۔ حکومت کی پالیسی سے ریاست کے باشندے بیروزگار ہوئے ہیں، اس کے لیے کیا سوچا ہے نصب شدہ حکومت نے؟
سابقہ حکومت نے قومی خزانے سے اشتہارات کی بھرمار کر کر کے ان ٹی وی چینلز کی صنعت کو مصنوعی بڑھاوا دیا ہوا تھا۔ جیسے اسحاق ڈار نے قومی خزانے سے ڈالر خرید خرید کر مارکیٹ میں پھینکنے سے4 سال مصنوعی طور پر روپے کی قیمت گرنے نہیں دی۔ یہ اسی قسم کا کرپٹ کھیل چل رہا تھا جسے نئی حکومت نے آکر بند کر دیا۔ اب یہ مارکیٹ کی مانگ سے زائد صحافی، اینکرز اور ملازمین جو قوم کے ٹیکس کے پیسوں پر پل رہے تھے فارغ کئے جا رہے ہیں تو میڈیا اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دے رہا ہے۔
او بھئی یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پچھلی حکومت قومی خزانے سے اپوزیشن کے خلاف اشتہارات چلا چلا کر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اور عوام اس دوران سوشل میڈیا پر مفت میں اصل حقائق سے فیض یاب ہوتی رہی۔ جب حکومت نے بالآخر الیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر قدم جمائے تو تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ پورے سوشل میڈیا اور جی ایچ کیو میں تبدیلی کا شور تھا۔ نتیجتاً الیکشن کے بعد زمینی حقائق تبدیل ہو گئے۔
آج بھی قوم کی اکثریت الیکٹرونک میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا پر اپنا زیادہ وقت گزارتی ہے۔ جہاں آزاد ماحول میں دونوں اطراف سے ہمہ وقت گولہ باری ہوتی ہے۔ اور عوام خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ حکومت کا موقف درست جا رہا ہے یا اپوزیشن کا۔ اب کسی الیکٹرونک میڈیا کو قائم رکھنے کیلئے قومی خزانے سے خرچہ کرنے ضرورت نہیں ہے۔ اکا دکا نیوز چینلز جو اپنی معیشت خود چلا سکتے ہیں وہ قائم رہیں گے۔ باقی اپنا بوریا بستر گول کریں اور کوئی اور کام ڈھونڈیں۔