انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو، تم کیا جانو، بات میری تنہائی کی
کون سیاہی گھول رہا ہے وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہرجائی کی
ٹوٹ گئے سیال نگینے، پھوٹ بہے رخساروں پر
دیکھو میرا ساتھ نہ دینا، بات ہے رسوائی کی
اُڑتے اُڑتے آس کا پنچھی دُور اُفق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی
قتیل شفائی