سہیل وڑائچ صاحب نے کل ایک
کالم تحریر کیا تھا،
÷÷÷
دیوتا بھینٹ مانگتے ہیں
۔۔۔۔۔
دیو مالائی دنیا بڑی پُراسرار اور عجیب ہوتی تھی۔ ملک میں قحط پڑ ے، بھوک اور غربت کا غلبہ ہو جائے یا پھر ملک معاشی بحران کا شکار ہو جائے تو یہ دیوتا کے ناراض ہونے کی نشانی ہوتی تھی۔ اُس کے غضب اور عذاب سے بچنے کے لئے راجے اور مہاراجے بھینٹ چڑھایا کرتے تھے جس سے عذاب وقتی طور پر ٹل جاتا تھا، رعایا بھی بھینٹ کا خون دیکھ کر کچھ عرصہ کے لئے مطمئن ہو جاتی تھی۔ یاد رکھیں کہ بھینٹ تب چڑھائی جاتی تھی جب راجہ سے کوئی بڑی غلطی سرزد ہو جاتی تھی۔ انسانی خون کی بھینٹ دراصل اس غلطی کا مداوا ہوتی تھی۔ اب دیومالائی دور تو ختم ہو چکا مگر لاڈلے راجہ کی حکومت ایسے مرحلے پر آگئی ہے کہ اسے اپنی غلطیوں کو بخشوانے کے لئے بھینٹ چڑھانا پڑے گی۔
آئی جی پولیس کی تبدیلی یا سیکرٹریوں کے تبادلوں کی چھوٹی اور ادنیٰ بھینٹ سے کام چلنے والا نہیں ہے۔ اسد عمر، عثمان بزدار، محمود خان اور کئی دوسرے بڑوں کو اِدھر اُدھر کرنا پڑے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے دیوتا ناراض تھے، حفیظ پیرزادہ اور کوثر نیازی کی قربانی مانگتے تھے، بھٹو ضدی تھا، نہ مانا، اسی لئے خود نشانہ بن گیا۔ نواز شریف میں لچک تھی، اس سے نہال ہاشمی، مشاہداللہ خان، پرویز رشید، رائو تحسین اور طارق فاطمی کی بھینٹ مانگی گئی، اُس نے بادل نخواستہ وقتاً فوقتاً قربانیاں دیں مگر پھر بھی اسےمکت نصیب نہ ہوا اور بات یہاں تک پہنچی کہ بالآخر اسے خود بھی قربان ہونا پڑا۔ انگریزی ڈرامہ نگار اور آفاقی مفکر ولیم شیکسپیئر نے اسی صورت حال کے حوالے سے لکھا تھا ’’دیوتاؤں کے لئے انسان مکھیوں کی طرح ہیں، وہ کھیل ہی کھیل میں ان کا شکار کرتے رہتے ہیں‘‘۔
لاڈلے راجہ کی کشتی اب معاشی گرداب میں ہے۔ اسد عمر کی تقرری اور 8ماہ کی وزارت نے قومی خزانے کو 500ارب روپے کا ٹیکہ لگا دیا۔ کشتی گرداب سے نہ نکلے تو بقول استاد قمر جلالوی ’’کشتی سے بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘۔ مشورہ ہے کہ اسد عمر جیسے قابل وزیر سے وزارت خزانہ کی آسان ذمہ داری واپس لے کر اُنہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی مشکل اور پیچیدہ وزارت دے دیں گو تجویز اُنہیں پٹرولیم کی وزارت دینے کی ہے مگر وہ بھی آسان سی وزارت ہے، بہتر ہو کہ اُنہیں سمندر کی لہریں گننے کے سخت اور جاں گسل کام پر تعینات کیا جائے تاکہ وہ اپنے علم اور تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سمندری لہریں دیکھ کر ہی اندازہ لگا لیں کہ آئندہ دنوں میں سمندر سے کتنا تیل نکلے گا۔ اس کام کے لیے ’’ایگزان موبل‘‘ کی رگز کو خواہ مخواہ تیل کی تلاش کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے حالانکہ اس کام کے لئے اسد عمر کی عقابی نظریں ہی کافی ہیں۔
کمزور پنجاب حکومت اور انتقام سے بھری وفاقی حکومت، پولیس سے اس لیے ناراض تھی کہ لاہور میں حمزہ شہباز کے گھر کے اندر داخل ہو کر اسے گرفتار کیوں نہ کیا گیا اور اسلام آباد میں زرداری اور بختاور کو عدالت میں ڈنڈے کیوں نہ مارے گئے۔ اگر واقعی یہ حقیقت ہے تو پھر سمجھیں کہ معاملات انتہائی خرابی کی طرف جا رہے ہیں اور پولیس کے تبادلوں کے باوجود بہتر نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف لاڈلے راجہ کے دو منکر نکیروں یعنی مخدوم مودی ملتانی اور ترین لودھروی کے درمیان فیصلہ کن جنگ زوروں پر ہے۔ ترین لودھروی کافی پس پردہ رہنے کے بعد میدان عمل میں اتر کر ننگی تلوار لہرا رہے ہیں۔ دوسری طرف مخدوم مودی ملتانی جو کبھی کچی زمین پر پاؤں نہیں رکھتے، شدتِ جذبات میں ایک ایسا بیان دے بیٹھا جس سے لاڈلا راجہ ناراض ہو گیا اور ترین لودھروی اور ان کے ساتھیوں کو مودی ملتانی کو رگڑنے کا موقع مل گیا۔ کہانی پرت در پرت ہے، مخدوم مودی ملتانی وزارت خارجہ پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے، ان کی شدید خواہش ہے کہ اُنہیں وزیراعلیٰ پنجاب بنایا جائے۔ عسکری خان بھی بخوشی اسے یہ عہدہ سونپ دے گا مگر لاڈلے راجہ کا مودی ملتانی پر اعتبار قائم نہیں رہا، وہ اسے وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے بجائے جونہی موقع ملا، وزارت خارجہ سے بھی ہٹانے کا سوچ رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے کوئی غیر اہم وزارت دی جائے کیونکہ دونوں کے درمیان شک کی دیوار کھڑی ہو چکی ہے۔ مودی ملتانی کے مخالفوں نے لاڈلے راجہ کے کان بھرے ہیں اور اسے یقین دلایا ہے کہ مودی ملتانی اب وزیراعظم بننے کی سازش کر رہا ہے، اسی لئے وہ رات کے اندھیروں میں کئی ملاقاتیں کرتا پایا گیا ہے۔ دوسری طرف ترین لودھروی کو شک ہے کہ اسے نااہل کروانے میں مودی ملتانی کا ہاتھ تھا، گو اس کے پاس کوئی ثبوت تو نہیں لیکن پھر بھی اسے یقین ہے کہ یہ سازش لندن میں تیار ہوئی اور اس کے پیچھے مودی ملتانی تھا، اسی لئے ترین لودھروی اسے معاف کرنے کو تیار نہیں۔ تازہ ترین صورتحال میں مودی ملتانی کمزور اور ترین لودھروی مضبوط ہو گیا ہے۔ سابق گورنر آف جمال دین والی نے اس صورتحال پر دلچسپ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’مودی ملتانی دیسی مرغی ہے، جو برائیلروں کی جماعت تحریک انصاف میں ہے۔ اس دیسی مرغی کا وہاں چلنا مشکل ہے‘‘۔ آج کل گورنر چوہدری، مودی ملتانی کو حوصلہ دے رہا ہے لیکن آئی جی پنجاب کے تبادلے سے وہ بھی ناراض ہے کیونکہ اُسی نے اسے لگوایا تھا۔ وفاقی دارالحکومت سے ملنے والی خبروں کے مطابق فواد جہلمی دوبارہ سے’’ اِن‘‘ ہو گیا ہے، وہ پی ٹی وی کے ایم ڈی ارشد خان کو ’’آؤٹ‘‘ کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ نعیم بینکر کو لاڈلے راجہ نے سمجھایا ہے کہ تم وزارت اطلاعات میں دخل اندازی نہ کرو۔ لاڈلے راجہ کو آئی ایم ایف کی قسط ملنے سے بجٹ بنانے میں تو قدرے آسانی ہو جائے گی مگر اس کی مشکلیں آسان ہوتی نظر نہیں آتیں۔ مہنگائی کا طوفان ہے کہ تھمنے میں نہیں آرہا۔ معاشی جمود نے ہر کاروبار کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ بجٹ میں اگر بزنس کلاس پر نئے ٹیکس لگے (جو لگانا پڑیں گے) تو خدشہ ہے کہ ہڑتالیں ہوں گی اور معاشی پہیہ رک جائے گا۔ فوجی کمان کے حوالے سے اہم فیصلے کا وقت بھی قریب آنے والا ہے۔ کمزور گورننس اور خراب معیشت کے ساتھ ملک زیادہ دیر نہیں چل سکتا، کہیں نہ کہیں سے آواز اٹھے گی اور سارے نظام کو تلپٹ کر دے گی۔ اندازہ یہ ہے کہ تبدیلی نظام کے اندر سے ہی آئے گی، کوشش کی جائے گی کہ بغیر پارلیمان توڑے اسی اسمبلی کے اندر سے ہی تبدیلی آجائے۔ پنجاب حکومت بھی نازک آشیانے پر قائم ہے، کچھ پرندے بھی اڑ گئے تو حکومت کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔ بہرحال اس ساری صورتحال کا انحصار معیشت پر ہے، اگر تیل نکل آیا یا ہمیشہ کی طرح لاڈلے راجہ کی برکت سے کوئی معجزہ رونما ہو گیا تو پھر حکومت یونہی چلتی رہے گی اور اگر حالات تبدیل نہ ہوئے اور نہ تیل نکلا اور نہ ہی کوئی معجزہ رونما ہوا تو پھر عوام خان اور عسکری خان، لاڈلے راجہ کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر پائیں گے۔ اس سال کے آخری مہینوں تک رسی دراز ہو سکتی ہے مگر توڑ پھوڑ جاری رہے گی۔ بھینٹ بار بار چڑھانا پڑے گی، دیوتا بھینٹ لیتا رہے گا مگر مکمل طور پر راضی نہیں ہو گا۔