح کا اس وقت ظہور فرمادیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ انسان کی تخلیق ذات خدا وندی کی شوق کی خاطر ہوئی ۔۔۔۔۔۔ انسان اپنی پہچان کیسے کرے ؟ وہ کیسے جانے کہ رب کون ہے ؟ جب تک انسان کے اندر سوال پیدا نہیں ہوگا تب تک اس کے جاننے کی سعی بے کار جائے گی ۔ علم جو بنا سوال و احتیاج کے حاصل کیا گیا اس سے کوئی کامل فائدہ نہیں پہنچے گا ۔۔۔۔ سوچ کا سفر جب تک سوال سے شروع نہیں ہوتا تب تک پہچان کا راستہ ملتا نہیں ہے اور اس کی سمت کا تعین ہو نہیں پاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔سوال کرنے کے بعد اس پر غور و فکر کر تے، اس تفکر سے سبھی جوابات وجدان کی صورت دل میں اترنے لگتے ہیں ۔۔۔۔۔ کائنات کی تسخیر علم کے ذریعے ممکن ہے اور ذات کی تسخیر بنا کسی بھی شے کو مسخر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ذات کی تسخیر سوال سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔وجدان کی صورت جو علم دل میں اترتا ہے وہ اتنا قوی ہوتا ہے کہ دنیا کا سارا علم اس علم کے آگے ہیچ ہے ۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
خالص روحیں

ٌدنیا میں سب سے اچھا جذبہ محبت کا ہے ، آسمان سے عطا تحفہِ محبت اوجِ بقا کی رفعتوں تک پہنچا دیتا ہے .عشق الہی عطا ہے اور اس آگ میں کودنے کو حوصلہ ہر روح نہیں رکھتی ہے . رب باری تعالیٰ نے ارواح کا ''امر'' کرتے ان سے عہد لیا اور پوچھا ' کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ تب سب نے یک سکت ہو کے کہا '' قالو بلی ''. خالق سے بوقت عہد سبھی ارواح نے خالق کو رب مانا ہے . جب روح کو مادی لباس دیا گیا تو اس نے اس لباس میں بےچینی محسوس کی . کسی نے بےچینی دور کرنے کے لیے دنیاوی تعیشات کا سہارا لیا تو کسی نے اس بے چینی کو حسن کی سنگت غم غلط کرنا چاہا تو کسی نے بنا کسی ملمع ، رنگ کے براہ راست خالق سے رجوع کرلیا .یہ وہ ارواح ہیں جو مادی لباس میں خدا کی تسبیح کرتے دنیا میں تشریف لائیں اور بنا کسی کھوٹ کا شکار ہوئے اسکی یاد میں زندگی گُزار دی .... جو روحیں خالق کے زیادہ قریب ہوتی ہیں ، وہی اس کو براہ راست محسوس کرتی ہیں اور اس پر یقین کرتی ہیں . ایسی ارواح اپنی اضطرابی کو دور نہیں کرپاتی ہیں اور زمانہ ان کے درد کو سنتا ہے اور سر دھنتا رہتا ہے .یہی ارواح اس کی حمد میں مصروف رہتی ہیں ...ہجر ت کا غم ، وصال سے دور کیا جاسکتا ہے اور ان کی زندگی وصال کی لذت حاصل کرنے میں الجھ ہوجاتی ہے

کائنات کی ہر شے ادھوری ہے ، یعنی ہر شے خام ہے . کوئی ذات خود میں کامل نہیں سوا اللہ کے . درخت ، سورج ، مٹی ، پانی ، ہوا کے دم سے زندہ ہیں جبکہ جانور ان درختوں کے بل ہوتے پر..... بادل ، پانی اور ہوا پر منحصر تو تمام اجسام سورج پر انحصار کرتے ہیں ...... دنیا میں اپنی پہچان اپنی ضد سے ہوتی ہے . زمین کی پہچان آسمان سے ہوتی ہے جبکہ پانی کی پہچان ہوا ، مٹی سے ہے . روشنی کی ضد اندھیرا ، عورت کی مرد ، زندہ کی مردوں ہے . انسان اپنی پہچان خالق سے کرتا ہے

وہ لا محدود ہے ، انسان محدود
وہ بے نیاز ہے ، انسان نیاز مند ،
وہ نیند سے ماورا، انسان نیند کا محتاج
وہ کھانا کھلاتا ہے ، انسان کھاتا ہے
وہ تقدیر کا مالک ، تدبیر تقدیر کی محتاج
وہ خالق ہے ، انسان مخلوق
وہ روشنی ہے ، انسان روشنی کی حاجت رکھتا ہے
وہ عطا کرتا ہے ، انسان لیتا ہے
وہ کُل ، انسان جزو
وہ مالک ، انسان غلام ........

انسان مظاہر سے درک لیتے خالق کی ذات کا درک پالیتا ہے ، اسی اضداد کے علم سے خالق کو جان لیتا ہے ....اس کی پہچان ، اس کو اکیلا ماننے میں ہیں ......انسان جزو ہے اور اس پر انحصار کرتا ہے .
جزو کی تکمیل کل سے ہوتی ہے ...کل کو کسی کی احتیاج نہیں ہے. کائنات کی ابتدا خیال سے ہوئی ہے اور دنیا میں سب کچھ ''خیال '' ہے . روح بھی ''خیال'' ہے ....خیال کو اپنے وجود کو ثابت کرنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ''اصل'' کو کسی کی ضرورت نہیں ہے.سورہ الاخلاص میں ارشاد باری تعالیٰ ہے

قل ھو اللہ احد
اللہ الصمد
لم یلد ولم یو لد
لم یکن اللہ کفو احد

اللہ اکیلا ہے ، بے نیاز ہے ، وہ نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا ،کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے .........

اللہ اکیلا ہے ، بے نیاز ہے .....انسان اکیلا نہیں ہے ، اس کو اپنی پہچان ''اصل '' سے کرنی ہے . انسان بے نیاز نہیں ، وہ ہر وقت کائنات کے معمار کا محتاج ہے ... انسان اس کی ''کن '' پر امر ہوا ہے ... جب تک تکمیلِ ذات نہیں ہوپائے ، ہجرت کا غم کھاجاتا ہے ..جیسے ہی اس کا ربط ''اصل'' ذات یعنی خالق سے ہوجاتا ہے ، وصل کی لذت سے روح آشنا ہوجاتی ہے ..... وصل کے بعد روح اس کی وحدانیت کا اقرار کرتی ہے اور اس کو وحدہ مانتی ہے ........... تضاد ، تفریق ایک اثاثہ ہےجس سے محبت کی پیداوار خالق سے ربط اور نفرت کی پیداوار خالق سے دوری کی مظہر ہے ......جو روحین محبت بانٹتی نظر آئیں ، ان کو اے دل ! چوم لے ! ایسی ارواح بہت کم و قلیل ہوتی ہیں ......جہاں جہاں پائیں جائیں ، محبت کا درس دیں گی ، خالق کی طرح بے نیاز دکھیں گی ......


 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
عشق کا عین کیا ہے ۔داستان ہجر جس میں فنا کی بات ہوتی ہے ۔۔ فنا کے مراحل مدارج ہیں جو کہ یکے بعد دیگرے آگہی سے ہوتے درد کی لامتناہی ٹیسوں سے ابھرتے ہیں ۔جب فنا کا مرحلہ آتا ہے تو فانی جسم کی رنجیریں خود بخود ٹوٹ جاتی ہیں ۔۔تب درد کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے آپ کا ذرہ ذرہ سلگ رہا ہے اس جلن سے اٹھتا درد آپ کے ہوش گنوا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔

مقامِ طور پر جلونے نے کیا یہ فاش راز
کہ از فنائے ہست سے ہی چلنا کیوں محال ہے​

جسم خاکی کے ذرات فضا میں بکھر جاتے ہیں اور جب ذرات بکھر جائیں تو کیا ہوتا ہے جیسے خشک مٹی کی گرد اڑتی ہے ، محسوس ہوتا ہے کہ گرد مٹنے کے بعد حیات کو دوام مل جائے گی ۔۔۔۔۔۔ لمحہ فراق بعد وصال کے بقاء کی منزل کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے ۔محسوس ہوتا ہے کہ دوامت تا حیات ، تا ابد رہے گی ۔۔۔ اندر کی تپش کے آگے غبارے کی حیثیت کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

بقا کی منزل مرے سامنے
وہ آئیں ہیں اب مجھے تھامنے
ملی پہچان ذرے کو فنا کے بعد
فقط اسی کا جلوہ ہے انا کے بعد
منزلیں ملیں اور نئی دکھیں ہیں ۔۔کیا بتائیں آپ کو کیا حال ہے ، لہولہان بدن ہے ، آبلہ پا ہیں مگر پھر بھی مستی ہے ، پاؤں میں زنجیر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس اس زنجیر کی چھن چھن میں اپنا جنون نظر آتا ہے ۔ اس درد نشاط کے عالم میں کبھی اس سمت تو کبھی اس سمت بھاگتی ہوں کہ شاید میرے پاؤں کوئی کنواں کھود نکالیں گے اور پانی مجھے سیراب کردے گا ۔۔میری ہستی کی پہچان کا وقت آگیا ہے ، عشق کے مرحلہ پھر سے آنے کو ہے اور میں حق ھو کی صدائیں لگانے بیٹھی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہی ہے باقی
میں ہوں فانی
میں نے دی صدائی ۔۔۔
حق ھو ، حق ھو
تم نے سُنا ؟
کیا تم نے دیکھا؟
ارے دیکھتے اضطرابی کو
ارے دیکھتی حالت خرابی
فانی ہستی کو بکھرا دیکھوں
باقی ہستی کو خود میں پاؤں
صدا لگاؤں بس ایک
حق ھو ، حق ھو۔۔۔
وہی میرا مالک
وہی میرا خالق ،
وہی میرا ہادی ،
وہی میرا عشق ،
وہی میرا عاشق ،
وہی میرا معشوق ۔۔
میں کون ہوں ؟
میں وہ ہوں اور وہ میں ہوں
میں عالم ہوں اور عالم میں ہوں
فرق سبھی شوق میں مٹ گئے
مستی کے باب اور مل گئے​


عشق کیا ہے ؟ کوئی پوچھے دل سے عشق کیا ہے ؟ کوئی پوچھے روح سے عشق کیا ہے ؟ کوئی پوچھے خود سے عشق کیا ہے ِ؟ عشق مضراب ہستی ہے ؟ عشق مستی کی قوالی ہے ، عشق مئے کی پیالی ہے ؟ عاشق پیمانہ ہے کہ میخانہ ۔۔۔۔۔۔ سبھی فرق مٹ گئے ۔بس ایک رہا تو مجھ میں ۔۔۔۔۔میرا خالق ۔۔۔۔میرے وجود نے گواہی دی ۔

ھو احد
ھو الصمد
ھو اکبر
ھو الخالق
ھو المالک
وہی میرا ظاہر
وہی میرا باطن
وہی میرا قبلہ
وہی میرا کعبہ
تو ہی میرا ہادی
تو ہی مجھ میں باقی
میں ترے قربان
اس کےرقص ہوں
میں ہوں یا کوئی اور ہے​

عشق کا عین اس کی یاد میں فنا ہوجانا ، فنا ہوکے پھر سے زندگی پالینا ہے ۔ وہ تری آنکھ ، ترا ہاتھ اور کان بن جاتا ہے ، اندر کی کائنات بدل جاتی ہے ، وہی نظر آتا ہے ، دل کے دھک دھک میں وہی دکھتا ہے ، خون کی روانی میں شور اس کے ذکر ہوتا ہے اور اپنی حرکت میں اس کے نام کی تسبیح ہوجاتی ہے۔ روح نکل جائے تو جسم کو ٹکرے ٹکرے کردو تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ بالکل اسی طرح انا کا غبارہ اندر کی روشنی پر جالے بناتے ہے ، اگر ہٹا دیا جائے تو کیا ہو؟ بس اپنی تو روح اڑ گئی ، ذرہ کی کیا مجال سمندر کے سامنے! میرے اندر یار کا گھر ہے اور میری انا کی روح اڑ گئی تو بس میں ایک مکان ہو جہاں میرا یار رہتا ہے ۔میں فانی ہستی کو چھوڑ کے بقا کی منزل پر قدم رکھ رہی ہوں اور لوگوں کو پیچھے کھڑا دیکھتی ہوں ۔میں فلک کی جانب پرواز کر رہی ہوں اور مجھے دیکھنے والی آنکھ کھو گئی ہے ۔میں نے بعد پرواز کے بادلوں کے مالک ، نور الہی کے گھر دستک دی اور ایک کے بعد ایک فلک کو پار کرتی رہی ، یوں جیسے سمندر کو پار کر رہی ہوں ۔۔۔ سفیر پرندے اک دائرے میں ذکر میں مصروف ہوتے عشاق کی قربانی کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور میں ان کی باتیں غور سے سن رہی ہوتی ہوں کہ شاید میری قربانی کے بارے کوئی بات ہو! مجھ سے سوال کیا جائے مگر وہاں تو کارنامے بتائے جارہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔کوئی بھی ہستی قربانی دیے بغیر عشق کی منرل پر سوار نہیں ہوتی ہے ، عشق مانگتا ہی قربانی ہے جس کو دینے والے وجود ، دے کر ، خود کو دوامت اور ہمیشگی بخش جاتے ہیں ۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
بعض لوگ لباسِ مجاز میں کیفیتات کو محبت کی اصل سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق ایک روحانی کیفیت ہے جو کبھی کسی بھی وقت مرض میں گرفتار کرسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی مثال موسیقی کی سی ہے جب آپ کی روح کسی خاص دھن پر رقص کرنا شروع کردے تو عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔روح ہجرت کی ماری ، پہچان کے لیے بے قرار ہوتی ہے ۔۔۔۔۔بندہ دنیاوی تصرفات کی بدولت روح کو توجہ نہیں دے سکتا تو وجود مادی سے دوری ، جدائی اس کی ہجرت کا اصل پتا بتاتی ہے ۔۔۔۔۔۔عشق کا تعلق اللہ سے ہے جبکہ دنیا میں اکثر اوقات مجازی محبت اللہ سے عشق کی جانب لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر روح اپنے خالق کے فراق میں مبتلا ہے مگر مادی جسم اس کی پہچان نہین کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔کچھ وجود براہ راست خالق سے عشق کی بوٹی لیے پیدا ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو مجاز عشق کی جانب لے جاتے ہیں اور اکثر لوگ عشق کی حقیقت جانے بنا اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔خالص روحیں جل جل مرنا پسند کرتی ہیں اس لیے موم کی مانند گھلی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ جسم خاکی سے ضرورت کا پیمانہ بھرا جاسکتا ہے جبکہ چاہت کو اس سے مربوط نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔ اکثر کہانیاں یا واقعات میں مجازی محبت کو اللہ کی جانب جانے کا زینہ سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔مجاز میں اگر حقیقت دکھ جائے تو حقیقت مجاز اور مجاز حقیقت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائنس کا ایک قانون ہے کہ ہر دو اجسام ایک دوسرے سے کشش رکھتے ہیں ہر وجود جو کشش ثقل رکھتا ہے اس کے مطابق دوسرا وجود اس کی جانب کھینچا چلا جائے گا ۔۔۔۔ جس کی کشش جتنی زیادہ ہوگی وہ وجود کو اپنے سے چپکا لے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا میں سب سے زیادہ کشش کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ ہر شے میں اس کا جلوہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگ براہ راست اللہ کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں کہ خالص و شفاف روحیں اللہ کو بنا کسی حجت اور میڈیم کے چاہتی ہیں کچھ ارواح مجاز میں اس کی حقیقت پالیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مجازی عشق اس لحاظ سے حقیقت کی جانب جانے کا زینہ ہے مگر لازمی شرط نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوز و گداز ، ہجر و روگ جیسی کیفیات اس کا مرقع ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اللہ سے ربط جڑ جاتا ہے تو بندوں سے محبت لازم ہوجاتی ہے​

عشق کا تعلق جذبہ ہجر سے ہے.جوں جوں بندہ زندگی کو پرکھتا ہے ، جانچتا ہے وہ جان جاتا ہے اس کی روح اپنے اصل خالق نے دنیا بنائی ہے اور مخلوق اسکی بنائی ہوا خیال ہے ۔۔۔۔۔ہر چیز کی تخلیق میں خیال کار فرما ہوتا ہے ، روح بھی ایک خیال ہے...........سمجھ لیجئے ، روح سے تعلق جذبہ ہجرت عشق ہے۔جوں جوں ہجر کی بوٹی کا احساس ملتا جاتا ہ ، بندہ کے دل میں '' عشق ''کا احساس رہ جاتا ہے بندہ خود خالی ہوجاتاہے.......خالق کاحساس دل میں تو ھو ھو کی صدا باقی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔بندہ خالق سے ملنے کی جستجو میں عشق ، اضطراب ، بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہتے کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔۔۔جذبہ عشق خالص ترین اسی شکل میں ہوتا ہے یا سمجھ لیں کہ شفاف روح جس پر صرف ھو کا رنگ ہوتا ہے ، وہی عشق کےقابل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سلمان فارسی کے عشق کی تڑپ دیکھیے ۔۔۔۔۔۔۔فارس کی سرزمین ، مجوسیوں کے خاندان سے حقیقت کی تلاش میں نکلے ، وہ حقیقت اللہ ہے ، عشق نے براہ راست خالق سے ربط رکھا اور بندہ جستجو میں آنحضرت رسالت مآب کے لیے فارس سے عرب کی سرزمیں پر آئے ۔۔۔۔۔۔۔حضرت ابوذر غفاری ۔۔جو اپنے قبیلے کے سردار ، تاجر تھے ۔۔۔۔۔۔۔سچائی کی تلاش میں دولت شان و شوکت چھوڑ ھو ھو کی صدا دیتے رہے،خانہ کعبہ میں بیٹھے لا الہ الا اللہ کا کلمہ تب پڑھا ،جب سیدنا فاروق ایمان نہیں لائے تھے ،بدن لہولہان زخمی مگر زبان سے جاری الا اللہ کا کلمہ چھوٹا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔لوگ خون میں لت پت بے ہوش بو ذر غفاری کو چھوڑ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عشق ہے.......عشق تو قرن کے بادشاہ کو ہوا تھا ۔۔۔۔۔ان کو کیسے خبر ہوگئی احد میں سیدنا رحمت دو عالم شہ ابرار محمد صلی علیہ والہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔خالق سے ربط تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق ہجر کی ماری روح کا جذبہ ہے ۔۔۔ہجر کے اس جذبے کو بوٹی عشقہ سے مشابہت اسی وجہ دی گئی کہ اس کی وجہ سے سچی شفاف ارواح نے دولت ، شان و شوکت ، بھوک ، پیاس سب چھوڑ دیا مگر باقی رہا تو سچا عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب روح پر رنگ چڑھ جائے تو مجاز کی محبت میں انسان اللہ کو تلاش کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ملتا نہیں ہے کیونکہ روح پر رنگ چڑھ جاتا ہے ، عشق کا تعلق خالص اللہ سے ہے اور مجاز بس ایک راستہ ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے دوری ، اضطراب کی بے نام وجہ کو مجاز میں تلاشتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن کو درست معنوں میں عشق ہوا ۔۔۔۔۔۔وہ ہیر ،رانجھا ، سسی پنوں ، سوہنی ماہیوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سچے عاشق جنہوں نے سب کچھ بھلادیا مگر عشق یاد رہا ہے ، ہجرت کا غم یاد رہا اور مجاز میں ان کو اللہ مل گیا ۔۔۔۔باقی ہوس رہ جاتی ہے یا نفس رہ جاتا ہے جس کو عشق یا محبت کا نام دینا زیادتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچا عشق صرف اللہ سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجاز میں ایسی صورت کم ہی دکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت کم روحیں مجاز میں عشق تلاشتی ہیں ایسی ارواح معشوق میں خود کو بھلا دیتی ہیں ۔۔انسان جب خود کو بھول جاتا ہے تو اللہ ملتا ہے ۔۔۔عشق یکسر فراموشی کا نام ہے ۔۔۔​

آج رنگ ہے ۔۔۔۔
چھاپ تلک سب چھین۔۔۔۔۔۔۔

یہ کلام ان کی ہجرت کے درد و اضطراب سے بھرپور ہے ۔۔۔۔۔دنیاوی عشق کوئی نہیں ہوتا ------------------بس عشق حقیقت سے ہوتا ہے ، آپ یا کوئی اسے محسوس کرسکتا ہے ۔۔۔۔بابا فرید الدین کے پاس ایک غیر مسلم مجازی عشق کے درد میں جلتا ہوا آیا ہے جس کا عشق اس سے روٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔آپ نے اس کی تعظیم کی اور بولے کہ یہ ہم سے اچھا ہے کہ اس کا عشق خالص ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص جذبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق ایک خالص جذبہ ہے جو کسی کو مجازی رنگ میں ملتا ہے تو کسی کو بے رنگی میں ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔کوئی رنگوں کی بہار لیے کالا رنگ بن جاتا ہے تو کوئی ''بے رنگی ذات'' لیے خالق سے جا ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشق کالا ہو سفید۔۔۔۔۔۔۔عشق تو عشق ہے ۔۔۔۔عشق میں فرق نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔رنگی ہو یا بے رنگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص ہے تو مجاز ہی حقیقت ہے اور حقیقت میں مجاز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بس سمجھنے کی بات ہے ۔۔۔۔۔ایسا احساس سمجھ کے ہی ملتا ہے ۔۔۔میں اپنے اضطراب میں گم ہوں۔۔۔۔۔میری رگ رگ میں یار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں انالحق مارکے سولی چڑھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہی حقیقت ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہی مجاز ہوں ۔۔۔۔۔میں ہی عاشق ہوں میں ہی معشوق ہوں۔۔۔۔۔۔۔

میں حجاب میں ملوں تو کالا رنگ ہوں۔میں بے نقاب شفافی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں تو میں ہوں ۔۔۔۔۔۔میں ہی سب کچھ ہوں
میں جس کے عشق میں مبتلا ہوں ، اس کے خیال نے مجاز کو مجھ سے چھین کے میرا عشق کے خیال کو مجاز کی شکل دے دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ذرے سے آفتاب ہوں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں روشنی کی شعاع نہیں ہوں میں روشنی کا منبع ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہجوم میں ملتا ہوںمیں خلوت ، جلوت کا شہنشاہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں عشق ہوں ۔۔میں روگ ہوں ، میں عشق قلندر ذات ۔۔۔۔۔۔۔بدن روئی ہوتے اہمیت کھو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روح طاقت پاتے مجسم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ! وہی ہے چار سو ۔۔۔۔۔۔۔اور تو کچھ ملتا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ میں وہ گاتا ہے جس کو میں ساز ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں اسی کا سر ہوں ، جس نے سنگیت دیا میں عشق ہوں ۔۔۔۔کسی نے رام رام کہتے مجھے پالیا ۔۔۔۔۔۔

کوئی اللہ اللہ کہتے دور رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے پتھر کو خدا جانا اور مجھے پالیا۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے دل کو صنم خانہ بنادیا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا مجاز ۔۔۔۔کیا حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں خلوص ،جہاں جذب ہے ، وہاں وہاں اللہ ہے ۔۔۔۔۔وہاں احد کا جلوہ ہے ۔۔۔۔۔وہاں میں وحدت میں ضم ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں میں اس سے ربط میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔میری جلن ، درد اضطراب آگ بن گئے ہیں ۔۔۔میرا وجود آگ ہورہا ہے کیوں روح ہجر کے دکھ میں لیر لیر ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔مجاز کو اتنی شدت سے چاہا ۔۔۔۔۔۔میری شدت نے مجھے رب دکھادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجاز نے رب سے ملادیا ۔۔۔۔۔۔۔حق ھو ۔۔۔۔ایک تو ہی ہے ، تیری ذات ہے ۔۔۔۔۔۔ھو کی ذات جس جس مظہر میں ہے ، جو جو مظہر اس کو نور لیے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔

اس کی تجلی سے اپنی تجلی ملا لے ۔۔۔۔۔سچا جذب مل جائے گا ۔۔۔۔۔۔تجھے رب مل جائے گا



سرمد ایک ہندو لڑکے کے عشق میں مبتلا ہوگئے ۔۔۔۔۔۔عشق نے سدھ بدھ ختم کی اور کپڑوں سے ہوگئے معذور۔۔۔۔۔۔عشق کا عین پانا چاہا مگر اس کی تاب زمانہ نہ لاسکا۔۔۔۔۔۔عشق کی طاقت دیکھیے۔۔۔۔۔۔قیداورنگ زیب کے پاس ہے ۔۔۔۔۔۔۔جرم عائد ہوتا ہے رب کو نہی مانتا ۔۔۔۔۔۔کپڑے نہیں پہنتا ۔۔۔۔۔۔سرمد کا مرشد وہی ہندو لڑکا تھا کیونکہ عشق نے اللہ سے ملادیا۔۔۔ ہجر کا روگ مل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔تن من کا ہوش گیا ۔۔۔کہا گیا کلمہ پڑھیے ۔۔۔۔۔جواب دیا ابھی نفی میں گم ہوں اثبات کیا کروں۔۔۔۔۔ابھی لا الہ کو سمجھا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔الا اللہ کیا کہوں۔۔۔کفر کا فتوی عائد ہوا۔۔۔۔۔قتل کیا گیا تو سرمد کے سر تن سے جدا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔تن بنا سر کے چلا اور سر ۔۔۔۔۔۔جو الا اللہ کا مرکز ہے اس نے کلمہ پورا کیا۔۔۔۔۔۔عشق کا عین پالیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موت نے منزل دے دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہید سرمد ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔عشق تو مجاز سے کیا مگر سرمد کے اکیلے سر نے ، بنا دھڑ کے ، اللہ اللہ کا ذکر کیااور اس کی حمد کے بعد روح پرواز ہویہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔عشق کی رمز وہی جانیں ، جن کو عشق کی آگ نے مارا۔۔۔۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
مجھے دعوی ہے کہ میں عشق میں ہوں
مجھے دعوی ہے کہ عقل ، ہوش میں ہوں
مجھے دعوی ہے وہ مجھ میں ہے
میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں ؟
دعوی تو خود ایک فہم ہے
عقل کی نشانی ہے
میں عقل بھی ہوں !
میں فہم بھی ہوں !
میں عشق ، عاشق کا نعرہ ہوں!
میں تجھ میں بھی ہوں ،
میں اس میں بھی ہوں،
میں کہاں کہاں نہیں ہوں؟
میں ہی تو نمانے عقل ہوں!!

یہ کیسا عشق ہے کہ میرے محبوب نے مجھ سے بتائے بغیر سب خالی کرالیا ۔۔وہ کہتا میرے ہوتے تجھے اب کسی اور کیا ضرورت ہے ۔۔۔ !!!مجھے ادب نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔!میں کہتی ہوں

مجھے نظر تو آو۔۔۔۔!
جلوہ تو کراؤ ۔۔۔!

وہ نظر تو نہیں آتا ہے مگر وہ کہتا ہے میں دل میں سمایا ہوں ، دل کی سلطنت اس نے لے لی ہے۔!اب میں خالی ہاتھ ہوں ۔۔!کیا کروں۔۔۔۔اور کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔۔!عشق آسان نہیں ہے ،مت کرو دعوی عشق کا!!!جس نے دعوی وہ نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا رہا۔۔! اس کی زندگی موسیقیت بھر دی گئی مگر اس کی زندگی معلق ہوگئ۔! معلق ایسی ہوئی کہ کسی دنیا اچھی نہیں لگتی مگر دنیا اچھی بھی لگتی ہے کہ میرا محبوب اس دنیا میں ہے ۔۔۔!

میں بے تابی میں ہوں ،
اضطرابی میں ہوں ،
اس کی دید کی منتظر ہوں ،
اسے دیکھنا چاہتی ہوں
!میں اس کے عشق میں سدھ بدھ کھو بیٹھی ہوں ۔۔۔۔
وہ میرے اندر کی روشنی ہے ،
''میں 'بن کے صدائیں لگاتا ہے ۔۔۔۔۔۔!

تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟تم کہاں ہوں؟
کہاں ہو ؟ سامنے تو آو؟ اپنا جلوہ تو کراؤ!
چھپ کے من میں کیوں لگاتے ہو صدائیں ۔۔۔۔؟
میں، تو۔۔!تو، میں ۔۔! مجھ میں، تجھ میں فرق کیا ہے؟
''تو حسن مجسم ہے ، جمال کی انتہا ہے،
اپنی دید کر ، اور مجھے دیکھے جا ،
مت کر بے تابی اتنی ، بڑی جلد باز ہے تو،
میں تیرا یار ہو، رقص کر میرے ساتھ تو،
تری ہست میں مستی میرے دم سے ہے،
غم ، درد ، تڑپ ، اضطراب تری دوا ہے،
تو میراساز ہے ، کیامیں تجھ میں صدا نہ دوں ؟​
عشق کی بات نہ کر ، یہ بڑا ہرجائی ہے
اس میں پڑتے ہی ملتی رسوائی ہے
گرم کوئلوں پر عاشق کو لٹا دیتا ہے
احد احد کی نعرہ تب عاشق لگادیتا ہے
!زمانے نے عشق کی حقیقت کب سمجھی
!زمانے اس کو نہ سمجھے، جس نے سمجھی

میں عشق میں ہوں ،
میں اس جہاں میں کہاں ہوں
میں حسنِ بے حجابی ہوں ،
میں نور شفافی ہوں
میں ذات میں قلندر ہوں،
خود میں ایک سمندر ہوں
میں ازل کی تپش ہوں ،
میں الوہی چمک ہوں
میں نہ جانوں میں کون ہوں
میں جانوں میرا یار کون ہے


میں جذب میں ہوں ،
میں مستی میں ہو
میں تجھ میں محو ہوں ،
کہ ابھی ہوش میں کہاں ہےمیں تجھے کیسے پاؤں ،
میں تجھے سے دور کیسے جاؤں کہ ہوش میں کہاں ہو
میں تجھے دیکھوں کیسےکہ ہوش میں کہاں ہوں
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟ تم کہاں ہو ؟

''دیوانی ! تو میری دیوانی،
نا کر اتنی طوالانی''
مستیِ ہست کو جان میری مہربانی
سمندر میں ڈوبی رہ ،
تو خود میں ایک سمندر ہے
تو ایک مست قلندر ہے ،
خود میں ایک سمندر ہے
میں مست قلندر ہوں ،
خود میں ایک سمندر ہوں

میں تندو تیز شوخ لہر ہوں ،
میں برقِ طوفان ہوں
کیسے نہ جذب میں آؤں
کیسے طوفان میں نہ لاؤں
بحر کو لازم موجوں کی طغیانی
گھروندے مٹاؤں ،
لہروں میں سماؤں
یا طوفان لاؤں ،
سیلاب بن کے مٹاؤں
بارش بن کے برسوں
یا بادل بن کےچھاؤں
میں تیری ہوئی ،
میں نے سدھ بدھ کھوئی
میں کون ہوں ؟ میں کیا ہوں ؟
!تو ایک مست قلندر ہے
خود میں اک سمندر ہے




کس کس جگہ نہیں تو ،
کس کس جگہ ہے تو ،
خوشبو تیری پھیلی چار سو،
ہر سو دِکھے ''تو ہی تو''
طور پر موجود تھے پہلے یا تجلی فرمائی
مست موسی ہوئے تھے
یا طور نے ہستی کھوئی!
میں کون ہوں ؟
میں تو ہوں یا تو ہی میں ہوں
میں تیری متلاشی ،
اِدھر بھٹکوں ، اُدھر بھٹکوں
کبھی مجاز میں دیکھوں ،
تو کبھی حقیقت کو کھوجوں
کہیں نہ ملے تم مگر دل کے اسرار خانوں میں!
کب ہوگا تیرا نظارا کہ دعوی
بشر کی ناقص العقلی کا تم کو ہے
زندگی سے پہلے ،
موت کے بعد ،
کیوں دیدار کرا دیتے ہو؟
لاکھوں حجابات میں چھپے ہے ،
مگر بے حجاب بھی تو ہو!
کیسی بے حجابی لامکانی میں ؟
کیسا ہے حجاب مکان میں ؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

!قربانی کے کیسے کیسے انداز اپناتے ہو
!سجدے میں سر نیزے پر چڑھواتے ہو
کہیں خلیل کو نار میں ڈلوا دیتے ہو!
اسماعیل کو دے کے ذبیح کا حُکم،
عرش سے مینڈھا بھجوا دیتے ہو!
چڑھوا کہ عیسی کو سولی پر خود ہی،
پھر آسمان پر بلوا لیتے ہو !
سرمد کو نفی میں گُم رکھتے ہو!
سر کٹواتے ہی اثبات کرا دیتے ہو!
عشق کی مئے جسے پلاتے ہو!
نعرہِ انا لحق کا لگوا دیتے ہو!
فتوی عشاق پر کفر کا لگوا تے ہو!
قربانی کی کیا خوب تم سزا دیتے ہو
عشق کی بات میں قربانی کا کیا سوچوں!
جذب دے کے، کیوں عقل میں اُلجھا دیتے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
 

نور وجدان

لائبریرین

دنیا کو اپنی سلطنت بناتے ہو
'کن' سے سب کو تخلیق فرماتے ہو
سب میں خود سما کے،
خود کو چھپا لیتے ہو
دنیا تجھے تلاشے ،
میں تجھے خود میں پالوں
فلک کو دیکھوں
یا زمین پر رہوں
بارش میں بھیگوں
یا دھوپ میں جلوں
پھول کی خوشبو بنوں ،
کانٹوں سے لہو بہاؤں،
تم معرفت کی روشنی ہو،
تم میرے اندر کی روشنی ہو،
عارف کو لا الہ کا رقص کراتے،
من میں الا اللہ کی صدا دیتے ہو!
تم کون ہو ؟ تم کیا ہو؟

خلق کو خود حجاز بلوا کے ،
محروم رکھتے ہو حاجیوں کو،
عاشق کےدِل کو حاجی بناتے ہو
نمازِ عشق پڑھوا کے ،
مناجات کی دنیا سجاتے ہو،
جمالِ یار میں جلوہ نما ہوکے ،
نگاہ تیری جانب لگی ہوئی ہے
''الا اللہ ''کی تسبیح ملی ہوئی ہے
اوجِ بقا کی منتظر ہوں،
فنا میں غرق ہوں،
راستے دشوار ہیں ،
طوفان ہم کنار ہیں،
قدم ، قدم موت کا تماشا ہے
مر مر کے جینا عاشق کا شیوہ ہے
میں درد کی انتہا میں ہوں،
میں اضطرابی میں ہوں،
میں بے تابی میں ہوں،
نشاطِ درد کی مئے پلا تےہو ،
گمشدگی کی پھرسند عطا کرتے ہو،
میں شہرت میں گُم ہوں،
میں خود میں ایک سمندر ہوں،
میں مست قلندر ہوں،

عشق کی تسبیح سے عشاق کو پُروتے ہو،
دِلوں میں 'ھو ھو ' کی صدائیں پھر لگاتے ہو،
احد ، احد کرتے توحید کی مئے پلاتے ہو،
دل کو اپنا مسکن ، کعبہ وقبلہ بناتے ہو،
مدہوش کرتے ہو اپنے عاشق کو خود،
پاؤں میں تلاش کی زنجیر پہناتے ہو،
اِس میں بیٹھ کر تم سوچوں میں الجھاتے ہو،
پھر خود اس عاقل کا چرچا کرواتے ہو،
کیسا کیسا کھیل تم رچا تے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

کیاخُوب رنگ سجایا دُنیا کا،
کیا خوب تماشا ہے دنیا،
آدم کو خلیفہ بنا تے ہی ،
ابلیس کو ذلیل کراتے ہو،
معبود اور عبد کا فرق بتاتے ہو،
نذر، قربانی کے چکر میں ،
ہابیل کو قابیل سے مروا دیتے ہو،
حکم دے کے واعتصمو بحبل اللہ '' کا
اپنی رَسی سے باندھ لیتے ہو
بعد اس کے زمین و آسمان میں معلق کراتے ہو
گھُماتے ہو اپنے یاد میں اِدھر ،اُدھر
نام سے اپنے جلا دیتے ہو ،
مظالم کے سیلاب میں،
سر مستی کی کیفیت جگا دیتے ہو،
تمھیں جانوں کیسے ؟ خود کو پہچانوں کیسے
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

میں عاشق ہوں کہ معشوق !
میں پستی ہوں کہ بلندی !
میں شمس کی درخشانی ہوں!
میں قمر کی ضوفشانی ہو!
میں مست قلندر ہوں!
میں خود میں سمندر ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کیا ہوں؟

جو نہیں جانتا عشق کیا ہے ،
وہی جانتا ہے عشق کیا ہے
لباس ِ مجازمیں وہی چار سو ہے
کشش کا نظام بکھرا ہر سو ہے
میں نہیں جانتی میں کون ہوں
جب سے تجھے دیکھا ،
بھولی میں کون ہوں،
خاک کو تسلی جذبہ عشق دیتا ہے
سانحوں میں جینے کا حوصلہ دیتا ہے
تم جانتی نہیں تم عشق میں ہو
مسکراتی پھراتے ہو جو ہر بات میں
کیا اسی سے مل کے آئی ہو ،جو ہے دل میں؟
ادب بن عشق کہاں ؟
مستی ملے تو ہست کہاں؟
میں اپنے ہوش میں کہاں ہوں؟
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں اس کے پاس ہوں؟
یا وہ میرے پاس ہے ؟
فلک زمین پر ہے ؟
یا زمین فلک پر ہے؟
میں فضا ہوں کہ بادل ؟
میں بارش ہوں کہ نغمہ ؟
میں ایک مست قلندر ہوں!
خود میں ایک سمندر ہوں!
میں کیا جانوں میں کون ہوں؟
اب میں ہوش میں کہاں ہوں؟


ہر کسی کے بس میں عشق کی بات نہیں
مدہوشی میں ہوں کہ میری کوئی اوقات نہیں،
کبھی گُل تو کبھی بلبل کے ترنم میں ملے
شجر ، حجر کی باتوں میں اس کے قصے سنے
پتا ،پتا بوٹا ، بوٹا اُس کے ذکر میں مسجود ہوا
کائنات بھی ابھی سجدے میں ہے ،
میں رکوع سے اٹھوں تو سجدہ کروں،
کیسے سجدہ میں کروں ؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
نماز کا سلیقہ مجھ میں نہیں ،
رکوع کو ہی سجدہ مانوں؟
سجدہ کیسے کروں میں ؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
!تو ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے



حسن سمجھنے والے نایاب نہیں!
جذبات سمجھنے والے کمیاب ہوئے!
جو نہیں جانتا عشق کو ،
وہی عشق کو جانتا ہے
جو نہیں مانتا احد کو ،
وہی اس سے مل جاتا ہے
عشق سے دور ہوئے ،
عشق میں پھنس گئے
ہم کو اپنی خبر نہیں
کہ کیسے ، کہاں لٹ گئے
میں کچھ کہوں مگر سوچوں
کہ ہوش میں کہاں ہوں
پھربن سوچ کہتی جاؤں
کہ ہوش میں کہاں ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندرہے

رنج و آلام نے مستی ِنشاط میں مبتلا کر دیا ہے
اس نے مجھے مجذوبیت کا خرقہ عطا کر رکھا ہے
میں اب کچھ کہوں تو سوچوں میں کہاں ہوں؟
مگر بن سوچ کہے جاؤں کہ ہوش میں کہاں ہوں
منکرینِ محبت کے دل کو شیش محل محبتوں کا بناتا ہے
پھر اس کے دل میں ہر اک نقش اِن کا مٹا دیتا ہے
پھر اپنے عشق کی خلافت میں جگہ دیتا ہے
میں کیسے کہوں کہ میں عشق میں ہوں،
کہ میں ابھی ہوش میں نہیں ہوں!
میں اور کیا کیا کہوں کہ وہی مجھ میں ہوں!
میں کچھ نہیں کہتی ہوں ،
وہی مجھ میں کہتا ہے
میں کہیں نہیں ہوں مگر وہ مجھ میں رہتا ہے
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
!تو ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے

میں لامکانی میں ہوں !
میں ہوش میں کہاں ہوں!
میں اسکا کیف اور مستی ہوں!
کہ جذب میری ہستی ہے،
میں اس کی پاس ہوں،
یا وہ میرے پاس ہوں،
میں اس کے حضور سرجھکائے ہوں،
کائنات ابھی سجدے میں ہے ،
میں ساجد کیسے بنوں،
میں زمین چوموں کیسے؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں!
میں نے اسے اپنے اندر جانا ہے،
مگر فلک پر اس کا ٹھکانہ ہے!
نماز کا سلیقہ نہیں مجھ میں ،
عشق نے مجھے کیا دیوانہ ہے،
میں بن سوچ کے کہتی رہوں،
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں ایک صدا ہوں ،
میں مہک و بُو ہوں ،
میں رنگ و روشنی ہوں
میں سرمستی ِ سرمد ہوں ،
میں نعرہ انا الحق ہوں
میں رازِ کن فکان ہوں ،
میں ازل کا نورِ قدیم ہوں
میں اب کیا کیا کہوں؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں اس کی نشانی ہوں !
میں نور ہست ہوں ،
میں شاہد ہوں ،
میں ہی مشہود ہوں ،
میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں اس میں گم ہوں !
میں کون ہوں ؟میں کہاں ہو؟
تو مست قلندر ہوں!
خود میں ایک سمندر ہوں ! تو

میں اس میں گم ، جذب میں ہوں ،
میں مستی ہوں !
میں عشق ہوں !
میں معشوق ہوں !
میں مستی ہوں!
محبت کی گمشدہ بستی ہوں !
میں شبنمی قطرہ ہوں!
میں سحر ہوں !
میں ستارہ ہوں !
میں سورج ہوں!
میں فلک ہوں !
میں فرش ہوں !
میں اسم لافانی ہوں!
میں سبحانی ہوں !
میں نوارنی ہوں ،!
میں عشق میں ہوں،
میں اور کیا کیا کہوں ،
کہ ہوش میں کہاں ہوں،
میں ازل کی صدا ہوں !
میں ابد کا نغمہ ہوں!
میں راز کن فکاں ہوں !
میں محبت کی بستی ہوں!
میں عشق ِقدیم مستی ہوں!
میں سرمدی نغمہ ہوں!
میں کون ہوں ،میں کہاں ہوں!


میں محبوب ہوں!
میں محبوب کے پاس ہوں!
میں رقص میں ہوں!
مگر سکتہ حیرت میں ہوں،
میں اس کے جلوے میں ہوں،
میں اس کی ہستی ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میری چیخ و پکار میں مٹھاس ہے !
میری پکار میں اسکی آواز ہے!
میں حقیقت ہوں !
میں ہی مجاز ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میں اس کی مستی ہوں !
میں اس کی بستی ہوں!
میں کون ہوں؟ میں کہاں ہوں؟
!تو ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے

میں عشق کی الوہی صدا ہوں!
چمکتی روشنی ہوں کہ چہکتی بلبل ہوں!
حجاب ہوں ، نقاب ہوں!
میں بے حجابی ہوں !
میں بے نقاب شفافی ہوں
میں مکان میں ہوں ،
کہ لامکانی میں ہو،
میں اس کے پاس ہوں ،
یا وہ میرے پاس ہے،
میرے ہاتھوں کی روانی ،
موجوں کی طولانی کو مات دے،
وہ میرا ہاتھ ہے ،
وہ میرا کان ہے ،
میں وصل میں ہوں ،
میں عشق میں ہوں
میں کیف میں ہوں ،
اس کی مستی ہوں،
اُس کی مستانی ہوں
اس کی دیوانی ہوں
میں اس کا عشق ہوں کہ،
میں اس کے عشق میں ہوں،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں حسن مجسم ہوں ،
میں نور مکمل ہوں
میں جذبِ ہستیِ کامل ہوں
خود ایک گورکھ دھندہ ہوں،
میں کون ہوں ؟میں کہاں ہوں،؟
تو ایک مست قلندر ہے!
خود میں ایک سمندر ہے!

میں رقص میں ہوں !
مگر سکتہ حیرت میں ہوں!
اس کے جلوے کی تابش ہوں،
یا میں خود تابش ہوں،
میں کیا کہوں کہ عشق میں ہوں!
بن سوچ کہوں کہ عشق میں ہوں!
میں کیا کیا کہوں ؟
میں راز کن فکاں ہوں!
مجذوب ، میں ولی ہوں کہ
اُس کے وصل میں ہوں
میں اُس کی ولایت میں ہوں ،
میں ُاس کی نیابت میں ہوں
میں اس کا نغمہ ہوں ،
میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے !
خود میں ایک سمندر ہے !

!میں اس کی بستی ہوں
میں اس کا جمال ہوں !
میں اس کا کمال ہوں!
مجھ پر جذب طاری ہے
میں اس میں ہوں!
یا وہ مجھ میں ہوں!
میں کیا کیا کہوں اب ،
کہ میں ہوش کہاں ہوں؟
میں وحدت میں ہوں ،
حق ھو ! حق ھو!
میں اس کو پکارتی ہوں،
یا وہ مجھے پکارتا ہے،
،میں اس کے پاس ہوں،
یا وہ میرے پاس ہے،
؟میں کون ہوں؟ میں کہاں ہوں
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں اُس کی دید میں فنا ہوں
میں فنا کیسے ہوپاؤں؟
کہ بقا مجھ میں ہے!
خود میں حرم ہوں !
خود میں مسجد ہوں!
میں میخانہ ہوں !
میں ساز ہوں !
میں ہی نغمہ ہوں!
!اک سربستہ راز ہوں
میں مخفی ہوں!
مگر سب میں ظاہر ہوں!
میں ایک خیال ہوں !
میں ادراک کی بلندی ہوں!
میں عقلِ ُکل ہوں !
میں زمانی ہوں !
میں نوارنی ہوں
میں کون ہوں ،میں کہاں ہوں

،میں عشق کی منتہی
!محبت کا معجزہ ہوں
میں زندہ ہوں!
مگر اجل مجھے تھامے،
میں اجل ہوں !
مجھے موت کیسے تھامے!​
میں اپنی ہستی کھو رہی ہوں
وہ شہ رگ سے قرین ہے ،
شہ رگ کلمہ لا ہے
نفی اثبات میں گُم ہوں ،
میں لا الہ کا کلمہ ہے!
وہ مجھ میں صدا ،
الا اللہ کی لگاتاہے
میں الا اللہ سنوں؟
یا لا الہ کہوں؟
میں کیا کیا کہوں ، کیا سناؤں
میں کیا کیا سناؤں اور کیا کیا سنوں
میں مستی جذب کی منزل میں ہوں،
میں اپنی ہستی کھو رہی ہے،
میرے اندر اس کا جلوہ ہے،
میں طور کی تجلی ہے ،
خود میں ایک طور ہوں
ہستی طور کھوئے
پھر''وہ '' طور ' میں دکھے
میں کون ہوں کیا ، میں کیا کہوں؟
میں جذب کی منتہی میں ہوں!
میں کیا جانوں میں کون ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے


اس نے مجھ سے کہا کہ اس کی محبوب ہوں!
!اس نے مجھ سے کہا کہ اس کے لیے بنائی گئی ہوں
اس نے مجھ سے کہا کہ اس کے تسبیح میں محو رہوں!
اس نے مجھ سے کہا کہ حمد کی بات بس کروں!
اس نے مجھ سے کہا کہ قربانی عشق میں ہے !
عشق قربانی نہیں!

یوم الست کی مستی چھائی ہے
قالو بلی کا عہد میں نے کیا ہے
میں تجدید کی کنجی میں ہوں،
میں نے اس کو دیکھا ہے
میں نے اس کا جلوہ کیا ہے ،
وہ۔۔ میں ، میں ۔۔وہ ہے!

تضاد ، تفریق کی بساط ک اس نے بچھائی
عاشق کو اس پر چلنا ہے پنجوں کے بل ،
چل کے جانا ہے اس کے پاس ،
کرنا ہے اس کا سجدہ
اس کے سجدے میں ہوں ،
میں اس کی فنا میں ہوں
بقا کی منزل میں ہوں ،
، فنا کی منتہی ہو
میں ہستی میں مستی میں ہوں ،
میں مستی میں ہستی ہوں
میں کون ہوں ؟
میں کیا ہوں ؟ میں کہاں ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں الہام نہیں ، میں کشف نہیں۔۔
اُس کا ابدی نغمہ ہوں
نعرہِ مستانہ ہوں ،
اس کا شوخیِ حسن ہوں
میں کون ہوں ِ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں کس منزل پر ہوں؟
میں نے اپنی ہستی وصل میں کھوئی ہے
میں اب ہوش میں نہیں
میں جو کہتی ہوں ،
وہ کہتا ہے ،میں کچھ نہیں کہتی ،
میں کیا کیا کہوں ،
کہ اب میں ہوش میں کہاں ہوں
وہ مجھ میں ہے ،
وہ مجھ میں ہے ، وہی مجھ میں ہے !
''اللہ نور السموت ولارض ''
وہ نور سماوی ، وہ نورِ زمانی
۔۔۔میں نورِسماوی ،میں نورِ زمانی
میں نوری نشانی ہوں ،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے

میں اس کی مستی میں ہوں ،
میں اس کی ہستی ہوں،ہے
میں دریا ، سمندر ہوں،
کہ جنگل ، پربت ہوں،
میں فلک ، زمیں ہوں،
کہ شب وسحر ہوں،
میں شجر ، حجر کہ گُل ہوں !
،میں شاخ ، شبنم ہوں
کہ شمس و قمر ہوں
میں اس کی خلیفہ ہوں ؟
میں اس کی نائب ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں نفس نورانی ہوں ،
میں نفس انسانی ہوں
،جن و انس کی محبت ہوں
مصحف ، پاک کلمہ ہوں ،
روح کیمیا کا نسخہ ہوں،
میں کون ؟ میں کیا ہوں؟
نہیں جانتی میں کہاں ہوں
میں نورِ یزدانی ہوں ،
میں اسم لافانی ہوں[]​
 

نور وجدان

لائبریرین
جوگ پالنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے رانجھے کو ڈھونڈنا پڑتا ہے ، رانجھا مل جائے تو اُس کے لیے رانجھا ہونا پڑتا ہے ۔خاک چھانیے یا دربدر پھریے ! نگر نگر بھٹکیے ، اُس کو مظاہر میں ڈھونڈیے ۔۔۔۔ ہر مظہر کے باطن میں جھانکیے ، گویائی نا ہونے کے باوجود ہرشے اس سے باتوں میں مصروف ہوں ۔ درخت کی لکڑی زمین کی نیچے بھی اتنی ہے ،جتنی زمین کے اوپر ہے ، سورج اور زمین کی کشش میں درخت برابر قوت سے نمو کرتا ہے ۔رانجھا ڈھونڈیے ! اندر کی مٹی ، باہر کی مٹی سے ربط کیجے ! کسی کو باہر کی مٹی سے مل جاتا تو کسی کو اندر مٹی سے! کشش دونوں جانب متوازن ہو تو محبت کے دَرخت پر عشق کی بیلیں پھوٹتی ہیں ، سچائی کی تلاش میں ،سچ کا کڑوا گھوانٹ ، دھیمی آنچ پر پکنا چاہیے ! دھیمی لوُ پر چلتی ہانڈی کا ذائقہ بڑے سواد کا ہوتا ہے ، تن کی ہانڈی میں جذبات کی آگ کی دھیمی آگ سے ، عشق کے اظہاریے کو اُبھاریں یا ابھریں تو ایک مصور کی ذات بذات خود تصویر ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔جب تصویر کی روشنی ملے تو جانیے کہ وصل ہوگیا !

وصل گوکہ لطف و کیف کی سرشاری عطا کرتا ہے مگر عُشاق کے لیے ہر قدم سلگنا ، ہر قدم امتحان بن جاتا ہے ۔ گومگو کی کیفیت عشق میں کبھی پیدا نہیں ہوتی ہے اس لیے عاشق کے قدم آہستہ آہستہ بُلندی کی جانب اٹھتے ہیں ! جب اٹھتے ہیں تو تھمتے نہیں !جب تار ہلایا جاتا ہے تو درد سے راگ چھڑ جاتا ہے ، عاشق کی ذات بھی ایک ساز کی مانند ہوتی ہے ، عشق سرمدی نغمہ ، سُر جس کو دینے والی ذات صاحبِ امر ٹھہری ! وہ چاہے تو قربان کردے ، وہ چاہے تو قربانی لے ! وہ چاہے تو وصل دے ! وہ چاہے تو ہجر سے کبھی نکالے ہی نا ! وہ چاہے تو بس ایک ''کُن '' کی محتاج ساعت اپنی منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہے ۔ عشق اکی پہلی منزل عبادت ہے مگر ایسی عبادت جس کا ظاہر نہیں ! ایسی جو دکھتی نہیں ہے ! ایسی جس سے خلق کو فائدہ ملتا ہے ! ایسی جس سے انسان پھر سے جی اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں عاشق عابد بہت کم ہیں ! دنیا میں معلم عالم بہت کم ہیں ، دنیا زاہد و عابد اور مبلغ عالم سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ عشق کے سوت تو باطنی ہیں ، اس لیے عبادت عشق کا ظاہر وہی دیکھ سکتے ہیں جو عشق میں ہیں

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اس عبادت سے فائدہ کیا جس سے مخلوق کو فائدہ نہیں ملے۔ ہمیں سُنانے والے منبر پر بیٹھ کے اچھی باتیں سناتے ہیں ، وہ بھلائی میں مصروف ہے کیونکہ دل پھر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ نے اسی ایک رات کے سیکھے کو آگے پھیلایا تو آپ کامیاب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بندہ بھی جس نے اچھا سبق دیا مگر آپ پھیلا نہیں سکے اور اصرار پر رہے تو جان لیجئے کہ آپ کے استاد کی بات کی تاثیر کھوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔بات میں تاثیر ہو تو لفظ ''الف'' ایسی ضرب لگاتا ہے کہ ''ب '' کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اور الف ۔ ب کا علم نہیں تو ''م ، د '' کا علم کیسے لو گے ، اگر تم نے علم نہیں حاصل کیا تو مجھے پہچانو گے کیسے ؟ اگر پہچانو گے نہیں تو میری طرف کیا خالی لوٹو گے ؟ اُس نے امت محمد صلی علیہ والہ وسلم کی امت میں عشق کو مرشد بنا دیا ہے ،


عشق مرشد تو ہست نابود ،
عشق مرشد تو مستی کا جمود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔​

آپ کیوں لباس کی طرف توجہ دیتے ہو ، اس کو صاف کرتے ہو مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ لباس تو خود تمھارے جسم کا محتاج ہے ، اگر تمھیں جسم کی صفائی مقصود نہیں تو شریعت کا لباس فائدہ دینے کے بجائے ،دین کو خشک کردے گی ، جب لباس معطر نہیں ہو ، اس کی خوشبو بدبُو کھینچ لے تو باقی پہننے والی قُبا بھی بدبودار ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔آج کے دور میں منافع پرستوں نے دین کو کاروبار بناتے ، دین اسلامی کی قُبا کو میلا ، بد بو دار کردیا ہے ۔۔۔

خدشہ بیٹھا ہے دل میں .. جو مجھے خوفزدہ کر رہا ہے کہ اگر ''الف'' کا علم حاصل نہیں کیا تو اس کی طرف لوٹو گی کیسے؟ اگر لوٹ گئ تو دنیا میں جس مقصد کے لیے وہی فوت ہوگئ ..کیا انسان مقصد کے فوت ہونے کے بعد زندہ رہتا ہے؟ اررے! جب حق دل میں سما جآئے تو کسی کی اور ضرورت نہیں رہتی ..یہی ''الف ''کا علم.ہے ....یہی عشق کی ابتدا ہے؟ اسی'' الف ''سے آدم کو ملی بقا ہے ..''.الف ''کو جانو گو تو جو عیاں وہ کتنا نہاں ہے ..وہ جو ظاہر ہے اس "الف " کا پردہ " ب " ہے .... تب رانجھا رانجھا کہتے بندی خود ہی رانجھا بن جاتی یے تب شیرین کا آئنہ فرہاد اور فرہاد کا آئنہ.شیریں ...کیا فرق باقی؟ نہیں نا جب دو پرتیں کھلتی ہے تو محمد صلی علیہ والہ وسلم کی حقیقت کھلتی ہے .... حقائق کب کہاں کسی پہ عیاں ہوتے ہیں؟ حقائق انسان کے دل میں ہیں ان کو دریافت کرنا پڑتا ہے .....روح کو ظاہر کیسے سبق دے گا؟ مٹی کے پوست کو مٹی سبق دے سکتی ہے مگر روح کا علم روح سے مشروط ہے ...کون جانے گا اس کو؟ حق تو دل میں ہے؟ حق کے کلمہ نے خون کو رواں کیا ہے! ہمارا عہد، قالو بلی کا، ہمارا لاشعور چلا رہا ہے ...ہم فطرتا نیک ہیں ..جب فطرت نہیں تلاش کریں گے تو جھگڑیں گے، قیل و قال میں پڑیں گے نا!!


''الف'' کا الٹ ''ب'' اور ''ب ''سے نکلی'' پ ،ت'' ۔۔۔۔۔۔۔۔'' الف'' ہمارا قیام ہے ، حالت نماز میں'' قیام ''کی حالت ہمارا عشق ہے اور ''رکوع'' کی حالت میں '' حمد ' کی بات نکلتی ہے ، ہمارا سجدہ ہمارے ''مرکز '' سے ''محبت '' کی گواہی ہے ۔''مرکز'' سے محبت کی گواہی کے بعد ''حالت تشہد'' اس کی فنا میں غرق ہوکے گواہی دینے کا نام ہے ۔ نماز عشق کبھی کسی نے اد ا کی ہے ؟ چُنیدہ لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں ، چُنیدہ لوگ حج کی '' فنا'' میں لوٹنے کے بعد ''بقا'' کو پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ رحمتِ خاص ہے جس کے بار ے میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے

هل جزاء الإحسان إلا الإحسان..

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے ؟ اس نے تم پر کرم کیا تم اس کے بندوں کے لیے رحمت ہوجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔رحمن و رحیم کا یہ مفہوم ہمیں قران پاک کی ہر سورہ میں ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔ذات اُحد نے اپنے بندوں کے لیے رحمت عام کردی اور کچھ پر اس کی عنایت خاص ہوئی ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سیدنا حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم پر کی اور ان کو تمام زمانے کے لیے رحمت العالمین بنا دیا ۔ احسان کے بدلہ دیتے فرماتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔۔اس کی رحیمی و رحمانی بذاتِ خود نعمتیں ہیں
 

نور وجدان

لائبریرین
مریضِ عشق کا حج

عشق کا رنگ میٹھا ہوتا ہے کہ پڑھنے سننے والا درد پر عش عش کر اٹھے. جبکہ مرنے والا خود میں جھوم اٹھے ... ہمت نہیں موجوں کا سامنے کرنے کی ۔۔۔۔!''تو اندر تے چاتی مار سوہنیا ...! رقت ہر کسی کے دل پر طاری نہیں ہوتی، خستگی میں غشی طاری ہوجانے کے باوجود دل میں اس کی یاد ایسے ٹھاٹھیں مارتی ہے جیسے لہر کی لہریں شور مچائیں. سمندر کی اضطرابی کی کیا مجال جو شور مچائے ..سسکیاں شہنائیاں بن جاتی ہیں. اس کا چہرہ ہر درد میں اک نئے روپ اور انداز سے سماتا ہے

اے میرے ہم نشیں!
اے میرے چارہ گر!
یہ درد کی بے کراں وسعتیں ،
یہ چاہتوں کے بے حساب سلسلے،
سمندر میں گُم سمندر ہوچکے !
ان کا گمشدہ وجود وقت کی ریت سے،
اپنی نیلاہٹ پر مشہد و شاہد ہے!
یہ اپنا وجود سمندر کی وسعتوں میں،
نیلگوں کرچکا ہے !
کیاسمندر نیلا میرے رنگ سے ہے؟
اس لیے سمندر کے پاس جانا،
نور کو بہت بھاتا ہے!
یہی سمندر ایک دن مجھے بھی نیلا کردے گا!
یہ نیلاہٹ !
وجود ہجر کو نیا درد ، نیا کیف دے گی!
بعد اس کے ، درد کی
معنویت ، وسعت ختم شد!
جس طرح کائنات کی وسعت ،
رب کے سامنے ختم شد!
تب اداس لمحات نہیں ہوں گے!
تب گرداب تنگ نہیں کریں گے!
تب لکھتے ہوئے ہاتھ نہیں کانپیں گے!
جیسا کہ اب کانپتے ہیں!




میں اس کی تلاش میں گم تھی یا خود میں ، جب میں اس کی بابت کسی اللہ کے بندے سے دریافت کر رہی تھی ۔ اللہ کے بندے نے مجھے کہا کہ تکبیر عشق کی علامت ہے. دل نے تو واویلا کردیا کہ نور تکبیر پڑھ لے. یہ دل بے چارا، محبوب سے کھیلنے کو قربانی مانگے. اس سے خود طلب کرے قربانی! آجا! قربانی کا کھیل کھیلیں ..... تو مجھے آزما ...! میں تیری آزمائش میں کبھی لڑ کے دکھاؤں تو کبھی جھک کے، کبھی مر کے دکھاؤں تو کبھی سر تن کے کلمہ الہ کا پڑھوں، کبھی سر جھکاؤں اور خود میں گُم ہوکے قیس کو تلاش لوں ......

تیرا اضطراب جنون رقصِ قیس نہ بن جائے کہیں ؟
لیلی بنتے بنتے تو مجنوں نہ ہو جائے کہیں ؟


وہ کسی کو دیکھ لے ؟ خود کو دیکھ لو ! وہ تم میں ہے ! ناملے تو ؟ تو سب میں دیکھ لے ! سب کی شبیہ جب اکٹھی کردی جائے ، کائنات کی دوئی ختم ہوجائے تو وہ دکھ جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دوئی کا خاتمہ کیسے کب ہوگے کون جانے ! رب جانے ، کوئی نہ جانے ! ہم خود سے محبت کرتے کرتے سب سے محبت کریں تو شریکے کا احساس جب ختم ہوجائے گا تب وہی ملے گا ۔۔۔۔بلھے شاہ تو جاتے جاتے کہے گئے

مسجد ڈھانوں ، مندر ڈھانویں ۔۔۔۔۔،
پر کسی دے دل نہ ڈھانویں۔۔۔۔،
رب دلاں وچ وسدا ۔۔۔۔۔،



صاحبِ الرحمن نے اپنی بخشش کے بارے میں ذکر قران پاک میں ازخود کردیا ہے ۔ وہ ذات جب عطا کرنے پر آئے تو صاحبو ! زمانے نواز دیتی ہے ۔ بےہنر کو ہنر آشنا کردیتی ہے اور حکمت بھری راہیں سکھاتی ہے کہ بندہ شریعت و طریقت ، ظاہر و باطن میں ایک ہی کیوں ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ شریعت اسلامی بوٹے ،پتے ،ثمر ، پھول ، شاخیں ہیں جبکہ طریقت جڑ ، مٹی ، پانی ، نمکیات اور سورج کی توانائی و روشنی ہے ۔ بندہ ظاہر میں رہے تو قیل و قال میں پڑ جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر باطن کی طرف خالی توجہ ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہب تو بس'' الہ'' سے ہے وہ اپنی'' احدیت ''کا اعلان ہے ۔ ہم جانے کب تک اختلافات میں رہیں گے ! کسی کو چھوت تو کسی کو ذلیل قرار دیں گے ۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ

رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم سے اللہ پاک نے سورہ المائدہ میں فرمایا کہ اے محبوب ہم نے تم پہ دین مکمل کردیا ... تم پہ نعمت مکمل کردی .... کوئی جان سکا وہ نعمت کیا ہے؟ وہ پھل کیا ہے؟ وہ قربانی کا پھل ، جس کا خیال ہابیل کو قابیل سے جدا کرا گیا!جس قربانی کا ''علم'' سیدنا شیث علیہ سلام نے اٹھایا! جس کا بیج سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے دین کی مٹی میں ڈال کے عشق کی زمین کی ابتدا کی .... دلوں کی مٹی میں عشق کے پانی سے ''نمی '' کر دی جاتی اور یہ 'نمی ' عشق کی نعمت، امت محمدی صلی علیہ والہ وسلم پر مکمل کر دی گئی ... اس باعث امت محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں زیادہ تر ارواح ''عشاق روحیں'' ہیں جو کہ اکثر ارواح معرفت کی روشنی اور پہچان رکھتی ہیں یعنی کہ'' عارف'' ہیں ..'' سیدنا حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم نے فرمایا : حسین مجھ سے ہے میں حسین سے ہوں ۔'' آخری نبی کی قربانی کیا سب سے افضل نہ ہوگی ؟ آخری نبی کی آل کیا سب سے افضل نہ ہوگی ؟ آخری نبی جو سب انبیاء پر فضیلت رکھتے ہیں کیا وہ عشق کی اکملیت کا عملی ثبوت نہ دیں گے ؟ قربانیِ حسین علیہ سلام ایسا استعارا ہے جس نے عشق سے عاشق کی لامحدودیت کا بیج بویا ہے اور خود شجر بنتے سایہ دار درخت بن گیا ! امت محمدی صلی علیہ والہ وسلم نے اس سائے تلے قیام کیا ! اس درخت سے نکلنے والی شاخیں وقت کے ساتھ ساتھ تناور ہوتی جاتی ہیں ، سبھی عشاق سیدنا امام حسین علیہ سلام ، عالی مرتبت ، عالی مقام کو مرشد تسلیم کرتے ہیں اور قربان ہونے کو تیار ہوجاتے ہیں امت محمدی'' صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اس ''فضیلت کی مہر ''سیدنا امام حسین علیہ سلام ہیں ...... وہ فضیلت ... وہ دینِ حنیف جس کی بنیاد سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے رکھی ... اس پر سیدنا اسماعیل اور سیدنا ابراہیم علیہ سلام کے عشق کی آزمائش کی گئی ... ابراہیم علیہ سلام ایسی روح ہیں جس نے خالق کو اندر کی یا باطنی روشنی سے پہچانا ننھے اسماعیل کا حال اپنے باپ کے جیسا تھا ....! قربانی اٹھا لی گئی، کعبہ کی بنیاد اک بار پھر رکھی گئی.... وہ قربانی سوال بنتی جناب رسالت مآب صلی علیہ والہ وسلم کی امت کو سیدنا امام عالی مقام کی صورت واضح جواب دے گئی ۔

محمد صلی علیہ والہ وسلم پر دین کی نعمت مکمل ہوتے ارواح میں عشق کو مرشد بنا دیا گیا ..... اس سلسلے میں حضرت سلمان فارسی، حضرت اویس قرنی اور حضرت ابوذر غفاری اور بہت سے ایسے اصحاب ہیں جنہوں نے دلوں کے نور سے / باطنی صلاحیت سے خالق کو پہچانا!'' عشق مرشد'' ہوا اور عاشق نے ''بدن کی قربانی'' دیتے تکبیر پڑھی ....

اللہ اکبر! اللہ اکبر! اللہ اکبر !
لا الہ الا اللہ واللہ اکبر!
اللہ اکبر وللہ الحمد !
اللہ اکبر! اللہ اکبر! اللہ اکبر!
اللہ اکبر کبیرا!
الحمد اللہ کثیرا!
سبحان اللہ بکرۃ واصیلا

عشق شروع ہوا، فنا کے مراحل آن پہنچے .... فانی جسم کی قربانی کے بعد کیا حج بنا؟ حج کی اساس! افسوس لوگو! ہم سب قربانی کے ظاہر پہ چلے گئے ..!.کون جان پایا کہ قربانی کا باطن کیا ہے؟ قربانی عشق کا ''تعامل'' ہے، فنا اس کی ''حصول'' اور بقا اس میں ''منافع'' .... ُاس(رب باری تعالی) نے ہم سے تجارت کرلی ہے ... حج ِبنا قربانی کہاں؟ تم جاؤ! جاؤ کعبہ!! دو قربانی! دو قربانی! لگاؤ پیسے! شہرت کو اپناتے جاؤ! حاجی کا لیبل لگواتے جاؤ! تم جاؤ مگر کبھی خود پہ تکبیر نہ پڑھنا! کبھی خود کو قربان مت کرنا! اسماعیل علیہ سلام نے تو خود کو ''قربان'' کیا تھا، تم نے کیا حج جانے سے پہلے خود کو قربان کیا؟ ابراہیم علیہ سلام نے توتکبیریں پڑھیں تھیں! تم نے خود پر'' اللہ اکبر ''کبھی تکبیریں پڑھیں!

اللہ اکبر! اللہ اکبر! اللہ اکبر!
اللہ اکبر! اللہ اکبر! اللہ اکبر !
لا الہ الا اللہ واللہ اکبر!
اللہ اکبر وللہ الحمد !
اللہ اکبر! اللہ اکبر! اللہ اکبر!
اللہ اکبر کبیرا!
الحمد اللہ کثیرا!
سبحان اللہ بکرۃ واصیلا


لو صاحبو! میں نے آج تکبیریں پڑھ لیں! میں نے کردیا خود کو قربان! میں تیرے قربان ! اب اس کی مرضی ! اس کی ، کس کی ! اس کی ! وہ کون ہے ! میرا مالک ! میرا ہادی ! اس کی مرضی ہے کہوہ مجھے رکھ رکھ کے مارے یا وہ مرا خون بہا بہا کے مارے! وہ مجھ تپتی دھوپ میں چلائے یا مجھ پر تپش ،گھٹن یا طوفان بھیجے ، اسکی مرضی ، مالک کی کہ وہ عذاب پہ عذاب دے اور میرا عشق جانچے! میری تو روح نے اس کا کلمہ پڑھ لیا ہے اور ہر آزمائش پر وہ کہے گی گی

لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ ،حق لا الہ الا اللہ ....

وہ کہے گا تو'' ھو'' بول ...!میں کہوں گی'
یا ھو یا ھو یا ھو یا ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو ...

وہ کہے گا پاؤں سے خون بہا نا! صحرا میں چل نا! میں کہوں گی جو عشق کہے! وہ کہے گا کہ آگ پہ بدن جلا نا... میں کہوں مالک تو جو کہے تو وہ ہی میری مرضی! وہ کہے ... عشاق کے امام سیدنا عالی مقام علیہ سلام ہیں ....! عشاق کے امام کی امامت میں آجا! میں کہوں گی جو حکم مالک تیرا ! تو جو کہے !تو میرا سوہنا یار ہے! تو میرا عشق! میں عاشق.... !وہ کہے گا ''وجود ''کو بھی'' قربان'' کر! روح کو بھٹکا میری یاد میں ، لوگوں میں جھک جا ایسے کہ روح تری ساجد ہو جائے!!! تب تیری نماز ہو جائے گی. ''نماز کی اصل'' تجھے معلوم ہو جائے گی ... تب تو کہے گی

من ترک الصلوۃ متعمد فقد کفر
نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے


میں کہوں، مالک '' سر'' کٹوائے یا ''سرمہ'' بنائے یا کوئلوں پہ لٹائے رکھ رکھ کے مار! مولا رکھ کے مار ...! مجھے رلادے! مجھے گما دے،!مجھے مستیِ ہست میں سلا دے ....! وہ مسکرا کے کہے گا کہ بندی اب تیرا حج ہوگیا!، تو نے جب عملی قربانی میں سرخروئی لے لی ..!خلقت کو بتادے کہ حج کیا ہے ! حج مینڈھے ، بکری ، اونٹ کی قربانی نہیں !! بندو! قصے کا باطن جانو ! کسی بھی بات کے ظاہر پر مت رہو ! ظاہر تو بس لباس ہے ، اصل تو باطن ہے ! تم لباس پر لباس چڑھائے جاؤ مگر کبھی مت سمجھنا کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے ! حج کی اساس سمجھ لو ، میں بھی اگر اس پر عامل ہوگئی تو مجھے کیا چاہیے پھر ؟وہ مری لیے بانہیں نہیں پھیلائے گا ؟اور کہے گا نہیں کہ تو میری ہوگئی!!!

مریضِ عشق کا حج کیا ہے؟
قربانی کی اصل کیا ہے؟
تن لٹایے سربازار ، من میں ڈوب جایے
میخانے میں جایے ! میخانہ لٹایے !
مستی میں رہیے، پر ہستی نہ کھویے!
خود میں رہ کے بھی خود میں نہ رہیے!
سر کٹایے ! مشہد میں بار بار جایے !
تاجدار مانیے حسین کو اور عشق کیجیئے
سانس باقی ہے جتنی ! سانس باقی ہے کتنی ؟
دھواں دھواں ہستی ہوجائے، سو بار مریے
محبوب کے آگے ہمہ وقت جھکیے
اسی کے تصور خیال میں ہمہ وقت رہیے
قربانی کو کچھ ادا کیجے !
حج کرنے کو جانے سے پہلے حاجیو!
نماز عشق پڑھیے ! تکبیرِ نفسی پڑھیے !
ہست و بود کی مستی میں رہیے !
تم جان گئے حج کیا ہے ؟
تکمیلِ دین ہے حج !
شرافتِ قرین ہے حج!
احسان کا بدلہ احسان ہے حج !
نعمتوں کی انتہا ہے حج !
ہستی کی فنا بھی ہے حج!
ہستی کی بقا بھی ہے حج !
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

پرواز

کبھی کبھی ہمارا درد ، اضطراب ایک مجسم صورت ڈھال لیتا ہے . ہمیں ایسی وادی کی سیر کراتا ہے جہاں پر ہم اپنے وجود کے لاتعداد
حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں . تب جاکے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کائنات کی دوئی کبھی ختم نہیں ہوسکتی . یہ سفر اس کائنات کے زوال پر ختم ہوگا . اسی لیے دل کے اندر کائنا ت سما جاتی ہے . میرے اندر سے کئی آدمی ، عورتیں ، بچے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں . یہ سب اپنی اپنی صفات رکھتے ہیں . کوئی خوشیاں مناتی مستی میں رہتی ہے تو کوئی ہجر کے غم میں لیر لیر ہوجاتا ہے . وہیں میرے جیسی درد کی متلاشی ہمزاد روحیں مزید بکھروں ، حصوں میں منقسم ہوجاتی ہیں .میں دور بیٹھے ان سب پرنظر رکھتی ہوں . یہ سب میری نگاہ سے اوجھل ہوتے ہوئے اوجھل نہیں ہے . یہ روحیں براہ راست اپنا حال بیان بنا بھی بیان کرتی ہیں .

پرانے برگد کے پیڑ تلے قبر پر ماتم کناں فاتحہ پڑھنے میں مصروف تھی . میرے دکھ کی تحریر کالے سیاہ دھواں کی شکل لیے مجھ سے نکلی اور پاس اک قبر پر جا کے آہ و فُغاں شروع کردی . لامتناہی درد کی بوچھاڑ پے در پے وجود کو منقسم کرنے پر تلے تھی . اس تقسیم کا مقابلہ ازل سے ہر ہستی کرتی آئی ہے . ہر روح جلتی آئی ہے . اس جلن کا دھواں آنسو بن کے نکلتا ہے تو کبھی ذات کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے .میں اپنے گرد ذاتوں کی تقسیم پر حیران ہونے کو تھی کہ میری ہم شکل صورتیں کہیں قبروں میں تو کہیں تحلیل ہوتے دھواں میں رقص کرتی دکھ رہی تھی .میری آنکھیں آنسوؤں کی خاموش تسبیح میں مصروف تھیں . میرا وجود آگ سے جل رہا تھا . جب کپڑا مکمل جل جائے تو راکھ بکھر جاتی ہے .مجھے پانی میں بگھو بگھو کے جلایا گیا ہے . دکھ کا ، یاس کا پانی جس نے میری آنکھوں سے بینائی چھین لی ہے . میں آرام سے گرم گرم آگ کی تپش کو برداشت کرتے خود سے وقفے وقفے سے خود سے بچھڑتے دیکھ رہی تھی . ہر دھواں اپنی اپنی قبر پر جاکے ماتم شروع کرتا ہے . لوگ کہتے ہیں کہ اجل کا سامنا ایک دفعہ ہوتا ہے جبکہ ہر گھڑی موت کا پیالہ زہر سمجھ کے پیا ہے کہ شاید مکمل موت مجھے تھام لے

میں برگد کے درخت سے ٹیک لگائے ان سب کو دیکھے جاتی ہوں کہ اچانک سیاہ لباس میں وجود حاضر ہوتا ہے . میری توجہ پاتے ہی جنازے کی اطلاع دی جاتی ہے .میرے مٹھی بند ہاتھ سے ریت پھسل کے پاس پڑی قبر سے ملنا شروع ہوتی ہے

اندر کتنے غم سائیں
اندر تیرے غم سائیں
غم کی برسات کر سائیں
اب تو نڈھال کر سائیں
اندر کتنے غم ہوں سائیں
دے دے اپنا آپ سائیں
لے لے میری ذات سائیں


اگربتی ساتھ لیتے جاؤ .. میں اس مخاطب ہوتی ہوں
آج محبوب نے آنا ہے.گلاب کے پھول بھی لے آنا.سجا دینا مٹی کو .. اس کو پسند ہیں ..!
وہ سرجھکائے کھڑا اثبات میں سر ہلا دیتا ہے

ہم فضا میں پرواز کرنے لگتے ہیں ...ایک فضا سے دوسری فضا، ایک آسمان سے دوسرے آسمان . ہم زمیں پر رہتے ہیں ، زمین پر بیٹھے ہیں مگر ہماری نظر ہرجگہ پر ہے ، اپنے اندر کے آسمان سے اپنے اندر کی زمین تک ....ہماری نظر ایسی وادی پر لگا دی جاتی ہے جہاں پر سیاہ لباس میں ارواح رقص میں مصروف ہے ان کے مرکز میں میرے یار کا جنازہ ہے .

ایک سیاہ نقاب پوش مجھے دیکھ کے بھاگنے لگا . اس کا تعاقب کیے بنا اسے جالیا اور ساتھ ہی اس مجلس میں شامل ہوگئی . جوں جوں روح جلتی ہے ، راکھ سلامت رہتی ہے اور آگ بھی سلامت رہتی ہے . مجھے ابھی مزید جلنا تھا کیونکہ میرے وجود میں ''میں '' کے سپید ٹکرے کہیں کہیں دکھ رہے تھے ان کی سیاہی میں بدلنے کی دیر تھی .جوں ہی جوش مسرت میں رقص شروع کیا ،مزید وجود نکلنا شروع ہوگئے . اتنے زیادہ وجود کہ تا حد نگاہ سب سیاہ لباس میں وجود بکھر گئے .........کالا سب اڑ گیا ، باقی سفید رہ گیا ....... وہ بھی سلامت نہ رہا ، روح یک دم اوپر کی جانب اٹھی اور آسمانوں میں غائب ہوگئی​
 

نور وجدان

لائبریرین


درد سوا کردے اب

وہ حبییب زمانی ! اس نے کہا نور میرے ساتھ رہا کر ! میں اس کی پہلے سی تھی مگر آنکھ کی نمی بڑھا دی ! اس نے کہا نور عشق تیرا ہے ، تو مریض ہے ، تو محبوب ہے ، درد بڑھا دوں ؟ میں نے کہا کہ تو،تو ہے میں تیری ہوئی تو جیسے تو رکھے مجھے راضی ، سرجھکا کے نیزے پر چڑھا یا نفی میں گم کرتے اثبات کرااور سر کٹوا دے ! مجھے تیرے ہونے نے کمال کی بلندی عطا کردی ہے ! اس نے کہا کہ تو نے میری جستجو کیوں ختم کردی ! میں نے کہا میں نے خود کو ختم کردیا ! سب نفی ہوگیا اور کیا جستجو کروں ! اس نے کہا چل میرا طواف کر ! میں نے کہا اس سے کبھی فرصت نہیں ملی ہے ! وہ کہتا رہا کہ نور تو میری ہے اور میرے روح نے چیخ ماری ۔۔۔میرے درد میں لامتناہیت شامل کردی گئی ! ہائے ! ہائے ! کہاں جاؤں ! کس سے کہوں میں درد کی کہانی ! یہ سمجھ کسی کو آنا نہیں ! جس کو آنا ہے ،اس نے سننا نہیں ! وہ کہتا ہے میں تجھے بھگو بھگو کے ماروں یا ذرہ ذرہ نڈھال کردوں ،تجھے فرق پڑے گا !میں کہتی ہوں کہ میرے محبوب ! قسم ہے تیری ذات کی فرق پڑے گا ، میرے ہر ذرے کو نور دے دے ، اس کے لامتناہی ٹکرے کر ، اِن کو رلا رلا کے ، تپش دے دےکے مار ! ان کو دھوپ دے مگر ابر نہ دیوں مالک ! ان کا عشق بڑھائیں مالک ! میرے ہر ذرے کو عشق میں دے دے نا ! مجھے فرق نہیں پڑے گا ! میں نے تجھ سے تجھے مانگا ہے نا مالک ! دنیا والے تو دنیا مانگتے ہیں ، عشق والے تجھ سے وصل مانگتے ہیں میں نے تجھ سے ہجر مانگا ہے کیونکہ جو ہجر تیرے پاس ہے وہی لینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی سہنا ہے ! وہی لیتے لیتے، مرتے مرتے تیرے پاس آنا ہے ۔مجھے خود میں گمادے ، اپنی ولایت عطا کردے ! میں تو ،تو میں ! کیا فرق ہے مالک! تو میرا ہے میں تیری ہوں !

اندر بڑی آگ ہے سائیں !
اندر بڑی تڑپن ہے سائیں !
اندر سب نیلا ہے !
نیلاہٹ اور دے دے نا !
مجھے نیل و نیل کردے نا !
اندر روتا ہے ہر پل ،
عطائے بے حساب کردے نا !
مجھے اضطراب کی انتہا دے دے !
کھوٹ دل سے نکال دے !
دل میں اپنے سوا تو کچھ بھی نہ رکھ !
دل میں تیرے سوا کوئی بھی نہ ہو!

تیری ذات بڑی بے نیاز ہے ۔مجھ جیسی ذات کی ذلیل و کمینگی میں پھنسی کو اپنے عشق کی دولت سے نواز دیا ۔میں کیسے ے بتاؤں دنیا والوں کو ۔میں اب ذلیل نہیں ہوں ۔''تو جسے چاہے ذلت دیتا ہے ،تو جس چاہے عزت دیتا ہے '' میں ذلت و رسوائی کا تاج پہنے ہوئے مگر میرے سر پر تاجِ بے نیازی ہے ۔مجھے عشق کی خلافت کا میں بادشاہی دی گئی ہے ۔ لوگو ! تم کیا جانو ! مجھ پر کرم کی انتہا ہوگئی ہے ۔ اس نے مجھے اپنا دوست کرلیا ہے ۔ وہ جب خوش ہوتا ہے نا مجھ سے !!! میرے اندر انہونی خوشی کی لہریں پھیلا دیتا ہے اور پھر سمندر شور بھی کرے نا تو اچھا لگتا ہے ۔اس شور کی آواز میں موسیقی سنو ! یہ آواز دیتا ہے تو میں لکھتی ہوں ،یہ مجھے نغمہ دیتا ہے میں سر بناتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ ! کون جانے محبت کا درد ! کون جانے عشق کے ہجر کی لذت ! جو جان جائے اس کو درد کی شدت میں ،جلن میں ایسا مزہ ملتا ہے کہ درد ہی اس کے لیے عید ہوجاتا ہے

تو شہ یار ہے
تو ابرار ہے
تو پالنہار ہے
میں قلم تیری
تو میرا علم ہے
میں عاشق تیری
تو میرا عشق ہے
میں تجھے چاہتی ہوں
یا تو مجھے چاہتا ہے
کیہ فرق کراں مولا!
کیہڑا فرق تو جانڑاں
مجبوریاں دا ایہہ ویلا
یار دے سنگ منانا
اندر تیڈھی کائنات
وار وی تیڈھی کائنات
تو کیہڑا میرے توں دور
میں تیڈی یاد وچ مخمور
اندر کتنے غم سائیں
اندر تیرے غم سائیں



زندگی نے مجھے یار کے پاس چھوڑ دیا ۔ میں یار کے سامنے مدہوش ہوں مگر دنیا کے سامنے میرا لباس لہولہان ہے ۔ یہ عشق بیانی میرے رقص کی داستان ہے ۔اس درد کا بیان کیسے ہو ۔ میری ذات کو بسمل بنادیا ہے ۔۔۔ تڑپ رہی ہوں مگر میرے زبان اس کو پکار رہی ہے ۔۔

اے عشق ! سر جھکا ہے
اے عشق ! وہ ملا ہے
اے عشق ! رقص بسمل کر
اے عشق ! آگ پر چل لے


میٹھا درد سہانا ہے ۔ آہ نکلتی ہے نا ہائے ! بس جی چاہتا ہے میں عشق ، عشق کہوں ۔۔مجھے عشق ہوگیا ہے ۔۔۔میں اس کی ہونے چلی ہے ، اندر شادی کی کیفیت ہے ۔ میری زنجیر اس کے ہاتھ ہے ، اس نے اب زنجیر اپنی جانب کھینچ لی ہے ! وہ کھینچتا جارہا ہے اور مسرت سے دل تلخی سے بھرتا جاتا ہے ۔

عشق حلاوت میں کڑواہٹ ہے ۔
عشق کڑواہٹ میں حلاوت ہے
عشق خون ریزی کی علامت ہے
عشق ، عاشق کی جلالت ہے
رقص بسمل کر اور چل جا'' زمانے''
لٹا دے خاک پھر پھر پاس میرے


ہم کو پاس بلاتا ہے اور پھر بھیجتا ہے ! وہ کیسا یار ہے جس کو ہم محبوب بھی ہیں ، ہمیں بلاتا ہے مگر پھر ہم کو امتحان میں واپس بھیج دیتا ہے​
 

نور وجدان

لائبریرین

کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
ایک بادل کے کئی ٹکرے ہیں
ہر ٹکرا پھر ایک بادل ہے
اور ہر بادل کے پاس آسمان ہے
سیلاب بہتا رہا یہاں وہاں
لوگ سمجھتے رہے مکاں بہا ہے
میں کہتی سب خاک خاک ہوگیا
جو دنیا درد سمجھ رہی ہے
اس کو میں نے ہنس کے پینا
جو درد مجھے ملا ہے
اس کو کوئی نہیں جانا
میرا اندر خالی ہے
اس میں کون سمانا
اس رمز کو وہ جانا
جس کے پاس سب نے جانا
یہ دنیا بڑی بے مایا
کون یہاں پر چھایا
ہم نے بوریا سنبھالا
سمجھا کہ روگ پالا
ہم ہوتے روگی تو اچھا ہوتا!
بنتے ہم جوگی تو اچھا ہوتا!
یہ دنیا بڑی بے ثمر ہے
میرا پاؤں اس کی نظر ہے
میں کیا کہوں جواب میں،
کچھ نہیں اس کتاب میں،
دل درد کے لکھ نہ پائے گا!
یہ درد کیا کون سمجھ پائے گا!
جو سمجھے وہ چپ رہ جائے گا!
جو نہ سمجھے وہ مجھے تڑپائے گا!
میں نے کہا بڑا برا کردیا!
ڈ رتو میری نظر سے گر گیا ہے
میرا تعصب مجھے کھا گیا!
میری حرص نے دغا دیا!
میری آنکھ میں ریا کاری،
دل !دل شرم سے عاری،
کیسے ہو دور اب گنہ گاری؟
ہم کو اُس دنیا جانا ہے!
جہاں انسان بستے ہوں!
وہاں مکان گر جانے سے،
کوئی فرق نہ پڑتا ہو!
دلوں میں چراغ جلتے ہوں!
ان چراغوں کی لو سے،
خود کو جلا جانا ہے،
ہم کو اس دنیا میں جانا ہے!
جہاں سے روشنی بن کے نور،
ذات کو نور کردے،
میرے من کے اندھیروں کو
دور کردے ۔۔۔!
اندھیرا دور ہوجانے کے بعد
ہمیں سب سمجھ آئے گا!
اب کہ کوئی سوال نہ ہو،
یاس کو اب جواز نہیں!
درد کا اب حساب نہیں!
یہ مجاز کی رمز کی بات نہیں!
جل کے مرنا اس میں پیاس نہیں!
غلطی سے دل کی بات لکھی!
اس کی سزا میں نے چکھی!
مجھے معاف احباب کردو،
میرے الفاظ میں ندامت ہے
ان کو اب نظر انداز کردو
یہ سمجھ ، وہ سمجھ اور نہ سمجھی!
سمجھ کر بھی جہاں میں نہ سمجھی!
دنیا میں آتے جاتے رہیے
آنے جانا ایک میلا ہے
کون اس دنیا میں اکیلا ہے
وہ ذات جو کمال حق ہے
وہ نصیب کی بات ہے

یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے


دوستو! عشق کا تحفہ بڑی چیز ہے. جس کو اس سے نوازا جاتا ہے اس پہ اک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ محبوب کے رخ کا پردہ بڑی شان سے اٹھاتا ہے ... جس کو اجازت حجاب اٹھانے کی دی جاتی ہے، اس کو حجاب کے اندر داخل ہونے دیا جاتا ہے. کائنات کی دوئی ہجر کی اساس ہے اور وصل کی شراب عاشق کو دے دی جاتا . "لا " کی تسبیح تھما دی جاتی ہے

لفظوں کو اظہار دیجیے
ان سے بے حد پیار کیجیے
خالق کی نشانی ہیں لفظ
حقیقت کی ترجمانی ہیں لفظ


اک در بند ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی. وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ پیغام اجل! و وہی دے سکتا
ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی. اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا، فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح! آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے ....

میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے


بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت! دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !. سب خزانے ہیچ ..

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے
قلم! قلم کی قسم! قلم کی عطا
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے
!وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
!وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی ہے
وہ وہ ہے جس کے در کی دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے
دیکھ! میری گالوں میں سرخی، ہونٹوں پہ لالی ہے
میں اس کی ہستی کی مست حالی ہوں
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے



مرض مجھے ملا یے اور میں مریض عشق ہوں..جس کو عشق میں جلنا ہو تو خود کو آگ پہ جلتا محسوس کرے. وہ آگ ٹھنڈی ہو جائے گی جبکہ اندر کی آگ تو بھڑک اٹھے گی ..اے دل والو! اندر کی آگ بھڑک رہی اور وہ جو دور ہے وہی قریب ہے. وہی جو قریب ہے وہی نصیب ہے اور جو نصیب ہے وہی حبیب ہے جو حبیب ہے وہ میرا جلیل ہے
وہی جو جلیل ہے وہ خلیل ہے. جو خلیل ہے وہ اسماعیل ہے. جو اسماعیل ہے وہی کلیم ہے جو کلیم ہے وہی روح ہے۔ جو عشق ہے اس کے انداز تو نرالے ہیں ،محمدﷺ کی صورت میں عشق مکمل ہے


محمدﷺ میں تیری حکمت مکمل
بصورتِ بشر میں وہ تیرا تجمل


محمدﷺ کی ذات کے نور سے امت محمدیﷺ کو فیض حاصل ہوا ہے کہ وہ ان کا آئنہ بن سکیں ۔ حق ً! یہ واقعتا ! نصیب کی بات ہے کہ ہم انہی کی امت ہیں ۔ ان کا ہونا ، ان کی محفل میں رہنا بڑی قسمت کی بات ہے ۔۔امت محمدیﷺ میں بھی چنیدہ لوگ اس بات کے لیے انتخاب کیے گئے ۔تشنگی کا صحرا ، پیاس کے ابر میں ان کی پرورش کی گئی ۔ان پر ان کی نسبت سے فقر کو زندگی کا خاص تحفہ دیا گیا ۔ آزمائش کے واسطے پہل ان کے خاندان سے ہوگئی ۔ ان کا خاندان وسعت میں امت محمدی ہے ، اور حد میں عشاق کا قافلہ اس میں شامل ہے ۔سیدنا امام حسین علیہ سلام اس کے امام ہیں جن کو نسبت سیدنا حضرت علی رض سے بھی ہے اور جن کو نسبت سیدنا محمدﷺ سے بھی ہیں ۔ ان کی امامت میں چلنے والے حق کا نور ، دل کا سرور ہوتے ہیں ۔ وہ خاص لوگ دنیا کے لیے تحفہ ہیں ،ان کی ذات کی تشنگی کا سامان بھی تشنگی ہے ۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
رنگ پردیسی کو کیسے کیسے ملے ؟

رنگ پردیسی کو مل گئے
پرواز کو پر اب مل گئے
سج دھج کرکے اڑنا ہے
راج اب فضا میں کرنا ہے
لڑنا ،جھگڑنا لڑ لڑ کے منانا
ستم سہنے کا نیا طرز چلانا
وچھوڑے دا غم جاندا نہیں
کسی ویلے بس ہن رہندا نہیں
ماں تُوں دوری بڑا ستاندی اے
اکھیاں ہن نہراں وگاندیاں نیں
غم دی گل کریندے گل مک جانی
مٹی وچ مٹی ایویں ای مل جانی

اس کی ذات جلوہ گر ہے ۔ نور محمد کے سکون بخش سر فضاؤں میں بکھر رہے ہیں ۔ اور میں مسافر ، مسافروں کے سامنے رقص کیے جارہی ہوں ۔
ظاہر سے لگے ہے کہ میں ہوش کھوئے جارہی ہوں ۔ میرے یار کی بخشش مجھے مدہوش کیے جا رہی ہے ۔
اس نے سدھ بدھ مجھے دے کر میرے سارے بے کل سوتے اپنے پاس رکھ لیے ہیں ۔ سبھی تاروں کو اکٹھا ملائے جارہا ہے اور اپنے ذکر کی مالا پروئے جارہا ہے ۔
مجھے وہ وحدت کی راہ دکھائے جارہا ہے ۔میں تو ہواؤں کی بستیوں میں گم ہوتی جارہی ہوں میری ذات دھواں دھوان ہوتی جارہی ہے ۔
میرے یار کی تجلی بڑی میٹھی ہوتی ہے ، سکون بخشتی ہے ایسا کہ دل گداز سے بھر جاتا ہے اور آنکھ نم ہوتے بھی نم نہیں رہتی ،
ملن کا احساس لہریں لینے لگتا ہے کہ انجانی کشش خوشی کی لہریں بہاتی ہیں ۔
حق ! محمد محمد ! حق ! علی علی ! حق ! حسین ! حسین ! حق ! حسن ! حسن ! حق ! فاطمہ ! فاطمہ ! حق ! عائشہ عائشہ! حق ! خدیجہ ! خدیجہ ! حق ! مریم ! مریم !
اتنا کرم ہوگیا مجھ پر ! ان سب کا سایہ مجھے مل گیا ! مجھے ان کا سایہ مل گیا ! ان کی روحیں جیسے میری روح سے مل گئی ہیں !
میں کیا جانوں کیسے ملن ہورہا مگر میں مل رہی ہوں ! جانے کیسے ! جانے کہاں ! جانے لا مکانی میں ! جانے کہاں کس نگر میں ہوں مگر سب میرے دل میں ہیں !
سب کچھ دل میں ہورہا ہے ! ساری کائنات تو میرے دل میں ہے ۔
حق ! حق! یا علی ! یا علی ! یا علی ! یا علی ! یا علی ! یا علی ! حق یا حسین ! یا حسین ! حق ! یا حسین ! حق ! یا حسین
ان کی نظرکرم مجھ پر رہے یا مالک دوجہاں ہمیشہ تا ابد ۔
حق ! حق ! لوگو ! مجھ پر کرم ہوگیا ! میری آنکھ نم ہے کہ اس سے بڑا کیا کرم ہوگا ! اس سے بڑی کیا رحمت ہوگی !
سنو ! کوئی رحمت اتنی زیادہ نہیں جتنی مجھ پر ہوئی !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !
اے صدیق اکبر ! سلام ! اے سیدنا صدیق اکبر سلام ! اے صدیق اسلام ! اے دین محمدی کے غم خوار ! سلام ! آپ کو سلام ! قبول کیجئے سلام !
حق ھو ! حق ھو !
اے سیدنا عثمان ! اے نرم خو ! اے عالی مرتبت! سلام ! سلام ! سلام! سلام! اے جلال بادشاہ ! سلام ! سلام !
یا عمر عزیزی یا عمر عزیزم ! اے میرے ہم نشین ! اے میرے عزیزم سلام ! سلام میرے دل ! سلام میرے رہبر! سلام اے جلال بادشاہ !
اے میرے پادشاہ ! سلام ! اے بادشاہ گر ! سلام ! قبول کیجے میرا سلام ! اے سردار سخا ! اے امین الامت ! سلام ! سلام !
اے میرے طلحہ ! تیری قربانیوں کو سلام !
اے میرے دلبر ! اویس ! سلام !! سلام! سلام ! یا سید الفقراء یا حیبیب کبریاء سلام یا اویس سلام !
اے حبشیوں کے سردار سلام ! سلام اے خوش الحان عبد ! سلام ! سلام سلام ! ا
اے علی ! شاہ مرداں! شیر یزداں ! اے باب العلم ! اے علی ! سلام ! سلام سلام ! مجھ غلام کو اپنی غلامی میں قبول کیجئے !
اے سیدنا ابرار عالیجاہ ! میں کیسے کروں اس کرم کا شکر ادا ۔ آپ کی ہوئی نگاہ اس محفل مقدس کی نیک ارواح کے درمیان مجھے حاضری کی سعادت سے نوازا!
میرا سر آپ کے قدموں میں ہے ! میری روح مکمل آپ کی اطاعت میں ہے ! اس اطاعت کو اپنی رحمت سے دوگنا کرتے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیں !
آپ کی رحمت سے بندی چل رہی ہے ! اے میری جان ! اے میرے دل ! اے میرےحضور ! اے عالی مقام ! میں کیا بیان کروں آپ کا مقام !
اے عالیشان! اے عالی نسب ! مجھے اپنے ساتھ لگا لیجے! اپ سے نسبت بڑی سچی ہے ! مجھے آپ کے محبوب سے سچی محبت ہے !
حق ھو ! حق ھو !
سلام ! اے خلیل اللہ! سلام اے خلیل اللہ ! اے شہنشاہ الانیباء ! میرے آقا کے جد ! اپ کو بے حد سلام !
اے میرے موسی ! اے سچے کلام کرنے والے ! اے جمیل عالی انسان ! اے نبیوں میں لاڈلے نبی ! سلام ! سلام ! سلام ! سلام!
اے میرے عیسی ! اے میرے عیسی ! اے میری روح ! اے میرے دل ! اے میری جان ! اے میری جان! سلام ! سلام ! سلام ! سلام!
اے یحیی ! سلام ! سلام ! اے سچے غم خوار سلام ! اے سید البشر ! آپ کے مسکراتے سد ابہار چہرے پر سلام ! ! سلام !
اے میری اماں حوا ! اے میری ماں ! سلام! سلام ! اے میری عظیم ماں ! سلام ! قبول کیجئے سلام ! سلام
اے سردار و ہادی ! اے شیث علیہ سلام ! آپ کو میرا سلام ! سلام ! سلام ! سلام ! سلام!
اے اللہ کے منتخب بندو اے اللہ کے اطاعت گزارو تم سب پر میرا سلام ! سلام ! سلام ! سلام!
میری روح خوشی سے نکلنے کو بے قرار ہے ! مولا کیسا کرم کردیا ! میں اس قابل تو نہ تھی !
اے مالک ! میری ذات بڑی چھوٹی تھی ! بڑی پست تھی ! مین ذلیل تھی ! مجھے کتنا اونچا کردیا !
اللہ جی ! اللہ جی ! مجھے اونچا کردیا ! اللہ جی مجھے عالی کردیا ! اللہ جی ! مجھے کتنا عالی کردیا !
اللہ جی ! اللہ جی !حق مالک ! تو ہی تو ! حق ھو

مصور ابھی ترتیب میں لا رہا ہے
آئینہ کو آئینہ میں لگا رہا ہے
جمیل کو جمال میں سجا رہا ہے
کمال کو کمال سے ملا رہا ہے
مرضی کا جلال دیے جارہا ہے
مصور ابھی ترتیب میں لا رہا ہے

لکھتے لکھتے ہاتھ رک سا جاتا ہے
سچ کو سچ مانتے دل کانپ جاتا ہے
حقیقت کو پاکر لرز سی اٹھی ہوں
کیا لکھ رہی ہوں ، حیران ہو گئی ہوں
لکھ کے خود بھی حیران ہوں
روح کو کیسی کیسی نسبت ملی ہے
میں اپنی راہ چننے نکلی تھی
میری روح نے مجھے خبر دی
مجھے ہے خاتم الانبیاء سے بیعت
مجھے ان کے اتباع میں رہنا ہے
خدمت انساں میں محو رہنا ہے
میرا دل علی کے پاس ہے
میرا نور حسین کے پاس ہے
میں حسینی چراغ ہوں
مجھے عشق فاطمہ سے ہے
مجھے عشق عائشہ سے ہے
مجھے عشق خدیجہ سے ہے
میرا عشق علی ہے
میرا عشق عمر ہے
میرا عشق صدیق ہے
میرا عشق عثمان ہے
میں ان کے رنگوں کو پانا چاہتی ہوں

مجھے حیا کا پاس فاطمہ سے ملا
مجھے تقدس کا خیال مریم سے ہوا
مجھے ماں کا احساس اماں حوا نے دیا
مجھے حسن کا احساس عائشہ سےہوا
ہائے! کن کن کی مجھ پر نظر ہے
کس کس احساس نے رنگ دیا ہے
یہ بڑے کرم کے فیصلے ہیں
یہ بڑی نصیب کی بات ہے
میں لکھتے لکھے حیرت کناں ہوں
میرے ہاتھ کی لرزش مدھم مدھم ہے
میری روح کا احساس بے حد نرم ہے
جمال کا سایہ مجھ پر ہوگیا ہے
میرے حبیب شہِ ابرار کی نظر مجھ پر ہوئی
ان کی تجلی کے کمال سے لکھ رہی ہوں
پر لطیف سا احساس ہے
ہر شے رک سی رہی ہے
ہر شے میٹھی سی ہے ،
دل میں میٹھا میٹھا نشہ سا ہے
ابھی تو اس کی ابتدا ہے
جامِ جم کا موسم چل رہا ہے
جمال ، جلال کا موسم چلا ہے
بہار کے موسم میں تجلی کی برسات
خوشی کا جاوداں احساس پالیا ہے
میں اس کے نشے میں گم !
کیا بتاؤں محبت کا خمار !
عجب سا لطف سرشار رکھے
رگ و پے میں پیار سرائیت کرے
یہ احساس نور کی ترجمانی ہے
نور کا احساس میری بیانی ہے​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
حق حق میں کریندی جانواں
ھو ! ھو ! ھو !
دل دیاں گلاں دسدی جانواں
ھو ! ھو ! ھو!
نور نیں تے ہن جاناں طور ول!
ویکھن کتھے بوہتا اے جل تھل!
طور نیں ویکھدیاں نور نوں سجدہ کرنا
تینوں تے حق نے احسن خلق اے کیتا
تسبیح کر دیاں طور نیں جد اے کہنا
نور کی ویکھے گی طور دی جل تھل
ھو! ھو !ھو !
گُلابی چولا جد دا میں پایا اے
اتھرواں اکھاں اچ لا لتے نیں بند
وصل نیں مینوں لایا اے نوا چنگ
یار میرا کھچی جاندا اے سارے تاگے
یار سچا دیندا ہن دل اچ بانگاں
ھو ! ھو ! ھو

ایہہ دنیا ست دناں دا میلا اے
مٹی نے فر مٹی اچ رَل جانا اے
سچ ول ٹردی ٹردی آپے سچی ہوئی
''میں میں '' کریندی ذات سی کھوئی
سونچی پئی بالدی ساں آہاں دا بالن
فکراں میں کیہڑیاں لگی ساں پالن
ہواں گی میں وی اک دن سہاگن
ٹر پئی آں سوہا لال جوڑا میں پاون
نچ نچ کے یار مناؤں دا ویلا اے
نویاں پیڑاں اٹھن بت دے اندر
یار سوہنے دے سنگ چلن دا ویلا اے
یار میرا ہن باگاں میریاں کھچے گا
کُھم کُھم جاون گیاں دل دیاں پھرکیاں
ھو ! ھو ! ھو
حق دا کلمہ پڑھدیاں عاشق بنندی جاندی اے !
حق دا کلمہ بت دے وچوں کلام وی کردا اے
یار نال مل میں دیندی آں حق دیاں بانگاں
حق نے اندر لایا اے جد دا ڈیرا اندر ہویا اے سویرا
ھو! ھو! ھو !
اونہوں منان لئی ذکر اودھے یار دا کریندی آں !
عطر تے گلاباں دی خوشبواں مینوں دیندیاں مستیاں !
یار دے یار نال میں لا لئیاں یاریاں !
آپے نوں ویکھ ویکھ کے ٹھردی پھراں !
جیبھ میری جد دی ذکر حق نال تر رہندی اے
روح میری محبوب دی گلاں وچ ڈبی رہندی اے
دل کملا فیر وی دئی جاندا یار نوں واجاں
دل کملے اچ ہن بس یار دیاں تانگاں
دل میرا ہن اے کھلدے گلاب وانگر
انگ انگ میرا ہن دتی جاندا اے بانگاں
چار چفیرے میرے اوہدے ای رنگ
جیویں قران وچ سچیاں چار کتاباں
ھو ! ھو ! ھو!
شاہِ ہادی خالی ہتھ کدی نئیں موڑدا
نور و نور ایس نگر دے وچ ہوئی آں
حق حق حق ھو ! ھو ! ھو!
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین


علمُ البیاں کی نعمت ملی ہے
حمد و ثنا کی دولت ملی ہے
شاہِ ِ مدینہ کی بات جب کی
آنکھیں نمیدہ میری ہوئی ہیں
خورشیدیت بخشی نورؔ کو ہے
میدِ سحر کا میں ہوں ستارہ
تخلیق میری کی صورتِ عبد
ہوں اس کی پہچاں کا استعارہ
اس کی تجلی نے دی ہے پاکی
پل پل نئی ہے اب اضطرابی
اس نے نظر بھر کے جب تھا دیکھا
قرباں تجلی میں ہونا چاہا
ظاہر میں باطن میں اس کا جلوہ
اپنی ولا میں گم کر ہے ڈالا

.

بڑے لوگ کہتے ہیں کہ لکھنا ایک اذیت ہے ۔ انسان درد کی پُل صراط سے گزرتا رہتا ہے مگر یہ نعمت کسی دولت سے کم نہیں۔ جس کو یہ نصیب ہوجائے تو زبان پر شکر کا کلمہ رواں رہتا ہے اور اعمال کی تمثیل ''الحمد اللہ '' کی شکل ملتی ہے ۔تاریخ بتاتی ہے کہ عِلم البیان کی نعمت بذات خود نعمتِ عظما ہے جس کی لذت سے ہستی دودِ چراغ بن جاتی ہے ۔ زندگی کو لکھنا پل پل جینے مرنے کا سنگم ہے ۔ پہلِ پہل تو اس ڈر میں ڈوبی رہی کہ عطائے ایزدی کہیں چھن نہ جائے ! اس عطا کی عطا پر یقین کے بعد زندگی کے سبھی دکھ ہیچ لگنے لگے ہیں ۔ یقین مانو ! تو نعمتِ عظماء کے بعد دیگر نعمتوں کی وقعت کیا ہوسکتی ہے ۔ میری ہستی کا دُکھ یہی الفاظ بہتر جان سکتے ہیں جب مجھ پر یہ وارد ہوتے ہیں ۔ ہجرت کی ماری روح وصل و ہجر کی بین بین کیفیت میں معلق ہوتے تڑپنے میں مزہ لیتی ہے جس طرح بسمل کو دمِ رخصت دیدارِ یار میسر ہوجائے ! اس خوشی کی جستجو میں درد کے بیکراں وسعتوں کے سمندر کو پار کرنے کا حوصلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ وہ ڈر ! احساس ! قلم چھن جانے کا احساس !!! واہمہ ، قلم سے رشتہ ٹوٹ نہ جائے ، آنکھوں میں اس غم کا سیلاب روح نے دیکھا ہے ۔ ایسا رونا نظر کہاں آتا ہے ! یہ روح کی تڑپن ہے ۔ روح جب گردش میں ہوتی ہے تو بس یار کے علاوہ سب بھول جاتی ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ آنسوؤں کے سمندر بھی ! اس تشنگی سے من میں سوالات کے پرچے کو کون حل کرے ؟


میری منزل کیا ہوگی ؟
میں جو حاصل کرنا چاہتی مجھے ملے گا؟
یقین کی حالت ڈگمگاتی کیوں ہے ؟
میں اتنی بے چین کیوں ؟

چند ماہ قبل یہی کشمکش بے چینی برپا کیے رکھتے اور آہ زاریاں ساز سے نکلتے سُر بکھیرتے راگ کی صورت پھیلتی رہتیں ۔ جس کو اس سُر کی سمجھ آئی ، اس نے سر دھنا ! اپنے سوالنامے کے جوابات کی جستجو نے صحرا بدر کردیا ! آنکھوں کے بند تلے خاموش سسکیاں ، آہیں سیلاب بنتی رہیں ! یوں لگتا تھا کہ قیامت میرے وجود میں سما گئی ہے ! میرے اندر بپا حشر کو ذات کے علاوہ کون جان سکتا تھا ۔ یہ قیامت گزرتی ، سیلاب بہتا تو اکتساب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ محشر کا سلسلہ ساکن اور سیلاب کی ترسیل بھی ناممکن ہوگئی ! ایسی صورت میں ہستی پنجرے سے نکلنا چاہے تو بھی نکل نہیں سکتی ! پرندے کو قفس میں قیدی کردیا گیا اور آزادی کا سرخیل بنا دیا گیا !میرا درد، رونا اپنا نہیں رہا بلکہ اس رونے میں دنیا کا درد شامل ہوگیا ہے ۔ میرا رونا ان کے لیے ہے جو دنیا میں دنیائیں بناتے ہیں

بدن، کاغذہے سب مایا
ہوس بس دن کا ہے سایہ
جلن سے یاں کمایا کیا
جہاں کی بدلےکب کایا؟
تو روتے روتے آیا ہے
اور روتے روتے جانا ہے
چھپا کے درد کو پانا ہے
یہ بندھن جھوٹ سچ کا ہے
جو لوگوں نے کمایا
ملی ہے خاک خاکی کو
خاکی کو خاک میں ملنا
تونےخودسےکمایا کیا؟
شمع کو جل جل کے بجھنا
یہ ہستی تو ہے بس سایہ
فریبِ ہستی میں سب پھنسے
ہاتھ پر ہاتھ رکھے سب چلے
یہ دنیا چار دن کا میلا ہے
یہاں سے کس نے اکیلا جانا
خدا سے جو نہ مل پایا
پھر اس نے کیا ہے کمایا


انسانی جسم کپڑا کی مانند ایک پردہ ہے . اس پردے و حجاب کو کوئی نہیں جانتا بس کعبہ دل کے نام سے موسوم کردیا جاتا ہے . اس میں کون ہے ؟ اس میں وہی جس نے انسان کو بنایا ہے . اس لکھنے کے عمل کے دوران صفائی کی بڑی طلب ہوئی .میری آوازو پکار کہ کپڑا صاف ہوجائے . میری بے چینی صفائی نصف ایمان ہے . ظاہری پاکی پر جایے ، نہائے دھویے مگر اندر کی پاکی کی پروا نہ کیجئے . اندر کی مٹی کو زندگی میں ایک دفعہ بھی غسل مل جائے تو کیا بات ہے ! میرا کپڑا تو دھل گیا ہے ، میری فکر تو روشن ہوگئی میری نظر سے حجابات اتر گئے ہیں . میں جو دیکھتی ہوں وہ دنیا نہیں دیکھتی ہوں اور جو دنیا دیکھے ، وہ میں کیا دیکھوں ! اندر کی پاکی سے بصیرت مل جاتی ہے .

کہاں کسی کا مقدر یہ چاہتیں
کہاں کسی کو ملیں ہیں یہ رفعتیں
ترے کرم نے مرا رکھ لیا بھرم
یہ جود و فیض کی باتیں کہاں ُکھلیں
سفر کریں گے جہاں زیست لے چلے
سرورِ زیست کا باعث وہی تو ہے
ثبوتِ حق کا مشاہد وہی تو ہے
اسی نے قلم کا تحفہ اسے دیا
جسے خدا نے محبت لیے چنا
بہارِ زیست کا تحفہ سمجھ قلم
قدر کا علم اور صحیفہ سمجھ قلم
قسم قلم کی جو کھائی ہے قران میں
قسم قلم کی تو نسبت ہے برہان سے
یہ کرم ، عام سا کرم نہیں ہے
اس فضل سے بندہ بشر نہیں ہے
یہ فیصلے نصیب کی بات ہے
جسے اپنا کیا ، وہ اسی کی ذات ہے
حلم قلم کا ملا ہر کسی کو نہیں
فہم قلم کا ملا ہر کسی کو نہیں
قلم کی چاشنی کہاں کسی کو ملے
قلم کی بازی کہاں کسی کو ملے
قاضی ، عدالت ، دنیا کی بات ہے
قلم سے نکلے ہر سوغات ہے
نغمہ جانفزاں راحت کا باعث ہے
قلم کا تحفہ قاصد کے لائق ہے
جذب ہستی کی نشانی ہے قلم
اسم حق کی بیانی ہے قلم
ذوالجلالی کی قسم رب کھائے قلم سے
زمانہ دوامت پائے قلم سے
یہ حقیقت کی بات کون کیسے سمجھے
جو سمجھے ، وہ کسی اور کو نہ پھر سمجھے
یہ جہاں ، چیز نشانی ہے قلم کی
بشر کو ملی ہے خلافت قلم سے
یہ ہوش و دیوانگی کا مرصع قلم
یہ نغمہ مستی و تنگی کا عندیہ قلم

سورہ النور کی تلاوت اس بندے پر لازم ہوجاتی ہے جس کو قلم کا تحفہ عطا کیا جاتا ہے . اس سے ربط خاص ، تقویت نور ملتے ملتے اوج بقا مل جاتی ہے . نعمت کا شکر کرتے سورہ الرحمن کی تلاوت بندہ بشر پر لازم ہے کہ رب رحمن ہے ، اس کی نعمتوں کا شکر لازم ہے ، رب کی اکرام کی قسم ہے کہ اس کا محبوب جس دنیا میں تشریف لائی ، اس کے لیے مزمل ، مدثر کے لقب مل جاتے ہے ، ہر روح اس نسبت سے مزمل و مدثر ہے . قلم کی نعمت جس کو ملے وہ پڑھے ان سورتوں کو تاکہ اس کو تحفہ الخاص کی اہلیت و فرائض کا بخوبی اندازہ ہوسکے ، اب کہ وقت ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری بڑی بھاری ہے جس کو تجھ پر لازم کیا جارہا ہے ..............فرض نبھانا تیرا خوبی ہے ، تو نے نبھانا ہے اور مجھے اپنی رحمانیت کی قسم تجھے وہ بھی دوں گا جو تو چاہے اور تجھے وہ بھی دوں گا جو میں چاہوں ......تیر ی جھولی کبھی خالی نہ رکھوں گا .میں جب نوازتا ہوں تو بے حساب نوازتا ہے . اس لیے ساری فکر چھوڑ کے ، اب میری طرف آجا ، یوں ہو جا ، جیسے تو میں ،،،، کوئی فرق نہ رہے ..یہی تیرے مجھ سے وصل ہے یہی تیری میری نشانی ہے جسے تجھے نبھانا ہے​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
غمِ ہجر کی بات کیا بیان کروں ! دل نے پہلی دفعہ اپنوں سے ملنے بعد جُدائی کا درد سہا ہے ! یہ جو آنکھ نم ہے یہ ان کی یاد میں گُم ہے ! دل مجھ سے خفا خفا ہے کہ میں نے اسے جسم کی قید میں رکھا ہے ! مکان سے لامکان کو جانے پرندہ بڑا بے چین ہے ! عرش کے مکین جو اوپر بیٹھا ہے آج اس کھیل تماشے کی سمجھ آنے لگی ہے ! میں نے جب سے خوشبوئے محمد صلی علیہ والہ وسلم سے ٖ پائی ہے ۔میرے دل کی زمین عشق نے ہلچل سی مچادی ہے ! نم مٹی پر برسات کی جارہی ہے ! یہ برسات بڑی رحمت والی ہے ! مجھ پر رحمت کالی کملی والی نے کی ہے ! اس کملی میں چھپنے کو جی چاہتا ہے ! بڑے گھنے سائے والی کملی ہے ! میں اس میں گم ہوکے سید الانبیاء سے اپنے سارے غم کہ دوں ! ان کو کہ دوں کہ مجھے مدینے میں بلالیں یا میرے دل کو مدینہ بنادیں ! جب اداسی کا ڈیرا جمائے تو رخِ یار سے دل کے رخسار سرخ ہوجائیں ا۔ خون کو نئی روانی ملے !

میڈیاں سولیاں اندر چلیاں
عشق دی ہن برچھیاں پئیاں
شراب دی عادت پے گئی
میخانے یارو! ہن لے چلو
یار میرا ڈاڈھا سوہنا ہے
اودھی گل مشری تو مٹھی اے
او میرے دل وچ رہندا اے
آہاں دا بالن کڑہیندا پیا اے
اشکاں نے لائیاں ہن جھڑیاں
میڈیاں سولیاں اندر چلیاں
عشق دی ہن برچھیاں پیئاں
عشق وی بڑا زوری پیئا اے
راکھ میڈی اڈاندی جاندا اے
میں ٹردی ایڈھے پچھے جانی آں
اے کول میرے توں پجھدا اے
عشق نے دل وچ لائیاں اگاں
کدی نہ پجھن گیاں اے اگاں
میں آپوں آپے نکلندی جاندی آں

دل دی کون پچھانے گا !
دل دی کون منے گا !
دل وچ وس گیا اے سوہنا !
دل نے ہن اکھیاں میٹیاں نیں !
میں اودھے نال لگی آں
میریاں ٹھاریاں مدینے والے نال !
میڈیاں روشنیاں حسین دے نال !
میڈی تربیت فاطمہ نے کیتی اے !
میں ٹردی ٹردی پھراں آں !
میں ٹردی ٹردی پھراں آں !
کون مینوں پچھانے گا ؟
میں ٹردی ٹردی پھراں آں !
کون جانے گا دل دا حال !
سولی چڑھندی جاندی آں !
عشق نے کیتیاں زوریاں !
میں سولی چڑھندی جاندی آں !
عشق دا جام پیندی جاندی آں !
عشق کڑوا مٹھا جام ہے !
ایہہ جام جم دا جام ہے !
مست مست کریندا اے !
اندروں دیندا اے بانگاں !
ہن نماز دا ویلا اے
اودھی ثنا دا ویلا اے
جیڑا سب تواکیلا اے
اودھی حمد ثنا دا ویلااے

اللہ اکبر ! حق اللہ اکبر ! اللہ اکبر !

اللہ سب سے بڑا ہے
اللہ ی شان بیاں کروں کیسے
مالک سرجھکائے کھڑی ہوں
دل آپ سے لگائے کھڑی ہوں
آنکھوں میں عشق کی خماری ہے
میری زبان پر عشق کی قوالی ہے
دل میں عشق نے کی سنگباری ہے
میرے ہونٹوں پر عشق کی حلاوت ہے
میرے نگاہوں میں عشق کی مٹھاس ہے
میرے کان عشق کا نغمہ سن رہے ہیں
اللہ اکبر ! اللہ اکبر ! اللہ اکبر !
اللہ سب سے بڑا ہے !اللہ سب سے بڑا ہے!
جدھی خدائی نے جگ سبھالیا اے
اونہوں نیندر نئیں آندی اے
میں سوواں تے اوے جاگے
فر وی عشق عشق کرنی آں
 
Top