جاسم محمد
محفلین
لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم
اب یہ نہ پوچھیے گا کہ آگے کیا ہو گا۔ اس ملک میں کبھی کچھ نیا نہیں ہوا۔ ایک نازک موڑ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ تا۔
مبشر زیدی سینیئر صحافی، تجزیہ کار @Xadeejournalist
بدھ 4 دسمبر 2019 8:45
(تصویر: پکسا بے)
کسی بحران سے اگر فریق سلامت نکل آئیں تو سمجھو مصیبت ٹل تو گئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔
وزیراعظم عمران خان جو کسی کو ’این آر او نہیں دوں گا‘ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے، انہیں بھی آخر عدالت کے حکم پر اپنے سیاسی حریف نواز شریف کو برطانیہ بھیجنا پڑا۔ خان صاحب سیخ پا تو بہت ہوئے، پر غصہ غلط جگہ نکال دیا۔ بولے کہ چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ اس تصور کو ختم کریں کہ ملک میں طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے جواب میں پہلے کہا کہ انہیں طعنے نہ دیے جائیں اور بعد میں ملک کے سب سے طاقتور شخص کا مقدمہ کھول دیا جس نے حکومت کے ہاتھ پیر پھلا دیے۔ یکے بعد دیگرے تین سمریاں مسترد کروانے کے بعد آرمی چیف کو خود سمری درست کروانے کے لیے آنا پڑا، تب کہیں جا کر معاملہ سلجھا۔
لیکن عدالت عظمیٰ نے بھی صرف چھ ماہ کی توسیع دی تاکہ حکومت کو پتہ لگ سکے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون سازی کیسے ہوتی ہے۔ بھلا ہو درخواست گزار ریاض حنیف راہی کا جو نہ جانے کہاں سے پٹیشن لائے اور پل بھر کے لیے سلطان راہی بن کر غائب ہو گئے۔ چیف جسٹس کو خود ہی سارا کیس چلانا پڑا۔ فیصلے کے دن راہی صاحب آئے اور پھر غائب ہو گئے۔ گذشتہ روز واپس آئے ہیں اور اب چھ ماہ تک کوئی اور پٹیشن کرنے سے توبہ کرتے ہیں۔ اب یہ نہ پوچھیے گا کہ انہیں کس نے اٹھایا۔ اگر زیادہ بےچینی ہو رہی ہے تو خود پوچھ لیجیے گا۔
غائب تو سوشل میڈیا سے ’ووٹ کو عزت دو‘ والے بھی ہیں جن کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز اصلی اور خالص جمہوریت کے لیے کوشاں ہیں۔ میاں صاحب کی لندن روانگی کے بعد سے جمہوری محاذ پر مکمل خاموشی ہے اور بس طرح طرح کی تاویلیں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سوشل میڈیا پر غداری اور اسلام دشمنی کے ٹرینڈ چلتے رہیں گے۔ فرحان ورک نہ سہی ڈاکٹر اے کیو خان یا رانی مکھر جی ہی سہی۔
بلاول بھٹو نے بھی والد محترم آصف زرداری کو راضی کر لیا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا شوق چھوڑیں اور ضمانت کی درخواست دائر کریں۔ ویسے بھی پنجاب میں ضمانتوں کا موسم چل رہا ہے۔
اب سب مل کر طالب علموں کو یقین دلا رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں طلبہ یونین بحال کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اس سے زیادہ سنجیدگی کا ثبوت کیا ہو گا کہ ہزاروں طلبہ میں سے صرف 250 کے خلاف غداری کے مقدمے دائر ہوئے۔ ملزمان کی فہرست میں اپنا نام دیکھ کر مشال خان کے والد اقبال لالہ کیا سوچتے ہوں گے؟
سب سے خوش قسمت نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان رہے جو زندگی میں اس نظام اور انصاف کا قتل ہوتا نہ دیکھ پائے ورنہ راؤ انوار کو سزا تو تب ہی ہو گی جب اس ملک میں ایک قانون ہو گا اور وہ دن دور نہیں۔۔۔ بہت دور ہے۔
رہی بات ہم صحافیوں کی تو اب ہمیں بھی ڈیل کر ہی لینی چاہیے ورنہ کل کو دو درجن نامعلوم افراد کسی بھی میڈیا ہاؤس کے سامنے آ کر حب الوطنی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم تو راضی ہیں لیکن ان کے ہاں پہلے ہی ہاؤس فل چل رہا ہے۔
اب یہ نہ پوچھیے گا کہ آگے کیا ہو گا۔ اس ملک میں کبھی کچھ نیا نہیں ہوا۔ ایک نازک موڑ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ تا۔ اب چھ ماہ تک ٹاک شوز پر آپ کو تمام اینکر قانون دان بنے نظر آئیں گے جو آپ کو یقین دلائیں گے کہ توسیع کتنی اچھی چیز ہوتی ہے۔
خوش قسمت ہیں واجد ضیا جیسے لوگ جن کو جے آئی ٹی کی اربوں روپے کی تحقیقات میں سے ایک اقامہ نکالنے پر ڈی جی ایف آئی اے بنا دیا گیا۔
راوی اپنے پہلے کالم میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہے مگر انڈپینڈنٹ اردو کے لیے پہلا پہلا کالم ہے، اس لیے فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔
اب یہ نہ پوچھیے گا کہ آگے کیا ہو گا۔ اس ملک میں کبھی کچھ نیا نہیں ہوا۔ ایک نازک موڑ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ تا۔
مبشر زیدی سینیئر صحافی، تجزیہ کار @Xadeejournalist
بدھ 4 دسمبر 2019 8:45
(تصویر: پکسا بے)
کسی بحران سے اگر فریق سلامت نکل آئیں تو سمجھو مصیبت ٹل تو گئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔
وزیراعظم عمران خان جو کسی کو ’این آر او نہیں دوں گا‘ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے، انہیں بھی آخر عدالت کے حکم پر اپنے سیاسی حریف نواز شریف کو برطانیہ بھیجنا پڑا۔ خان صاحب سیخ پا تو بہت ہوئے، پر غصہ غلط جگہ نکال دیا۔ بولے کہ چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ اس تصور کو ختم کریں کہ ملک میں طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہیں۔
چیف جسٹس صاحب نے جواب میں پہلے کہا کہ انہیں طعنے نہ دیے جائیں اور بعد میں ملک کے سب سے طاقتور شخص کا مقدمہ کھول دیا جس نے حکومت کے ہاتھ پیر پھلا دیے۔ یکے بعد دیگرے تین سمریاں مسترد کروانے کے بعد آرمی چیف کو خود سمری درست کروانے کے لیے آنا پڑا، تب کہیں جا کر معاملہ سلجھا۔
لیکن عدالت عظمیٰ نے بھی صرف چھ ماہ کی توسیع دی تاکہ حکومت کو پتہ لگ سکے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون سازی کیسے ہوتی ہے۔ بھلا ہو درخواست گزار ریاض حنیف راہی کا جو نہ جانے کہاں سے پٹیشن لائے اور پل بھر کے لیے سلطان راہی بن کر غائب ہو گئے۔ چیف جسٹس کو خود ہی سارا کیس چلانا پڑا۔ فیصلے کے دن راہی صاحب آئے اور پھر غائب ہو گئے۔ گذشتہ روز واپس آئے ہیں اور اب چھ ماہ تک کوئی اور پٹیشن کرنے سے توبہ کرتے ہیں۔ اب یہ نہ پوچھیے گا کہ انہیں کس نے اٹھایا۔ اگر زیادہ بےچینی ہو رہی ہے تو خود پوچھ لیجیے گا۔
غائب تو سوشل میڈیا سے ’ووٹ کو عزت دو‘ والے بھی ہیں جن کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز اصلی اور خالص جمہوریت کے لیے کوشاں ہیں۔ میاں صاحب کی لندن روانگی کے بعد سے جمہوری محاذ پر مکمل خاموشی ہے اور بس طرح طرح کی تاویلیں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سوشل میڈیا پر غداری اور اسلام دشمنی کے ٹرینڈ چلتے رہیں گے۔ فرحان ورک نہ سہی ڈاکٹر اے کیو خان یا رانی مکھر جی ہی سہی۔
بلاول بھٹو نے بھی والد محترم آصف زرداری کو راضی کر لیا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا شوق چھوڑیں اور ضمانت کی درخواست دائر کریں۔ ویسے بھی پنجاب میں ضمانتوں کا موسم چل رہا ہے۔
اب سب مل کر طالب علموں کو یقین دلا رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں طلبہ یونین بحال کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اس سے زیادہ سنجیدگی کا ثبوت کیا ہو گا کہ ہزاروں طلبہ میں سے صرف 250 کے خلاف غداری کے مقدمے دائر ہوئے۔ ملزمان کی فہرست میں اپنا نام دیکھ کر مشال خان کے والد اقبال لالہ کیا سوچتے ہوں گے؟
سب سے خوش قسمت نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان رہے جو زندگی میں اس نظام اور انصاف کا قتل ہوتا نہ دیکھ پائے ورنہ راؤ انوار کو سزا تو تب ہی ہو گی جب اس ملک میں ایک قانون ہو گا اور وہ دن دور نہیں۔۔۔ بہت دور ہے۔
رہی بات ہم صحافیوں کی تو اب ہمیں بھی ڈیل کر ہی لینی چاہیے ورنہ کل کو دو درجن نامعلوم افراد کسی بھی میڈیا ہاؤس کے سامنے آ کر حب الوطنی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم تو راضی ہیں لیکن ان کے ہاں پہلے ہی ہاؤس فل چل رہا ہے۔
اب یہ نہ پوچھیے گا کہ آگے کیا ہو گا۔ اس ملک میں کبھی کچھ نیا نہیں ہوا۔ ایک نازک موڑ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ تا۔ اب چھ ماہ تک ٹاک شوز پر آپ کو تمام اینکر قانون دان بنے نظر آئیں گے جو آپ کو یقین دلائیں گے کہ توسیع کتنی اچھی چیز ہوتی ہے۔
خوش قسمت ہیں واجد ضیا جیسے لوگ جن کو جے آئی ٹی کی اربوں روپے کی تحقیقات میں سے ایک اقامہ نکالنے پر ڈی جی ایف آئی اے بنا دیا گیا۔
راوی اپنے پہلے کالم میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہے مگر انڈپینڈنٹ اردو کے لیے پہلا پہلا کالم ہے، اس لیے فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔