شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین

الاؤ بن کے دسمبر کی سرد راتوں میں
تیرا خیال میری طاقوں میں رہتا ہے
بچا کو خود کو گزرنا محال لگتا ہے
تمام شہر میرے راستوں میں رہتا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
نظ۔ر میں ڈھل کے اُبھرتے ہیں دل کے افسانے
ی۔۔ہ اور ب۔ات ہے دنیا ن۔ظ۔۔۔۔ر ن۔۔۔۔ہ پہچ۔۔۔۔۔انے

ی۔ہ بزم دیکھی ہے میری نگاہ نے ک۔۔۔ہ جہاں
ب۔غ۔ی۔۔۔ر ش۔۔۔مع بھ۔ی جلتے رہے ہیں پ۔۔۔۔روانے
 

ماوراء

محفلین
یوں تو۔۔۔۔۔


یوں تو گزر رہا ہے ہر اک پل خوشی کے ساتھ
پھر بھی کوئی کمی سی ہے کیوں زندگی کے ساتھ

رشتے، وفائیں، دوستی سب کچھ تو پاس ہے
کیا بات ہے پتا نہیں دل کیوں اداس ہے

ہر لمحہ ہے حسین نئی دلکشی کے ساتھ
پھر بھی کوئی کمی سی ہے کیوں زندگی کے ساتھ

چاہت بھی ہے، سکون بھی ہے، دلبری بھی ہے
آنکھوں میں خواب بھی ہیں لبوں پر ہنسی بھی ہے

دل کو نہیں ہے کوئی شکایت کسی کے ساتھ
پھر بھی کوئی کمی سی ہے کیوں زندگی کے ساتھ

سوچا تھا جیسا ویسا ہی جیون تو ہے مگر
اب اور کس تلاش میں بے چین ہے نظر

قدرت کی تو مہربانی ہے دریا دلی کے ساتھ
پھر بھی کوئی کمی سی ہے کیوں زندگی کے ساتھ​
 

ماوراء

محفلین
سارا نے کہا:
آئی نہ ہاتھ پیار کی خیرات آج تک
ہم کاسہء خلوص لیے در بدر پھرے۔۔

آنسو ہیں مقدر میں تو کر لیں گے گوارا
کشکول لیے بھیک نہ مانگیں گے خوشی کی​

صحرا کی دھوپ میں کوئی سایہ نہ مل سکا
جتنے ملے درخت سبھی کھوکھلے ملے

بہت اچھا شعر ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ماوراء خدا کے لیے شاعری کے لیے کوئی شوخ رنگ استعمال کر لو، نبیل اور زکریا نے ڈھیر سارے شوخ رنگ دیئے ہوئے ہیں اوپر۔ پڑھنے میں مشکل ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی ہے
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں
(ناصر کاظمی)
 

پاکستانی

محفلین
بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے

بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے

تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے

وہ خوشياں بھي جانے کيسي خوشياں تھيں

تتلي کے پَر نُوچ کے اُچھلا کرتے تھے

مار کے پاؤں ہم بارش کے پاني ميں

اپني ناؤ آپ ڈبويا کرتے تھے

چھوٹے تھے تو مِکرو فريب بھي چھوٹے تھے

دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے

اب تو اِک آنسو بھي رُسوا کر جائے

بچپن ميں جي بھر کے رُويا کرتے تھے

خُوشبو کے اُڑتے ہي کيوں مرجھايا پھول

کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے

کھيل کود کے دن بھر اپني ٹولي ميں

رات کو ماں کي گُود ميں سويا کرتے تھے
 

سارا

محفلین
ماوراء نے کہا:
سارا نے کہا:
آئی نہ ہاتھ پیار کی خیرات آج تک
ہم کاسہء خلوص لیے در بدر پھرے۔۔

آنسو ہیں مقدر میں تو کر لیں گے گوارا
کشکول لیے بھیک نہ مانگیں گے خوشی کی​

صحرا کی دھوپ میں کوئی سایہ نہ مل سکا
جتنے ملے درخت سبھی کھوکھلے ملے

بہت اچھا شعر ہے۔

شکریہ۔۔۔
 

سارا

محفلین
چُپ گلیاں بند دروازہ آدھی رات اور میں
سرد ہیں جھونکے لمبا راستہ آدھی رات اور میں

پیچھے ساتھ گزرنے والے موسم کی صدایئں
سامنے ہے اک درد کا صحرا آدھی رات اور میں

بیتے سمے کی جھیل پہ بیٹھے کب سے ہم
دیکھ رہے ہیں چہرہ اپنا آدھی رات اور میں

کتنے درد سہے اور جانے کتنی بار مرے
پھر بھی دونوں اب تک زندہ آدھی رات اور میں

‘سرفراز تبسم‘
 

شمشاد

لائبریرین
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہو گا
یاد نے کنکر پھینکا ہو گا

آج تو میرا دل کہتا ہے
تُو اس وقت اکیلا ہو گا

میرے چومے ہوئے ہونٹوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہو گا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تُو اب تھک کر سویا ہو گا
(ناصر کاظمی)
 

پاکستانی

محفلین
جسم دمکتا، زلف گھنیری، رنگیں لب، آنکھیں جادو

جسم دمکتا، زلف گھنیری، رنگیں لب، آنکھیں جادو
سنگِ مرمر، اودا بادل، سرخ شفق، حیراں آہو

بھکشو دانی، پیاسا پانی، دریا ساگر، جل گاگر
گلشن خوشبو، کوئل کُوکُو، مستی دارُو، میں اور تو

بانبی ناگن، چھایا آنگن، گھُنگھرو چھن چھن، آشا من
آنکھیں کاجل، پربت بادل، وہ زلفیں اور یہ بازو

راتیں مہکی، سانسیں دہکی، نظریں بہکی، رُت لہکی
سپن سلونا، پریم کھلونا، پھول بچھونا، وہ پہلو

تم سے دوری، یہ مجبوری، زخمِ کاری، بیداری
تنہا راتیں، سپنے کاٹیں، خود سے باتیں، میری خُو
 

قیصرانی

لائبریرین
بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے

پاکستانی نے کہا:
بچپن کے دُ کھ کتنے اچھے تھے

تب تو صرف کھلونے ٹوٹا کرتے تھے

وہ خوشياں بھي جانے کيسي خوشياں تھيں

تتلي کے پَر نُوچ کے اُچھلا کرتے تھے

مار کے پاؤں ہم بارش کے پاني ميں

اپني ناؤ آپ ڈبويا کرتے تھے

چھوٹے تھے تو مِکرو فريب بھي چھوٹے تھے

دانہ ڈال کے چڑيا پکڑا کرتے تھے

اب تو اِک آنسو بھي رُسوا کر جائے

بچپن ميں جي بھر کے رُويا کرتے تھے

خُوشبو کے اُڑتے ہي کيوں مرجھايا پھول

کتنے بھولے پن سے پوچھا کرتے تھے

کھيل کود کے دن بھر اپني ٹولي ميں

رات کو ماں کي گُود ميں سويا کرتے تھے
بہت عمدہ پاکستانی بھائی، ایک دم سادہ اور سلیس :)
قیصرانی
 

ماوراء

محفلین

محبت چپ نہیں رہتی۔۔۔۔۔

میں کہتا ہوں، مجھے تم ہنستی گاتی اچھی لگتی ہو
وہ مجھ سے پوچھتی ہے، درد سے ڈرنے لگے ہو کیا

وہ بولی، رات سے کیا بات کرتے ہو اکیلے میں
میں بولا، درد کی، کچھ کچھ محبت کی، جدائی کی

وہ بولی، چاند کیا آتا ہے تم سے چونچلیں کرنے
میں بولا، ہاں کبھی سپنوں کے آنگن میں اترتا ہے

وہ بولی، کون اکثر یاد آتا ہے اداسی میں
میں بولا، کچھ پرانے راستے، بچپن اور اک لڑکی

وہ بولی، درد کی جزیات میں پڑنے سے کیا بہتر
میں بولا، درد کو خوش خوش سہیں اور کوچ کر جائیں۔​
 

پاکستانی

محفلین
جلتا ہوں ہجرِ شاہد و يادِ شراب ميں
شوق ثواب نے مجھے ڈالا عذاب ميں

کہتے ہيں تم کو ہوش نہيں اضطراب ميں
سارے گلے تمام ہوئے اک جواب ميں

رہتے ہيں جمع کوچہ جاناں ميں خاص و عام
آباد ايک گھر ہے جہانِ خراب ميں

بد نام ميرے گر يہ رسوا سے ہو چکے
اب عذر کيا رہا نگہ بے حجاب ميں

ناکاميوں سے کام رہا عمر بھر ہميں
پري ميں ياس ہے جو ہوس تھي شباب ميں

دونوں کا ايک حال ہے يہ مدعا ہو کاش
وہ ہي خط اس نے بھيج ديا کيوں جواب ميں

تقدير بھي بري مري تدبير بھي بري
بگڑے وہ پر سشِ سببِ اجتناب ميں

کيا جلوے ياد آئے کہ اپني خبر نہيں
بے بادہ مست ہوں ميں شبِ ماہ تاب میں

پيہم سجود پائے صنم پر دم و داع
مومن خدا کو بھول گئے اضطراب ميں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top