شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین

تمھارے دل میں میری چاہتوں کا
کوئی تو بیج سا پُھوٹا ہوا ہے
کسی کے نام لگ جائے بلا سے
یہ دل پہلے سے ہی ٹوٹا ہوا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات، کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
 

ظفری

لائبریرین

سانس لینے نہیں دیتا جب شہر کا شور
خوشبو میں ڈُوبا ہوا بَن یاد آتا ہے
سردی سے جب ہونٹ چٹخنے لگتے ہیں
گرم لبوں کا گِیلا پن یاد آتا ہے

( شہزاد احمد )​
 

سارا

محفلین
ماوراء نے کہا:
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے
کہ زندگی تیری زلفوں کی نرم چھاؤں میں گزرنے پاتی
تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ رنج و غم کی سیاہی جو دل پہ چھائی ہے
تیری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی
مگر یہ ہو نہ سکا
مگر یہ ہو نہ سکا، اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں، تیرا غم تیری جستجو بھی نہیں۔
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اِسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں
نہ کوئی راہ نہ منزل نہ روشنی کا سراغ
مچل رہی ہے اندھیروں میں زندگی بھی
انہی اندھیروں میں رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں میرے ہم نفس
مگر یوں ہی
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے۔​

زبردست۔۔۔
 

سارا

محفلین
پھر یوں ہوا کہ نکلے کسی کی تلاش میں
پھر یوں ہوا کہ خود کو نہ پائے تمام عمر

پھر یوں ہوا کہ اور کسی کے نہ ہو سکے
پھر یوں ہوا کہ وعدے نبائے تمام عمر۔۔۔
 

سارا

محفلین
اتنے چپکےسے میری روح میں سمائے ہو
کہ دل تو کیا میری آنکھوں کو بھی خبر نہ ہوئی

ہم نے یہ سوچ لیا کہ عمر گزاریں لیکن !
تیرے ساتھ ایک شام بھی بسر نہ ہوئی۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
بلند بال تھا، لیکن نہ تھا جسور و غیور
حکیم سرِ محبت سے بے نصیب رہا

پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہیں دار
شکارِ زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
 

ظفری

لائبریرین
میں نے اُس کی ہاتھ کی لکیروں پر
ایک سیاہ تِل دیکھا
اور اُسے بتایا کہ یہ دولت کا تِل ہے
تمہارے ہاتھوں میں کتنی دولت ہے
اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں
میرا چہرہ تھام کر کہا
ہاں‌ ۔۔۔۔
میرے ہاتھوں میں کتنی دولت ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
یہ کون غزل خواں ہے پُرسوز و نشاظ انگیز
اندیشہ دانا کو کرتا ہے جنوں آمیز

گو فقیر بھی رکھتا ہے اندازِ ملوکانہ
نا پختہ ہے پرویزی، بے سلطنتِ پرویز
 

ظفری

لائبریرین

مزاج ہم سے زیادہ جُدا نہ تھا اُس کا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اُس کا
وہ اپنے زعم میں تھا ، بے خبر رہا مجھ سے
اُسے گُماں بھی نہیں ، میں نہیں رہا اُس کا
ہم ہی نے ترکِ تعلق میں پہل کی فراز
وہ چاہتا تھا مگر حوصلہ نہ تھا اُس کا​
 

شمشاد

لائبریرین
غواصِ محبت کا اللہ نگہباں ہو
ہر قطرہ دریا میں، دریا کی گہرائی

اس موج کے ماتم میں روتی ہے بھنور کی آنکھ
دریا سے اٹھی لیکن ساحل سے نہ ٹکرائی
 

سارا

محفلین
اکیلے کس سے اٹھا ہے تعلقات کا بوجھ
وہ تم کو یاد نہ رکھے تو بھول جانا اسے

میں کہہ رہا تھا کہ راہِ وفا کٹھن ہے بہت
مگر بچھڑنے کا ہاتھ آ گیا بہانہ اسے۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
قصے تیری نظر نے سنائے نہ پھر کبھی
ہم نے بھی دل کے داغ دکھائے نہ پھر کبھی

اے یادِ دوست آج تو جی بھر کے دل دکھا
شاید یہ رات ہجر کی آئے نے پھر کبھی
(ناصر کاظمی)
 

شمشاد

لائبریرین
غبار چشم ہے يہ، ميں تو اشکبار نہیں
الگ ہے بات ديا گل نے بھي قرار نہیں

مجھے زمانے نے لوٹا نہ تھا کبھي ايسے
جو ہجر تجھ سے ملا اس کا کچھ شمار نہیں

مجھے صليب پہ ٹانکو ہزار بار مگر
خدا گواہ ہے میں کچھ گناہ گار نہیں

بجا کہ چہرے سے غمگین دکھائي ديتي ہوں
مگر جو دل پہ گزرتي ہے آشکار نہیں

چراغ اشک جلاؤ، انہیں نہ بجھنے دو
ہوا اگر چہ زمانے کي ساز گار نہیں

مرا وجود گورا نہ کر سر محفل
تري نگاہ ميں ميرا کوئي وقار نہیں
 

سارا

محفلین
نڈھال یوں ہوئے کہ سب ضرورتیں مر گئیں
نہ بھوک ہے نہ پیاس ہے یہ دل بہت اداس ہے

عجب طرح کے وسوسوں میں گھِر گئی ہے زندگی
امید ہے نہ آس ہے یہ دل بہت اداس ہے۔۔۔
 

سارا

محفلین
وہ تو ہم ہیں کہ تمہیں ساتھ لیے پھرتے ہیں
تم ہمیں بھول گئے ہوتے پزیرائی میں

اس قدر جلد مراسم نہ بڑھا غیروں سے
عمر لگتی ہے یہاں خود سے شناسائی میں۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top