کہتے ہیں لوگ یہ کہ بڑی دل نشیں ہے شام
لیکن مجھے یہ لگتا ہے اندوہ گیں ہے شام
یہ اک چھلاوا ہے کہ پہاڑوں کی آگ ہے
وہم و گماں کی شکل میں جیسے یقیں ہے شام
کیا اس کو ڈھونڈتے ہو خلاؤں کے درمیاں
تم اپنے دل میں کھوج کے دیکھو یہیں ہے شام
یہ کیسی مچھلیاں ہیں چمکتی ہیں رات بھر
یہ جھیل ہے کہ ایک نگاہ حسیں ہے شام
دونوں کا وصل ہو تو شفق رنگ ہو یہ دل
ہے رات آسمان تو گویا زمیں ہے شام
دن کا گناہ رات کے سر آ گیا ہے کیوں؟
کیا شب کی بے گناہی کی شاہد نہیں ہے شام؟
یہ تو بدل چکی ہے کرامتؔ ہوا کا رخ
کیسے کہوں کہ وقت کے زیر نگیں ہے شام
کرامت علی کرامت