سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
کٹہرا - خالد مسعود خان 08 جنوری 2020
بیانیے کی وفات اور محکمہ زراعت​
مسلم لیگ ن والے دوسری بار یتیم ہوئے ہیں۔ پہلی بار تب ہوئے تھے‘ جب میاں نواز شریف کسی کو بتائے بغیر جنرل پرویز مشرف سے دس سال تک پاکستان واپس نہ آنے کی ڈیل کر کے سو صندوقوں اور صدیق پہلوان سمیت چپکے سے جدے کھسک گئے تھے اور دوسری بار اب جب انہوں نے اسمبلی میں آرمی ایکٹ میں ''حکومتی منشا‘‘ کے مطابق ‘ترمیم کے لیے اپنی پارلیمانی پارٹی کو غیر مشروط حمایت کا حکم دیا ہے؛ حالانکہ یتیمی تو یتیمی ہی ہوتی ہے ‘کیا چھوٹی کیا بڑی؟ لیکن اس بار والی یتیمی پہلے والی سے بڑی یتیمی ہے۔ پہلے والی میں لوگوں کے پاس مجبوریوں کا جواز تھا۔ اس بار تو وہ بھی نہیں ہے۔
حالیہ یتیمی کے صدمے کا اندازہ لگانا حتمی طور پر تو ممکن نہیں‘ تاہم میں نے یہ اندازہ اپنے چند دوستوں کی مایوسی‘ اداسی‘ چڑچڑے پن اور لٹکے ہوئے منہ سے لگانے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہوں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مخاطب آپ کو گالیاں نکالنا چاہتا ہے‘ مگر بوجوہ ایسا کر نہیں پا رہا ہوتا تو وہ پھر ایسی صورت ِ حال میں بات بات پر خود کو گالیاں نکالتا ہے۔ آپ کے دائیں بائیں چاند ماری کرتا ہے اور اپنا مافی الضمیر کسی نہ کسی حد تک آپ تک پہنچا دیتا ہے۔ اپنے جذبات کو کسی طور آپ تک منتقل کر دیتا ہے۔ یہی صورت ِ حال اس وقت میاں نواز شریف کے چاہنے والوں کو درپیش ہے اور وہ وہی کچھ کر رہے ہیں ‘جو میں آپ کو اوپر بتا چکا ہوں۔ وہ سارے نظام کو گالیاں نکال رہے ہیں۔ مجبوریوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ اپنی محبت کو حماقت قرار دے کر خود کو گالیاں نکال رہے ہیں۔ اپنی ساری سیاسی سوجھ بوجھ پر سب و ستم کر رہے ہیں۔ زور آوروں پر لعن طعن کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کی ساری سیاست پر تین حرف بھیج رہے ہیں۔ گالیوں کی گولہ باری کرتے ہوئے اچانک رک کر جب وہ صرف اور صرف ''کچیچیاں‘‘ لیتے ہیں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ وہ اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر میاں صاحب کو براہ راست برا بھلا نہ کہہ سکنے کا غصہ بہرطور اس طرح نکال رہے ہیں۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک دوست صحافی کا قصہ بیان کیا تھا۔ میں اور وہ امریکہ اور برطانیہ کے سفر میں اکٹھے تھے او رکئی دن‘ بلکہ کئی ہفتے دن کا بیشتر حصہ اکٹھے ہوتے تھے۔ میرے وہ دوست میاں نواز شریف کی محبت کے اسیر ہیں۔ وہ میاں نواز شریف کے ''مرحوم بیانیے‘‘کے بڑے عاشق تھے اور عشق کا تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ سو‘ وہ دوست اس مجاہدانہ بیانیے کے خالق پر قربان اور اس بیانیے پر جان دینے کی حد تک (کم از کم زبانی کلامی کی حد تک تو میں گواہ ہوں) مر مٹے ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف تب وزارت عظمیٰ سے فارغ ہو چکے تھے۔ میرا وہ دوست میاں صاحب کی استقامت کو ہمالیہ جیسی بلندی اور ثابت قدمی سے تشبیہہ دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میاں صاحب اس بار جدے جانے کا داغ دھونے پر آئے ہوئے ہیں اور جیل میںجان تو دے دیں گے ‘مگر اپنے بیانیے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے(یہ ایک انچ بھی میں نے یوں سمجھیں کہ مبالغہ کرتے ہوئے محاورے کی مجبوری کے طفیل بڑھا چڑھا کر زیادہ کر دیا ہے۔ ان کے خیال میں وہ ایک ملی میٹر بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے) ۔
ایسے ہی باتوں باتوں میں میں نے ان سے میاں شہباز شریف کی ''حکمت عملی‘‘ کی جانب اشارہ کیا تو وہ دوست باقاعدہ پھٹ پڑے اور میاں شہباز شریف کی حکمت عملی کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے کہ مہذب الفاظ میں اسے صرف بزدلی‘ منافقت‘ دونمبری اور غداری سے ہی تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ وہ میاں نواز شریف کے بیانیے کے مقابلے میں میاں شہباز شریف کا نام سننے پر بھی تیار نہ تھا اور اپنی ساری محبت‘ عقیدت اور بے پایاں وفاداری کی سو فیصد شرح کو مزید دس بار ضرب دے کر میاں نواز شریف اور ان کے بیانیے کے ساتھ کھڑا تھا اور میاں شہباز شریف کو اس سارے معاملے میں صفر نمبر تو کجا باقاعدہ نیگیٹو مارکنگ کرتے ہوئے منفی ریٹنگ عطا کر رہا تھا۔
میں نے محض شغل کی خاطر اپنے اس دوست کو کہا کہ آپ گو کہ منہ سے تو نہیں کہہ رہے‘ مگر آپ کے دلی جذبات او ردل کی تہہ میں پوشیدہ خواہش کو اگر میں واقعی کسی حد تک سمجھ سکا ہوں تو آپ چاہتے ہیں کہ فی الوقت میاں نواز شریف کے ساتھ ساتھ میاں شہباز شریف بھی کسی طور کسی کیس میں پھنس جائیں اور میاں نواز شریف کی نااہلی کے ساتھ ساتھ آپ میاں شہباز کی ابھی تک وزارتِ عالیہ پر متمکن ہونے پر دکھی ہیں۔ میرے اس دوست کے چہرے پر رونق آ گئی۔ وہ کہنے لگا؛ آپ کا اندازہ بالکل درست ہے۔
اپنے اندازے کی درستی پر میرا حوصلہ بڑھا تو میں نے اپنے اس دوست سے کہا کہ اگر وہ برا نہ منائیں تو میرا ذاتی خیال ہے کہ انہیں میاں نواز شریف کی نااہلی کے دکھ سے کہیں زیادہ ملال یہ ہے کہ میاں شہباز شریف ابھی تک پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ دوست اب کھل کر ہنسا اور کہنے لگا؛ آپ بالکل درست بوجھے ہیں۔ مجھے میاں نواز شریف کی نااہلی کے دکھ سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ میاں شہباز شریف ابھی تک اقتدار کے مزے لے رہا ہے۔ مجھے زیادہ مزہ اس میں آئے گا کہ میاں نواز شریف بھلے سے بحال نہ ہو ‘لیکن شہباز شریف نہ صرف فارغ ہو‘ بلکہ پکا پکا نااہل ہو تاکہ میرے دل کو ٹھنڈ پہنچے۔
میں نے کہا؛ آپ کی میاں شہباز شریف سے کوئی ذاتی رنجش تو نہیں لگتی کہ آپ بڑے دھیمے مزاج کے آدمی ہیں اور میں نے اس سفر کے دوران آپ سے تحمل اور برداشت جیسی چیز سیکھنے کی ‘حتی الامکان اور مقدور بھر کوشش کی ہے۔ کسی سے ذاتی دشمنی آپ کا مزاج نہیں‘ تو پھر یہ کیوں؟ وہ کہنے لگا؛ دراصل میاں شہباز شریف کا بیانیہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی نفی ہے‘ بلکہ میاں نواز شریف کے بیانیے کی پیٹھ میں گھونپا جانے والا چھرا ہے اور میاں نواز شریف کے اعلیٰ مقصد سے غداری ہے۔ میں نے ہنس کر کہا؛ گویا میاں شہباز شریف پر میاں نواز شریف کے بیانیے سے غداری پر آپ انہیں میاں نواز شریف کے بیانیے کے آرٹیکل6کے تحت ٹرائل کرنے پر اتر آئے ہیں؟ میرے اس دوست کے چہرے پر اس کی مخصوص مسکراہٹ آئی اور وہ کہنے لگا؛ آپ میری توقع سے زیادہ سمجھدار ثابت ہو رہے ہیں۔

گزشتہ چار پانچ روز کے درمیان میں نے بہت سے دوستوں کو جو اس بار میاں نواز شریف کی ثابت قدمی پر شرطیں لگانے کو تیار تھے۔ اس حد تک مایوس اور نااُمید دیکھا ہے کہ انہیں 10دسمبر 2000ء کو میاں نواز شریف کے پوری پارٹی کو بے یارومددگار چھوڑ کر جانے پر بھی نہیں دیکھا تھا اور تو اور گزشتہ ایک ہفتے سے چودھری آصف بھی ن لیگ کو چھوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی میں شمولیت اختیار کر گیا ہے کہ بقول اس کے ''کیا ہم ہی پاگل رہ گئے ہیں؟‘‘۔ میں نے فون اٹھایا اور اپنے اسی صحافی دوست کو کال ملائی۔
میں نے پوچھا کہ میاں نواز شریف کے بیانیے کا کیا بنا؟ کہنے لگے؛ وہ میاں نواز شریف کا نہیں دراصل ہمارا بیانیہ تھا۔ میاں نواز شریف تو اس بیانیے کو‘ یعنی ہمارے بیانیے کو دھکا لگا رہا تھا۔ جب تک لگا سکا لگا لیا۔ اب ‘ کوئی اور آئے گا۔ اگر نہیں آئے گا تو ہم کسی کے آنے کا کم از کم انتظار تو کر سکتے ہیں۔ میں نے کہا؛ چلیں آپ تو ابھی بھی پراُمید ہیں ‘ان کا کیا بنے گا ‘جو ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''ڈھیری ڈھا‘‘ بیٹھے ہیں؟ جو بالکل بیٹھ ہی گئے ہیں ‘بلکہ لیٹ گئے ہیں۔
وہ کہنے لگا؛ دراصل یہ بیانیے سے نہیں شخصیت پر اندھے اعتماد کا نتیجہ ہے کہ اس سول بیانیے کو میاں نواز شریف کا بیانیہ سمجھنے والے سیاسی یتیم کی صورت ''پھوڑی‘‘ پر بیٹھے ہیں اور ہر تعزیت کرنے والے کو رونی صورت بنا کر کہہ رہے ہیں ''حکم ربی‘‘ میں نے کہا برادرِ عزیز! ابھی میاں نواز شریف کے بیانیے کی ''رسم قل‘‘ بھی ٹھیک طرح سے نہیں ہوئی اور نئے نئے چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی رانا تنویر صاحب نے فرمایا ہے کہ ''خلائی مخلوق‘‘ سے ہماری مراد الیکشن کمیشن تھا۔ وہ دوست آگے سے صرف ہنس کر خاموش ہو گیا۔

میں منتظر ہوں کہ کوئی مسلم لیگ ن والا یہ بیان بھی دے کہ ہماری محکمہ زراعت سے مراد واقعتاً محکمہ زراعت ہی تھی اور اس محکمے کی اُلٹی سیدھی حرکتوں اور غیر متعلقہ کاموں میں دخل دینے پر ہماری تنقید اُصولی تھی۔ آج آپ خود دیکھ لیں اس محکمے کی نااہلی اور اصل کام پر توجہ نہ دینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہاولپور ڈویژن میں عموماً اور چولستان وغیرہ میں خصوصاً ٹڈی دل کا حملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور کاشتکار پریشان ہیں۔ ہم اِسی والے محکمہ زراعت پر تنقید کرتے تھے اور آج ہماری تنقید درست ثابت ہو رہی ہے۔ اللہ جانے یہ کون ناہنجار تھے جو محکمہ زراعت پر ہماری تنقید کے اُلٹے سیدھے مفہوم نکالتے تھے اور اس محکمے سے مراد بھی اپنی مرضی سے نکالتے تھے جبکہ ہماری مراد واقعتاً محکمہ زراعت یعنی ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ ہی تھی۔
خواجہ آصف نے آج کاشف عباسی کو انٹریو دیتے ہوئے بتایا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی اور سزا کے بعد پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ عوام میں اب “کیوں نکالا” “ووٹ کو عزت دو” “خلائی مخلوق نے الیکشن چرایا” کا چورن بیچا جائے۔ اسی کی تکمیل کیلئے جب نواز شریف نظریاتی انقلابی بن کر ملک واپس آئے تو عوام ایئر پورٹ نہ پہنچی۔ ایئرپورٹ سے جیل گئے تو عوام نے گھیراؤ نہیں کیا۔ جیل سے ہسپتال گئے تو عیادت کیلئے ۱۰۰ لوگوں سے زیادہ کوئی نہ آیا۔
یوں عوام میں بری طرح پٹنے اور سو چھتر سو پیاز کھانے کے بعد اعلی قیادت نے فیصلہ کیا کہ پارٹی سے انقلابی مریم نواز گروپ کو باہر نکالا جائے اور اسے واپس بوٹ چاٹ شہباز شریف گروپ کی لائن پر چلایا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ اس وقت نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے مفرور ہیں اور ان کی انقلابی صاحبزادی بھی بھاگنے کیلئے تیاری پکڑ رہی ہیں۔ ان دونوں کا سیاست میں اب کوئی مستقبل نہیں رہا۔
 

زیرک

محفلین
مشترکہ مفادات کے لیے بغیر پڑھے کہ ترمیم میں کیا لکھا ہے، اس کے مندرجات کیا ہیں، ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں اور چند چھوٹے مفاد سمیٹ گروپوں نے تین عدد ترامیمی بلز محض 12 منٹوں میں منظور کر لیے۔حیرانی سے زیادہ شرم کی بات ہے کہ کسی نے محض دنیا کو دکھانے کے لیے بھی بحث تک نہیں کی۔ پارلیمنٹ سے ایک سوال ہے کہ قومی اسمبلی میں کئی ماہ سے زینب بل، خواتین کی وراثت کا بل اور کرپشن کی نشاندھی کرنے پر تحفظ کے بل سمیت 84 قوانین منظوری کے منتظر ہیں، کیا حکومت اور اپوزیشن عوامی اہمیت کے معاملوں پر متفق نہیں ہو سکتے؟ یا ان کی نظر میں پارٹی قیادت اور ماورائے قانون قوتوں سے منسلکہ مفادات ملک سے زیادہ اہم ہیں؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
مشترکہ مفادات کے لیے بغیر پڑھے کہ ترمیم میں کیا لکھا ہے، اس کے مندرجات کیا ہیں، ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں اور چند چھوٹے مفاد سمیٹ گروپوں نے تین عدد ترامیمی بلز محض 12 منٹوں میں منظور کر لیے۔حیرانی سے زیادہ شرم کی بات ہے کہ کسی نے محض دنیا کو دکھانے کے لیے بھی بحث تک نہیں کی۔ پارلیمنٹ سے ایک سوال ہے کہ قومی اسمبلی میں کئی ماہ سے زینب بل، خواتین کی وراثت کا بل اور کرپشن کی نشاندھی کرنے پر تحفظ کے بل سمیت 84 قوانین منظوری کے منتظر ہیں، کیا حکومت اور اپوزیشن عوامی اہمیت کے معاملوں پر متفق نہیں ہو سکتے؟ یا ان کی نظر میں پارٹی قیادت اور ماورائے قانون قوتوں سے منسلکہ مفادات ملک سے زیادہ اہم ہیں؟
بھائی فوج کی حکومتوں میں پارلیمان کی حیثیت محض ربڑ اسٹمپ کی ہوتی ہے۔ یہ سب اسی کا رزلٹ ہے جو کچھ ہو رہا ہے۔
 

زیرک

محفلین
بھائی فوج کی حکومتوں میں پارلیمان کی حیثیت محض ربڑ اسٹمپ کی ہوتی ہے۔ یہ سب اسی کا رزلٹ ہے جو کچھ ہو رہا ہے۔
اس وقت جو معاشی حالات جا رہے ہیں، میرا تو مشورہ ہے کہ سب پارٹیوں کو چاہیئے کہ خود ہی اقتدار باجوہ کے حوالے کر دیں، کیا مل رہا ہے انہیں سوائے بندنامی لے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اس وقت جو معاشی حالات جا رہے ہیں، میرا تو مشورہ ہے کہ سب پارٹیوں کو چاہیئے کہ خود ہی اقتدار باجوہ کے حوالے کر دیں، کیا مل رہا ہے انہیں سوائے بندنامی لے؟

تیز ترین قانون سازی کا ریکارڈ: قومی اسمبلی میں کیا کچھ ہوا؟
عبدالرزاق کھٹی08 جنوری 2020

یہ کل ملاکر ڈھائی گھنٹے کا ’کھیل‘ تھا۔ اس کھیل کو کھیلنے کے لیے تمام رولز معطل کرکے بل پیش کیے گئے، جس کا عمل 4 منٹ کا تھا۔ اس کے بعد اسی روز مشترکہ قائمہ کمیٹی نے بھی کمال تیزی کے ساتھ بغیر کسی اعتراض کے یہ بل منظور کرلیا اور قومی اسمبلی سے باہر آکر وزیرِ قانون قوم کو مبارک دے رہے تھے۔

جب بل پاس کرانے کا عمل شروع ہوا تو اجلاس کی کارروائی میں سب کچھ ملا کر 8 منٹ کا وقت لگا۔ قومی سلامتی کے نام پر کسی نے بلواسطہ تو کسی نے بلاواسطہ اپنا حصہ ڈالا۔ مسلم لیگ (ن) نے غیر مشروط حمایت کی تو پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی شدید ترین مخالف حکومت کو ایک بڑی پریشانی سے بچالیا۔

میں آپ کو جو کہانی سنانے جارہا ہوں یہ پاکستان کی پارلیمان کی تیز ترین قانون سازی پر مشتمل ریکارڈ کی کہانی ہے۔ یہ کہانی ہمیں پیغام دیتی ہے کہ یہاں ‘قومی مفاد’ سب کو کتنا عزیز ہوتا ہے۔

پاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم سے متعلق قانون سازی سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت کی روشنی میں عمل میں لائی گئی ہے۔ اس قانون سازی کے عمل کے بعد حزبِ مخالف کی بڑی جماعتیں جہاں اپنے حامیوں سے منہ چھپاتی پھر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف مخالفین انہیں خراجِ تحسین پیش کررہے ہیں۔

معلوم نہیں جاتے جاتے آصف سعید کھوسہ صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ شاید وہ جانتے تھے کہ سویلین بالادستی سے متعلق ہمارے نعروں کو بے نقاب کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے باہر نکلنے والے ایک (ن) لیگی رکن بہت ہی جذباتی انداز میں مجھے بتارہے تھے کہ ’بڑے صاحب نے لندن سے فون کرکے کہا ہے کہ جو کہا جارہا ہے وہ کردو، سوال نہ کرو’۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد ملک کے پارلیمانی حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ دیوار سے لگائی گئی جس اپوزیشن پر سویلین بالادستی کا سحر طاری ہے، کیا وہ اس بار سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں سیاسی نظام کو مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی؟ یا کرسکے گی؟

لیکن ان دنوں ابھی یہ بات واضح نہیں تھی کہ صرف آرمی ایکٹ میں ترمیم ہوگی یا اس میں آئینی ترمیم درکار ہوگی۔ اپوزیشن کے مختلف اکابرین سے جب بھی اس بارے میں سوال ہوا تو کہا گیا کہ جب تک حکومت اس بارے میں کوئی بات نہیں کرتی تب تک وہ بھی اس معاملے پر بات نہیں کریں گے۔ پاکستان میں آئینی اسکالر مانے جانے والے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کا بھی یہی مؤقف تھا۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ نومبر کے آخری ہفتے میں آیا تھا، اس لیے امید کی جارہی تھی کہ حکومت دسمبر میں اس معاملے پر تحرک لے گی، لیکن دسمبر کے موسم کی طرح اس معاملے پر بظاہر حکومت کا رویہ بھی بہت ہی سرد محسوس ہوا، لیکن جنوری ایسا نہیں تھا۔

شیڈول کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس جنوری کی 5 یا 6 تاریخ کو ہونا تھا، لیکن اچانک 31 دسمبر کو صدر کی جانب سے یکم جنوری کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کرلیے گئے۔ اس ہنگامی طور پر بلائے جانے والے اجلاس پر پیپلزپارٹی نے شدید شور مچایا کہ 24 گھنٹے سے بھی کم کے نوٹس پر اجلاس میں شرکت ممکن ہی نہیں۔

یکم جنوری: پارلیمانی اجلاس کا پہلا دن
لیکن اس شور کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور یکم جنوری بروز بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا جو معمول کے مطابق رہا۔ لیکن ایوان سے باہر خاموشی سے اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ممبران سے گفتگو ہوتی رہی اور صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی رہی۔

2 جنوری: پارلیمانی اجلاس کا دوسرا دن
جمعرات 2 جنوری کو مسلم لیگ (ن) لیگ اور حکومت ایک پیج پر تھیں، غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا گیا تھا۔ چونکہ پیپلزپارٹی اب تک خاموش تھی، اس لیے بلاول بھٹو زرداری کی اسلام آباد آمد ہوتے ہی وزیرِ دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں حکومتی وفد زرداری ہاؤس اسلام آباد حاضر ہوگیا، اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر پیپلزپارٹی سے غیر مشروط حمایت کی درخواست کردی۔

اس ملاقات میں رضاربانی بھی موجود تھے اور بلاول بھٹو زرداری نے رضا ربانی کی طرف اشارہ کرکے حکومتی وفد کو بتایا کہ ‘میرے کانوں میں ابھی بھی ان کے اور اعتزاز احسن کے الفاظ گونج رہے ہیں جو فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے کی گئی آئینی ترمیم پر کہے تھے‘۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ بلاول بھٹو کو پتہ چل چکا تھا کہ اپوزیشن کی بڑی جماعت ان کے مؤقف کی حامی نہیں رہی۔ حکومتی وفد روانہ ہوا تو کچھ دیر بعد بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئیٹ کیا کہ قانون سازی کے لیے پارلیمانی قوائد کی پاسداری ہونی چاہیئے۔

3 جنوری: پارلیمانی اجلاس کا تیسرا دن
3 جنوری کو صبح سے ہی پارلیمنٹ ہاؤس میں گہما گہمی نظر آئی۔ ایک طرف حکومتی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہورہا تھا تو دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی سر جوڑ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے چیمبر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے (ن) لیگ کی دغا بازی کا رونا رو رہے تھے۔

‘یہ مومن پیپلزپارٹی ہر بار (ن) لیگ کے سوراخ سے ہی کیوں خود کو ڈسواتی ہے’، میڈیا ٹاک ختم ہونے کے بعد میں نے بلاول بھٹو زرداری سے پوچھا۔ ابھی وہ جواب سوچ ہی رہے تھے کہ اسی لمحے ان کے سیاسی معاون جمیل سومرو نے کہا ‘دوسرا راستہ نہیں ہے’۔

جس وقت بلاول بھٹو زرداری اپنے چیمبر میں میڈیا سے بات کررہے تھے اس وقت جے یو آئی (ف) کا ایک اجلاس مولانا عبدالغفور حیدری کی صدارت میں جاری تھا۔ اس اجلاس میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی حمایت کرنے یا نہ کرنے پر مشاورت کی جارہی تھی۔ فیصلہ ہوا کہ جے یو آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا جائے گا اور پھر مخالفت کا ہی فیصلہ ہوا۔

11 بج کر 47 منٹ پر اجلاس کا آغاز
قومی اسمبلی کا معمول کا اجلاس 11 بجے ہونا تھا لیکن شروع 11 بج کر 47 منٹ پر ہوا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی قومی اسمبلی میں کلوز سرکٹ ٹی وی سسٹم نے کام چھوڑ دیا۔ اس سسٹم کے تحت پارلیمنٹ کے پریس لاؤنج اور قومی اسمبلی کے دفاتر میں ایوان کی کارروائی براہِ راست دکھانے کا عمل رک گیا۔ چند منٹ پہلے ہی پریس لاؤنج میں سیکیورٹی پر مامور عملہ پارلیمانی رپورٹرز ایسوس ایشن (پی آر اے) کے عہدیداران کو درخواست کرتا رہا کہ صحافیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ پریس گیلری میں اپنے موبائل فون سے تصاویر یا ویڈیو نہ بنائیں۔ کلوز سرکٹ ٹی وی نے کام چھوڑا تو متعلقہ حکام سے اس بارے میں معلومات لی گئیں، اور جواب یہ ملا کہ سسٹم میں اچانک خرابی آگئی ہے۔ لیکن جب منگل کو یہی سب کچھ دہرایا گیا تو پتہ چلا کہ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔

11 بج کر 55 منٹ
اجلاس کے آغاز میں تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبول اور قومی ترانے کی رسم پوری ہوئی۔ 11 بج کر 55 منٹ پر وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے وقفہ سوالات معطل کرنے کے لیے تحریک پیش کی، جو منظور کرلی گئی۔

11 بج کر 58 منٹ
11 بج کر 58 منٹ پر وقفہ سوالات میں جوابات نہ ہونے کا عذر دیکر خواجہ آصف نے اسپیکر سے کہا کہ ان کو آج مؤخر کردیں تاکہ سوال کرنے والوں کا مطمع نظر پورا ہوجائے۔ جس پر اسپیکر نے کہا کہ کل 4 جنوری تک سوالات مؤخر کرتے ہیں۔ اس کے بعد خواجہ آصف نے کہا کہ اسیر ارکان کے لیے ہم نے آپ کو پروڈکشن آرڈرز کے لیے کہا ہے، اہم قانون سازی ہونے جارہی ہے اور اسیر ارکان کا ایوان میں ہونا ضروری ہے، لہٰذا اس بات کو یقینی بنائیں کہ کل اسیر ارکان ایوان میں موجود ہوں۔ قانون سازی میں ان کو ووٹ کے حق سے محروم نہ کیا جائے۔

12 بجے
ٹھیک 12 بجے اسپیکر نے وزیرِ دفاع پرویز خٹک کو بل پیش کرنے کی دعوت دی۔ وزیرِ دفاع نے 3 منٹ میں 3 بل پیش کردیے اور قومی اسمبلی کا اجلاس اگلے دن ہفتے کو چھٹی ہونے کے باوجود صبح 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

اہم قانون سازی پر قومی اسمبلی کے اجلاس کا دورانیہ مختصر رہا، اجلاس شروع ہونے سے قبل ہی یہ پیغام دے دیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بلز پر پارلیمانی روایت کے تحت قائمہ کمیٹی کا مشترکہ اجلاس 2 بجے طلب کیا گیا ہے۔ روایات کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ جس ایوان میں بل پیش ہو اس کی ہی قائمہ کمیٹی اس بل پر اپنی سفارشات دیتی ہے، لیکن کیونکہ عجلت زیادہ تھی، اس لیے حکومت کی طرف سے سوچا گیا کہ سینیٹ میں بل پیش کرنے سے پہلے ہی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے ارکان کو بھی قومی اسمبلی کی کمیٹی میں بٹھا کر ان سے رائے لے لی جائے۔

2 بج کر 10 منٹ
2 بج کر 10 منٹ پر کمیٹی کا اجلاس ہوا، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین امجد خان نیازی کمیٹی میں موجود نہیں تھے، اس لیے ان کی جگہ کیپٹن ریٹائرڈ جمیل احمد خان سے صدارت کروائی گئی۔ آدھے گھنٹے میں مشترکہ کمیٹی نے بل کی متفقہ منظوری دے دی۔ وزیرِ قانون فروغ نسیم نے اجلاس کے بعد باہر آکر اس کا اعلان بھی کردیا۔

(ن) لیگ کی جانب سے بل کی غیر مشروط حمایت کے اعلان پر عوامی ردِعمل نے اسے دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کردیا تھا، جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد کہا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل سینیٹ کی کمیٹی کے پاس بھی جانا چائیے۔

رات 10 بجے
رات کو ساڑھے 10 بجے سینیٹ اور 5 منٹ بعد قومی اسمبلی کی جانب سے اعلامیہ جاری کیا گیا کہ ہفتے کو ہونے والا اجلاس مؤخر کردیا گیا۔ جس کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے ٹوئٹ کیا کہ جلد بازی ایک نقصان دہ عمل ہے، امید کرتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قانون سازی کے عمل کی حمایت کریں گی۔

6 جنوری: پارلیمانی اجلاس کا چوتھا دن
پیر کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس ایک بار پھر طلب کرلیا گیا، جس میں آرمی ایکٹ ترمیمی بل دوبارہ غور کے لیے ایجنڈے پر رکھے گئے۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بری، بحری اور فضائیہ کے ترمیمی بلز کی منظوری دی گئی۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے کہا گیا کہ ان کی جانب سے 3 تجاویز پیش کی گئیں تھیں اور حکومت نے یقین دہانی کروائی تھی کہ ان کو اس ایکٹ میں شامل کرلیا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

7 جنوری: پارلیمانی اجلاس کا پانچواں دن
منگل کے دن قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر آرمی ایکٹ میں ترامیم کے تینوں بل ایجنڈے پر رکھ دیے گئے۔

11 بج کر 42 منٹ سے 12 بج کر 8 منٹ تک مختصر مگر تاریخ ساز اجلاس
یہ اجلاس 11 بج کر 42 منٹ پر شروع ہوا اور 12 بج کر 8 منٹ پر ختم ہوگیا۔ یہ اجلاس اس حوالے سے بھی اہم رہا کہ اپنی حکومت میں کم ترین شرکت کا ریکارڈ رکھنے والے ہمارے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی اپنی موجودگی سے ایوان کو رونق بخشی۔ قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین نے اپنی کمیٹی سے منظور ہونے والے تینوں بلز کی رپورٹ پیش کی۔ جس بعد وزیر دفاع پرویز خٹک نے پیپلزپارٹی کو اپنی ترامیم واپس لینے کی درخواست کی، جو نوید قمر نے فوری طور پر مان لی۔

اس کے بعد وزیرِ دفاع نے باری باری تینوں بلز پیش کیے۔ اس موقع پر جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور قبائلی اضلاع کے ارکان نے احتجاجاً ایوان سے واک آؤٹ کردیا۔ واک آؤٹ کرنے والے ارکان ابھی لابی میں ہی تھے کہ تینوں بل منظور کرلیے گئے اور اجلاس کو ختم کردیا گیا۔

منگل کو اندازہ ہوا کہ جمعہ کو قومی اسمبلی کے کلوز سرکٹ ٹی وی کا نظام اچانک کیوں خراب ہوا تھا۔ درحقیقت گزشتہ پورے ہفتے جو کچھ ہوا، وہ سب ’قومی مفاد‘ میں ہی ہوا۔ مسلم لیگ (ن) نے غیر مشروط حمایت کرکے اپنا کام کیا، جبکہ بلاول بھٹو زرداری کی اس اہم قانون سازی کے دوران عجلت کے بجائے پارلیمانی طریقے سے قانون سازی کی تجویز پر عمل کرکے حکومت نے قانون سازی کو متنازعہ بنانے سے گریز کیا۔ مختصراً سب کا کام ہوگیا، اور سب ہی خوش ہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
مشترکہ مفادات کے لیے بغیر پڑھے کہ ترمیم میں کیا لکھا ہے، اس کے مندرجات کیا ہیں، ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں اور چند چھوٹے مفاد سمیٹ گروپوں نے تین عدد ترامیمی بلز محض 12 منٹوں میں منظور کر لیے۔حیرانی سے زیادہ شرم کی بات ہے کہ کسی نے محض دنیا کو دکھانے کے لیے بھی بحث تک نہیں کی۔ پارلیمنٹ سے ایک سوال ہے کہ قومی اسمبلی میں کئی ماہ سے زینب بل، خواتین کی وراثت کا بل اور کرپشن کی نشاندھی کرنے پر تحفظ کے بل سمیت 84 قوانین منظوری کے منتظر ہیں، کیا حکومت اور اپوزیشن عوامی اہمیت کے معاملوں پر متفق نہیں ہو سکتے؟ یا ان کی نظر میں پارٹی قیادت اور ماورائے قانون قوتوں سے منسلکہ مفادات ملک سے زیادہ اہم ہیں؟
مبارک ہو! اس حلفِ غلامی میں ہم سب ایک ہیں
08/01/2020 سید مجاہد علی


قومی اسمبلی نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین برس تک پاک فوج کا سربراہ برقرار رکھنے کے قانون کی حمایت کردی ہے۔ اس طرح ملک کے سب سے برتر ایوان نے ایک شخص کی سرفرازی کے لئے ہر پارلیمانی روایت اور جمہوری طریقے کو ترک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی پارٹیوں نے وسیع تر قومی مفاد کے نام پر ملک میں سول بالادستی کا اصول منوانے اور فوج جیسے طاقت ور ادارے کو آئینی حدود کے اندر رہنے پر مجبور کرنے کا سنہرا موقع گنوا دیا ہے۔

یوں تو قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کروائے گئے قانون کو فورسز کے چیفس کے علاوہ چئیرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ کی مدت ملازمت ، ریٹائرمنٹ اور توسیع کو ریگولیٹ کرنے کا نام دیاگیا ہے لیکن ہر کس و ناکس کو علم ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین برس کے لئے آرمی چیف مقرر کرنے کی توثیق حاصل کرنا تھا کیوں کہ سپریم کورٹ نے نومبر میں حکومت کے حکم نامہ کو ناقص اور کسی اختیار کے بغیر قرار دے کر 6 ماہ کے اندر قانون سازی کرنے اور آرمی چیف کی تقرری ، توسیع اور مراعات کے لئے قانون سازی کا حکم دیا تھا۔ گو کہ ابھی تک یہ بھی واضح نہیں ہوسکا کہ قانون کا علم بلند رکھنے کی پابند ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے جس حق کو وزیر اعظم کے اختیار سے ماورا قرار دیتے ہوئے جنرل باجوہ کی توسیع کا حکم مسترد کیا تھا، وہ حق آئین کی کون سی شق اور قانون کی کون سی وضاحت کے تحت ازخود حاصل کرلیا۔

28 نومبر کے فیصلہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کے نوٹی فیکیشن کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے اس معاملہ پر قانون سازی کا حکم دیتے ہوئے جنرل باجوہ کو ان کے عہدے میں 6 ماہ کی توسیع دے دی تھی۔ یعنی جو حق وزیر اعظم کو حاصل نہیں تھا ، حالانکہ یہ حق پیپلز پارٹی کے دور میں یوسف رضا گیلانی بطور وزیر اعظم استعمال کرچکے تھے اور اسی حق کو ماضی میں بزور شمشیر اقتدار پر قبضہ کرنے والے جرنیل بھی تواتر سے استعمال کرتے آئے تھے ۔۔۔ اس حق کے بارے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اس کا استعمال آئین کی روح کے منافی ہے۔ پھر اسی سانس میں نہ جانے کس روایت، قانونی رعایت اور عدالتی طریقہ کے مطابق خود وہی ’اختیار‘ حاصل کرتے ہوئے ایک روز بعد ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کو مزید6 ماہ تک کام کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی گئی۔ حالانکہ اگرملک کا آئین یا قانون وزیر اعظم یا صدر کو کسی آرمی چیف کے عہدہ کی مدت میں توسیع کا اختیار نہیں دیتا تھا تو یہ اختیار سپریم کورٹ کو کیسے حاصل ہوسکتا تھا۔ سپریم کورٹ حاضر آرمی چیف کو ریٹائر ہونے کا حکم نہ دے سکی لیکن اس نے امید باندھ لی کہ پارلیمنٹ یہ بھاری پتھر اٹھالے گی۔ آج پارلیمنٹ نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے۔

اس معاملہ پر یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ سپریم کورٹ نے وسیع تر قومی مفاد میں یا نظریہ ضرورت کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان متعدد مواقع پر یہ ریمارکس دے چکے ہیں کہ نظریہ ضرورت دفن کردیا گیا ہے یعنی قانون کی کوئی ایسی تشریح واجب نہیں ہوگی جس کا کوئی جواز موجود نہ ہو اور جو صرف ایک خاص حاکم کی مرضی و منشا کو پورا کرنے کے لئے عذر کے طور پر استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح یہ کہنا بھی محال ہے کہ سپریم کورٹ نے کسی وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہوگا۔ کیوں کہ اس کا استحقاق ملک کے سیاست دانوں نے ’پیٹنٹ‘ کروایا ہؤا ہے۔ جب بھی ان کے کسی مفاد کو زک پہنچتی ہے تو عوام دشمن فیصلے کرتے ہوئے وسیع تر قومی مفاد کی دہائی دی جاتی ہے۔

پیپلز پارٹی کے رکن نوید قمر نے آج قومی اسمبلی میں یہی عذر پیش کرتے ہوئے ان ترامیم کو واپس لے لیا جو ایک روز پہلے ہی چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں پارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے منظور کی تھیں۔ ان میں اس قانون میں سے یہ شق نکالنے کا کہا گیا تھا کہ اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کو اس بات کا پابند کرنے کی بات کی گئی تھی کہ توسیع سے پہلے وہ بنفس نفیس پارلیمانی کمیٹی کو ان وجوہ سے آگاہ کرنے کا پابند ہوگا کہ فورسز کے کسی چیف کو اس کے عہدے کی مدت میں توسیع دینا کیوں ضروری ہے۔ آج قومی اسمبلی میں کسی تکرار کے بغیر ان ترامیم کی تجویز واپس لیتے ہوئے نوید قمر نے وسیع تر قومی مفاد کے علاوہ تازہ ترین علاقائی صورت حال کو بھی پیپلز پارٹی کے فیصلہ کی وجہ قرار دیا۔ گویا اگر جمعہ کی صبح امریکی ڈرون ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک نہ کرتا اور ایران اور امریکہ کے درمیان تند و تیز دھمکیوں کا تبادلہ نہ ہوتا تو پیپلز پارٹی اپنی پیش کردہ ترامیم کو منظور کروانے کے لئے ’پورا زور ‘ لگاتی۔

آج قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے جس ’کارکردگی‘ کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کی روشنی میں مکرر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے 28 نومبر کے حکم میں جنرل باجوہ کو مزید6 ماہ اپنے عہدے پر فائز رہنے کا حق دے کر اگرچہ ماورائے آئین و قانون اقدام کیا تھا لیکن یہ نہ تو نظریہ ضرورت کے تحت تھا کیوں کہ اسے’ دفن‘ کیا جاچکا ہے اور نہ قومی مفاد کی وجہ سے تھا کیوں کہ ثابت ہوچکا کہ اس کا خیال رکھنا ملک کے سیاست دانوں کا استحقاق ہے۔ یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ مستقبل میں کسی مقدمہ کی سماعت یا اسی معاملہ پر نظر ثانی اور حکم امتناع کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا کوئی دوسرا بنچ سابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جنرل باجوہ کو عارضی مگر ’غیر قانونی‘ توسیع دینے کے فیصلہ کی قانونی بنیادوں کو کھنگالتا اور ریکارڈ کی درستی ہی کے لئے سہی اس فیصلہ کو ری وزٹ کرتے ہوئے یہ طے کیا جاتا کہ جو کام وزیر اعظم کے لئے غیر قانونی ہے وہی کام سپریم کورٹ کے ججوں کے لئے بھی کسی قانونی جواز کے بغیر ہوگا۔

تاہم اب اس کا امکان بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیوں کہ جس قانون کے تحت جنرل قمر جاوید باجوہ کو 29 مئی سے تین سال کی توسیع دی جائے گی،اس میں یہ بھی درج کردیا گیا ہے کہ اس قانون یا اس کے تحت فیصلوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی عوام کے منتخب نمائیندوں نے نہ صرف اپنے ہاتھ قلم کرکے “پھول ، چاند ستارہ” سرکار کے حوالے کردیے ہیں بلکہ عدالتی اختیا رکو بھی محدود کرنے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ جنرل باجوہ کے لئے آج کا دن دوہری خوشی کا سبب ہوگا۔ سپریم کورٹ کی مداخلت سے پہلے انہیں تین برس کی توسیع دی گئی تھی۔ اسے مسترد کرتے ہوئے عدالت نے انہیں 6 ماہ کی توسیع دے دی۔ اب پارلیمنٹ انہیں تین سال کی توسیع دینے کا قانون منظور کررہی ہے۔ اس طرح وہ 30 مئی 2020 سے تین سال کی توسیع کے ’مستحق ‘ ہوں گے۔ گویا تین کی بجائے وہ ساڑھے تین برس تک ’قوم کی خدمت‘ انجام دیتے رہیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری شاید کسی شرمندگی کی وجہ سے ووٹنگ کے دوران قومی اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔ یا پھر ہوسکتا ہے چند برس بعد کسی سیاسی اجتماع میں حلفاً یہ کہنا پڑے کہ ’ الحمد للہ میں نے تو اس کالے قانون کے حق میں ووٹ نہیں دیا تھا‘۔ سیاست دان دیوار میں سے بھی امکان کا کوئی راستہ نکال لیتا ہے اس لئے امیدرکھنی چاہئے کہ قومی سیاست کے کسی مرحلہ پر نواز شریف اور مریم نواز پھر سے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے یہ دلیل دینے لگیں کہ آرمی ایکٹ کی حمایت کرکے دراصل ملک میں جمہوریت کو بچا لیا گیا تھا ورنہ سب کچھ تباہ ہوجاتا۔ اسی قسم کے غیر واضح دعوؤں اور ناقابل فہم دھمکیوں کے ذریعے عوام کو گمراہ کرنے کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے دراصل ملک کے سیاست دانوں نے جمہوریت کو مذاق اور پارلیمنٹ کو عضو معطل بنایا ہے۔

سول ہے کیا عوام مسلسل ان کے دھوکہ میں آتے رہیں گے؟ فوری طور سے شاید اس کا جواب ہاں میں ہو لیکن اب بیداری اور شعور کی جو لہر ابھر رہی ہے،اس کی وجہ سے یہ امید قائم رکھنے میں کوئی حرج بھی نہیں کہ سیاست دان تادیر عوامی خواہشات کے ساتھ کھلواڑ نہیں کرسکیں گے۔

اس مرحلے پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف سیاست دانوں کو الزام دے کر آگے بڑھا جاسکتا ہے ۔ کیا سیاست دانوں کو ہر بے اصولی پر آمادہ کرنے اور جمہوری نظام میں نقب لگانے والی قوتوں سے بھی کوئی سوال کرے گا کہ وہ کیوں کر عوامی استحقاق پر اپنی مرضی ٹھونسنے کو قومی مفاد قرار دے سکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سوال کسی نہ کسی صورت سامنے آنے لگا ہے۔ خاطر جمع رکھی جائے آنے والے وقت میں اس سوال کی شدت میں اضافہ ہوگا۔ اب ہمیشہ کے لئے قومی مفاد کے نام پر ذاتی اختیار مسلط کرنے یا گروہی مفاد حاصل کرنے کا مقصد حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

یہ مشکل اور جاں گسل سفر ہے۔ ملک کے سیاسی لیڈر اس آزمائش میں عوام کے ساتھ کھڑے ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں مٹھی بھر اراکین نے واک آؤٹ کرکے اس عمل سے ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کیا ہے لیکن ارکان کی واضح اکثریت نے عسکری قیادت کی غیر مشروط اطاعت کے ذریعے غلامی کا اجتماعی حلف لیا ہے۔ یہ دن ملک کی پارلیمانی تاریخ کے تاریک ترین دنوں میں شامل ہوگا۔ یہ دن ان ایام سے بھی زیادہ المناک ہے جب فوجی آمر منتخب پارلیمنٹ توڑنے اور حکومت کو معزول کرنے کا اقدام کرتے رہے ہیں۔ آج منتخب نمائیندوں نے رائے دہندگان کے اعتماد اور بھروسہ کا خون کیا ہے ۔

آنے والے دنوں میں یہ دلیل کافی نہیں ہوگی کہ سیاست دان آخر کیا کرتے۔ پیپلز پارٹی محض چالیس ووٹوں کے ساتھ کتنی مزاحمت کرسکتی تھی اور مسلم لیگ (ن) نے گزشتہ تین برس میں قربانی دینے کا ریکارڈ قائم کیا۔ تاریخ میں یہ لکھا جائے گا کہ جب فیصلہ کا وقت آیا تو سیاست دان عوام کی خواہشات کے ساتھ کھڑے نہیں ہوسکے۔ کوئی طاقت لازوال نہیں ہوتی۔ استبداد اور جمہوریت کشی کا موجودہ وقت بھی عارضی ثابت ہوگا۔ عوام کی حکمرانی کا راستہ روکا تو جاسکتا ہے لیکن اس راستے پر چلنے کی خواہش کو دبایا نہیں جاسکتا۔ جب تک اہل پاکستان میں یہ خواہش موجود ہے، جبر اور ناانصافی کو للکارا جاتا رہے گا۔

عدالت بہری ہوسکتی ہے، پارلیمنٹ کے ارکان مفاد یا خوف میں اندھے ہوسکتے ہیں لیکن آزاد، جمہوری، پر امن اور خوش حال پاکستان کی خواہش کچلے جانے کے باوجود سر اٹھاتی رہے گی۔ اس خواہش کو جتنا دبایا جائے گا یہ اتنی ہی توانا ہوگی۔ جاننا چاہئے حقوق سلب کرنے والوں کو ایک انسانی حیات نصیب ہوتی ہے۔ قوموں کی زندگی دہائیوں اور صدیوں سے عبارت ہوتی ہے۔ پاک سرزمین کے باسیوں کے اچھے دن نگاہوں سے اوجھل مستقبل کے کسی پنّے میں سر نہواڑے موجود ہیں۔ وہ وقت آنے پر حقوق سلب کرنے والے غاصبوں میں شمار ہوں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مرد مومن مرد حق ضیاء الحق نے اپنے دور اقتدار میں جماعت اسلامی کی خواہشات کے عین مطابق ملک کے بہت سے بینکوں میں بغیر سود کے قرضے جاری کئے تھے۔ لیکن اس سے وہ بینک دیوالیہ ہونا شروع ہو گئے اور شدید مالی نقصان کے بعد یہ سکیم بند کرنا پڑی۔
 

عدنان عمر

محفلین
مرد مومن مرد حق ضیاء الحق نے اپنے دور اقتدار میں جماعت اسلامی کی خواہشات کے عین مطابق ملک کے بہت سے بینکوں میں بغیر سود کے قرضے جاری کئے تھے۔ لیکن اس سے وہ بینک دیوالیہ ہونا شروع ہو گئے اور شدید مالی نقصان کے بعد یہ سکیم بند کرنا پڑی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسحاق ڈار بھگوڑے نے یہ قرضہ ڈالرز کے بانڈز میں لیا تھا جسے واپس بھی ڈالروں میں کرنا تھا۔ 4 فیصد شرح سود کے باوجود اسحاق ڈار نے عالمی مارکیٹ سے 8 فیصد یعنی 4 فیصد فرق کے ساتھ ملک کا مہنگا ترین قرضہ لیا۔ اِس وقت ملک کا شرح سود 12 فیصد ہے جبکہ ہاٹ منی کو 13 فیصد یعنی صرف ایک فیصد فرق کے ساتھ واپس کرنا ہے۔ اور وہ بھی پاکستانی روپوں میں نہ کہ ڈالروں میں۔
 

جاسم محمد

محفلین
جدید بینکاری نظام میں بینک قرضہ جاری کرتے وقت مطلقہ کاروبار کے منافع سے اپنا حصہ نہیں مانگتا۔ اسکی بجائے وہ ایک سرکاری طور پر طے شدہ سود لے لیتا ہے جو کاروبار کے منافع سے ہی نکلتاہے۔ بالفرض آپ کاروبار ہر سال 14فیصد منافع دیتا ہے اور شرح سود 4 فیصد ہو تو آپ کیلئے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ وگرنہ بغیرسود کے نظام میں بینک کو کاروبار ی منافع کے مطابق ہی قرض کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ اگر یہی نظام ملکی یا عالمی سطح پر رائج ہو تو بینکوں کاہر کاروبار میں حصص ہوگا۔ جس سے ایک خطرناک فیوڈل نظام جنم لے سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
10 سال میں شہباز شریف اور اہل خانہ کے اثاثوں میں 900 فیصد تک اضافہ
طالب فریدی 2 گھنٹے پہلے
حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 10 سال کے دوران تقریباً 100 فیصد اضافہ ہوا فوٹو: فائل

لاہور : نیب کی دستاویزات میں 2008 سے 2018 کے دوران شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے اثاثوں میں 900 فیصد تک اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔

نیب نے تفتیش کے دوران شہباز شریف اور ان کی فیملی کی مالی حیثیت سے اعداد و شمار تیار کئے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ 2008 سے 2018 کے درمیان ملک دہشت گردی اور بجلی گیس کے سنگین ترین بحران کا شکار تھا لیکن اس کے باوجود سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، ان کے بیٹوں حمزہ شہباز، سلمان شہباز اور اہلیہ کے اثاثوں کی مالیت 900 فیصد تک بڑھی۔

ایکسپریس نیوز کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق شہباز شریف فیملی کے اثاثوں سے متعلق ہوشربا تفصیلات حاصل کرلیں ہیں، جس کے مطابق 2008 سے 2018 کے دوران شہباز شریف فیملی کے مجموعی اثاثوں میں 450 فیصد اضافہ ہوا، 2008 میں شریف فیملی کے اثاثے 68 کروڑ 33 لاکھ 37 ہزار400 روپے تھے جو کہ 2018 میں بڑھ کر 3 ارب 68 کروڑ 15 ہزار 668 روپے ہوگئے۔
دستاویزات کے مطابق شہباز شریف کے اثاثے 2008 میں 5 کروڑ 55 لاکھ 16 ہزار 692 روپے تھے جب کہ 2018 میں ان کی مالیت 66 کروڑ 64 لاکھ 80 ہزار 205 روپے تھے۔

2008 میں شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کے اثاثوں کی مالیت 13 کروڑ 41 لاکھ 37 ہزار 37 روپے تھے جب کہ 2018 میں ان کے اثاثوں کی مالیت بڑھ کر 23 کروڑ 47 لاکھ 3 ہزار تک پہنچ گئے۔

سلمان شہباز کے اثاثوں میں 10 سال کے دوران 900 فیصد کا اضافہ ہوا، 2008 میں سلمان شہباز کے کل اثاثوں کی مالیت 28 کروڑ 24 لاکھ 13ہزار 686 روپے تھے، جو کہ 2018 میں بڑھ کر 2 ارب 34 کروڑ 96 لاکھ 95 ہزار 462 روپے ہوگئے۔

حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 10 سال کے دوران تقریباً 100 فیصد اضافہ ہوا، 2008 میں حمزہ شہباز کے اثاثوں کی مالیت 21 کروڑ 12 لاکھ 69 ہزار 589 روپے تھی جب کہ 2018 میں ان کے اثاثوں کی مالیت 41 کروڑ 71 لاکھ 36 ہزار 359 روپے ہوگئی۔
 

جاسم محمد

محفلین
بوٹ والے وزیر کا کوئی ذکر نہیں
انگریزی بھول گئے ہیں؟ فیصل واڈا کا ذکر ہے۔
EOWNAP_XsAMxKOY.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
عقل بھول گئے ہیں؟ پروگرام بین، میزبان بین لیکن وزیر کو کچھ نہیں کہا جا نے سب کچھ کیا
واقعہ کی اصل ذمہ داری میزبان کاشف عباسی اور پروگرام کی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے، جس نے واڈا کو بوٹ لائیو شو میں لے کر جانےپر نہیں روکا۔ اور اگر اُس نے بوٹ میز پر رکھ ہی دیا تھا تو اسے فی الفور نہیں ہٹایا۔ الٹا وہ واڈا کے ساتھ ملکر دیگر مہمانوں کا تمسخر اڑاتے رہے۔ یہاں تک کہ اُس نے خود ہی بوٹ اٹھا کر نیچے رکھ دیا۔
 
Top