سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
لڑتے لڑتے ہو گئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم
اب یہ نہ پوچھیے گا کہ آگے کیا ہو گا۔ اس ملک میں کبھی کچھ نیا نہیں ہوا۔ ایک نازک موڑ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ تا۔

مبشر زیدی
سینیئر صحافی، تجزیہ کار @Xadeejournalist
بدھ 4 دسمبر 2019 8:45

56296-303962459.jpg

(تصویر: پکسا بے)

کسی بحران سے اگر فریق سلامت نکل آئیں تو سمجھو مصیبت ٹل تو گئی ہے مگر ختم نہیں ہوئی۔

وزیراعظم عمران خان جو کسی کو ’این آر او نہیں دوں گا‘ کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے تھے، انہیں بھی آخر عدالت کے حکم پر اپنے سیاسی حریف نواز شریف کو برطانیہ بھیجنا پڑا۔ خان صاحب سیخ پا تو بہت ہوئے، پر غصہ غلط جگہ نکال دیا۔ بولے کہ چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ اس تصور کو ختم کریں کہ ملک میں طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون ہیں۔

چیف جسٹس صاحب نے جواب میں پہلے کہا کہ انہیں طعنے نہ دیے جائیں اور بعد میں ملک کے سب سے طاقتور شخص کا مقدمہ کھول دیا جس نے حکومت کے ہاتھ پیر پھلا دیے۔ یکے بعد دیگرے تین سمریاں مسترد کروانے کے بعد آرمی چیف کو خود سمری درست کروانے کے لیے آنا پڑا، تب کہیں جا کر معاملہ سلجھا۔

لیکن عدالت عظمیٰ نے بھی صرف چھ ماہ کی توسیع دی تاکہ حکومت کو پتہ لگ سکے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے الگ الگ قانون سازی کیسے ہوتی ہے۔ بھلا ہو درخواست گزار ریاض حنیف راہی کا جو نہ جانے کہاں سے پٹیشن لائے اور پل بھر کے لیے سلطان راہی بن کر غائب ہو گئے۔ چیف جسٹس کو خود ہی سارا کیس چلانا پڑا۔ فیصلے کے دن راہی صاحب آئے اور پھر غائب ہو گئے۔ گذشتہ روز واپس آئے ہیں اور اب چھ ماہ تک کوئی اور پٹیشن کرنے سے توبہ کرتے ہیں۔ اب یہ نہ پوچھیے گا کہ انہیں کس نے اٹھایا۔ اگر زیادہ بےچینی ہو رہی ہے تو خود پوچھ لیجیے گا۔

غائب تو سوشل میڈیا سے ’ووٹ کو عزت دو‘ والے بھی ہیں جن کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف اور مریم نواز اصلی اور خالص جمہوریت کے لیے کوشاں ہیں۔ میاں صاحب کی لندن روانگی کے بعد سے جمہوری محاذ پر مکمل خاموشی ہے اور بس طرح طرح کی تاویلیں ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سوشل میڈیا پر غداری اور اسلام دشمنی کے ٹرینڈ چلتے رہیں گے۔ فرحان ورک نہ سہی ڈاکٹر اے کیو خان یا رانی مکھر جی ہی سہی۔

بلاول بھٹو نے بھی والد محترم آصف زرداری کو راضی کر لیا کہ وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کا شوق چھوڑیں اور ضمانت کی درخواست دائر کریں۔ ویسے بھی پنجاب میں ضمانتوں کا موسم چل رہا ہے۔

اب سب مل کر طالب علموں کو یقین دلا رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں طلبہ یونین بحال کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اس سے زیادہ سنجیدگی کا ثبوت کیا ہو گا کہ ہزاروں طلبہ میں سے صرف 250 کے خلاف غداری کے مقدمے دائر ہوئے۔ ملزمان کی فہرست میں اپنا نام دیکھ کر مشال خان کے والد اقبال لالہ کیا سوچتے ہوں گے؟

سب سے خوش قسمت نقیب اللہ محسود کے والد محمد خان رہے جو زندگی میں اس نظام اور انصاف کا قتل ہوتا نہ دیکھ پائے ورنہ راؤ انوار کو سزا تو تب ہی ہو گی جب اس ملک میں ایک قانون ہو گا اور وہ دن دور نہیں۔۔۔ بہت دور ہے۔

رہی بات ہم صحافیوں کی تو اب ہمیں بھی ڈیل کر ہی لینی چاہیے ورنہ کل کو دو درجن نامعلوم افراد کسی بھی میڈیا ہاؤس کے سامنے آ کر حب الوطنی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم تو راضی ہیں لیکن ان کے ہاں پہلے ہی ہاؤس فل چل رہا ہے۔

اب یہ نہ پوچھیے گا کہ آگے کیا ہو گا۔ اس ملک میں کبھی کچھ نیا نہیں ہوا۔ ایک نازک موڑ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ تا۔ اب چھ ماہ تک ٹاک شوز پر آپ کو تمام اینکر قانون دان بنے نظر آئیں گے جو آپ کو یقین دلائیں گے کہ توسیع کتنی اچھی چیز ہوتی ہے۔

خوش قسمت ہیں واجد ضیا جیسے لوگ جن کو جے آئی ٹی کی اربوں روپے کی تحقیقات میں سے ایک اقامہ نکالنے پر ڈی جی ایف آئی اے بنا دیا گیا۔

راوی اپنے پہلے کالم میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہے مگر انڈپینڈنٹ اردو کے لیے پہلا پہلا کالم ہے، اس لیے فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
شہبازشریف کے اثاثوں میں 10سال میں 70 گنا اضافہ ہوا، شہزاداکبر
ویب ڈیسک جمعرات 5 دسمبر 2019
1905830-shahzadakbar-1575540616-399-640x480.jpg

کرپشن اور منی لانڈرنگ کے نیٹ ورک کا کنٹرول روم وزیراعلیٰ ہاؤس پنجاب تھا، معاون خصوصی احتساب فوٹو:فائل

اسلام آباد: وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاداکبر نے کہا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے اثاثوں میں 10سال میں 70 گنا اضافہ ہوا۔

شہزاداکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ پر کرپشن اور ٹیلی گرافک ٹرانسفر (ٹی ٹی) کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے اور پیسہ بیرون ملک منتقل کرنے کا الزام لگایا اور 18 سوالات بھی پوچھے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ شہبازشریف کے اثاثوں میں 10سال میں 70 گنا اور بیٹے سلمان شہباز کےاثاثوں میں 8ہزار گنا اضافہ ہوا، انہوں نے جعلی ٹی ٹیز کےذریعے رقم منتقل کی اور 33 کمپنیاں بنائیں، شہبازشریف نے کرپشن کا الزام لگانے پر ڈیلی میل کےخلاف عدالت جانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب تک کوئی قانونی کارروائی نہیں کی، اگر قانونی کارروائی کے لیے مالی مدد سمیت جو مدد درکار ہے وہ ہم دیں گے۔

شہزاداکبر نے کہا کہ کرپشن کیسز میں سلمان شہباز اور علی عمران مفرور ہیں جبکہ حمزہ شہباز زیرحراست ہیں اور جوابات دینے سے قاصر ہیں۔ شہزاداکبر نے جی این سی کمپنی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کمپنی کے ذریعے 8،7ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی اور پھر پیسے نکال کر شہبازشریف کے اکاؤنٹس میں منتقل کئے گئے۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ کمپنی کے تین مالکان نثار احمد گل،ملک علی احمد اور طاہر نقوی ہیں جن میں سے نثاراحمد گل وزیراعلیٰ ہاؤس میں ڈائریکٹر پولیٹیکل افیئرز، طاہر نقوی اسسٹنٹ جنرل مینجرشریف گروپ آف کمپنی اور ملک علی احمد سی ایم ہاؤس میں سیاسی مشیر رہے، نثار گل نیب کی حراست میں ہے جس نے اعتراف کیا کہ یہ کاغذی کمپنی ہے، اس نیٹ ورک کا کنٹرول روم سی ایم ہاؤس پنجاب تھا۔

شہزاد اکبر نے شہباز شریف سے پوچھا کہ کیا نثار احمد گل اور علی احمد آپ کے فرنٹ مین نہیں تھے؟ کیا نثار احمد گل وزیر اعلیٰ کے ڈائریکٹر برائے سیاسی امور اور ملک علی احمد وزیر اعلیٰ کے پالیسی ساز کے عہدوں پر تعینات نہیں تھے؟، کیا یہ دونوں کاغذی کمپنی گڈ نیچر کے مالک نہیں تھے؟ نثار گل سلمان شہباز کے ساتھ لندن دبئی اور قطر نہیں گیا؟ کیا آپ نے تہمینہ درانی کے لیے دو ولاز نہیں خریدے؟ کیا نثار گل کے اکاؤنٹ سے رقوم منتقل نہیں کی گئیں؟ کیا دبئی کی چار کمپنیاں وہی نہیں جو زرداری کیلیے بھی منی لانڈرنگ کرتی رہی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین

جاسم محمد

محفلین
’نیا‘ پر شدید اعتراض ہے۔

عمران خان نہیں مریم نواز کے مائنس ہونے کا وقت آ گیا ہے، جہانگیر ترین
ویب ڈیسک اتوار 8 دسمبر 2019


لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کی وجہ سے ہے وہ مائنس نہیں ہوں گے لیکن مریم نواز کے مائنس ہونے کا وقت آ گیا ہے۔

لاہور میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے جہانگیر ترین نے کہا کہ تحریک انصاف عمران خان کی وجہ سے ہے، وہ ہیں تو پی ٹی آئی ہے، عمران خان مائنس نہیں ہوسکتے۔ مریم نواز کے مائنس ہونے کا وقت آ گیا ہے، لندن میں نواز شریف کی تیمارداری کے لیے ان کے بیٹے موجود ہیں۔

جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ معیشت میں ہر دن کے ساتھ بہتری آرہی ہے، ملک کا بیڑاغرق کرنے والے بلاول بھٹو زرداری کے والد آصف زرداری اور ن لیگ ہے، اپوزیشن کو ان کی کرپشن کے باعث رگڑا لگ رہا ہے ، جن پر کیسز ہیں وہ خود کو بچانے کے لئے باہر جا رہے ہیں، آصف زرداری سے متعلق بھی لگتا ہے کہ بیماری کے باعث بیرون ملک جا سکتے ہیں، مولانا فضل الرحمان کبھی آتے ہیں ، کبھی چلے جاتے ہیں، ان کے بارے میں مجھے کچھ پتا نہیں چلتا۔

الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے حوالے سے جہانگیر ترین نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے، ہماری اور اپوزیشن کی آئینی ذمے داری ہے کہ مل کر بیٹھیں۔

اتحادیوں کے تحفظات کے حوالے سے پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ چوہدری برادران سے ملاقات ہوئی ہے ان کے کوئی تحفظات نہیں، پہلے بھی اختر مینگل کے ساتھ مل کر معاملات حل کیے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
منی لانڈرنگ کیس : نیب لاہور نے ملزم راشد کرامت کو گرفتار کرلیا
15 دسمبر ، 2019

لاہور (نیوزرپورٹر)نیب لاہور نے منی لانڈرنگ کے الزام میں راشد کرامت کو گرفتار کرلیا۔نیب لاہور کے ذرائع کے مطابق ملزم راشد کرامت 2007 سے حمزہ شہباز شریف کا ملازم تھا، ملزم کے بنک اکاؤنٹ میں 45 کروڑ روپے کی ٹرانزیکشن ہوئی۔نیب حکام نے گزشتہ روز جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم راشد کرامت کو احتساب عدالت لاہور میں پیش کر دیا۔ احتساب عدالت نے ملزم راشد کرامت کو 14 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔
 
عمران خان نے جرمنی اور جاپان کے ترقیاتی ماڈل کو سٹڈی کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملک و قوم کی ترقی کیلئے پہلے اسکا تباہ و برباد ہونا ضروری ہے۔ آجکل وہ ماڈل کے پہلے حصے پر کام کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔
منقول
 

جاسم محمد

محفلین
ایم کیو ایم عمران خان کی حکومت گرانے میں ہمارا ساتھ دے، بلاول بھٹو
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1934383-bilawal-1577703064-772-640x480.jpg

بلاول بھٹو کی ایم کیوایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی پیشکش۔ فوٹو: فائل


کراچی: چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد ختم کرے اور حکومت کو گرانے میں ہمارا ساتھ دے۔

کراچی میں میگا منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد ختم کرے، ایم کیو ایم اس حکومت کو گرادے ہم آپ کا ساتھ دیں گے، کراچی اور اس کے عوام کی خاطر جتنی وزارتیں وفاق میں ایم کیو ایم کے پاس ہیں ہم سندھ میں دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن صرف شرط یہ ہے کہ عمران خان کو گھر بھیجیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ صوبوں کے مطالبات پورے نہیں کیے جارہے جب کہ وفاق کی گیس پالیسی کی مذمت کرتے ہیں، گیس کے مسئلے پر سندھ کا حق مارا جارہاہے لہذا ہمیں وفاق سے اپنا حصہ چھیننا پڑے گا۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شہر قائد کی ترقی ہماری خواہش ہے، شہر قائد میں پورے پاکستان کے لوگ بستے ہیں، ہمارا کام نظر بھی آتا ہے اور ہم دکھا بھی سکتے ہیں، ملک کے عوام مسائل میں گھرے ہیں جب کہ معاشی حالات خطرناک ہیں اور غریب عوام کے مسائل میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ موجود حالات میں سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں کام ہورہا ہے، غیر ملکی جریدوں نے سندھ حکومت کی اس پالیسی کو سراہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام سے 8 لاکھ لوگ نکالے گئے ہیں، سندھ حکومت اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کرے، غریب سے ایک ہزار روپے چھیننے والے سیاستدانوں پر لعنت ہو۔
 

جاسم محمد

محفلین
کراچی میں میگا منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد ختم کرے، ایم کیو ایم اس حکومت کو گرادے ہم آپ کا ساتھ دیں گے، کراچی اور اس کے عوام کی خاطر جتنی وزارتیں وفاق میں ایم کیو ایم کے پاس ہیں ہم سندھ میں دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن صرف شرط یہ ہے کہ عمران خان کو گھر بھیجیں۔
عمران خان کو گھر بھیج کر اپنی کرپشن بچانے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔
 

زیک

مسافر
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر جنرل سلیمانی کو مارنے کے بعد مختلف ممالک کے لیڈروں سے بات چیت کا ذکر کیا ہے۔ ان میں اکثر وزیر خارجہ ہیں چند ایک صدر وغیرہ لیکن صرف ایک ملک ایسا ہے جہاں پومپیو نے آرمی چیف سے بات کی۔ جی ہاں وہ پاکستان کے حکمران جنرل باجوہ!
 

فاخر رضا

محفلین
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر جنرل سلیمانی کو مارنے کے بعد مختلف ممالک کے لیڈروں سے بات چیت کا ذکر کیا ہے۔ ان میں اکثر وزیر خارجہ ہیں چند ایک صدر وغیرہ لیکن صرف ایک ملک ایسا ہے جہاں پومپیو نے آرمی چیف سے بات کی۔ جی ہاں وہ پاکستان کے حکمران جنرل باجوہ!

ایک تو بزدلانہ طریقے سے مارا اس کے بعد ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش.
آپ نے درست فرمایا، پاکستان کے موجودہ اور سابقہ حکمران فوجی ہی ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ پومپیو نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر جنرل سلیمانی کو مارنے کے بعد مختلف ممالک کے لیڈروں سے بات چیت کا ذکر کیا ہے۔ ان میں اکثر وزیر خارجہ ہیں چند ایک صدر وغیرہ لیکن صرف ایک ملک ایسا ہے جہاں پومپیو نے آرمی چیف سے بات کی۔ جی ہاں وہ پاکستان کے حکمران جنرل باجوہ!
ایک تو بزدلانہ طریقے سے مارا اس کے بعد ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش.
آپ نے درست فرمایا، پاکستان کے موجودہ اور سابقہ حکمران فوجی ہی ہیں
یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان ایک ہائبرڈ رجیم ہے جہاں بعض اہم ملکی معاملات جیسے خارجہ اور دفاعی پالیسی ہمیشہ سے فوج کے ہاتھ میں رہے ہیں، وہاں اس قسم کی بونگی مارنے کا کیا مقصد ہے؟
Screenshot-2020-01-04-Democracy-Index-Wikipedia.png

چونکہ جنرل سلیمانی مرحوم کا معاملہ پاکستان کی دفاعی اور خارجہ پالیسی سے متعلق ہے اس لئے براہ راست جنرل باجوہ سے بات کی گئی ہے۔ اسے بڑھا چڑھا کر ایسے پیش کرنا جیسے پورا ملک جنرل باجوہ چلا رہے ہوں فضول کی لفاظی اور فوج و عمران خان سے بغض کی علامت ہے۔
 

عباس اعوان

محفلین
کٹہرا - خالد مسعود خان 08 جنوری 2020
بیانیے کی وفات اور محکمہ زراعت​
مسلم لیگ ن والے دوسری بار یتیم ہوئے ہیں۔ پہلی بار تب ہوئے تھے‘ جب میاں نواز شریف کسی کو بتائے بغیر جنرل پرویز مشرف سے دس سال تک پاکستان واپس نہ آنے کی ڈیل کر کے سو صندوقوں اور صدیق پہلوان سمیت چپکے سے جدے کھسک گئے تھے اور دوسری بار اب جب انہوں نے اسمبلی میں آرمی ایکٹ میں ''حکومتی منشا‘‘ کے مطابق ‘ترمیم کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کو غیر مشروط حمایت کا حکم دیا ہے؛ حالانکہ یتیمی تو یتیمی ہی ہوتی ہے ‘کیا چھوٹی کیا بڑی؟ لیکن اس بار والی یتیمی پہلے والی سے بڑی یتیمی ہے۔ پہلے والی میں لوگوں کے پاس مجبوریوں کا جواز تھا۔ اس بار تو وہ بھی نہیں ہے۔
حالیہ یتیمی کے صدمے کا اندازہ لگانا حتمی طور پر تو ممکن نہیں‘ تاہم میں نے یہ اندازہ اپنے چند دوستوں کی مایوسی‘ اداسی‘ چڑچڑے پن اور لٹکے ہوئے منہ سے لگانے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہوں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مخاطب آپ کو گالیاں نکالنا چاہتا ہے‘ مگر بوجوہ ایسا کر نہیں پا رہا ہوتا تو وہ پھر ایسی صورت ِ حال میں بات بات پر خود کو گالیاں نکالتا ہے۔ آپ کے دائیں بائیں چاند ماری کرتا ہے اور اپنا مافی الضمیر کسی نہ کسی حد تک آپ تک پہنچا دیتا ہے۔ اپنے جذبات کو کسی طور آپ تک منتقل کر دیتا ہے۔ یہی صورت ِ حال اس وقت میاں نواز شریف کے چاہنے والوں کو درپیش ہے اور وہ وہی کچھ کر رہے ہیں ‘جو میں آپ کو اوپر بتا چکا ہوں۔ وہ سارے نظام کو گالیاں نکال رہے ہیں۔ مجبوریوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اپنی محبت کو حماقت قرار دے کر خود کو گالیاں نکال رہے ہیں۔ اپنی ساری سیاسی سوجھ بوجھ پر سب و ستم کر رہے ہیں۔ زور آوروں پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کی ساری سیاست پر تین حرف بھیج رہے ہیں۔ گالیوں کی گولہ باری کرتے ہوئے اچانک رک کر جب وہ صرف اور صرف ''کچیچیاں‘‘ لیتے ہیں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ وہ اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر میاں صاحب کو براہ راست برا بھلا نہ کہہ سکنے کا غصہ بہرطور اس طرح نکال رہے ہیں۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک دوست صحافی کا قصہ بیان کیا تھا۔ میں اور وہ امریکہ اور برطانیہ کے سفر میں اکٹھے تھے او رکئی دن‘ بلکہ کئی ہفتے دن کا بیشتر حصہ اکٹھے ہوتے تھے۔ میرے وہ دوست میاں نواز شریف کی محبت کے اسیر ہیں۔ وہ میاں نواز شریف کے ''مرحوم بیانیے‘‘کے بڑے عاشق تھے اور عشق کا تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ سو‘ وہ دوست اس مجاہدانہ بیانیے کے خالق پر قربان اور اس بیانیے پر جان دینے کی حد تک (کم از کم زبانی کلامی کی حد تک تو میں گواہ ہوں) مر مٹے ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف تب وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو چکے تھے۔ میرا وہ دوست میاں صاحب کی استقامت کو ہمالیہ جیسی بلندی اور ثابت قدمی سے تشبیہہ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میاں صاحب اس بار جدے جانے کا داغ دھونے پر آئے ہوئے ہیں اور جیل میںجان تو دے دیں گے ‘مگر اپنے بیانیے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے(یہ ایک انچ بھی میں نے یوں سمجھیں کہ مبالغہ کرتے ہوئے محاورے کی مجبوری کے طفیل بڑھا چڑھا کر زیادہ کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں وہ ایک ملی میٹر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے) ۔
ایسے ہی باتوں باتوں میں میں نے ان سے میاں شہباز شریف کی ''حکمت عملی‘‘ کی جانب اشارہ کیا تو وہ دوست باقاعدہ پھٹ پڑے اور میاں شہباز شریف کی حکمت عملی کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے کہ مہذب الفاظ میں اسے صرف بزدلی‘ منافقت‘ دونمبری اور غداری سے ہی تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ وہ میاں نواز شریف کے بیانیے کے مقابلے میں میاں شہباز شریف کا نام سننے پر بھی تیار نہ تھا اور اپنی ساری محبت‘ عقیدت اور بے پایاں وفاداری کی سو فیصد شرح کو مزید دس بار ضرب دے کر میاں نواز شریف اور ان کے بیانیے کے ساتھ کھڑا تھا اور میاں شہباز شریف کو اس سارے معاملے میں صفر نمبر تو کجا باقاعدہ نیگیٹو مارکنگ کرتے ہوئے منفی ریٹنگ عطا کر رہا تھا۔
میں نے محض شغل کی خاطر اپنے اس دوست کو کہا کہ آپ گو کہ منہ سے تو نہیں کہہ رہے‘ مگر آپ کے دلی جذبات او ردل کی تہہ میں پوشیدہ خواہش کو اگر میں واقعی کسی حد تک سمجھ سکا ہوں تو آپ چاہتے ہیں کہ فی الوقت میاں نواز شریف کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف بھی کسی طور کسی کیس میں پھنس جائیں اور میاں نواز شریف کی نااہلی کے ساتھ ساتھ آپ میاں شہباز کی ابھی تک وزارتِ عالیہ پر متمکن ہونے پر دکھی ہیں۔ میرے اس دوست کے چہرے پر رونق آ گئی۔ وہ کہنے لگا؛ آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔
اپنے اندازے کی درستی پر میرا حوصلہ بڑھا تو میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ اگر وہ برا نہ منائیں تو میرا ذاتی خیال ہے کہ انہیں میاں نواز شریف کی نااہلی کے دکھ سے کہیں زیادہ ملال یہ ہے کہ میاں شہباز شریف ابھی تک پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ دوست اب کھل کر ہنسا اور کہنے لگا؛ آپ بالکل درست بوجھے ہیں۔ مجھے میاں نواز شریف کی نااہلی کے دکھ سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ میاں شہباز شریف ابھی تک اقتدار کے مزے لے رہا ہے۔ مجھے زیادہ مزہ اس میں آئے گا کہ میاں نواز شریف بھلے سے بحال نہ ہو ‘لیکن شہباز شریف نہ صرف فارغ ہو‘ بلکہ پکا پکا نااہل ہو تاکہ میرے دل کو ٹھنڈ پہنچے۔
میں نے کہا؛ آپ کی میاں شہباز شریف سے کوئی ذاتی رنجش تو نہیں لگتی کہ آپ بڑے دھیمے مزاج کے آدمی ہیں اور میں نے اس سفر کے دوران آپ سے تحمل اور برداشت جیسی چیز سیکھنے کی ‘حتی الامکان اور مقدور بھر کوشش کی ہے۔ کسی سے ذاتی دشمنی آپ کا مزاج نہیں‘ تو پھر یہ کیوں؟ وہ کہنے لگا؛ دراصل میاں شہباز شریف کا بیانیہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی نفی ہے‘ بلکہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی پیٹھ میں گھونپا جانے والا چھرا ہے اور میاں نواز شریف کے اعلیٰ مقصد سے غداری ہے۔ میں نے ہنس کر کہا؛ گویا میاں شہباز شریف پر میاں نواز شریف کے بیانیے سے غداری پر آپ انہیں میاں نواز شریف کے بیانیے کے آرٹیکل6کے تحت ٹرائل کرنے پر اتر آئے ہیں؟ میرے اس دوست کے چہرے پر اس کی مخصوص مسکراہٹ آئی اور وہ کہنے لگا؛ آپ میری توقع سے زیادہ سمجھدار ثابت ہو رہے ہیں۔

گزشتہ چار پانچ روز کے درمیان میں نے بہت سے دوستوں کو جو اس بار میاں نواز شریف کی ثابت قدمی پر شرطیں لگانے کو تیار تھے۔ اس حد تک مایوس اور نااُمید دیکھا ہے کہ انہیں 10دسمبر 2000ء کو میاں نواز شریف کے پوری پارٹی کو بے یارومددگار چھوڑ کر جانے پر بھی نہیں دیکھا تھا اور تو اور گزشتہ ایک ہفتے سے چودھری آصف بھی ن لیگ کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر گیا ہے کہ بقول اس کے ''کیا ہم ہی پاگل رہ گئے ہیں؟‘‘۔ میں نے فون اٹھایا اور اپنے اسی صحافی دوست کو کال ملائی۔
میں نے پوچھا کہ میاں نواز شریف کے بیانیے کا کیا بنا؟ کہنے لگے؛ وہ میاں نواز شریف کا نہیں دراصل ہمارا بیانیہ تھا۔ میاں نواز شریف تو اس بیانیے کو‘ یعنی ہمارے بیانیے کو دھکا لگا رہا تھا۔ جب تک لگا سکا لگا لیا۔ اب ‘ کوئی اور آئے گا۔ اگر نہیں آئے گا تو ہم کسی کے آنے کا کم از کم انتظار تو کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا؛ چلیں آپ تو ابھی بھی پراُمید ہیں ‘ان کا کیا بنے گا ‘جو ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''ڈھیری ڈھا‘‘ بیٹھے ہیں؟ جو بالکل بیٹھ ہی گئے ہیں ‘بلکہ لیٹ گئے ہیں۔
وہ کہنے لگا؛ دراصل یہ بیانیے سے نہیں شخصیت پر اندھے اعتماد کا نتیجہ ہے کہ اس سول بیانیے کو میاں نواز شریف کا بیانیہ سمجھنے والے سیاسی یتیم کی صورت ''پھوڑی‘‘ پر بیٹھے ہیں اور ہر تعزیت کرنے والے کو رونی صورت بنا کر کہہ رہے ہیں ''حکم ربی‘‘ میں نے کہا برادرِ عزیز! ابھی میاں نواز شریف کے بیانیے کی ''رسم قل‘‘ بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی اور نئے نئے چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی رانا تنویر صاحب نے فرمایا ہے کہ ''خلائی مخلوق‘‘ سے ہماری مراد الیکشن کمیشن تھا۔ وہ دوست آگے سے صرف ہنس کر خاموش ہو گیا۔

میں منتظر ہوں کہ کوئی مسلم لیگ ن والا یہ بیان بھی دے کہ ہماری محکمہ زراعت سے مراد واقعتاً محکمہ زراعت ہی تھی اور اس محکمے کی اُلٹی سیدھی حرکتوں اور غیر متعلقہ کاموں میں دخل دینے پر ہماری تنقید اُصولی تھی۔ آج آپ خود دیکھ لیں اس محکمے کی نااہلی اور اصل کام پر توجہ نہ دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہاولپور ڈویژن میں عموماً اور چولستان وغیرہ میں خصوصاً ٹڈی دل کا حملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور کاشتکار پریشان ہیں۔ ہم اِسی والے محکمہ زراعت پر تنقید کرتے تھے اور آج ہماری تنقید درست ثابت ہو رہی ہے۔ اللہ جانے یہ کون ناہنجار تھے جو محکمہ زراعت پر ہماری تنقید کے اُلٹے سیدھے مفہوم نکالتے تھے اور اس محکمے سے مراد بھی اپنی مرضی سے نکالتے تھے جبکہ ہماری مراد واقعتاً محکمہ زراعت یعنی ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ ہی تھی۔
 
Top