اس پورے معاملے کو بڑے ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی طور پر بھی اگر حدود نافذ نا ہو سکیں تو تعزیرات کا طریقہ کار موجود ہے۔ تازیرات وہ سزائیں ہیں جو کہ حکمران (چونکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے تو یہاں پر پارلیمنٹ) کی صوابدید پر ہوتی ہیں اور وہ سزائیں حدود سے کم شدت رکھتی ہیں۔ یہ تو بات ہو گئی قانون کی۔
جہاں تک فورنزیکس اور ڈی این اے کی بات ہے، تو کچھ محفلین نے اعتراض اٹھایا کی ڈی این اے پورا کا پورا نہیں جانچا جاتا تو اس میں کچھ اغلاط کا شائبہ پیدا ہو سکتا ہے۔ تو اس کا حل بھی آسان ہے کہ آج کل پورے کا پورا جینوم 100 ڈالر میں اور ایک ہفتے کے عرصے میں معلوم ہو جاتا ہے۔ تو اگر وکیل صفائی کو عام ڈی این اے ٹیسٹ پر شبہہ ہو تو جج جینوم ٹیسٹ کروا سکتی ہے۔ لیکن یہ ٹیسٹ صرف اور صرف شناخت کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
باقی الزام کو ثابت کرنے کے لئے forensics اور circumstantial evidence کی ضرورت پڑتی ہے جن میں گواہان کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ اب ضروری نہیں کہ ان گواہوں نے ریپ ہوتے دیکھا ہو، اس کے علاوہ اور بھی کئی واقعات ہو سکتے ہیں جس سے ریپ کا ثبوت ملے۔
لیکن ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عدالتی نظام مکمل طور پر عادلانہ نظام نہیں ہے، اس کا دارومدار گواہوں کے بیانات، ڈاکٹروں کی رپورٹوں، وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی کی حاظر دماغی، بعض اوقات رشوتیں، اور سب سے اہم: جج کی رائے پر ہے۔ ان میں ایک یا کئی جگہوں پر غلطی کا امکان موجود ہے۔
ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ بیگناہ کو سزا ہو جائے اور ایسا بھی ہو سکتا ہے گنہگار باعزت بری ہو جائے۔
امریکہ اور برطانیہ کے عدالتی نظام میں بھی ایسے ہی سقم موجود ہیں۔ چند ایک ایسے لوگ جو بالکل بیگناہ تھے انہوں نے 30 سال جیلیں کاٹین۔ ایک مثال Rubin Carter کی ہے۔ عافیہ صدیقی کی مثال بھی ہے کہ جس میں جیوری نے شہادتوں کو دیکھے بغیر ہی اپنا ذہن بنا لیا تھا۔
پاکستان میں تو سب سے روشن مثال بھٹو کی پھانسی کی ہے جس میں اب جج بھی مان چکے ہیں کہ ان پر دباو تھا۔ دوسری طرف ملک اسحاق کی مثال ہے جو کہ عدالت میں اقرار جرم کرنے کے باوجود باعزت بری ہو گیا۔
اصل عدالت تو صرف اللہ کے دربار میں ہی ممکن ہے۔
ے۔ ان معاملہ یہ ہے کہ ڈی این اے صرف ارتکاب کو ظاہر کرے گا جس سے بلیک میلنگ اور نا انصافی کا ایک نیا راستہ کھلنے کا بھی امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
سید ذیشان نے جو کہا کہ وکٹم کے جسم پر زخموں کے نشانات جبر یا رضا کی نشاندہی کر سکتے ہیں تو یہاں بھی مسئلہ وہی ہے کہ بھلے یہ برائی رضامندی سے ہی کی گئی ہو لیکن حالات کے بدلاؤ یا دیگر عوامل کے تحت کسی پر مدعا ڈالنے کے لئے یہ نشان تو بعد میں بھی لگائے جا سکتے ہیں۔
اصل میں اگر زخم ملزم کی زور آزمائی کی وجہ سے لگے ہیں تو یہاں پر بھی ملزم کا ڈی این اے ان زخموں میں موجود ہوتا ہے-