فاروق سرور خان نے کہا:
جب پاکستان بنا توملاؤں کا خیال تھا کہ پاکستان میں پھر وہی ملاؤں کی حکومت ہوگی جو مغلیہ دور میںتھی۔ وہی جنت گم گشتہ پھر مل جائے گی - وہی حلوے مانڈے ہوں گے، وہی کنواریوں کی قلقاریاں ہوں گی اور یہ ملا ہوں گے۔ اسی نظام کو ملا شریعت کہتے ہیں جس کا دور دور سے بھی قرآن سے واسطہ نہیں۔
لعنۃ اللہ علی الکٰذبین
جناب، حلوے مانڈے کچھ بھی نہیں اس سے بڑھ کر آسائشوں اور تعیشات سے تو وہ لوگ مستفید ہو رہے ہیں جنہوں نے اسلام دشمنوں کی یونیورسٹیوں سے “اسلام” سیکھا ہے اور اب اپنا خودساختہ دین امت پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ ملا بیچارہ تو خوامخواہ بدنام کر دیا گیا ہے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
ملاؤں کا یہ نظام اتنا اچھا تھا کہ جب انگریز برصغیر سے گئے اور مسلمان اپنی کمزوری کی انتہا کو پہنچ گئے تو 1947 میں ہندوستانیوں نے ملاؤںکی خدمات کا اعتراف کیا، ان کو گلے سے لگا کر معافی مانگی۔ اور صدیوں کا "انصاف" جو قاضی عدالتوں سے عام آدمی کو ملتا رہا تھا اس کا شکریہ ------- لاکھوں مسلمانوں کی جانوں، عزتوں اور ملکیتوں کا جنازہ نکال کر ------ ادا کیا۔
اس طنز کے باوجود یہ حقیقت بدل نہیں سکتی کہ تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے ذمے دار سیاست دان تھے۔ میں انتہائی ادب کے ساتھ آپ کو خیرخواہانہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ اپنی آنکھوں سے تعصب کی اندھی پٹی اتار کر حقائق کو دیکھیں ورنہ ہو سکتا ہے کل کلاں کہا جانے لگے کہ ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکنے کے پیچھے بھی خون کے پیاسے کسی ملا کا ہاتھ تھا۔
فاروق سرور خان نے کہا:
سرسید کے علیگڑھ یونیورسٹی قائم کرنے کے خلاف، ہر شہر اور قصبہ کے مولوی سے 'سرسید کے کافر ہونے ' کی بابت دستخط کروائے گئے تھے۔ جن مولویوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تھا ان پر تکفیر کا فتوی لگایا گیا تھا۔ تو بھائی یہ جدید تعلیم تو حرام ہے۔ خبردار جو کسی نے کمپیوٹر استعمال کیا۔
دوسرے تھریڈز پر تفصیل سے بات ہو چکی ہے کہ سرسید پر کفر کے فتوے ان کے گمراہ کن عقیدوں کی وجہ سے لگے تھے۔ پھر بار بار ایک ہی بات کو دہرانے کا فائدہ۔ جدید تعلیم کے بارے میں علماء کا موقف جاننا ہے تو جناب تقی عثمانی کی کتاب “اسلام اور جدت پسندی” کا مطالعہ کیجیے۔
ہو سکے تو سرسید کے اختیار کردہ طریقے کی خامیوں پر بھی ایک آرٹیکل لکھیے گا۔ سرسید بھی انسان ہی تھے، ان کی سوچ میں بھی ہزار خامیاں ہو سکتی ہیں۔علی گڑھ سے نکلنے والی کھیپ کی اخلاقی حالت اور اسلام سے ان کی وابستگی کے بارے میں سرسید نے اپنی زبانی جو کہا اور لکھا تھا، اس پر بھی روشنی ڈالیے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
پاکستان کے عوام کے منتخب کردہ نمائندے، جو آئین و قوانین پاکستان کے قانونی اداروں میں قرآن اور سنت کی روشنی میں ترتیب دے رہے ہیں
یہ لطیفہ بھی خوب رہا۔ گلی محلے اور نالی گٹر کی سطح پر کرپشن کرنے والے “عوام کے منتخب نمائندے” جو ایک باوردی جرنیل کے سامنے بھیگی بلی بنے بیٹھے ہیں، آپ کی بات ان پر سراسر بہتان ہے۔
فاروق سرور خان نے کہا:
وہ کتاب یا کتب جن میںشرعی قوانین ترتیب سے لکھے ہوں درکار ہے۔
شرعی قوانین کا اولین ماخذ قرآن کریم اور دوسرا ماخذ حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے۔ کوئی شرعی قانون تلاش کرنا ہو تو بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان بنیادی مصادر کی طرف رجوع کیا جائے۔ آپ کا سوال ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ قرآن کریم میں قتل کی سزا کس دفعہ کی کونسی شق کے تحت بیان کی گئی ہے۔ شاکر صاحب نے بہترین جواب دیا ہے اس بارے میں۔
فاروق سرور خان نے کہا:
شریعت کے نفاذ کے بعد حکومت کی شکل کیا ہوگی اور اس کے قوانین کیا ہوں گے۔ اس کے ادارے کس طرح کام کریں گے۔ مالیاتی نظام کیا ہوگا، ٹیکس کون دے گا اور کتنا ہوگا؟ صحت عامہ اور تعلیم عامہ کا نظام کیا ہوگا؟
ان میں سے اکثر باتوں کی تفصیل کتب حدیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں بیان کی گئی ہے۔ جو آپ کے نزدیک ناقابل اعتبار ہیں لہٰذا بات پھر احادیث کی حفاظت پر آ رکے گی اور اس موضوع پر ہماری تفصیلی ڈسکشن پہلے ہو چکی ہے۔ محمد وارث نے “اسلامی ریاست” کا حوالہ دیا ہے اس میں “اسلام کے دستوری قانون کے ماخذ” والا باب پڑھ لیں۔
ساڑھے سات سو صفحات کی اس تحقیقی کاوش (جسے محمد وارث نے خامہ فرسائی کا نام دیا) کے چند عنوانات پیش خدمت ہیں۔
اسلام کا فلسفہ سیاست
اسلامی ریاست کیوں؟
تفریق دین و سیاست کا دفاع اور اس کا جائزہ
اسلام کا سیاسی نظریہ
اسلامی ریاست کی نوعیت
نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
قرآن کا فلسفہ سیاست
اسلامی تصور قومیت
اسلامی نظم مملکت، اصول اور نظام کار
اسلام کے دستوری قانون کے ماخذ
اسلامی ریاست کی بنیادیں
ریاست کے حدودِ عمل
ریاست کا مقصد وجود
اسلامی دستور کی بنیادیں
اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اجتہاد کا مقام
قانون سازی، شورٰی اور اجماع
نظام اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلہ کا صحیح طریقہ
اسلامی ریاست کے چند پہلو
خلافت و حاکمیت
ذمیوں کے حقوق
اسلامی حکومت میں خواتین کا دائرہ عمل
اسلام کے اصول حکمرانی
اسلام اور عدل اجتماعی
اسلامی انقلاب کی راہ
سابقہ تجربات کی بنیاد پر میں اپنے فاضل دوست سے یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ سنجیدگی سے اس کتاب کا مطالعہ کریں گے۔ لیکن جو احباب واقعی تحقیق کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کتاب کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ اس دوران ہم انتظار کرتے ہیں کہ سابقہ سوالات کو نئے روپ میں پیش کر کے وہ ایک نئے تھریڈ کا آغاز کب کرتے ہیں۔