شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا، نگاہِ لطف کبھی نہ کرنا
تمہیں ہے قسم ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا

کہاں کا آنا، کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
(داغ دہلوی)
 

شمشاد

لائبریرین
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگاہِ اُلفت نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا
(جوش ملیح آبادی)
 

ظفری

لائبریرین

بارشوں کے موسم میں گر کوئی بچھڑ جائے
یا بہار میں جیسے شجر کوئی جل جائے
تُم سے دور رہ کر اب ہر گھڑی یوں کٹتی ہے
سرد دُھوپ میں جیسے برف سی پگھل جائے​
 

شمشاد

لائبریرین
بہت حسیں ہے، میرا دلبر نہ ہو جائے
میری نظر میں وہ کافر خدا نہ ہو جائے

تمام شہر میں میری وفا کی خشبو ہے
پرانا زخم کسی کا ہرا نہ ہو جائے

نجانے کتنے برس بعد وہ ملا ہے مجھے
ہے ڈر یہی کہ وہ پھر سے جدا نہ ہو جائے

میں اس سے ٹوٹ کے ملتا ہوں جب بھی ملتا ہوں
یہ میرا ملنا کہیں حادثہ نہ ہو جائے
(ابراھیم اشک)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ سارا جسم جُھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہو گا
میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکہ ہوا ہو گا

یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہیں سب ندیاں
مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہو گا
(دشیانت کمار)
 

ظفری

لائبریرین
دل بھی پاگل ہے اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے

یہ قناعت ہے،اطاعت ہے کہ چاہت ہےفراز
ہم تو ہیں راضی وہ جس حال میں جیسا رکھے
 

ظفری

لائبریرین

کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں


کھوئے ہوئے اک موسم کی یاد میں
سمائے میری آنکھوں میں خواب جیسے دن
وہ مہتاب سی راتیں گلاب جیسے دن
وہ گنج شہرِ وفا میں سحاب جیسے دن
وہ دن کہ جن کا تصّور متاعِ قریہ دل
وہ دن کہ جن کی تّجلی فروغ ہر محفل
گئے وہ دن تو آندھیروں میں کھو گئی منزل
فضا کا جبر شکستہ پَروں پہ آپہنچا
عذاب در بدری بے گھروں پہ آپہنچا
ذرا سی دیر میں سورج سروں پہ آپہنچا
کِسے دکھائیں یہ بے مائیگی حزینوں کی
کٹی جو فصل تو غُربت بڑھی زمینوں کی
یہی سزا ہے زمانے میں بے یقینوں کی

افتخار عارف​
 

شمشاد

لائبریرین
یہ دل کبھی نہ محبت میں کامیاب ہوا
مجھے خراب کیا، آپ بھی خراب ہوا

اجل میں، زیست میں، تُربت میں، حشر میں ظالم
تیرے ستم کے لیے میں ہی انتخاب ہوا

نگاہِ مست کو ساقی کی کون دے الزام
میرا نصیب کہ رسوا میرا شباب ہوا

ہمارے عشق کی دس بیس نے بھی داد نہ دی
کسی کا حسن زمانے میں انتخاب ہوا

فنا کا دعوا ہزاروں کو تھا زمانے میں
حباب نے مجھے دیکھا تو آب آب ہوا
(بیخود دہلوی)
 

ظفری

لائبریرین

کیلنڈر سے نہیں مشروط میرے رات دن ساجد
میں جیسا چاہتا ہوں ویسا موسم ڈھونڈ لیتا ہوں​
 

ظفری

لائبریرین

تم نے چاہا ہی نہیں حالات بدل سکتے تھے
میرے آنسو تمہاری آنکھ سے نکل سکتے تھے
تم تو ٹہرے رہے جھیل کے پانی کی طرح
دریا بنتے تو بہت دور نکل سکتے تھے​
 

شمشاد

لائبریرین
پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے
رات خیرات صدقے کی سحر ہوتی ہے

سانس بھرنے کو تو جینا نہیں کہتے یارب
دل ہی دُکھتا ہے ناں اب آستین تر ہوتی ہے

جیسی جاگی ہوئی آنکھوں میں چھبیں کانچ کے خواب
رات اس طرح دیوانوں کی بسر ہوتی ہے

غم ہی دشمن ہے میرا غم ہی کو دل ڈھونڈتا ہے
اک لمحے کی جدائی بھی اگر ہوتی ہے

اک مرکز کی تلاش اک بھٹکتی خوشبو
کبھی منزل کبھی تمہیدِ سفر ہوتی ہے
(مینا کماری ‘ناز‘)
 

ظفری

لائبریرین


مجھے یومِ محبّت پر تمھیں کچھ بھی نہیں دینا ۔۔۔

یہ تاکیدِ محبّت ہے
یا تجدیدِ محبّت ہے
مگر جو کچھ بھی ہے جاناں
یہ توحیدِ محبّت ہے
سو توحیدِ محبّت میں بچھڑنے کا کبھی دھڑکا نہیں ہوتا
بجز چاہت کسی دل میں کوئی جذبہ نہیں ہوتا
کبھی تاکید یا تجدید کی نوبت نہیں آتی
کوئی کاغذ، کوئی خط، پھول یا تحفہ نہیں ہوتا
مری آنکھوں میں جتنے رنگ ہیں اُن سب میں چاہت ہے
مرے ہونٹوں پہ جتنے لفظ ہیں اُن میں عقیدت ہے
تمھیں معلوم ہے کہ چاہت تو اِک ایسی حقیقت ہے
جسے لفظوں، خطوں، پھولوں یا تحفوں کی
ضرورت ہی نہیں ہوتی
جہاں سے نکل کر بات خود دل تک پہنچتی ہے
جہاں آنکھوں سے نکلے اشک خود اظہار کرتے ہیں
کہ ہم کس حال میں ہیں
اور کتنا پیار کرتے ہیں
سو اے جانِ غزل دیکھو
مری آنکھیں، دھڑکتا دل اور ان میں موجزن جذبے
مری چاہت کا تحفہ ہیں
مری چاہت کے سب تحفے تمھارے پاس ہیں جاناں
مجھے یومِ محبّت پر تمھیں کچھ بھی نہیں دینا ۔۔۔

۔رضی الدین رضی۔​
 

ظفری

لائبریرین
شکریہ شمشاد بھائی ۔
---------------------------------------------

رات کے دوسرے کنارے پر
جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے
خوف نادیدہ کہ اشارے پر
جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو
مجھ سے کہتی ہے " افتخار عارف ! "
رات کے دوسرے کنارے پر
" ایک رات اور انتظار میں ہے "
کوئی چپکے سے دل میں کہتا ہے
رات پہ بس اس چلے نہ چلے
خواب تو اپنے اختیار میں ہے

افتخار عارف​
 

سارا

محفلین
تُو میرا نام نہ پوچھا کر

میں تیری ذات کا حصہ ہوں
میں تیری سوچ میں شامل ہوں
میں تیری نیند کا قصہ ہوں
میں تیرے خواب کا حاصل ہوں

میں تیری یاد کا محور ہوں
میں تیری سانس کا جھانکا ہوں
تُو منظر‘ میں پس منظر ہوں
میں لمحہ ہوں میں جذبہ ہوں

جذبے کا کوئی نام نہیں
تُو میرا نام نہ پوچھا کر۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top