اس مسخرہ قوم کو صرف دو سال میں تبدیلی اور ریاست مدینہ چاہئے
بوٹ چاٹ بیانیہ فلاپ، مزاحمتی بیانیے کی واپسی25 جولائی 2018 سے پہلے یہ قوم عشاء کے وضو سے فجر ادا کرتی تھی۔۔۔
بوٹ چاٹ بیانیہ فلاپ، مزاحمتی بیانیے کی واپسی
انصافین بھی بُوٹ پالشی، اور وہ بھی۔ فرق تھوڑا سا ہی رہ گیا ہے۔ وہ بوجوہ اس چکر سے نکل رہے ہیں اور ہم اِس میں دھنس رہے ہیں۔ سب اِقتدار کا گیم ہے۔ ایسا ہے تو کپتان نام کا ہی رہ جائے گا۔ کوڑے دان تاریخ کا منتظر ہے بھئی۔بوٹ چاٹ بیانیہ فلاپ، مزاحمتی بیانیے کی واپسی
ایسا ہے تو کپتان نام کا ہی رہ جائے گا۔ کوڑے دان تاریخ کا منتظر ہے بھئی۔
یہ لوگ اقتدار میں واپسی کیلئے قومی خزانہ کو۲۰ ارب ڈالر کا تاریخی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دے سکتے ہیں تاکہ عوام الیکشن تک خوش رہے، بیشک بعد میں ملک دیوالیہ ہو جائے۔ تو اب ہر جگہ سے ریلیف اور این آر او کے دروازے بند ہونے پر ملک میں خانہ جنگی کیوں نہیں کر وا سکتے؟سب اِقتدار کا گیم ہے۔
کپتان تو بڑے مزے میں ہے۔ جو لڑائی اسے اپوزیشن کے ساتھ کرنی چاہئے تھی وہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن والے آپس میں کر ہے ہیںبدنام اگر ہونگے تو کیا نام نہ ہوگا
ان سب الزامات کی زد میں اک دن کپتان ہوگا۔۔۔
کپتان بس اِسی مزے میں ہے کہ اِقتدار مِلا ہُوا ہے۔ انجائے دی پارٹی!کپتان تو بڑے مزے میں ہے۔ جو لڑائی اسے اپوزیشن کے ساتھ کرنی چاہئے تھی وہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن والے آپس میں کر ہے ہیں
اقتدار کی خاطر خان اعظم نے ملک کی خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسی پر کہیں نہ کہیں فوج کے ساتھ ساز باز کیا ہے۔ اسی سمجھوتے کے تحت یہ ایک پیج والا ہائبرڈ نظام ابھی تک ٹھیک چل رہا ہے۔ اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی سیاست دان بطور متبادل سیاسی قیادت کے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا نہیں بن پا رہا۔کپتان بس اِسی مزے میں ہے کہ اِقتدار مِلا ہُوا ہے۔ انجائے دی پارٹی!
یعنی ہارون رشید عِمران خان کو بہتر سمجھے کہ اِس کا مُقابلہ صِرف زرداری و نواز سے کیا جا سکتا ہے، بڑے لیڈرز کے ساتھ کِسی صورت نہیں۔اقتدار کی خاطر خان اعظم نے ملک کی خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسی پر کہیں نہ کہیں فوج کے ساتھ ساز باز کیا ہے۔ اسی سمجھوتے کے تحت یہ ایک پیج والا ہائبرڈ نظام ابھی تک ٹھیک چل رہا ہے۔ اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی سیاست دان بطور متبادل سیاسی قیادت کے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا نہیں بن پا رہا۔
یہاں عمران خان کی جگہ شریف یا زرداری ہوتے تو بہت پہلے ہی یہ نظام بھی معطل (مارشل لا) یا نااہلی (جیل) کا شکار ہو جانا تھا۔
پہلے جنرل صاحب نے چھپ کر تمام سیاست دانوں کو بلایا تاکہ انہیں گلگت بلتستان سے متعلق اپنے فیصلے پر راضی کرلیں۔ اپوزیشن نئے نقشے کی طرح اس نئے انضمام پر راضی نہ ہوئی تو اس ملاقات کا راز یوں افشا کوریا گویا وہ اپنی کسی غرض سے خود ہی ملنا چاہتے تھے۔ بہرحال نیا نقشہ ہو یا نئے انضمام کا منصوبہ، نیازی صاحب ان سب باتوں سے بے نیاز ہیں۔ گویا کہتے ہوںفوج سے سب سیاست دان بشمول آپ کے مولانا چھپ چھپ کر ملتے ہیں۔ ایک شیخ رشید ہی ہے جو کھل کر ان ملاقاتوں کا اقرار کرتا ہے۔ اور آپ کے منافق جمہوریت پسندوں کو آگ لگ جاتی ہے
پہلی ٹرم میں چھوٹے چوروں کو قانون کے نیچے لانا ہے۔ اگر اس میں کامیابی ملی تو اگلی ٹرم میں بڑے چور بھی قانون کے سامنے سر جھکائیں گے۔ پائلٹ پراجیکٹ جاری و ساری ہےیعنی ہارون رشید عِمران خان کو بہتر سمجھے کہ اِس کا مُقابلہ صِرف زرداری و نواز سے کیا جا سکتا ہے، بڑے لیڈرز کے ساتھ کِسی صورت نہیں۔
واہ۔ یہی بات تو ہم آپ کو سمجھانا چاہتے تھے۔ نیازی صاحب صحیح معنوں میں کٹھ پتلی ہیں۔ دوسرے سویلین گو فوج کی مرضی ہی سے سہی، اقتدار ملنے پر فوج کی پنگے بازی نہیں چاہتے۔ یہ ہی تو فرق ہے کٹھ پتلی اور سویلین سیاست دانوں میں!اقتدار کی خاطر خان اعظم نے ملک کی خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسی پر کہیں نہ کہیں فوج کے ساتھ ساز باز کیا ہے۔ اسی سمجھوتے کے تحت یہ ایک پیج والا ہائبرڈ نظام ابھی تک ٹھیک چل رہا ہے۔ اور اپوزیشن میں سے کوئی بھی سیاست دان بطور متبادل سیاسی قیادت کے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا نہیں بن پا رہا۔
یہاں عمران خان کی جگہ شریف یا زرداری ہوتے تو بہت پہلے ہی یہ نظام بھی معطل (مارشل لا) یا نااہلی (جیل) کا شکار ہو جانا تھا۔
کسرِ نفسی سے کام لیا ہے جناب نے۔ یوں کہیے کہ مکمل اقتدار محکمۂ زراعت کو سونپا ہے، خود بیٹھے چین کی بنسی بجاتے ہیں۔ دنیا کو بھی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر خاموش کردیا۔ خوب کام ہے محکمۂ زراعت کا بھی۔ ایسا کٹھ پتلی حکمران انہیں آج تک نہ ملا تھا۔ سویلین یوں تو خوب بوٹ پالش کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آکر منہ نہیں لگاتے۔اقتدار کی خاطر خان اعظم نے ملک کی خارجہ، داخلہ اور معاشی پالیسی پر کہیں نہ کہیں فوج کے ساتھ ساز باز کیا
ہم بھی آپ کو یہی سمجھانا چاہتے تھے کہ جو سیاست دان فوج سے معاملات طے کر کے اقتدار میں آتے ہیں۔ ان کو ڈیل سے ہٹنے یعنی اپنی من مانی کے جواب میں ہونے والے فوجی ردعمل پر جمہوریت کے آنسو بہانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اسی لئے شیخ مجیب کے علاوہ باقی تمام سیاست دان جنہوں نے فوج سے ساز باز کر کے اقتدار سنبھالا جمہوری نہیں تھے نہ ہیں۔دوسرے سویلین گو فوج کی مرضی ہی سے سہی، اقتدار ملنے پر فوج کی پنگے بازی نہیں چاہتے۔
بالکل اسی غلط روش کو خان اعظم نے اقتدار میں آکر ختم کر دیا ہے۔ اب تو آپ کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو ساز بازی عمران خان نے فوج کے ساتھ اقتدار میں آنے سے قبل کی تھی وہ اس پر آج بھی پوری طرح سے قائم ہیں۔ ہاں نواز شریف کے یوں اچانک ملک سے فرار ہو جانے پر انہوں نے عدلیہ کو آنکھیں ضرور دکھائیں تھی۔ مگر پھر فورا ہی اس کا جواب جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کینسل ہونے کی صورت میں مل گیا۔سویلین یوں تو خوب بوٹ پالش کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آکر منہ نہیں لگاتے۔
طلال چوہدری کے مطابق جس سڑک پر ان کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں وہ بھی الحمدللّٰہ نواز شریف نے ہی بنائی تھی۔on a lighter note
طلال چوہدری اپنی ہی پارٹی کی ایم این اے کے گھر رات تین بجے تنظیم سازی کرتے ہوئے اس کے بھائیوں سے اپنا فون گنوا اور بازو تڑوا بیٹھے۔ چوہدری صاحب نے خود بتایا کہ وہ وہاں تنظیم سازی کرنے گئے تھے۔
رات کے تین بجے تنظیم سازی؟ صبح صبح انقلاب آ رہا تھا؟on a lighter note
طلال چوہدری اپنی ہی پارٹی کی ایم این اے کے گھر رات تین بجے تنظیم سازی کرتے ہوئے اس کے بھائیوں سے اپنا فون گنوا اور بازو تڑوا بیٹھے۔ چوہدری صاحب نے خود بتایا کہ وہ وہاں تنظیم سازی کرنے گئے تھے۔