شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
raad huu.N barq huu.N bechain huu.N paaraa huu.N mai.n
Khud-parastaar, Khud-aagaah, Khud-aaraa huu.N mai.n
gardan-e-zulm kaTe jis se vo aaraa huu.N mai.n
Khirman-e-jaur jalaade vah sharaaraa huu.N mai.n
رعد ہوں، برق ہوں، بےچین ہوں، پارہ ہوں میں
خود پرستار، خود آگاہ، خود آرا ہوں میں

گردشِ ظلم کٹے جس سے وہ آرا ہوں میں
خرمنِ جور جلا دے وہ شرارہ ہوں میں
(مخدوم معین الدین)
 

شمشاد

لائبریرین
رعد ہوں، برق ہوں، بےچین ہوں، پارہ ہوں میں
خود پرستار، خود آگاہ، خود آرا ہوں میں

گردشِ ظلم کٹے جس سے وہ آرا ہوں میں
خرمنِ جور جلا دے وہ شرارہ ہوں میں
(مخدوم معین الدین)
 

سارا

محفلین
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
میرا جرم تو کوئی اور تھا‘پر میری سزا کوئی اور ہے۔۔
 

سارا

محفلین
تھکن تو اگلے سفر کے لئے بہانا ہے
اسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا ہے

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا۔۔
 

سارا

محفلین
گردن میں میری پڑا ہوا طوق تو دیکھ
مجھے موت بھی گوارا‘ میرا ذوق تو دیکھ

قفسِ منزل پہ قناعت ہر گز یہ نہیں کرتا
اس طائرِ بے پر کا پروازِ شوق تو دیکھ۔۔۔
 

فریب

محفلین
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
 

پاکستانی

محفلین
عشق لا محدود جب تک رہمنا ہوتا نہیں
زندگی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں
بیکراں ہوتا نہیں، بے انتہا ہوتا نہیں
قطرہ جب تک بڑھ کے قلزم آشنا ہوتا نہیں
سب سے بڑھ کو دولت کوئی دوسری نہیں
سب جدا ہو جائیں لیکن غم جدا ہوتا نہیں
زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ !!!
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
کون یہ ناصح کو سمجھائے بہ طرز دلنشیں
عشق صادق ہو تو غم بھی بے مزا ہوتا نہیں
درد سے معمور ہوتی جا رہی ہے کائنات
اک دل انساں مگر درد آشنا ہوتا نہیں
میری عرض غم پہ وہ کہنا کسی کا ہائے ہائے
شکوہ، غم شکوہ اہل وفا ہوتا نہیں
اس مقام قرب تک اب عشق پہنچا ہے جہاں
دیدہ و دل کا بھی اکثر واسطہ ہوتا نہیں
ہر قدم کے ساتھ منزل لیکن اس کا کیا علاج
عشق ہی کم بخت منزل آشنا ہوتا نہیں
اللہ اللہ یہ کمال ارتباط حسن و عشق
فاصلے ہوں لاکھ دل سے دل جدا ہوتا نہیں
وقت آتا ہے اک ایسا بھی سر بزم جمال
سامنے ہوتے ہیں وہ اور سامنا ہوتا نہیں
کیا قیامت ہے کہ اس دور ترقی میں جگر
آدمی سے آدمی کا حق ادا ہوتا نہیں
 

فریب

محفلین
حسن مرہونِ جوشِ بادۂ ناز
عشق منت کشِ فسونِ نیاز

دل کا ہر تار لرزشِ پیہم
جاں کا ہر رشتہ وقفِ سوزوگداز

سوزشِ دردِ دل کسے معلوم!
کون جانے کسی کے عشق کا راز

میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز

ہو چکا عشق، اب ہوس ہی سہی
کیا کریں فرض ہے ادائے نماز

تو ہے اور اک تغافلِ پیہم
میں ہوں اور انتظارِ بے انداز

خوفِ ناکامئ امید ہے فیض
ورنہ دل توڑ دے طلسمِ مجاز
 

ماوراء

محفلین
اے دوست دعا اور مسافت کو بہم رکھ
یہ میری ہتھیلی ہے یہاں پہلا قدم رکھ

ایسے تو زمانہ مجھے جینے نہیں دے گا
میں کچھ بھی نہیں تیرا مگر میرا بھرم رکھ

اس بات پہ دُنیا سے میری بنتی ہی نہیں ہے
کہتی ہے کہ تلوار اُٹھا اور قلم رکھ

میں جب بھی کہیں راہ میں گرنے لگا تابش
آواز سی آئی مرے قدموں پہ قدم رکھ




عباس تابش​
 

شمشاد

لائبریرین
بات پھولوں کی سنا کرتے تھے
ہم کبھی شعر کہا کرتے تھے

مشعلیں لے کے تمہارے غم کی
ہم اندھیروں میں چلا کرتے تھے

اب کہاں ایسی طبیعت والے
چوٹ کھا کر جو دعا کرتے تھے

ترکِ احساسِ محبت مشکل
ہاں مگر اہلِ وفا کرتے تھے

بکھری بکھری زلفوں والے
قافلے روک لیا کرتے تھے

آج گلشن میں شگوفے “ساغر“
شکوئے بادِ صبا سے کرتے تھے
(ساغر صدیقی)
 

ظفری

لائبریرین

تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں
تجھ سے خوشبو کے مراسم تجھے کیسے کہیں
میری سوچوں کا اُفق تیری محبت کا فسوں
میرے جذبوں کا دل تیری عنایت کی نظر
کیسے خوابوں کے جزیروں کو ہم تاراج کریں
تجھ کو بھولیں کہ تجھے یاد کریں
اب کوئی اور نہیں میری تمنا کا دل
اب تو باقی ہی نہیں کچھ
جسے برباد کریں
تیری تقسیم کسی طور ہمیں منظور نہ تھی
پھر سرزم جو آئے تو تہی داماں آئے
چن لیا دردٍ مسیحائی
تیری دلدار نگاہی کے عوض
ہم نے جی ہار دیئے، لُٹ بھی گئے
کیسےممکن ہے بھلا
خود کو تیرے سحر سے آزاد کریں
تجھ کو بھولیں کہ تجھے یاد کریں
اس قدر سہل نہیں میری چاہت کا سفر
ہم نے کانٹے بھی چنے روح کے آزار بھی سہے
ہم سے جذبوں‌کی شرح نہ ہو سکی کیا کرتے
بس تیری جیت کی خواہش نے کیاہم کونڈھال
اب اسی سوچ میں گذریں گے مہ و سال مرے
تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں​
 

شمشاد

لائبریرین
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اُس سے محبت بھی بہت تھی

اُس بُت کے ستم سہہ کے دیکھا ہی دیئے ہم نے
گو اپنی طبیعت میں بغاوت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)
 

قیصرانی

لائبریرین
ظفری نے کہا:

تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں
تجھ سے خوشبو کے مراسم تجھے کیسے کہیں
میری سوچوں کا اُفق تیری محبت کا فسوں
میرے جذبوں کا دل تیری عنایت کی نظر
کیسے خوابوں کے جزیروں کو ہم تاراج کریں
تجھ کو بھولیں کہ تجھے یاد کریں
اب کوئی اور نہیں میری تمنا کا دل
اب تو باقی ہی نہیں کچھ
جسے برباد کریں
تیری تقسیم کسی طور ہمیں منظور نہ تھی
پھر سرزم جو آئے تو تہی داماں آئے
چن لیا دردٍ مسیحائی
تیری دلدار نگاہی کے عوض
ہم نے جی ہار دیئے، لُٹ بھی گئے
کیسےممکن ہے بھلا
خود کو تیرے سحر سے آزاد کریں
تجھ کو بھولیں کہ تجھے یاد کریں
اس قدر سہل نہیں میری چاہت کا سفر
ہم نے کانٹے بھی چنے روح کے آزار بھی سہے
ہم سے جذبوں‌کی شرح نہ ہو سکی کیا کرتے
بس تیری جیت کی خواہش نے کیاہم کونڈھال
اب اسی سوچ میں گذریں گے مہ و سال مرے
تجھ سے ہاریں کہ تجھے مات کریں​
شکریہ ظفری کہ میری چوائس کو تم نے دوہرایا :)
غلام
 

پاکستانی

محفلین
ساحرلدھیانوی

کبھی خود پہ کبھی حالات پر رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں انکو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
کس لئے جیتے ہیں ہم، کس کے لئے جیتے ہیں
ہارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا
 

سارا

محفلین
یہ نہیں علم کہاں سامنا ان سے ہو گا
یہ تو معلوم ہے ہم کو وہ کہیں ہوتے ہیں

کیوں نہ اک جھوٹی تسلی پر قناعت کر لیں
لوگ کہتے ہیں عدم خواب حسیں ہوتے ہیں۔۔
 
پاکستانی نے کہا:
ساحرلدھیانوی

کبھی خود پہ کبھی حالات پر رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں انکو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
کس لئے جیتے ہیں ہم، کس کے لئے جیتے ہیں
ہارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

پاکستانی میرا خیال ہے کہ یہ غزل سیف الدین سیف کی ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top