چونکہ اس دھاگے میں تصاویر کم ہیں اور ادھر اُدھر کی باتیں زیادہ، بالکل اُسی طرح جیسے پارلیمنٹ ہاؤس میں سیاست کی باتیں کم اور غیر سیاسی سرگرمیاں زیادہ ہوتی ہیں، کسی کے قل یا فوتیدگی پر گئے لوگوں کے مابین مرنے والے کی مغفرت کی دعا کم اور سیاست پر بحث زیادہ ہوتی ہے، پڑھائی کے لیے اکٹھے ہوئے طالبعلموں کے درمیان پڑھائی کم اوروقت ضائع زیادہ ہوتا ہے۔
بالکل ایسے جیسے میرے جیسا بندہ دھاگے کا عنوان دیکھ کر تصاویر دیکھنے آیا اور 42 صفحات میں سے تصاویر شاید 4،5 پر ہی تھیں
میں اس محفل کے ماحول اور خواتین و حضرات کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی ساحل سمندر والی تصویر تو نہیں لگاؤں گا لیکن ہاں میں آپ کو اپنے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی سی فیملی سے ضرور ملواؤں گا اور امید کروں گا کہ آپ ہمیں دعاؤں میں یاد رکھیں گے
میونخ ، جرمنی میں اپنی بیگم اور 2 سالہ بیٹے کے ہمراہ عید الفطر 2013 کے روز۔ میرا میونخ میں پانچواں اور آفس میں تیسرا دن تھا تو چھٹی نہیں کر سکا لیکن شام کے بعد اپنے گھر والوں کو ذرا گھمانے لے گیا اور پھر ایک پاکستانی ریستوران سے کھانا کھایا
میونخ شہر سے 2 گھنٹے کی دوری پر ایک پہاڑ کے اوپر تعمیر کئے گئے قلعے ( یا محل) - نوئے شوانسٹائن کو دیکھنے کی غرض سے گئے تو شدید برفباری سے پالا پڑا۔ بیٹا صاحب اپنی گاڈی (پرام) میں محواستراحت تھے۔
اسی قلعے کے بازو میں۔
اپنی ماسٹرز کی ڈگری کے آخری دن - مئی 2013
عید الفطر کا دن نماز کے بعد۔ یہ میری پہلی عید (2011) تھی جرمنی میں اور شہر تھا کیل (Kiel) اور پکے مسلمانوں کی طرح روایت کو برقرار رکھا تھا اور عید پر شلوار قمیض پہنی تھی۔
اور یہ میری جوانی 2011، میرا مطلب جب مونچھیں رکھی ہوئیں تھیں، کی تصویرہے ہیمبرگ میں ایک چڑیا گھر گھومتے ہوئے (یہ مت کہیئے گا کہ بندر پنجرے سے باہر کیسے آگیا؟) ۔
پھر 2012 میں بیٹا پیدا ہوا اور والہانہ پیار کی وجہ سے اس کے نازک رخسار پر مونچھیں چبھتی تھیں تو مونچھوں کی قربانی دے دی۔ ویسے بھی شوقیہ رکھی تھیں
اور اب میرے بیٹے سے ملئے۔اپنی دوسری سالگرہ کا کیک کاٹتے ہوئے جنوری 2012 میں
ارحم کے سالگرہ کے دن ہی۔ اپنے ایک انڈین دوست کے ساتھ۔
اور یہ ہماری چھوٹی سے فیملی۔ سلمان حمید، ہما سلمان اور ارحم سلمان۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا