ش
شہزاد احمد
مہمان
سائنس کا اپنا طریقہ کار ہے، مذہب کا اپنا طریقہ کار ہے۔ جب ہم اسے شرعی مسئلے کے طور پر لے رہے ہیں تو لازم ہے کہ ان کی ہی مانی جائے گی جن کو ہم علم شریعت کا ماہر سمجھتے ہیں۔ حافظ طاہر اشرفی وضاحت کر رہے تھے کہ چونکہ سائنس دان خود ڈی این اے کی رپورٹ کو سو فی صد مصدقہ تصور نہیں کرتے تو پھر ہم کیسے کر لیں؟ اگر مجھے ملائیت کا ترجمان نہ سمجھا جائے تو یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ اس بات میں بھی کافی وزن ہے۔ بہرحال، دیکھنا یہ ہے کہ کیا ڈی این اے کی رپورٹ کو علمائے شریعت میڈیکل گراؤنڈز پر رد کر رہے ہیں یا پھر وہ صرف اس رپورٹ پر انحصار کرنے سے گریزاں ہیں۔ اگر وہ اس رپورٹ پر کلی طور پر انحصار نہیں کر رہے تو اس میں بھی کچھ ایسا غلط نہیں۔ غلط تو تب ہو گا جب وہ سرے سے ڈی این اے رپورٹ کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں، چونکہ ایسا کچھ نہیں ہوا اس لیے زیادہ ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے؟