شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
اچھے عيسي ہو مريضوں کا خيال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہيں تم کہتے ہو حال اچھا ہے

تجھ سے مانگوں ميں تجھي کو کہ سبھي کچھ مل جائے
سو سوالوں سے يہي ايک سوال اچھا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
ج۔۔و کچھ س۔۔وجھتي ہے نئي س۔۔۔وجھتي ہے
ميں روت ہوں، اس کو ہنسي سوجھتي ہے

تمہيں حور اے ش۔۔يخ ج۔ي س۔۔۔۔۔۔وجھتي ہے
مجھے رشک حور اک پري پر سوجھتي ہے

يہاں ت۔۔۔و م۔ي۔۔ري ج۔۔۔ان پ۔۔۔ر ب۔۔ن رہي ہے
تمہيں ج۔۔۔ان م۔۔۔۔ن دل لگي س۔۔۔وجھتي ہے

ج۔۔و کہتا ہوں ان س۔ے ک۔ہ آنکھيں ملا لو
وھ کہتے ھيں تم کو يہي س۔۔۔وجھتي ہے

يہاں ت۔۔و ہے آنکھوں ميں ان۔۔دھي۔۔ر دنيا
وہاں ان کو س۔رم۔۔ہ مسي س۔۔۔۔وجھتي ہے

ج۔۔و کي ميں نے جوبن کي تعريف ب۔ولے
تمہيں اپنے مطلب کي ہي سوجھتي ہے

‘امير‘ ايسے ويسے تو مضمون ہیں لاکھوں
نئي بات ک۔وئ۔۔۔۔ي کبھ۔ي س۔۔۔۔وجھتي ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اللہ خیر کرئے ظفری بھائی، کیسی شاعری پوسٹ کر رہے ہیں۔

-------------------------------

دونوں عالم کی ہو خیر یارب
پھر اک آہ کرنے کو جی چاہتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
يہ تو میں کيونکر کہوں تيرے خريداروں میں ہوں
تو سراپا ناز ھے میں ناز برداروں میں ہوں

وصل کيسا تيرے ناديدہ خريداروں میں ہوں
واہ رے قسمت کہ اس پر بھي گناہ گاروں میں ہوں
 

ظفری

لائبریرین
گھر سے نکلے تھے حوصلہ کرکے
لوٹ آئے خدا خدا کر کے

دردِ دل پاؤگے وفا کرکے
ہم نے دیکھا ہے تجربہ کرکے

زندگی تو کبھی نہیں آئی
موت آئی ذرا ذرا کر کے

لوگ سُنتے رہے دماغ کی بات
ہم چلے دل کو رہنما کرکے

کس نے پایا سکون دُنیا میں
زندگانی کا سامنا کرکے​
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب ظفری بھائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو مجھ پر گزرتي ہے کبھي ديکھ لے ظالم
پھر ديکھوں کہ رونا تجھے کيونکر نہیں آتا
 

ماوراء

محفلین
ظفری نے کہا:
گھر سے نکلے تھے حوصلہ کرکے
لوٹ آئے خدا خدا کر کے

دردِ دل پاؤگے وفا کرکے
ہم نے دیکھا ہے تجربہ کرکے

زندگی تو کبھی نہیں آئی
موت آئی ذرا ذرا کر کے

لوگ سُنتے رہے دماغ کی بات
ہم چلے دل کو رہنما کرکے

کس نے پایا سکون دُنیا میں
زندگانی کا سامنا کرکے

بہت خوب ظفری۔
 

ظفری

لائبریرین
تمنا پھر مچل جائے اگر تُم ملنےآجاؤ
یہ موسم بھی بدل جائے اگر تُم ملنے آجاؤ

نہیں ملتے مجھ سے تم تو سب ہمدرد ہیں
زمانہ مجھ جل جائے اگر تُم ملنےآجاؤ

مجھے غم ہے کہ میں زندگی میں کچھ نہیں‌پایا
یہ غم دل سے نکل جائے اگر تُم ملنےآجاؤ​
 

شمشاد

لائبریرین
سر راہ عدم گور غربياں طرفہ بستي ہے
کہيں غربت پرستي ہے کہيں حسرت برستي ہے

تري مسجد ميں واعظ، خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے ميکدے میں رات دن رحمت برستي ہے


خمار نشہ سے نگاہیں ان کي کہتي ہیں
يہاں کيا کام تيرا يہ تو متوالوں کي بستي ہے

جواني لے گئي ساتھ اپنے سارا عيش مستوں کا
صراحي ہے نہ شيشہ۔ نہ ساگر ہے نہ مستي ہے

ہمارے گھر ميں جس دن ہوتي ہے اس حور کي آمد
چھپر کھٹ کو پري آ کر پري خاني سے کستي ہے

چلے نالے ہمارے يہ زبان حال سے کہہ کر
ٹہر جانا پہنچ کر عرش پر، ہمت کي پستي ہے

امير اس راستے سے جو گزرتے ہيں وہ لٹتے ہیں
محلہ ہے حسينوں کا کہ قزاقوں کي بستي ہے
 

ظفری

لائبریرین

میں بھول جاؤں تمہیں
اب یہی مناسب ہے
مگر بھُلانا چاہوں تو کس طرح بھُولوں
کہ تم تو پھر بھی حقیقت ہو
کوئی خواب نہیں
یہاں تو دل کا یہ عالم ہے
کیا کہوں ۔۔۔۔ کمبخت
بھلا سکا نہ یہ وہ سلسلہ جو تھا ہی نہیں
وہ ایک خیال جو آواز تک گیا ہی نہیں
وہ ایک بات جو میں کہہ نہیں سکا تم سے
وہ ایک ربط جو ہم میں کبھی رہا ہی نہیں
مجھے ہے یاد وہ سب جو کبھی ہوا ہی نہیں
اگر یہ حال ہے دل کا تو کوئی سمجھائے
تمہیں ُبھلانا بھی چاہوں تو کس طرح ُبھولوں
کہ تم تو پھر بھی حقیقت ہو
کوئی خواب نہیں ۔۔۔۔​
 

شمشاد

لائبریرین
اس کي حسرت ہے، جسے دل سے مٹا بھي نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلے ہو جسے پا ہي نہ سکوں

وصل ميں چھیڑ نہ اتنا اسے اے شوق وصال
کہ وہ روٹھے تو کسي طرح منا بھي نہ سکوں


ڈال کر خاک مرے خوں پہ، قاتل نےکہا
کچھ يہ مہندي نہيں ميري کہ چھپا بھي نہ سکوں

کوئي پوچھے تو محبت سے يہ کيا ہے انصاف
وھ مجھے دل سے بھلا دے ميں بھلا بھي نہ سکوں

ہائے کيا سحر ہے يہ حسن کي مانگيں جو حسيں
دل بچا بھي نہ سکوں جان چھڑا بھي نہ سکوں

ايک نالے ميں جہاں کو تہہ و بالا کر دوں
کچھ تيرا دل يہ نہیں ہے کہ ہلا بھي نہ سکوں
 

ماوراء

محفلین
کر لیا خود کو جو تنہا میں نے
یہ ہنر کِس کو دکھایا میں نے

وہ جو تھا اس کو مِلا کیا مجھ سے
اس کو تو خواب ہی سمجھا میں نے

دل جلانا کوئی حاصل تو نہ تھا
آخرِ کار کیا کیا میں نے

دیکھ کر اس کو ہُوا مست ایسا
پھر کبھی اسکو نہ دیکھا میں نے

شوقِ منزل تھا بُلاتا مجھ کو
راستہ تک نہیں ڈھونڈا میں نے

اک پلک تجھ سے گزر کر ، تاعمر
خود ترا وقت گزارا میں نے

اب کھڑا سوچ رہا ہوں لوگو!
کیوں کیا تم کو اِکھٹا میں نے​
 

سارا

محفلین
یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں

جنہیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
موج نسيم صبح نہ جوش نمو سے تھا
جو پھول سرخرو تھا خزاں کے لہو سے تھا

تيرے سکوت نے اسے ويران کر ديا
دل باغ باغ تھا تو تري گفتگو سے تھا

اب دل کے ريگزار ميں وہ چاندني کہاں
اپنا بھي ربط و ضبط کسي ماہ رو سے تھا
 

سارا

محفلین
میں اپنی آنکھ میں جب اس کے خواب سوچتی ہوں
تو خوشبوؤں سے مہکتے گلاب سوچتی ہوں

یہ میری طاقت پرواز کا ہنر ہے کہ میں
حروف لکھتی ہوں لیکن کتاب سوچتی ہوں۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top