شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فریب

محفلین
اوروں‌کے ساتھ میرا تعارف بھی جب ہوا
ہاتھوں میں‌ہاتھ لے کے وہ سوچا کیا مجھے
بیتے دنوں‌کا عکس نہ آئندہ کا خیال
بس خالی خالی آنکھوں سے دیکھا کیے مجھے

پروین شاکر
 

ماوراء

محفلین
~~
جانے کیا مجھ سے زمانہ چاہتا ہے
دل توڑ کے پھر مجھ کر ہنسانا چاہتا ہے
جانے کیا چھلکتا ہے میرے چہرے سے
کہ ہر شخص مجھ کو آزمانا چاہتا ہے
~~​
 

شمشاد

لائبریرین
یہ جیون باندھ لیا تم سے اب اور کہیں ہمیں جانا نہیں
کسی اور کو حال سنانا نہیں کسی اور کو دل یہ دکھانا نہیں
 

ماوراء

محفلین
~~
یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل، کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
~~​
 

ظفری

لائبریرین

کون ہے متعبر زمانے میں
کس کے وعدے پہ اعتماد کریں
بُھول جانے کی عمر بیت گئی
آؤ ایک دوسرے کو یاد کریں​
 

فریب

محفلین
پیشکش
اتنے اچھے موسم میں
روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اٹھا رکھیں
آج دوستی کر لیں!
 

ظفری

لائبریرین

اُسے بچھڑے ہو ئے ایک زمانہ ہوگیا
لیکن اس بات سے تکلیف مجھے ہوتی ہے
چھوڑ دیا اُس نے جس کے لیئے مجھ کو
پالیا اُسے تو اب ، میرے لیئے روتی ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کے میں یہ پوچھ پوچھ کر تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ خود سراپا سوال تھا
 

فریب

محفلین
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
 

فریب

محفلین
واہمہ

تمہارا کہنا ہے
تم مجھت بے پناہ شدت سے چاہتے ہو
تمہاری چاہت
وصال کی آخری حدوں تک
مرے۔۔۔۔۔ فقط میرے نام ہو گی
مجھے یقیں ہے۔۔ مجھے یقیں‌ہے،
مگر قسم کھانے والے لڑکے!
تمہاری آنکھوں میں‌ایک تِل ہے!

پروین شاکر
 

فریب

محفلین
تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
 

ظفری

لائبریرین

وقت کی گردش رُکے تو میں بھی دیکھوں ظفر
بکھرا پڑا ہے وجود میرا کیسے ، کہاں کہاں

مابدولت​
 

فریب

محفلین
تو نے اس کی آنکھوں کو غور سے پڑھا قاصد!
کچھ تو کہ رہا ہو گا اُس نظر کا سناٹا
 

ظفری

لائبریرین

ہم بھی کیا لوگ ہیں
خوشبو کی روایت سے الگ
خود پر ظاہر نہ ہوئے
تجھ کو چُھپانے کے لیئے​
 

ظفری

لائبریرین
سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کر بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

ابھی سے برف الجھنے لگی ہے بالوں سے
ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اتارا نہیں

بس ایک شام اُسے آواز دی تھی، ہجر کی شام
پھر اس کے بعد اُسے عمر بھر پکارا نہیں

ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ تیرے وحشی کو
مزاج پرسیء بادِ صبا گوارا نہیں

سمندروں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مدد کے لئے پکارا نہیں

وہ ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار
جو کہہ رہا تھا کہ بِکنا ہمیں گوارا نہیں

”ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے ”امین
ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارا نہیں
 

شمشاد

لائبریرین
رات کی رانی صحنِ چمن میں گھیسُو کھولے سوتی ہے
رات برات اُدھر مت جانا اک ناگن بھی رہتی ہے
(بشیر بدر)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top