ایک بندہ باہر سے واپس آیا تو دیکھا کہ گھر میں نوکر چاکر گاڑیوں کی ریل پیل لگی ہوئی ہر طرف خوشحالی ہر کمرے میں اے سی چل رہا ہے
وہ بڑا حیران ہوا کہ جتنے پیسے میں بھیجتا ان میں یہ سب تو نہیں ہوسکتا جب حساب کیا تو پتہ لگا کہ 40 لاکھ سال کا بھیجتا جبکہ گھر والے 60 لاکھ خرچ کرتے
پوچھا باقی 20 لاکھ کہاں سے آتا تو پتہ لگا وہ قرض لیتے تھے جس سے قرض 100 لاکھ چڑھ گیا۔ بندہ بہت پریشان ہوا اور سوچا اس کو ٹھیک کرنا ہے۔
بھائیوں نے بتایا کہ فوری 10 لاکھ قرض کی قسط بھی واپس دینی ہے اور 20 لاکھ اضافی خرچ والا بھی چاہیے
اپنا اکاونٹ دیکھا تو اس میں صرف 9 لاکھ تھے
مرتا کیا نہ کرتا بیچارے نے دوستوں سے فوری ادھار مانگا تاکہ قسط بھی اتارے اور اضافی خرچ بھی پورا کرے
پھر اس نے فالتو نوکر نکالنے کا سوچا تو پتہ لگا ان سے تو کئی سال کا معاہدہ ہے کام کریں نہ کریں تنخواہ دینی ہوگی
بجلی کا پتہ لگا کہ کئی ماہ بل نہ جمع کروانے سے 12 لاکھ تک چڑھ چکا۔
خیر بڑی زور زبردستی اور گھر والوں کی نارضگی مول لیکر پہلے سال اس نے 60 لاکھ سے خرچہ کم کرکے 53 لاکھ کیا لیکن ابھی بھی آمدن سے 13 لاکھ کا فرق تھا لہذا مزید قرض لیکر فرق ادا کیا اور مزید سختی شروع کردی جس سے دوسرے سال خرچ اپنی کمائی کے قریب 44 لاکھ پر لے آیا
اب ساری کوشش یہ ہے کہ اپنی آمدن 40 لاکھ سے بڑھائے تاکہ گھر والوں پر سختی کم ہو اور حالات بہتر ہوں۔
گھر والے کہتے ہیں تمہارے آنے سے پہلے سب اچھا بھلا چل رہا تھا تم نے تو ہماری زندگی عذاب کردی!
(منقول)
ایک غیر سیاسی کہانی
ایک ہمدرد دل انسان بہت سے غریبوں اور بے کسوں کا سرپرست بن جاتا ہے. جو ایک خستہ حال گھر میں رہتے ہیں. ان کے اوپر قرضہ بھی بہت ہوتا ہے اور سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر. وہ ان کی مدد کرنے کا ارادہ کرتا ہے. اس کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ قرضہ اتارنے کے لئے ذریعہ معاش کو بڑھانا پڑے گا. لیکن گھر اور ان بے کسوں کے پاس کچھ خاص ذریعہ معاش ہوتا نہیں. وہ تھوڑا سا اور قرضہ لے کر کسی کو کریانہ کی دکان ڈال دیتا ہے تو کسی کو ٹیکسی لے دیتا ہے. ان کے گھر کی حالت کو بھی سنوار دیتا ہے کہ وہ محنت مزدوری کے بعد آرام دہ نیند حاصل کریں تاکہ اگلے دن اور زیادہ محنت کریں. وہ گھر کے چوکیدار کو اچھے آلات اور رہنے کے لئے بہتر کوٹھری اور اے سی لگوا دیتا ہے. ٥ سال میں گھر کی آمدنی دگنی ہو جاتی ہے، اور اس آمدنی میں مزید تیزی سے اضافے کی امید بھی نظر آنے لگ جاتی ہے.
گھر کی حالت میں بہتری دیکھتے ہوئے چوکیدار کی نیت بدل جاتی ہے اور وہ ایک ڈاکو اور اغوا کاروں کے ساتھ مل کر اس بندے کو نکلوا دیتا ہے اور ان لوگوں کو بتاتا ہے کہ یہ ڈاکو دنوں میں تمہارا سارا قرضہ بھی اتار دے گا اور تم کو ارب پتی بھی بنا دے گا. وہ سادہ لوگ اس کی باتوں میں آ جاتے ہیں.
لیکن وہ تو چوکیدار کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہ نشئی بھی ہے. وہ شخص اپنے ساتھ چوروں اور ڈاکوں کو لے آتا ہے اور سارا وقت پرانے ہمدرد کو کوستا رہتا ہے اور اگر کوئی غریب، بےکس غلطی سے پرانے ہمدرد کی تعریف کر دے تو اس کو بیحد غصہ اور جھنجلاہٹ ہوتی ہے جس میں وہ ان کے گھر کی مزید چیزیں تباہ کر دیتا ہے یا بیچ آتا ہے. سب سے پہلے تو وہ جو ٹیکسی اور کریانہ سے کچھ آمدن شروع ہوئی ہوتی ہے اس پر وہ اپنے چور ساتھیوں کو بیٹھا دیتا ہے اور وہ آمدنی بھی رک جاتی ہے. پھر وہ گھر میں جو دو چار آسائش کی چیزیں ائی ہوتی ہیں ان کو ان لوگوں سے لے کر اپنے ساتھیوں میں دے دیتا ہے اور ان غریبوں کو کہہ دیتا ہے کہ اس کی وجہ سے تم لوگ ہڈحرام ہو رہے ہو.
پھر جب قرض دار اس سے مانگنے آتے ہیں تو وہ ان سے الجھ پڑتا ہے. جنھوں نے ہمیشہ اس گھر کی مدد کی ہوتی ہے اور گھر والوں کی مشکلات کا احساس کیا ہوتا ہے وہ ان کو ہی گالیاں دینا شروع کر دیتا ہے. جس سے وہ بھی اس گھر کی مزید مدد سے انکار کر دیتے ہیں. گلی میں نکلتا ہے تو ان ہمیشہ ان غریبوں بے کسوں کے عیب بیان کرتا ہے یہاں تک کہ لوگ اس کو بلانا چھوڑ دیتے ہیں اور چوکیدار سے ہی بات کر کے چلے جاتے ہیں. پچھلے ہمدرد نے گھر کی ڈال روٹی کے لئے مرغیاں اور کٹے پالے ہوئے تھے، وہ بھی اس کے چور ساتھ بیچ دیتے ہیں یہاں تک کہ اس گھر کے لوگوں کو انڈے، دودھ جو کہ پہلے گھر میں وافر ہوتا تھا اس کے لئے بھی پڑوسیوں اور دکانداروں کے پاس جانا پڑتا ہے.
اس کی اس گھر سے اس نفرت کو بھانپتے ہوئے پیچھے والا پڑوسی گھر کے ایک حصہ پر قبضہ کر لیتا ہے اس پر بھی وہ اس پڑوسی کے خلاف کچھ کرنے کے ان غریبوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتا ہے. یا پھر اپنے مددگاروں کو کوستا ہے جبکہ اس کے ساتھیوں میں پڑوسی کے دوست شامل ہیں
تو دو سال میں آمدنی میں ایک پیسے کا اضافہ نہیں ہوتا بلکہ کمی ہوتی ہے. قرضہ مزید بڑھ جاتا ہے. غریبوں کے حالات جو تھوڑے بہتر ہو رہے ہوتے ہیں وہ مزید خراب ہو جاتے ہیں. چوکیدار جو اس نشئی چور کو لایا ہوتا ہے اس کو بھی مزید آلات نہیں ملتے. روز رات کو وہ نشہ کرنے سے پہلے پرانے والے ہمدرد کو برا بھلا کہتا نہیں چھوڑتا اگرچہ کچھ پھر بھی اس کے سہانے خوابوں کو حقیقت سمجھ رہے ہیں لیکن گھر کے اکثر غریب بے کس اب اس کی باتوں سے اکتا چکے ہیں اور اس کے گھسی پتی الزام تراشی سے تنگ آ چکے ہیں بلکہ اس کے ساتھ اپنے چوکیدار کو بھی مورد الزام ٹھہرانے لگ گئے ہیں.
----ختم----