شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

تیشہ

محفلین
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمھیں ،۔ ۔
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کاہے سلگائیں تمھیں ،۔

ترک ِ محبت ترک ِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمھیں،۔

دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دیکھائیں تمھیں ،
 
شمشاد نے کہا:
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو

دن اک ستم اک ستم رات کرو ہو
وہ دوست ہو دشمن کو بھی مات کرو ہو

ہم خاک نشیمن تم سخن آراِ سر بزم
پاس آ کر ملو دور سے کیا بات کرو ہو
(کلیم عاجز)

بہت عمدہ انتخاب ہے ، :zabardast1:
 
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
نہ شکایتیں نہ گلہ کرے، کوئی ایسا شخص ہوا کرے
جو میرے لیے ہی سجا کرے جو مجھی سے باتیں کیا کرے
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شمشاد

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
نہ شکایتیں نہ گلہ کرے، کوئی ایسا شخص ہوا کرے
جو میرے لیے ہی سجا کرے جو مجھی سے باتیں کیا کرے
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪

اللہ آپ کی خواہش پوری کرئے۔ آمین۔
 

شمشاد

لائبریرین
نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم ان میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں

یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر
نظر ملاتے نہیں مسکرائے جاتے ہیں

میرے جنونِ تمنا کی کچھ خیال نہیں
لجائے جاتے ہیں دامن چھڑائے جاتے ہیں

جو دل سے اٹھے ہیں شعلے وہ آگ بن بن کر
تمام مناظرِ فطرت پہ چھائے جاتے ہیں

میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی
تیری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں

یہ اپنی ترکِ محبت بھی کیا محبت ہے
جنہیں بھولتے ہیں وہ یاد آئے جاتے ہیں
(جگر مراد آبادی)
 

ماوراء

محفلین


سنو اچھا نہیں لگتا
کرے جب تذکرہ کوئی
کرے جب تبصرہ کوئی
تمھاری ذات کو کھوجے
تمھاری بات کو سوچے
مجھے اچھا نہیں لگتا
سنو اچھا نہیں لگتا
تمھاری مسکراہٹ پر
ہزاروں لوگ مرتے ہوں
تمھاری ایک آہٹ پر
ہزاروں دل دھڑکتے ہوں
کسی کا تم پہ یوں مرنا
مجھے اچھا نہیں لگتا
سنو اچھا نہیں لگتا
ہوا گزرے تمھیں چھو کر
نہ ہوگا ضبط یہ مجھ سے
کرے کوئی تم سے گستاخی
تیری زلفیں بکھر جائیں
تمھارا لمس پی جائیں
مجھے اچھا نہیں لگتا
سنو اچھا نہیں لگتا
کہ تم کو پھول بھی دیکھیں
تمھارے پاس سے مہکیں
یا چندا کی گزارش ہو
کہ اپنی روشنی بخشو
رُخِ جاناں کوئی دیکھے

مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔​
 

فریب

محفلین
کہو تم کيوں جھکتے ہو؟
کہا خود جان سکتے ہو

کہو يہ درد کيسا ہے؟
کہا احساس رکہتے ہو

بھلا کيا دل کے اندر ہے؟
کہا تم ہي دھڑکتے ہو

محبت کس کو کہتے ہيں؟
کہا کيا زہر چھکتے ہو؟

کہا محفوظ رکھے رب
کہا بيدرد لگتے ہو

بھلا دل گم ہوا کب سے؟
کہا جب سے بھٹکتے ہو

کہو شمعين جليں کيسے؟
کہا پروانہ بنتے ہو؟

کہو اب کيا رہا باقي؟
کہا پھر کس سے ڈرتے ہو؟

کہا وھ بھول سکتا ہے؟
کہا کيا بات کرتے ہو؟

کہا منزل مقابل ہے؟
کہا پھر کيوں بھٹکتے ہو؟

فاخرہ بتول
 

ظفری

لائبریرین

سحر ملی نہ ہمیں شام ِ غم گزار کر بھی
نہ ہی حساب رہا قرضِ جاں اُتار کے بھی
شگفتگی ہی بھلی ہے نہ غنچگی دل کی
کہ درد ،درد ہے، چُپ رہ کے بھی پکار کر بھی​
 

شمشاد

لائبریرین
دھوم اتني ترے ديوانے مچا سکتے ہیں
کہ ابھي عرش کو چاھيں تو ھلاسکتے ہیں

مجھ سے اغيار کوئي آنکھ ملاسکتے ہیں؟
منہ تو ديکھو وھ مرے سامنے آسکتے ہیں؟

ياں و آتش فشاں ھيں کہ ابھريں آہ تو جٹ
آگ دامان شفق کو بھي لگا سکتے ہیں

سوچئے توسہي ہٹ دھرمي نہ کيجئے صاحب
چٹکيوں ميں مجھے کب آپ اڑا سکتے ہیں

حضرت دل تو بگاڑ آئے ہیں اس سے ليکن
اب بھي ھم چاہیں تو پھر بات بنا سکتے ہیں

شيخي اتني نہ کر اے شيخ کہ رندان جہاں
انگليوں پر تجھے چاہیں تو نچا سکتے ہیں
(نواب انشاء اللہ خان)
 

ظفری

لائبریرین

بس یہی سوچ کے تم سے نظر ملا لی ہے
نئے زخموں کے لیئے دل میں جگہ خالی ہے

بے وفا کہہ کے مجھے اُس نے بھری محفل میں
جانے کس بات کی یہ دشمنی نکالی ہے

لوگ دیوانہ سمجھتے ہیں تیرے عاشق کو
دل لگانے کی بہت خُوب سزا پالی ہے

وہ مجھے پھر سے بُلاتا ہے وہیں پر دیکھو
میں نہ جاؤں گا جہاں کب کی قسم کھا لی ہے​
 

ظفری

لائبریرین

یادوں کا ایک جھونکا آیا ہم سے ملنے برسوں بعد
پہلے اتنا روئے نہیں تھے ، جتنا روئے برسوں بعد

لمحہ لمحہ گھر اُجڑا ہے مشکل سے احساس ہوا
پتھر آئے برسوں پہلے ، شیشے ٹوٹے برسوں بعد

آج ہماری خاک پہ دُنیا رونے دھونے بیٹھی ہے
پُھول ہوئے ہیں جانے کیسے اتنے سستے برسوں بعد

بُھول بھی جاؤ کس نے توڑا ، کیسے توڑا ، کیوں توڑا
ڈھونڈ رہو کیا گلیوں میں دل کے ٹکڑے برسوں بعد

دستک کی اُمید لگائے کب تک قیصر جیتے ہم
کل کا وعدہ کرنے والے ، ملنے آئے برسوں بعد
 

شمشاد

لائبریرین
برسوں کے بعد ديکھا شخص دلربا سا
اب ذہن ميں نہيں ہے پرنام تھا بھلا سا

ابرو کچھے کچھے سے آنکھيں جھکي جھکي سي
باتيں رکي رکي سي، لہجہ تھکا تھکا سا

الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر ميں
بن جائے جنگلوں ميں جس طرح راستہ سا

خوابوں ميں خواب اس کے يادوں ميں ياد اس کي
نيندوں ميں گھل گيا ہو جيسے کہ رتجگا سا

پہلے بھي لوگ آئے کتنے ہي زندگي ميں
وہ ہر طرح سے ليکن اوروں سے تھا جدا سا

اگلي محبتوں نے وہ نامرادياں ديں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
(احمد فراز)
 

ظفری

لائبریرین

مجھ سے میرا کیا رشتہ ہے ہرایک رشتہ بُھول گیا
اتنے آئینے دیکھے ہیں ، اپنا چہرہ بھول گیا

اب تو یہ بھی یاد نہیں ‌ہے فرق تھا کتنا دونوں میں
اُس کی باتیں یاد نہیں اور اُس کا لہجہ بُھول گیا

پیاسی دھرتی کے ہونٹوں پہ میرا نام نہیں تو کیا
میں وہ بادل کا ٹکڑا ہوں جس کو دریا بھول گیا

دُنیا والے کچھ بھی کہیں راشد اپنی مجبوری ہے
اُس کی گلی جب یاد آئی ہےگھر کا رستہ بھول گیا​
 

ظفری

لائبریرین

چلے بھی آؤ لوح ِ قبرِ فانی دیکھتے جاؤ
تم اپنے مرنے والے کی نشانی دیکھتے جاؤ

ابھی کیا ہے کسی دن خُوں رُلائے گی یہ خاموشی
زبانِ حال کی جادو بیانی دیکھتے جاؤ

غرورِ حسن کا صدقہ کوئی جاتا ہے دُنیا سے
کسی کی خاک میں ملتی جوانی دیکھتے جاؤ

سُنے جاتے نہ تھے تُم سے میرے دن رات کے شکوے
کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ​
 

شمشاد

لائبریرین
يہ کہنا تو نہيں کافي کہ بس پيارے لگے ہم کو
انہيں کيسے بتائيں ہم کہ وہ کيسے لگے ہم کو

مکيں تھے يا کسي کھوئي ہوئي جنت کي تصويريں
مکاں اس شہر کے بھولے ہوئے سپنے لگے ہم کوہم

ان کو سوچ ميں گم ديکھ کر واپس پلٹ آئے
وہ اپنے دھيان ميں بيٹھے ہوئے اچھے لگے ہم کو

جہان تنہا ہوئے دل ميں بھنور سے پڑنے لگتے ہيں
اگرچہ مدتيں گزريں کنارے سے لگے ہم کو
 

ظفری

لائبریرین

اس دل نے تیرے بعد محبت بھی نہیں کی
حد یہ کہ دھڑکنے کی جسارت بھی نہیں کی

تعبیر کا اعزاز ہوا ہے اُسے حاصل
جس نے میرے خوابوں میں شراکت بھی نہیں کی

اُلفت تو بڑی بات ہے ہم سے تو سرِ شہر
لوگو نے کبھی ڈھنگ سے نفرت بھی نہیں کی

آدابِ سفر اب وہ سیکھتے ہیں جنہوں نے
دو چار قدم کی یہ مسافت بھی نہیں کی

کیا اپنی صفائی میں بیان دیتے کہ ہم نے
ناکردہ گناہوں کی وضاحت بھی نہیں کی

خاموش تماشائی کی مانند سرِ بزم
سو زخم سہے دل پہ ، شکایت بھی نہیں کی

اس گھر کے سبھی لوگ مجھے چھوڑنے آئے
دہلیز تلک اُس نے یہ زحمت بھی نہیں کی

اُس نے بھی غلاموں کی صفوں میں ہمیں رکھا
اِس دل پر کبھی جس نے حکومت بھی نہیں کی​
 

شمشاد

لائبریرین
نظر سے جستجو بیکار نکلی
خود اپنے آپ سے دوچار نکلی

خرد کو تھی یہ خوش فہمی کہ در ہے
پسِ دیوار بھی دیوار نکلی

مجھے حسرت تھی جس تابِ سخن کی
وہی شئے اس کی بھی درکار نکلی

چُھوٹا آخر کو دنیا سے تو دیکھا
محبت ہی گلے کا ہار نکلی

نگاہیں جھک گئیں جب، خود پسندی
برہنہ برسرِ دربار نکلی

نہالِ فکر کی شاخیں نمودار
قلم ہو کر بھی کیا گلزار نکلی

بھلا ہوتا ہے کیا کہنے سے “ حقی “
چلو کچھ خواہشِ اظہار نکلی
(شان الحق حقی)
 

ظفری

لائبریرین

تمہارے پیار کا صدقہ
یہ کچھ غزلیں
یہ کچھ نظمیں
یہ کچھ انمول سی یادیں
یہ کچھ بے ربط سی باتیں
جو کُھل کے کہہ نہ پایا میں
جو صدمے سہہ نہ پایا میں
یہ سب کچھ اور وہ سب کچھ
جو ناگفتہ رہا ہم میں
انہی یادوں کا حصہ ہے
انہی کا ایک قصہ ہے
یہ کچھ غزلیں
یہ کچھ نظمیں
تمہارے پیار کا صدقہ​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top