شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پاکستانی

محفلین
ابھی لکھیں تو کیا لکھیں


ہر اک جانب اداسی ہے
ابھی سوچیں تو کیا سوچیں؟

ہر اک سو، ہو کا عالم ہے
ابھی بولیں تو کیا بولیں؟

ہر اک انسان پتھر ہے
ابھی دھڑکیں تو کیا دھڑکیں؟

فضا پر نیند طاری ہے
ابھی جاگیں تو کیا جاگیں؟

ہر اک مقتل کی شہِ رگ میں
لہو کی لہر جاری ہے

ابھی دیکھیں تو کیا دیکھیں؟
ہر اک انسان کا سایہ
ابھی مٹی پہ بھاری ہے
ابھی لکھیں تو کیا لکھیں؟


محسن نقوی
 

پاکستانی

محفلین
محب علوی نے کہا:
پاکستانی نے کہا:
ساحرلدھیانوی

کبھی خود پہ کبھی حالات پر رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں انکو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا
کس لئے جیتے ہیں ہم، کس کے لئے جیتے ہیں
ہارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا
کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

پاکستانی میرا خیال ہے کہ یہ غزل سیف الدین سیف کی ہے۔

ہو سکتا ہے مگر میرے علم کے مطابق یہ ساحرلدھیانوی کی ہی ہے۔
 

پاکستانی

محفلین
مت سوچا کر

تنہا تنہا مت سوچا کر
مر جائے گا مت سوچا کر

اپنا آپ گنوا کر تو نے
پایا ہے کیا مت سوچا کر

دھوپ میں تنہا کر جاتا ہے
کیوں یہ سایہ مت سوچا کر

پیار گھڑی بھر کا بھی بہت ہے
جھوٹا، سچا مت سوچا کر

ٕراہ کٹھن اور دھوپ کڑی ہے
کون آئے گا مت سوچا کر

وہ بھی تجھ سے پیار کرے ہے
پھر دکھ ہو گا مت سوچا کر

خواب، حقیقت یا افسانہ
کیا ہے دنیا مت سوچا کر

موندے آنکھیں اور چلا چل
منزل، رستہ مت سوچا کر

جس کی فطرت ہی ڈسنا ہو
وہ تو ڈسے کا مت سوچا کر

دنیا کے غم ساتھ ہیں تیرے
خود کو تنہا مت سوچا کر

جینا دو بھر ہو جائے گا
جاناں ۔ اتنا مت سوچا کر

مان مرے شہزاد وگرنہ
پچھتائے گا مت سوچا کر
 

ماوراء

محفلین
قیصرانی اگر یہ چوٹ ہوئی تو آپ پر ہی ہو گی کیونکہ آپ کو ہی شوق تھا۔ میں تو پہلے دن سے ہی منفرد ہوں۔ :lol:
 

شمشاد

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
بہت عمدہ شمشاد ، ان اشعار کی مدت سے تلاش تھی مجھے۔

شکریہ محب، یہ لیں اسی غزل کے باقی اشعار :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقف ہی نہ تھا رمزِ محبت سے وہ ورنہ
دل کے لیے تھوڑی سی عنایت بھی بہت تھی

یوں ہی نہیں مشہورِ زمانہ میرا قاتل
اس شخص کو اس فن میں مہارت بھی بہت تھی

کیا دورِ غزل تھا کہ لہو دل میں بہت تھا
اور دل کو لہو کرنے کی فرصت بھی بہت تھی

ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی

بلوا کے ہم “عاجز“ کو پشیماں بھی بہت ہیں
کیا کیجیئے کمبخت کی شہرت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)
 

شمشاد

لائبریرین
دن آ گئے شباب کے آنچل سنبھالیے
ہونے لگی ہے شہر میں ہلچل، سنبھالیے

چلیے سنبھل سنبھل کے کٹھن راہِ عشق ہے
نازک بڑی ہے آپ کی پائل، سنبھالیے

سج دھج کے آپ نکلے سرِ راہ خیر ہو
ٹکرا نہ جائے آپ کا پاگل، سنبھالیے

گھر سے نہ جاؤ دور کسی اجنبی کے ساتھ
برسیں گے زور زور سے بادل، سنبھالیے
(مدھن پال)
 
شمشاد نے کہا:
محب علوی نے کہا:
بہت عمدہ شمشاد ، ان اشعار کی مدت سے تلاش تھی مجھے۔

شکریہ محب، یہ لیں اسی غزل کے باقی اشعار :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقف ہی نہ تھا رمزِ محبت سے وہ ورنہ
دل کے لیے تھوڑی سی عنایت بھی بہت تھی

یوں ہی نہیں مشہورِ زمانہ میرا قاتل
اس شخص کو اس فن میں مہارت بھی بہت تھی

کیا دورِ غزل تھا کہ لہو دل میں بہت تھا
اور دل کو لہو کرنے کی فرصت بھی بہت تھی

ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی

بلوا کے ہم “عاجز“ کو پشیماں بھی بہت ہیں
کیا کیجیئے کمبخت کی شہرت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)

کیا کہنے شمشاد اب یہ شعر کیا قاتل شعر ہے

یوں ہی نہیں مشہورِ زمانہ میرا قاتل
اس شخص کو اس فن میں مہارت بھی بہت تھی



اس شعر پر تو کئی افسانے لکھے جاسکتے ہیں :wink:

ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی
 
سارا اسی غزل کا اگلا شعر ہے

وہ ڈرا ہوں کہ سمجھتا ہوں یہ بھی دھوکہ نہ ہو
اب ان کی طرف سے جو محبت کے پیام آتے ہیں

(داغ )​
 

شمشاد

لائبریرین
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو

دن اک ستم اک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی مات کرو ہو

ہم خاک نشیمن تم سخن آراِ سر بزم
پاس آ کر ملو دور سے کیا بات کرو ہو
(کلیم عاجز)
 

ماوراء

محفلین
آخری اک کام ہونے کو ہے
زندگی تمام ہونے کو ہے
تمام دن کو سفر میں رہے
چلو اب شام ہونے کو ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
ستاروں سے الجھتا جا رہا ہوں
شبِ فرقت بہت گھبرا رہا ہوں

تیرے غم کو بھی کچھ بہلا رہا ہوں
جہاں کو بھی سمجھا رہا ہوں
(فراق گورکھپوری)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top