زیک
مسافر
مسلمانوں نے آسان حل نکالا کہ بس نام بدل دیئے باقی اندر سے مکمل بینکنگ سسٹم وہی ہے۔ آجکل اس کا متبادل لانا تقریباً ناممکن ہےاِس کا کوئی نہ کوئی تو حل ہوگا یا اِس مسئلے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جارہا
مسلمانوں نے آسان حل نکالا کہ بس نام بدل دیئے باقی اندر سے مکمل بینکنگ سسٹم وہی ہے۔ آجکل اس کا متبادل لانا تقریباً ناممکن ہےاِس کا کوئی نہ کوئی تو حل ہوگا یا اِس مسئلے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جارہا
اگر آپ عمران خان کے لیول پر گرنا چاہتے ہیں تو کیا میں ٹرمپ اور Marjorie Taylor Greene کے لیول کی یہاں باتیں کروں؟اوہو زیک آپ غلط سمجھے۔ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے پہلے یہ ان کا مشہور جملہ اتھا، " میں انہیں رُلاؤں گا، میں ان کی چیخیں نکلواؤں گا" جو اقتدار میں آنے کے بعد "میں این آر او نہیں دوں گا" میں تبدیل ہوگیا۔
دراصل پاکستان میں رہنے والے جو سیاست کو فالو کررہے ہیں جانتے ہیں کہ عمران خان صاحب نے اقتدار میں آنے سے پہلے طوفان میل کی رفتار سے وعدے کیے تھے اور اقتدار میں آنے کے بعد اسی رفتار سے یوٹرن لیے۔ ان کے سیاسی مخالفین باتوں باتوں میں بغیر نام لیے ان کے ان بیانات کا حوالہ دیتے ہیں اور پڑھنے والے/ سننے والے جانتے ہیں کہ کس بات کی جانب اشارہ ہے
یہاں بھی یہی صورتحال ہے
Nothing intended except a reference to IKs old speeches.
بھیا یہ یلو جرنلزم ملک کھا جائے گا افسوس صد افسوس میڈیا کی آزادی اس ملک کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارے سیما علی جی آپ نے ذبردست کی ریٹنگ دے دی ہمارے مراسلے پر اینکر کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ ہماری آدھی تنخواہ پر خوش ہوئی ہیں آپ ، اب اِس ریٹنگ کی وضاحت آپ پر لازمی ہوگئی ہے
اپنا مراسلہ حذف کردیا ہےاگر آپ عمران خان کے لیول پر گرنا چاہتے ہیں تو کیا میں ٹرمپ اور Marjorie Taylor Greene کے لیول کی یہاں باتیں کروں؟
بھیا ہم نے بھی اپنے مراسلے حذف کر دئیے اگر رہ گئیے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں ۔۔۔سیاست اور مذہب پہ واقعی بات ہی نہیں کرنا چاہیے یا وہ بات جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہے !!!!!!اپنا مراسلہ حذف کردیا ہے
یہ ٹرول ہے کیا ؟ٹرول تو خیر ٹرول ہے۔ محفل پر باقاعدگی سے ایسی زبان کچھ جچتی نہیں
ناممکن کوئی کام بھی نہیں ہوتا زیک بھائیمسلمانوں نے آسان حل نکالا کہ بس نام بدل دیئے باقی اندر سے مکمل بینکنگ سسٹم وہی ہے۔ آجکل اس کا متبادل لانا تقریباً ناممکن ہے
میڈیا کو آذاد ہی ہونا چاھئیے لیکن یک طرفہ نہیں ہونا چاھئیےبھیا یہ یلو جرنلزم ملک کھا جائے گا افسوس صد افسوس میڈیا کی آزادی اس ملک کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حل یہ ہے کہ آپ قرض سونے کی مقدار کے حساب سے لے لیں۔ یعنی جیسے اگر آپ آج ۲۰ لاکھ روپے کا سونا بطور قرض لے رہے ہیں تو اس کی واپسی روپوں میں اسی کی مقدار کے مطابق ہوگی۔ یوں جیسے جیسے وقت کے ساتھ سونے کی قیمت بڑھے گی ویسے ویسے آپ کو قرضہ واپسی کیلئے ۲۰ لاکھ روپے سے زیادہ رقم واپس ادا کرنی ہوگی۔ مطلب سود پہ یا سونے کی مقدار کے حساب سے قرض لینے پر دونوں صورتوں میں قرضہ واپسی کیلئے واجب الدا رقم اصل قرض سے زیادہ ہی ہوگی۔ البتہ سونے کی مقدار کے حساب سے قرض لینے پر آپ اسے سود نہیں کہہ سکیں گے۔اِس کا کوئی نہ کوئی تو حل ہوگا یا اِس مسئلے کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جارہا
یہ نیشنل بینک دیتا ہے ۔۔۔پر نیشنل بینک سے قرضہ لینا جوئے شیر لانے سے کم نہیںحل یہ ہے کہ آپ قرض سونے کی مقدار کے حساب سے لے لیں۔ یعنی جیسے اگر آپ آج ۲۰ لاکھ روپے کا سونا بطور قرض لے رہے ہیں تو اس کی واپسی روپوں میں اسی کی مقدار کے مطابق ہوگی۔ یوں جیسے جیسے وقت کے ساتھ سونے کی قیمت بڑھے گی ویسے ویسے آپ کو قرضہ واپسی کیلئے ۲۰ لاکھ روپے سے زیادہ رقم واپس ادا کرنی ہوگی۔ مطلب سود پہ یا سونے کی مقدار کے حساب سے قرض لینے پر دونوں صورتوں میں قرضہ واپسی کیلئے واجب الدا رقم اصل قرض سے زیادہ ہی ہوگی۔ البتہ سونے کی مقدار کے حساب سے قرض لینے پر آپ اسے سود نہیں کہہ سکیں گے۔
مسلمانوں نے آسان حل نکالا کہ بس نام بدل دیئے باقی اندر سے مکمل بینکنگ سسٹم وہی ہے۔ آجکل اس کا متبادل لانا تقریباً ناممکن ہے
جن ممالک کی افراط زر منفی ہے۔ وہاں بینکس صفر فیصد مارک اپ یعنی بظاہر “بغیر سود” کے قرضے قومی کرنسی میں جاری کر سکتے ہیں۔ البتہ ایسے ممالک آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔یہ نیشنل بینک دیتا ہے ۔۔۔
یہ طریقہ کچھ بہتر لگ رہا ہےحل یہ ہے کہ آپ قرض سونے کی مقدار کے حساب سے لے لیں۔ یعنی جیسے اگر آپ آج ۲۰ لاکھ روپے کا سونا بطور قرض لے رہے ہیں تو اس کی واپسی روپوں میں اسی کی مقدار کے مطابق ہوگی۔ یوں جیسے جیسے وقت کے ساتھ سونے کی قیمت بڑھے گی ویسے ویسے آپ کو قرضہ واپسی کیلئے ۲۰ لاکھ روپے سے زیادہ رقم واپس ادا کرنی ہوگی۔ مطلب سود پہ یا سونے کی مقدار کے حساب سے قرض لینے پر دونوں صورتوں میں قرضہ واپسی کیلئے واجب الدا رقم اصل قرض سے زیادہ ہی ہوگی۔ البتہ سونے کی مقدار کے حساب سے قرض لینے پر آپ اسے سود نہیں کہہ سکیں گے۔
سیاست اور اسلام پر بحث نہیں کرنی چاھئیے جس کا کام ہے اُس کو ہی کرنے دیا جائے تو بہتر ہوتا ہےبھیا ہم نے بھی اپنے مراسلے حذف کر دئیے اگر رہ گئیے ہیں تو دیکھ لیتے ہیں ۔۔۔سیاست اور مذہب پہ واقعی بات ہی نہیں کرنا چاہیے یا وہ بات جس سے کسی کی دل آزاری ہوتی ہے !!!!!!
پر یہ تو اپنے ملک والوں کو ہی قرضہ دیں گے ہمیں کیوں دیں گےجن ممالک کی افراط زر منفی ہے۔ وہاں بینکس صفر فیصد مارک اپ یعنی بظاہر “بغیر سود” کے قرضے قومی کرنسی میں جاری کر سکتے ہیں۔ البتہ ایسے ممالک آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
Inflation Rate - Countries - List
کیا کسی کو پتا ہوگا کہ حامد میر جیو نیوز سے تنخواہ کتنی لیتا ہوگاحامد میر پر جیو نیوز کی جانب سے پابندی عائد
جیو ٹی وی کی انتظامیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی ہے کہ اینکرپرسن حامد میر غیر معینہ مدت تک جیو ٹی وی کے معروف پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی نہیں کر پائیں گے۔
محمد ثاقب تنویر
سوموار 31 مئی 2021 13:30
حامد میر 2002 سے جیوز نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی کر رہے ہیں(فائل تصویر: اے ایف پی)
جیو ٹی وی کی انتظامیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کی ہے کہ اینکرپرسن حامد میر جیو ٹی کے معروف پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ کی میزبانی آج نہیں کریں گے۔
جیو انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق حامد میر کو چند دنوں کی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
حامد میر نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو پروگرام آف ایئر کیے جانے تصدیق کی ہے۔
ذرائع کے مطابق حامد میر کو نوکری سے برخواست کرنے کے لیے جیو نیوز پر شدید دباؤ بھی ہے۔
وہ گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر خبروں میں ہیں۔ گذشتہ جمعے کو اسلام آباد میں صحافی اسد علی طور پر حملے کے خلاف ہونے احتجاج میں حامد میر نے اپنے خطاب میں پاکستانی فوج کے افسران پر نام لیے بغیر شدید تنقید کی تھی۔
حامد میر نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ’اگر صحافیوں کو گھر میں گھس کر مارا جائے گا تو صحافی گھر میں گھس کر تو نہیں مار سکتے مگر ہم آپ کے گھر کی خبریں سامنے لائیں گے اور آپ کے نقاب نوچیں گے۔‘
جیو ٹی وی پر حامد میر کا پروگرام پاکستان کے سرفہرست ٹاک شوز میں سے ایک ہے۔ کیپیٹل ٹاک کا آغاز 2002 میں ہوا تھا اور اس وقت سے لے کر اب تک پروگرام جاری ہے۔ 2018 میں ایک دفعہ حامد میر نے جیو کو چھوڑا تھا تو اس وقت بھی پروگرام دوسرے میزبان کے ساتھ جاری رہا اور جب انہوں نے چینل کو دوبارہ جوائن کیا تو دوبارہ اسی پروگرام کی میزبانی شروع کی۔
اپریل 2014 میں حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔
پہلے بھی شاید اِس طرح ہوا ہے مجھے صحیح یاد نہیں کس کی حکومت تھییہ نہ تو کوئی مسئلہ ہے اور نہ ہی کوئی حل۔ مثال کے طور پر اگر وزیر اعظم اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مئی 2023ء میں اسمبلیاں توڑ دیتا ہے تو اگست 2023ء تک اگلے الیکشنز مکمل ہو کر نئی حکومت بن جائے گی۔ یعنی جسٹس موصوف کے تخت تک پہنچنے سے پہلے یہ مرحلہ مکمل ہو سکتا ہے۔ اصل مسئلہ جسٹس موصوف کی تیرہ مہینوں کی کرسی ہے جس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے!
اسمبلیاں تو کئی بار ٹوٹی ہیں، صدور نے بھی توڑی ہیں اور وزرائے اعظم نے بھی۔ جہاں تک وزرائے اعظم کی بات ہے تو آخری بار، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں اسمبلیاں توڑی تھیں، شیڈول سے جلد الیکشن کروانے کے لیے!پہلے بھی شاید اِس طرح ہوا ہے مجھے صحیح یاد نہیں کس کی حکومت تھی
اگر اسمبلیاں توڑ دی جائیں تو کیا وزیراعظم کی سیٹ ختم ہوجاتی ہے ؟اسمبلیاں تو کئی بار ٹوٹی ہیں، صدور نے بھی توڑی ہیں اور وزرائے اعظم نے بھی۔ جہاں تک وزرائے اعظم کی بات ہے تو آخری بار، وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں اسمبلیاں توڑی تھیں، شیڈول سے جلد الیکشن کروانے کے لیے!
یعنی جسٹس موصوف کے تخت تک پہنچنے سے پہلے یہ مرحلہ مکمل ہو سکتا ہے
کیا ان میں سوفٹ وئیر اپڈیٹ کی گنجائش فرسٹ پلیس میں ہی نہیں رکھی گئی تھی ؟ستمبر ۲۰۲۳ میں جسٹس فائز عیسی چیف جسٹس پاکستان بنیں گے۔ اگلا الیکشن اکتوبر ۲۰۲۳ میں ہوگا۔ ان کو ڈر ہے کہ وہ آتے ساتھ کہیں ایسے اقدامات نہ کر دیں جس سے مفرور و سزا یافتہ سیاسی مخالفین کیلئے الیکشن لڑنے کی راہ ہموار ہو جائے۔ اس لئے ان کو اس سے قبل ہی عہدہ سے ہٹانے پر کام ہو رہا ہے۔
جی، وزیر اعظم اور اسکی کابینہ سب فارغ ہو جاتے ہیں۔ اس کی جگہ نگران وزیر اعظم اور کابینہ آتی ہے، اور تین ماہ کے اندر اندر نئے الیکشنز کروانے ہوتے ہیں۔اگر اسمبلیاں توڑ دی جائیں تو کیا وزیراعظم کی سیٹ ختم ہوجاتی ہے ؟