سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ہور کجھ ساڈے لیق


چین وہ ملک ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکہ کی ساری معاشی طاقت زمین بوس ہوجائے۔ چین کا سفیر پاکستان کے پرائم منسٹر الیکٹ سے اس کی رہائش گاہ میں قائم دفتر میں ملاقات کرتا ہے، وہ خود سوٹڈ بوٹڈ ہو کر آتا ہے جبکہ کپتان ایک عام سی سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل میں اس کا استقبال کرتا ہے۔ پیچھے دیوار پر ایک طرف درود شریف لکھا نظر آرہا ہے اور دوسری طرف طرف غالباً آیت الکرسی۔

چینی سفیر کے ساتھ آنے والے وفد کو عام برتنوں میں مکس چائے پیش کی گئی اور وفد میں شامل چار اراکین کو گن کر ٹوٹل آٹھ بسکٹ دیئے گئے جو کہ ہر ایک کے حصے میں محض دو، دو ہی آئے۔

چینی وفد پاکستان کے سابق حکمرانوں کی عیاشیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ قیمتی تحفہ بھی لایا تھا جو کہ خان نے شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ خان صاحب چینی وفد کے سامنے شرمندہ ہوئے اور کہا کہ بدقسمتی سے انہوں نے گفٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔ چینی وفد نے یک زبان ہو کر نو پرابلم کہا اور ٹکٹکی باندھ کر اپنے سامنے کھڑے اس 68 سالہ شخص کو دیکھنے لگ گئے کہ جو ہرلحاظ سے پاکستان اور خطے میں موجود دوسرے ممالک کے روایتی سربراہان سے مختلف لگ رہا تھا۔

ہم بچپن سے خلفائے راشدین سے لے کر قائد اعظم تک کی جو سٹوریاں پڑھتے یا سنتے آئے تھے، اب انشا اللہ عمران خان کی شکل میں چند ایک عملی مثالیں بھی دیکھ لیں گے۔

چاہے کچھ بھی ہوجائے، آپ یہ کبھی نہیں سنیں گے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے دس نئی شوگر ملیں، پانچ ٹیکسٹائل ملیں اور چھ سٹیل کے کارخانے قائم کرلئے۔ نہ ہی آپ یہ سنیں گے کہ عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے سرے پیلس یا ایون فیلڈ میں فلیٹس خریدے۔

یہ مکروہ روایات اب ماضی میں دفن ہوجائیں گی، عمران خان انشا اللہ ایک بہتر حکمرانی کی روایت کو جنم دے گا!!! بقلم خود باباکوڈا



میرے بھولے بھائی، کھانے پینے کا انتظام ہمیشہ الگ ہی ہوتا ہے۔
ورنہ چوہدری صاحبان کے لیے بچھا دسترخوان ملاحظہ فرما لیں۔
ناجائز تنقید کا اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ناجائز تعریف کا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہور کجھ ساڈے لیق


چین وہ ملک ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکہ کی ساری معاشی طاقت زمین بوس ہوجائے۔ چین کا سفیر پاکستان کے پرائم منسٹر الیکٹ سے اس کی رہائش گاہ میں قائم دفتر میں ملاقات کرتا ہے، وہ خود سوٹڈ بوٹڈ ہو کر آتا ہے جبکہ کپتان ایک عام سی سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل میں اس کا استقبال کرتا ہے۔ پیچھے دیوار پر ایک طرف درود شریف لکھا نظر آرہا ہے اور دوسری طرف طرف غالباً آیت الکرسی۔

چینی سفیر کے ساتھ آنے والے وفد کو عام برتنوں میں مکس چائے پیش کی گئی اور وفد میں شامل چار اراکین کو گن کر ٹوٹل آٹھ بسکٹ دیئے گئے جو کہ ہر ایک کے حصے میں محض دو، دو ہی آئے۔

چینی وفد پاکستان کے سابق حکمرانوں کی عیاشیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ قیمتی تحفہ بھی لایا تھا جو کہ خان نے شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ خان صاحب چینی وفد کے سامنے شرمندہ ہوئے اور کہا کہ بدقسمتی سے انہوں نے گفٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔ چینی وفد نے یک زبان ہو کر نو پرابلم کہا اور ٹکٹکی باندھ کر اپنے سامنے کھڑے اس 68 سالہ شخص کو دیکھنے لگ گئے کہ جو ہرلحاظ سے پاکستان اور خطے میں موجود دوسرے ممالک کے روایتی سربراہان سے مختلف لگ رہا تھا۔

ہم بچپن سے خلفائے راشدین سے لے کر قائد اعظم تک کی جو سٹوریاں پڑھتے یا سنتے آئے تھے، اب انشا اللہ عمران خان کی شکل میں چند ایک عملی مثالیں بھی دیکھ لیں گے۔

چاہے کچھ بھی ہوجائے، آپ یہ کبھی نہیں سنیں گے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے دس نئی شوگر ملیں، پانچ ٹیکسٹائل ملیں اور چھ سٹیل کے کارخانے قائم کرلئے۔ نہ ہی آپ یہ سنیں گے کہ عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے سرے پیلس یا ایون فیلڈ میں فلیٹس خریدے۔

یہ مکروہ روایات اب ماضی میں دفن ہوجائیں گی، عمران خان انشا اللہ ایک بہتر حکمرانی کی روایت کو جنم دے گا!!! بقلم خود باباکوڈا

صالح ظافر اور امیر حمزہ کے پیٹ پر لات مارنے کی تیاری ہے یہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
قائد عمران خان سے ملاقات کرنے والوں کو چائے پانی بھی مشکل سے پوچھا جاتا ہے کا اعتراف تحریک کے اپنے ورکرز کر چکے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں

اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

وزیرِ اعظم بننے کے بعد دو تین سال گزر نے دیجے، اچھے ہوں گے تو لوگ خود ہی اچھی رائے قائم کر لیں گے۔ بے جا قصیدہ گوئی سے اپنی رائے دوسرے لوگوں کے دماغوں میں ٹھونسنے کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے آخر۔ آپ اُن کے "آفیشل نمائندے "تو نہیں ہیں نا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
قائد عمران خان سے ملاقات کرنے والوں کو چائے پانی بھی مشکل سے پوچھا جاتا ہے کا اعتراف تحریک کے اپنے ورکرز کر چکے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں
عوام کو اچھے کام یاد نہیں رہتے یو ٹرن بھولتے نہیں ہیں

جب ملاقاتیوں کو پانی تک کا نہ پوچھا جائے تو "یو ٹرن " تو یاد آنے ہی ہیں۔

اپنی جیب سے تھوڑی بہت تواضع کر دینا بھی اخلاق کا تقاضہ ہے ،اپنے قائد کو سمجھائیے ۔
 
اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

وزیرِ اعظم بننے کے بعد دو تین سال گزر نے دیجے، اچھے ہوں گے تو لوگ خود ہی اچھی رائے قائم کر لیں گے۔ بے جا قصیدہ گوئی سے اپنی رائے دوسرے لوگوں کے دماغوں میں ٹھونسنے کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے آخر۔ آپ اُن کے "آفیشل نمائندے "تو نہیں ہیں نا۔
عوام کو اچھے کام یاد نہیں رہتے یو ٹرن بھولتے نہیں ہیں

لیں احمد بھائی پچھلے 8 برس کی مکمل کمپین اور جدوجہد کا نچوڑ پیش کر دیا ہے جناب نے-
ہور کجھ ایناں دے لیق-
 

جاسم محمد

محفلین
نون لیگ 11 اگست کو کفن تیار رکھے
38071617_1830478927029138_8532828152781602816_n.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
سوشل میڈیا ٹیم بھی اب یہی کہے گی تو دفاع کون کرے گا؟
یو ٹرن کا دفاع ممکن نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ قائد عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے کردار میں تبدیلی لائیں۔ اب وہ صرف پارٹی چیئرمین نہیں ہیں۔ پورے ملک کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہے۔ انٹرنیشنل فورمز پر روایتی یوٹرنز ملک کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top