سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کر بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
ابھی سے برف الجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اتارا نہیں
بس ایک شام اُسے آواز دی تھی، ہجر کی شام
پھر اس کے بعد اُسے عمر بھر پکارا نہیں
ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ تیرے وحشی کو
مزاج پرسیء بادِ صبا گوارا نہیں
سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کے لئے پکارا نہیں
وہ ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بِکنا ہمیں گوارا نہیں
”ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے ”امین
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارا نہیں