شاعری ، اپنی پسند کی ،

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارا

محفلین
کسی کی دھن میں‘ کسی کے گمان میں رہتے ہیں
ہم ایک خواب کی صورت جہان میں رہتے ہیں

غموں کی دھوپ سے ڈرتے نہیں ہیں وہ امجد
کسی نگاہ کے جو سائبان میں رہتے ہیں۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
انشاء جی کی لکھی ہوئی اور استاد امانت علی کی گائی ہوئی مشہور عالم غزل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انشا جي اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جي کو لگانا کيا
وحشي کو سکوں سےکيا مطلب، جوگي کا نگر ميں ٹھکانا کيا

اس وک کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہي سوچو تو سہي
جس جھولي ميں سو چھيدا ہوئے، اس جھولي کا پھيلانا کيا

شب بيتي، چاند بھي ڈوب چلا، زنجير پڑي دروازے پہ
کيوں دير گئے گھر آئے، سجني سے کرو گے بہانا کيا

پھر ہجر کي لمبي رات مياں، سنجوگ کي تو يہي اک گھڑي
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

اس حسن کے سچے موتي کو ہم ديکھ سکيں پر چھونا نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

اس کو بھي جلا دکھتے ہوئے من ايک شعلہ لال بھبھوکا بن
يوں آنسو بن نہ جانا کيا يوں ماني ميں جانا کيا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کریں
ديوانوں کي سي نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا
 

شمشاد

لائبریرین
آج تو ہم بکنے کو آئے، آج ہمارے دام لگا
يوسف تو بازار وفا ميں ايک ٹکے کو بکتا ہے

ياتو آج ہمیں اپنا لے يا تو آج ہمارا بن
ديکھ کہ وقت گزرتا جائے، کون ابد تک جيتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
گرم آنسو اور ٹھنڈي آہیں، من میں کيا کيا موسم ہیں
اس بگيا کے بھيد نہ کھولو سير کرو خاموش رہو

آنکھیں موند کنارے بیٹھو من کے رکھو بند کواڑ
انشاء جي لو دھاگا اور لب سي لو خاموش رہو
 

شمشاد

لائبریرین
کل چودھیں کي رات تھي، شب بھر رہا چرچا تيرا
کچھ نے کہا يہ چاند ہے، کچھ نہ کہا چہرا تيرا

ہم بھي وہیں موجود تھے ہم سے بھي سب پوچھا کيے
ہم ہنس دئيے ہم چپ رہے، منظور تھا پردہ تيرا

اس شہر میں کس سے ملیں، ہم سے چھوٹیں محفلیں
ہر شخص تيرا نام لے، ہر شخص ديوانہ تيرا

دو اشک جانے کس لئے، پلکوں پہ آکر ٹک گئے
الطاف کي بارش تيري، اکرام کا دريا تيرا

ہم پر يہ سختي کي نظر ہم ہیں فقير رہگزر
رستہ کبھي روکا تيرا دامن کبھي تھاما تيرا

ہاں ہاں تري صورت حسيں ليکن تو ايسا بھي نہیں
اس شخص کے اشعار سے شہرہ ہوا کيا کيا تيرا

بے درد سنني ہوتو چل کہتا ہے کيا اچھي منزل
عاشق تيرا، رسوا تيرا، شاعر تيرا، انشا تيرا
 

شمشاد

لائبریرین
کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اس جلوہ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایامِ جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ

بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے ڈرا نہیں سکتی فضا کی تاریکی
مری سرشت میں ہے پاکی و درخشانی

تو اے مسافرِ شب خود چراغ بن اپنا
کر اپنی رات کو داغِ جگر سے نورانی
 
س

سمن

مہمان
وہ تو یوں تھا کہ ہم
!اپنی اپنی ضرورت کی خاطر ملے
اپنے اپنے تقاضوں کو پورا کیا
اپنے اپنے اِرادوں کی تکمیل میں
تیرہ و تار خواش کی سنگلاخ راہوں پہ چلتے رہے
پھر بھی راہوں میں کتنے شگوفے کِھلے
!! وہ تو یوں تھا کہ بڑھتے گئے سلسلے
ورنہ یوں ہے کہ ہم
اجنبی کل بھی تھے
اجنبی اب بھی ہیں
اب بھی یوں ہے کہ تم
ہر قسم توڑ دو
! سب ضدیں چھوڑ دو
اور اگر یوں نہ تھا تو یونہی سوچ لو
تم نے اقرار ہی کب کیا تھا کہ میں
تم سے منسوب ہوں
میں نے اصرار ہی کب کیا تھا کہ تم
! یاد آؤ مجھے
!!! بھول جاؤ مجھے
 

شمشاد

لائبریرین
سمن آپ کا اس محفل میں پہلا خط بہت زبردست ہے جو آپ نے “ شاعری اپنی پسند کی “ میں پوسٹ کیا ہے۔

میں آپ کو محفل پر خوش آمدید کہتا ہوں اور چاہوں گا کہ آپ “ تعارف “ کے زمرے میں جائیں اور اپنا تعارف تو دیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
 
س

سمن

مہمان
بہت شکریہ شمشاد۔ مجھے بھی آپ کا یہ پیغام پڑھ کر بہت زبردست لگا ہے۔ :)
جی قیصرانی صاحب نے مجھے خوش آمدید کہا ہے۔ اور میں نے وہاں جواب بھی دیا ہے۔ اور اپنی تعریف میں بھی کچھ نہ کچھ کہہ ہی دوں گی۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیاتِ ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں
 

ظفری

لائبریرین
میں نے آغاز سے انجامِ سفر جانا ہے
سب کو دو چار قدم چل کے ٹہر جانا ہے

غم وہ صحرا ِ تمنا کہ بگولے کی طرح
جس کو منزل نہ ملی اُس کو بکھر جانا ہے

اب کے بچھڑے تو نہ پہچان سکیں گے عمر بھر
میری چاہت ، تیرے پندار کو مر جانا ہے

جانے والے کو نہ روکو کہ بھرم رہ جائے
تم روکو بھی تو کب اس کو ٹہر جانا ہے

تیز دُھوپ میں چلے آتے ہیں میری جانب
دوستوں نے مجھے صحرا کو شجر جانا ہے

زندگی کو بھی تیرے ڈر سے بھکاری کی طرح
ایک پل کے لیئے رُکنا ہے ، گذر جانا ہے

اپنی افسُردہ مزاجی کو بُرا نہ کہہ فراز
واقعہ کوئی بھی ہو ، آنکھ کو بھر جانا ہے​
 

شمشاد

لائبریرین
تیز دُھوپ میں چلے آتے ہیں میری جانب
دوستوں نے مجھے صحرا
کو شجر جانا ہے

ظفری بھائی مجھے اس شعر میں‌ کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے،

دوستوں نے مجھے صحرا کا شجر جانا ہے

ہونا چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
پوچھ اُس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
تو صاحبِ منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی

کافر ہے مسلماں، تو نہ شاہی نہ فقیری
مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
 
شمشاد نے کہا:
تیز دُھوپ میں چلے آتے ہیں میری جانب
دوستوں نے مجھے صحرا
کو شجر جانا ہے

ظفری بھائی مجھے اس شعر میں‌ کچھ گڑبڑ لگ رہی ہے،

دوستوں نے مجھے صحرا کا شجر جانا ہے

ہونا چاہیے۔

شمشاد غلطی تو پکڑ لی ہے مگر میرا خیال ہے کہ یہ مصرعہ یوں ہے

دوستوں نے مجھ صحرا کو شجر جانا ہے
 

سارہ خان

محفلین
جو خامشی کے نگر میں مقیم ہوتے ہیں
وہی تو اصل میں رُوحِ کلیم ہوتے ہیں
میں پوجتا ہُوں پتنگوں کو اس لیے *محسن*
کہ روشنی کے پیمبر عظیم ہوتے ہیں
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top