خرم، درست فرمایا آپ نے۔ آج کا نفاذ شریعت کا نعرہ اتنا پر کشش ہے کہ بہت سے اچھے اچھے لوگ اس پر کچھے جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں پوچھتے کہ وہ شریعت کونسی شریعت ہوگی؟ لہذا میں نے ایک ایسی کتاب یا کتب کا ایک سنجیدہ مطالبہ کیا ہے۔ تاکہ ابہامات سے بالا تر ہو کر یہ سوچا جاسکے کے کیا پاکستان کے عوام کے منتخب کردہ نمائندے، جو آئین و قوانین پاکستان کے قانونی اداروں میں قرآن اور سنت کی روشنی میں ترتیب دے رہے ہیں وہ مولوی کے ایک فتوے سے اچانک بے کار کیسے ہوگیا۔ بہتر معاشیات، بہتر حالات، بہتر انتظامیہ آپس میں مسائیل پر بات چیت کئے بغیر کیسے سامنے آسکتی ہے؟ خاص طور پر جب ایسے کسی بھی متبادل نظام کے کسی ڈاکومینٹ کا وجود ہی نہیں۔ پرانے 'عالم' ٹیچر تھے یا قانون ساز، اس کا تصفیہ کون کرے گا؟ بہرحال اس علم سے مناسب استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن آنکھ بند کر اس کو قانون نہیں تصور کیا جاسکتا۔
قرآن اللہ تعالی کے قوانین اور اس کے اصولوں پر مشتمل ہے۔ ان قوانین اور اصولوں سے باہر کوئی قانون پاکستان کی قانون ساز اسمبلیاں نہیں بناتی ہیں۔ لیکن تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ یہ سب غیر اسلامی ہے، ایسا کہنا سراسر دھوکہ دہی ہے۔ مولوی وہی نظام چاہتے ہیں جس کو روتے رہتے ہیں۔
مودودی صاحب ان شرعی عدالتوں کے بارے میں لکھتے ہیں، ملا اپنی اسی نشاط ثانیہ کے لئے آزردہ ہیں:
ایک صدی کا زمانہ نہ گزرا تھا کہ مسلمان اُس سرزمین میں مغلوب و محکوم ہو گئے جس پر انہوں نے صدیوں حکومت کی تھی۔ انگریزی سلطنت جتنی جتنی پھیلتی چلی گئی مسلمانوں سے ان طاقتوں کو چھینتی چلی گئی جن کے بل پر ہندوستان میں اسلامی تہذیب کسی حد تک قائم تھی۔ اس نے فارسی اور عربی کے بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا۔ اسلامی قوانین کو منسوخ کیا، شرعی عدالتیں توڑ دیں، دیوانی اور فوجداری معاملات میں خود اپنے قوانین جاری کیے، اسلامی قانون کے نفاذ کو خود مسلمانوں کے حق میں صرف نکاح و طلاق وغیرہ تک محدود کر دیا اور اس محدود نفاذ کے اختیارات بھی قاضیوں کے بجائے عام دیوانی عدالتوں کے سپرد کر دیئے جن کے حکام عمومًا غیر مسلم ہوتے ہیں
اور مزید یہ کہ مودودی صاحب انگریز تعلیم کی مخالفت میں لکھتے ہیں، اس جدید تعلیم کے "پرانے لوگ" یعنی "ہند کے مولوی" کس قدر مخالف تھے اور ہیں:
اب مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ چنانچہ مرحوم سر سید احمد خاں کی رہنمائی میں ایک زبردست تحریک اُٹھی جس کے اثر سے تمام ہندوستان کے مسلمانوں مٰں انگریزی تعلیم کی ضرورت کا احساس پیدا ہوا گیا۔ پرانے لوگوں کی مخالفت بے کار ثابت ہوئی۔
جب پاکستان بنا توملاؤں کا خیال تھا کہ پاکستان میں پھر وہی ملاؤں کی حکومت ہوگی جو مغلیہ دور میںتھی۔ وہی جنت گم گشتہ پھر مل جائے گی - وہی حلوے مانڈے ہوں گے، وہی کنواریوں کی قلقاریاں ہوں گی اور یہ ملا ہوں گے۔ اسی نظام کو ملا شریعت کہتے ہیں جس کا دور دور سے بھی قرآن سے واسطہ نہیں۔ یہ وہ اسرائیلیات ہیں جن کو کھینچ تان کر قرانی آیات کا لبادہ اوڑھایا گیا ہے۔
لیکن پاکستان نے قانون سازی کے لئے قرآن کا راستہ اختیار کیا اور مجلس شوری کو قانون سازی کا اختیار دیا۔ مولوی، ملا، آیت اللہ اپنے بدترین سیاسی حربوں کے باوجود اس مجلس شوری میں نہیں گھس سکے تو اس کو غیر اسلامی قرار دینے لگے۔
خود مودودی اس ملاؤں کی حکومت کی تباہی کو قضائے الہی تسلیم کرتے ہیں، لکھتے ہیں:
اٹھارہویں صدی عیسوی میں وہ سیاسی اقتدار بھی مسلمانوں سے چھن گیا جو ہندوستان میں اسلامی تہذیب کا سب سے بڑا سہارا تھا۔ پہلے مسلمانوں کی سلطنت متفرق ہو کر چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوئی پھر مرہٹوں اور سکھوں اور انگریزوں کے سیلاب نے ایک ایک کر کے ان ریاستوں میں سے بیشتر کا خاتمہ کر دیا اور اس کے بعدقضائے الٰہی نے انگریزوں کے حق میں اس ملک کی حکومت کا فیصلہ صادر کیا اور ایک صدی کا زمانہ نہ گزرا تھا کہ مسلمان اُس سرزمین میں مغلوب و محکوم ہو گئے جس پر انہوں نے صدیوں حکومت کی تھی۔
ملاؤں کا یہ نظام اتنا اچھا تھا کہ جب انگریز برصغیر سے گئے اور مسلمان اپنی کمزوری کی انتہا کو پہنچ گئے تو 1947 میں ہندوستانیوں نے ملاؤںکی خدمات کا اعتراف کیا، ان کو گلے سے لگا کر معافی مانگی۔ اور صدیوں کا "انصاف" جو قاضی عدالتوں سے عام آدمی کو ملتا رہا تھا اس کا شکریہ ------- لاکھوں مسلمانوں کی جانوں، عزتوں اور ملکیتوں کا جنازہ نکال کر ------ ادا کیا۔
جناب مولانا حالی اپنی کتاب حیات جاوید میں صفحہ 263 پر لکھتے ہیں کہ سرسید کے علیگڑھ یونیورسٹی قائم کرنے کے خلاف، ہر شہر اور قصبہ کے مولوی سے 'سرسید کے کافر ہونے ' کی بابت دستخط کروائے گئے تھے۔ جن مولویوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا ان پر تکفیر کا فتوی لگایا گیا تھا۔ تو بھائی یہ جدید تعلیم تو حرام ہے۔ خبردار جو کسی نے کمپیوٹر استعمال کیا
والسلام،