سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ربیع م

محفلین
سوشل میڈیا ٹیم بھی اب یہی کہے گی تو دفاع کون کرے گا؟
جیسے کسی دور میں ہارس ٹریڈنگ کو ناپسندیدہ عمل سمجھا جاتا تھا اور یہ سب کام پس پردہ ہوا کرتے تھے مگر نئے پاکستان کی مہربانی سے اب کھلے عام ہو رہا ہے اور اس سے متعلق احساس جرم بھی آہستہ آہستہ کم ہو کر تقریباً ختم ہو گیا ہے یہی کوشش اب شاید سوشل میڈیا ٹیم کی یوٹرنز کے بارے میں ہو.
 
ہور کجھ ساڈے لیق


چین وہ ملک ہے کہ اگر وہ چاہے تو امریکہ کی ساری معاشی طاقت زمین بوس ہوجائے۔ چین کا سفیر پاکستان کے پرائم منسٹر الیکٹ سے اس کی رہائش گاہ میں قائم دفتر میں ملاقات کرتا ہے، وہ خود سوٹڈ بوٹڈ ہو کر آتا ہے جبکہ کپتان ایک عام سی سفید شلوار قمیض اور پشاوری چپل میں اس کا استقبال کرتا ہے۔ پیچھے دیوار پر ایک طرف درود شریف لکھا نظر آرہا ہے اور دوسری طرف طرف غالباً آیت الکرسی۔

چینی سفیر کے ساتھ آنے والے وفد کو عام برتنوں میں مکس چائے پیش کی گئی اور وفد میں شامل چار اراکین کو گن کر ٹوٹل آٹھ بسکٹ دیئے گئے جو کہ ہر ایک کے حصے میں محض دو، دو ہی آئے۔

چینی وفد پاکستان کے سابق حکمرانوں کی عیاشیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ساتھ قیمتی تحفہ بھی لایا تھا جو کہ خان نے شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے سرکاری ریکارڈ میں جمع کروانے کی ہدایت کردی۔ خان صاحب چینی وفد کے سامنے شرمندہ ہوئے اور کہا کہ بدقسمتی سے انہوں نے گفٹ کا انتظام نہیں کیا تھا۔ چینی وفد نے یک زبان ہو کر نو پرابلم کہا اور ٹکٹکی باندھ کر اپنے سامنے کھڑے اس 68 سالہ شخص کو دیکھنے لگ گئے کہ جو ہرلحاظ سے پاکستان اور خطے میں موجود دوسرے ممالک کے روایتی سربراہان سے مختلف لگ رہا تھا۔

ہم بچپن سے خلفائے راشدین سے لے کر قائد اعظم تک کی جو سٹوریاں پڑھتے یا سنتے آئے تھے، اب انشا اللہ عمران خان کی شکل میں چند ایک عملی مثالیں بھی دیکھ لیں گے۔

چاہے کچھ بھی ہوجائے، آپ یہ کبھی نہیں سنیں گے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے دس نئی شوگر ملیں، پانچ ٹیکسٹائل ملیں اور چھ سٹیل کے کارخانے قائم کرلئے۔ نہ ہی آپ یہ سنیں گے کہ عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے سرے پیلس یا ایون فیلڈ میں فلیٹس خریدے۔

یہ مکروہ روایات اب ماضی میں دفن ہوجائیں گی، عمران خان انشا اللہ ایک بہتر حکمرانی کی روایت کو جنم دے گا!!! بقلم خود باباکوڈا

کوئی سال چھ ماہ قبل کسی تبدیلی رضاکار کی فیسبک وال پر ایک تحریر پڑھی تھی جس میں وہ خان صاحب کو قائد اعظم سے بڑا رہنما قرار دینے کی سعی فرما رہے تھے۔ ازراہ تفتن کہا کہ قائد اعظم تو ایک ہی تھے آپ ان سے کہاں ملا رہے تو بولے وہ بیسیوں صدی کے قائد اعظم تھے اور یہ اکیسویں صدی کے۔

بس پھر ہم یہی سوچ کر رہ گئے کہ قیامت کنے وجے اے۔
 
یو ٹرن کا دفاع ممکن نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ قائد عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد اپنے کردار میں تبدیلی لائیں۔ اب وہ صرف پارٹی چیئرمین نہیں ہیں۔ پورے ملک کی باگ دوڑ ان کے ہاتھ میں ہے۔ انٹرنیشنل فورمز پر روایتی یوٹرنز ملک کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں
بندہ بسا اوقات ایک ارادہ کرتا ہے لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔
استخارہ کی مناسبت سے چلنا چاہئے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top