سیدمصطفی کمال مسلم دنیاکےجواں سال لیڈر

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
میرے قائد

خدائے پاک سے ہر پل یہ ہی دعا ہے میری
کہ خدا عمر آپکی اور بھی دراز کرے

ہزار باد مخالف چلے مگر یونہی
خدائے پاک آپ کی عظمتیں فراز کرے

آمین ثم آمین -

1416.gif
 
میں بھی سوچ رہا ہوں کہ کراچی کا ایک دورہ کر ہی لوں۔ ۔ ۔دیکھیں تو سہی کہ کیا انقلاب آگیا ہے اُدھر
ویسےکراچی میں ترقیاتی کام تو کافی کیا گیا ہے لیکن اس کام میں پإئیداری کا فقدان ہے۔غالبا رمضان میں جس ثمامہ فلائی اوور کا افتتاح کیا گیا اس سے متصل یونیورسٹی روڈ صرف ایک ہی بارش میں کہیں بہہ گیا ہےاسی طرح کے کام کئے گئے ہیں۔اب کیا سر پیٹا جائے اس پر۔۔۔۔:atwitsend:
بولتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے :skull::wasntme:
 

آفت

محفلین
پورے ملک کا پیسہ کراچی میں اسٹیٹ بینک کے پاس آتا ہے چاہے وہ جنرل سیلز ٹیکس کی مد ہو یا کسی اور ٹیکس کو صورت میں ۔ پھر تقسیم بھی تو کراچی سے ہی ہونا ہے نا بھائی ۔
پوری بات کیوں نہیں کرتے ۔

کراچی پاکستان کو ہر سال% 70ریونیو دیتا ہے ۔ یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے؟!
 

آفت

محفلین
ناظم کراچی کی مثال تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک بوڑھا کسان کھیت میں فصل کاشت کرے اور جب فصل تیار ہو جائے تو اس کا بیٹا آ کر فصل کی کٹائی کر دے ۔
دعائیں دو سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کو کہ جنہوں نے دن رات ایک کر کے کراچی میں سیکڑوں ترقیاتی منصوبے شروع کیے کچھ تو ان کی نظامت میں مکمل ہوئے اور باقی رہ جانے والے مصطفٰی کمال کے حصے میں آ گئے جو بڑے فخر سے اپنے نام کی تختی کے ساتھ نعمت اللہ خان کے منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے پھولے نہیں سما رہے ۔
 

میر انیس

لائبریرین
نہیں ایسی کوئی بات نہیں نعمت اللہ صاحب نے صرف پارک وغیرہ اور اسطرح کے دوسرے کاموں پر توجہ دی تھی جو عام انسان کو فوراََِِِِ نظر آئیں پر انکی باقی کارکردگی صفر تھی جب کہ مصطفٰے بھائی نے تو پورے کراچی کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے آپ اورنگی اور بلدیہ ٹائون وغیرہ جیسے ایسے علاقوں میں جاکر دیکھیں جہان کوئی پھٹکتا تک نہیں تھا آج وہاں کا نقشہ ہی چینج ہے میں کافی عرصہ بعد جب وہاں گیا تو حیران رہ گیا۔نعمت اللہ صاحب تو اپنے ذرا سے کام پر بھی شاباش نعمت اللہ کے بینر لگوادیتے تھے تاکہ اگر کسی کو انکا کام نظر نہ آئے تو وہ کم از کم بینر پڑھ کر سمجھ جائیں کہ ہاں کوئی کام ہوا ہے جب کہ مصطفٰے بھائی کو کسی بینر کی ضرورت نہیں ہے ہر شہری کہ خود منہ سے نکلتا ہے۔۔۔شاباش مصطفٰے کمال شاباش
 

میر انیس

لائبریرین
پورے ملک کا پیسہ کراچی میں اسٹیٹ بینک کے پاس آتا ہے چاہے وہ جنرل سیلز ٹیکس کی مد ہو یا کسی اور ٹیکس کو صورت میں ۔ پھر تقسیم بھی تو کراچی سے ہی ہونا ہے نا بھائی ۔
پوری بات کیوں نہیں کرتے ۔
معاف کیجئے گا آپ کی معلومات صحیح نہیں اسلئے کہ ریوینیو کی تقسیم وفاق کے زیرِ انتظام ہوتی ہے اسلام آباد میں اگر کراچی سے جتنا ریوینیو اکھٹا ہوتا ہے اگر آدھا بھی کراچی میں لگا ہوتا تو کراچی کہاں سے کہاں پنہچا ہوتا
 

آفت

محفلین
آپ اپنی معلومات درست کر لیں ۔ اسٹیٹ بینک وفاقی ادارہ ہے لیکن اس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے تو پیسہ کراچی میں آتا ہے ۔ ملک کی ساٹھ فی صد سے زیادہ آبادی پنجاب میں رہتی ہے اور سب سے زیادہ سیلز ٹیکس بھی وہیں سے اکٹھا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے صوبوں سے بشمول اندرون سندھ سے بھی جتنا ریونیو
اکٹھا ہوتا ہے سب اسٹیٹ بینک کے پاس آتا ہے ۔ قدرتی وسائل معدنیات گیس،پیٹرولیم مضنوعات،کوئلہ،تانبا،لوہا اور ایگری کلچرل وغیرہ سے کراچی کا کوئی تعلق نہیں لیکن اسٹیٹ بینک کی وجہ سے ان سب کا ریونیو کراچی میں جمع ہوتا ہے ۔
معاف کیجئے گا آپ کی معلومات صحیح نہیں اسلئے کہ ریوینیو کی تقسیم وفاق کے زیرِ انتظام ہوتی ہے اسلام آباد میں اگر کراچی سے جتنا ریوینیو اکھٹا ہوتا ہے اگر آدھا بھی کراچی میں لگا ہوتا تو کراچی کہاں سے کہاں پنہچا ہوتا
 

آفت

محفلین
میں بھی کراچی کی ہوں لیکن معتصب سوچ کی حامل نہیں ہوں بس یہی فرق ہے ۔ ورنہ آپ کو قیوم آباد فلائی آور،کورنگی شاہ فیصل کالونی ملیر ندی کا پل۔مین کورنگی روڈ،کورنگی انڈسٹریل ایریا کا روڈ،لیاری ندی ایکسپریس
وے اور درجنوں دوسرے فلائی آورز اور روڈز اور تعلیمی ادارے و اسپتال ضرور نظر آتے ۔ بہتر ہے نعمت اللہ خان کے زمانے کے اخبارات ڈھونڈیں اور دوبارہ مطالعہ کریں ۔ افسوس تو یہ ہے مختلف بہانوں سے نعمت اللہ خان کے نام کی تختیاں بھی غائب کر دی گئی ہیں -
نہیں ایسی کوئی بات نہیں نعمت اللہ صاحب نے صرف پارک وغیرہ اور اسطرح کے دوسرے کاموں پر توجہ دی تھی جو عام انسان کو فوراََِِِِ نظر آئیں پر انکی باقی کارکردگی صفر تھی جب کہ مصطفٰے بھائی نے تو پورے کراچی کا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے آپ اورنگی اور بلدیہ ٹائون وغیرہ جیسے ایسے علاقوں میں جاکر دیکھیں جہان کوئی پھٹکتا تک نہیں تھا آج وہاں کا نقشہ ہی چینج ہے میں کافی عرصہ بعد جب وہاں گیا تو حیران رہ گیا۔نعمت اللہ صاحب تو اپنے ذرا سے کام پر بھی شاباش نعمت اللہ کے بینر لگوادیتے تھے تاکہ اگر کسی کو انکا کام نظر نہ آئے تو وہ کم از کم بینر پڑھ کر سمجھ جائیں کہ ہاں کوئی کام ہوا ہے جب کہ مصطفٰے بھائی کو کسی بینر کی ضرورت نہیں ہے ہر شہری کہ خود منہ سے نکلتا ہے۔۔۔شاباش مصطفٰے کمال شاباش
 

وجی

لائبریرین
معاف کیجئے گا آپ کی معلومات صحیح نہیں اسلئے کہ ریوینیو کی تقسیم وفاق کے زیرِ انتظام ہوتی ہے اسلام آباد میں اگر کراچی سے جتنا ریوینیو اکھٹا ہوتا ہے اگر آدھا بھی کراچی میں لگا ہوتا تو کراچی کہاں سے کہاں پنہچا ہوتا

بھائی کیا کراچی پاکستان کا حصہ نہیں اگر ہے تو پھر پورے پاکستان کا اس پر حق ہے اسکی بندرگاہ پر اسکا حق ہے
بندرگاہ کراچی میں ہے اور یہی اسکی ریوینیو دینے کی ایک بڑی وجہ ہے لیکن کیا کبھی آپ نے یہ سوچا ہے کہ یہاں سے جو بھی چیز باہر جاتی ہے وہ کیا صرف کراچی میں بنتی ہے

پھر سرحد والوں کا بھی تو حق مارا جاتا ہے بجلی کی رویلٹی کے سندھ اور پنجاب پر سرحد کے اربوں روپے بنتے ہیں وہ دے دو تو سرحد بھی کہاں سے کہاں جائے گا
 

جوش

محفلین
فرق صرف قیادت کا ہے,,,,نشیب و فراز…عباس مہکری (روزنامہ جنگ


متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی قیادت اگر موجودہ بلدیاتی نظام کو برقرار رکھنے پر زور دے رہی ہے تو اس بات کو محض ایم کیو ایم کا ”سیاسی موقف“ قرار دے کر مسترد نہیں کیا جاسکتا ایم کیو ایم کے مخالفین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ کراچی اور حیدرآباد میں شہری مسائل حل کرنے میں جو انقلاب آفرین پیشرفت ہوئی‘ اُس کے تناظر میں یہ ایک کامیاب ترین نظام ہے۔ کراچی میں رہنے والا ہر شہری‘ چاہے وہ کسی بھی مذہب‘ مکتبہ فکر‘ لسانی اکائی‘ کسی بھی سیاسی جماعت یا کسی بھی طبقے سے تعلق محسوس کرتا ہو‘ وہ چار سال پہلے والے اور آج کے کراچی میں واضح فرق محسوس کرسکتا ہے۔ پوش علاقوں سے لے کر کچی آبادیوں تک‘ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے زیر انتظام تمام علاقوں میں آج پانی کی قلت پر آہ و بکا نہیں ہے‘ گھر کے باہر گلیوں اور سڑکوں پر گٹر نہیں اُبل رہے، ٹوٹی ہوئی گلیوں اور سڑکوں کی شکایات نہیں ہیں۔ چار سال کے دوران شہر کی شاہراہوں پر چلنے والی گاڑیوں میں 50 فیصد سے زیادہ اضافہ ہونے کے باوجود اس طرح ٹریفک میں روانی کبھی نہیں دیکھی۔ اُنہوں نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک کروڑ 80 لاکھ والی آبادی کے اس شہر میں وہ بیس بیس کلو میٹر تک بریک لگائے بغیر گاڑی چلا سکیں گے۔ شہری حیرت زدہ ہیں کہ کیا ایسا بھی ممکن تھا۔ لوگوں نے کبھی یہ تصور نہیں کیا تھا کہ اُن کے ایک ٹیلیفون پر شہری حکومت کے اہلکار اُن کے دروازے پر اُن کے مسائل حل کرنے کے لئے کھڑے ہوں گے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کراچی کے لوگ دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ شہروں کی طرح اپنے شہر کا خوبصورت اور عہد نو سے ہم آہنگ انفرااسٹرکچر دیکھ کر فخر اور خوشی کے احساس میں سرشار ہیں۔ نئی نسل کے لوگ سنتے تھے کہ ماضی میں کراچی کی سڑکیں دھوئی جاتی تھیں لیکن اُنہوں نے 50 سال بعد جدید مشینوں سے کراچی کی سڑکوں کو دُھلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔
ممکن ہے پاکستان کے دیگر علاقوں میں یہ نظام ناکام رہا ہو لیکن کراچی کے لوگوں کا تجربہ قطعی طور پر اس کے برعکس ہے۔ اس کا کریڈٹ ناظم کراچی سید مصطفی کمال کو جاتا ہے جنہوں نے گزشتہ چار سال میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں دن اور رات ایک کردیا۔ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر وہ سوتے کب ہوں گے۔ شہری حکومت کے افسران اور اہلکاروں کی ہمیشہ یہی شکایت رہتی ہے کہ اُن کی نیند پوری نہیں ہوتی لیکن ناظم کراچی نے کبھی کسی سے ایسی شکایت نہیں کی۔ وہ رات کو چار بجے بھی کسی ترقیاتی منصوبے کی سائیٹ پر کام کا خود جائزہ لے رہے ہوتے ہیں اور صبح آٹھ بجے بھی مزدوروں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ہزاروں امور کے روزانہ کی بنیاد پر نگرانی کے ساتھ ساتھ وہ رش کے اوقات میں خود ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لئے سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُنہوں نے اس چار سال کے عرصے میں کراچی جیسے شہر کو نہ صرف سنگین مسائل سے نجات دلائی بلکہ اُسے عہد نو کے ترقی یافتہ شہروں کے مدمقابل کھڑا کردیا۔ ان چار سالوں کے دوران کراچی کی شہری حکومت نے پانی اور سیوریج کے 194‘ میگاپروجیکٹ کا ”کے تھری“ کا پروجیکٹ‘ گریٹر کراچی سیوریج کے پلان ”ایس تھری“ بھی شامل ہیں۔ صنعتی علاقوں اور کچی آبادیوں میں پانی اور سیوریج کے قابل ذکر منصوبے پایہٴ تکمیل تک پہنچے۔ دیہی علاقوں میں ڈیمز تعمیر کئے گئے۔ اسی عرصے میں تین سگنل فری کوریڈورز تعمیر کئے گئے‘ جن کے لئے 35 سے زائد فلائی اوورز اور انڈرپائسز مکمل ہوئے جبکہ 4 فلائی اوورز پر کام جاری ہے۔ اس طرح کراچی میں 62 کلو میٹرز شاہراہیں سگنل فری ہوگئی ہیں اس سے نہ صرف ٹریفک جام سے نجات مل گئی بلکہ کراچی دنیا کے جدید ترین شہروں جیسے خوبصورت نظارے پیش کررہا ہے۔ اس کے ساتھ 316 سے زائد جدید اور بین الاقوامی طرز کی 15ہزار 500 کلو میٹر طویل سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر نو سے شہر کا نقشہ تبدیل ہوگیا ہے۔ تعلیم اور صحت جیسے سماجی شعبوں میں بھی کراچی کی شہری حکومت نے حیرت انگیز کام کئے۔ چار سال کے دوران شہر میں 158 نئے طبی ادارے‘ امراض قلب کے 4 /اسپتال اور 100 چیئرز کا ایک ڈینٹل کلینک قائم کیا گیا۔ تعلیم کے شعبے میں 415 عمارتوں کی تعمیر پر 9308 ملین روپے خرچ کئے گئے۔ کراچی کے دیہی اور پسماندہ علاقوں کو ترقی یافتہ علاقوں کے برابر لانے کے لئے 5/ارب روپے کی لاگت سے 110 سے زائد منصوبے مکمل کئے گئے۔ شہر میں تفریحی سرگرمیوں اور کھیلوں کے فروغ کے لیے 348 پارکس اور 16 ا/اسپورٹس اسٹیڈیمز تعمیر ہوئے۔19 کرکٹ اکیڈمیز اور گراؤنڈز کی تعمیر جاری ہے۔ صنعتی علاقوں کو پہلی مرتبہ 5/ارب روپے کی لاگت سے انفرااسٹرکچر دیا گیا۔ ٹرانسپورٹ اور کمیونی کیشن کے شعبے میں 70 کروڑ روپے کی لاگت سے صدر میں پہلا پارکنگ پلازہ مکمل کیا گیا۔ 50 کروڑ روپے کی لاگت سے سی این جی بس پائلٹ پروجیکٹ شروع ہوا۔ بلدیہ ٹاؤن میں انٹر سٹی بس ٹرمینل تعمیر کیا گیا۔ 33 پیڈسٹرین برج اور 255 بس اسٹاپس تعمیر ہوئے۔ گرین کراچی مہم کے تحت 10 لاکھ سے زائد پودے لگائے گئے۔ کراچی اس قدر سرسبز پہلے کبھی نظر نہیں آیا۔ لوگوں کی شکایات کے ازالے اور کراچی کے مجموعی نگرانی کے لئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے جدید سسٹم قائم کئے گئے۔ ہزاروں بے شمار منصوبے ایسے ہیں جن کا ذکر ان سطور میں ممکن نہیں۔ یہ صرف کراچی کے لوگ محسوس کرسکتے ہیں کہ یہاں کیا انقلاب آیا۔
کسی نظام کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس نظام کو چلانے والی قیادت پر ہوتا ہے۔38 سالہ سید مصطفی کمال دنیا کے کم عمر ترین میئر ہیں جنہوں نے ایک ایسے شہر کی کایا پلٹ دی جس کی آبادی دنیا کے 60 ملکوں کی انفرادی آبادی سے زیادہ ہے۔ کم عمر ہونے کے باوجود اُنہوں نے ایک بڑے لیڈر کے طور پر دنیا میں اپنے آپ کو تسلیم کرایا ہے۔ انتھک محنت میں اُن کا کوئی ثانی نہیں۔ آج کا کراچی اُن کے وژن کا عکاس ہے۔ کراچی کے ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے کراچی کے مسائل کو اُن کی پوری سنگینی کے ساتھ سمجھ کر اُن کا صحیح حل تلاش کیا ہے۔ اُنہوں نے جس طرح مختلف شعبوں میں درپیش چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لئے مختلف ٹیمیں تشکیل دیں۔ یہ اُن کی قائدانہ صلاحیت اور تدبر کا قابل فخر مظاہرہ ہے۔ قبل ازیں وہ سندھ کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر رہے۔ یہ محکمہ پہلی دفعہ قائم کیا گیا تھا لیکن دو سال کے عرصے میں اُنہوں نے اس محکمے کو حکومت سندھ کا نہ صرف اہم ترین محکمہ بنا دیا بلکہ اُسے صوبائی حکومت میں مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی۔ سید مصطفی کمال نے کم عمری میں عام لوگوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ صوبوں اور مرکز میں بھی اُن جیسی قیادت کی ضرورت ہے۔ اس پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین مبارکباد کے مستحق ہیں‘ جن کی تربیت نے کراچی کو ایسا لیڈر دیا۔ کراچی کے کامیاب تجربے کے بعد یہ بات دلائل سے ثابت کی جاسکتی ہے کہ کوئی نظام کامیاب یا ناکام نہیں ہوتا‘ فرق صرف قیادت کا ہے۔ کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ اس شہر میں ترقی کی موجودہ رفتار کو جاری رکھنا ہے تو یہ بات ضروری ہوگی کہ سید مصطفی کمال کی محنت‘ خلوص‘ لگن‘ مضبوط اعصاب‘ وژن اور قائدانہ صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا رہے اور آئندہ بلدیاتی انتخابات تک اُنہیں ہی کراچی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جائے تاکہ اسی جذبے اور کڑی نگرانی کے ساتھ جاری ترقیات منصوبے مکمل ہوسکیں۔
 

جوش

محفلین
ناظم کراچی کی مثال تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک بوڑھا کسان کھیت میں فصل کاشت کرے اور جب فصل تیار ہو جائے تو اس کا بیٹا آ کر فصل کی کٹائی کر دے ۔
دعائیں دو سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کو کہ جنہوں نے دن رات ایک کر کے کراچی میں سیکڑوں ترقیاتی منصوبے شروع کیے کچھ تو ان کی نظامت میں مکمل ہوئے اور باقی رہ جانے والے مصطفٰی کمال کے حصے میں آ گئے جو بڑے فخر سے اپنے نام کی تختی کے ساتھ نعمت اللہ خان کے منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے پھولے نہیں سما رہے ۔

حب علی سے زیادہ بغص معاویہ ؟
 
ناظم کراچی کی مثال تو بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک بوڑھا کسان کھیت میں فصل کاشت کرے اور جب فصل تیار ہو جائے تو اس کا بیٹا آ کر فصل کی کٹائی کر دے ۔
دعائیں دو سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کو کہ جنہوں نے دن رات ایک کر کے کراچی میں سیکڑوں ترقیاتی منصوبے شروع کیے کچھ تو ان کی نظامت میں مکمل ہوئے اور باقی رہ جانے والے مصطفٰی کمال کے حصے میں آ گئے جو بڑے فخر سے اپنے نام کی تختی کے ساتھ نعمت اللہ خان کے منصوبوں کا افتتاح کرتے ہوئے پھولے نہیں سما رہے ۔

بھئ سبحان اللہ

واقعی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، اب تک تو صرف سنا ہی تھا کہ منافقت اور پاکستان مخالفت آپ کی جماعت کو ورثے میں ملی ہے لیکن آپ نے تو واقعی ثابت کر دیا۔ میں ایم کیو ایم کی بیشتر پالیسیوں‌اور لیڈر شپ سے بھرپور اختلاف رکھتا ہوں لیکن حق بہر حال حق ہے، خوامخواہ میں کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے، سچائی کو سچ ماننے میں‌کوئی حرج نہیں‌ہوتا چاہے وہ مخالفین ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ توجہ دیں کہ پاکستان کی بہادر فوج کے سپاہیوں اور افسروں کہ شہید کرنے والے دہشت گردوں کو مزید کوئی لاجسٹک سپورٹ منصورہ سے نہ ملے، ورنہ پابندی لگانے کے مطالبات زور پکڑ لیں گے۔
 

آفت

محفلین
جب بات نہ بن پائے تو پھر بتنگڑ بنا دیا جائے ۔
آپ سے کس نے کہہ دیا کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے ۔ میری ہمدردی کسی بھی سیاسی جماعت سے ہوئی تو آپ کی طرح ہرگز نہیں چھپاؤں گی ۔ کراچی میں ہونے والے کاموں کی جو حقیقت ہے وہ میں نے لکھ دی ۔ ذرا نعمت اللہ خان کے زمانے کے اخبارات کھنگالیے ۔ جھوٹ سچ سامنے آ جائے گا ۔ مصطفٰے کمال ان چیزوں کو چھپا نہیں سکتے اس لیے خود انہیں یہ بیان دینا پڑا ہے کہ نعمت اللہ منصوبوں کے افتتاح کر کے چلے گیے جو اب انہیں انجام دینے پڑ رہے ہیں ۔ اور آپ سرے سے مان ہی نہیں رہے ۔ ویسے بڑی بات ہے آپ لوگ بھی منافقت کی بات کرنے لگے ۔ ذرا دن رات الطاف بھائی کے صرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف آنے والے بیانات کا حساب کیجئے اور پھر اسٹیبلشمنٹ کی حکومت میں آٹھ سال اقتدار میں شامل رہنے پر حقیقی چہرہ دیکھ لیجئے شاید منافقت کا مطلب سمجھ میں آ جائے ۔

بھئ سبحان اللہ

واقعی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، اب تک تو صرف سنا ہی تھا کہ منافقت اور پاکستان مخالفت آپ کی جماعت کو ورثے میں ملی ہے لیکن آپ نے تو واقعی ثابت کر دیا۔ میں ایم کیو ایم کی بیشتر پالیسیوں‌اور لیڈر شپ سے بھرپور اختلاف رکھتا ہوں لیکن حق بہر حال حق ہے، خوامخواہ میں کریڈٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے، سچائی کو سچ ماننے میں‌کوئی حرج نہیں‌ہوتا چاہے وہ مخالفین ہی کیوں نہ ہوں۔ آپ توجہ دیں کہ پاکستان کی بہادر فوج کے سپاہیوں اور افسروں کہ شہید کرنے والے دہشت گردوں کو مزید کوئی لاجسٹک سپورٹ منصورہ سے نہ ملے، ورنہ پابندی لگانے کے مطالبات زور پکڑ لیں گے۔
 

جوش

محفلین
ہاہاہا آپ جس پارٹی سے وابستہ ہیں وہ تو گالی سے کم میں بات نہیں کرتی آپ نے کچھ رعائت کر دی ہے شاید ۔

اور جس پارٹی سے آپ کا تعلق نظر آرہا ھے، وہ گولی، گلے کاٹنا اور خود کش حملوں سے کم پات نہیں کرتی۔ کافی سالوں سے اقتدار میں حصہ نہیں دیا جا رہا ہے، اور محبوب امریکیوں نے بھی نظر پھیر لی ہے۔۔۔۔ اس لیے کھسیانی بلی اب کھمبا نوچ رہی ہے۔۔۔۔
 
پورے ملک کا پیسہ کراچی میں اسٹیٹ بینک کے پاس آتا ہے چاہے وہ جنرل سیلز ٹیکس کی مد ہو یا کسی اور ٹیکس کو صورت میں ۔ پھر تقسیم بھی تو کراچی سے ہی ہونا ہے نا بھائی ۔
پوری بات کیوں نہیں کرتے ۔


اس کا ؤاحد جواب شرم مگر تم کو نہیں آتی
 

آفت

محفلین
آپ کا قصور نہیں میں پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ آپ لوگ جس پارٹی سے وابستہ ہو وہ گالی اور گولی سے کم میں بات نہیں کرتے ۔ ویسے کچھ شرم آپ بھی کر لیتے تو شاید بہنوں سے (اگر بہن کا مطلب سمجھتے ہو تو ) یا خواتین سے بات کرنے کی تمیز ہونی چاہیے تھی ۔ اور ہاں میں آپ کے آئیندہ کے رد عمل کے لیے تیار ہوں ۔ :nailbiting:

اس کا ؤاحد جواب شرم مگر تم کو نہیں آتی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top