تیری رحمتوں کے دیار میں تیرے بادلوں کو پتا نہیں
ابھی آگ سرد ہوئی نہیں آبھی اک آلاؤ جلا نہیں
میری بزم دل تو اجڑ چکی‘ مرا فرشِ جاں تو سمٹ چکا
سبھی جا چکے مرے ہم نشیں مگر اک شخص گیا نہیں
دروبام سب نے سجا لیے‘ سبھی روشنی میں نہا لیے
مری انگلیاں بھی جھلس گئیں مگر اک چراغ جلا نہیں
غمِ زندگی تیری راہ میں‘شبِ آرزو تیری چاہ میں
جو اجڑ گیا وہ بسا نہیں‘جو بچھڑ گیا وہ ملا نہیں۔۔
‘اعتبار ساجد‘