شعر لکھیں اور اس کی مزاحیہ تشریح لکھیں

عینی مروت

محفلین
اب تو بس خواب کی بیساکھی پہ چلنا ہوگا
مدتیں ہوگئیں اس آنکھ کو معذور ہوئے

(تھوڑی دیر کے لیے بھول جاتی ہوں کہ شعر کس کی تخلیق ہے)

شاعر بیچارہ بھینگا ہوگیا ہے عرصہ ہوا۔۔۔اب سوچتا ہے کہ بس آخری سہارا کالی عینک ہے(بھینگے پن کی پردہ پوشی کے لیے)
یہاں کمال شاعرانہ مہارت سے خواب کہہ کر عینک مراد لی ہے اور چونکہ ایک آنکھ معذور ہوئی ہے اسلیے قناعت پسندی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے ایک ٹانگ والی عینک کو خواب کی بیساکھی کہہ کر گزارہ کرنا چاہتا ہے۔
 

بلوچ صاحب

محفلین
نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ھی بیزار ھوجائے
اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتاہے اور لگتا ھے شاعر کے گھر میں نہ UPS ھے نہ چارجنگ والا پنکھا‘ اسی لیے وہ کہہ رھا ھے کہ حکومت کوفوری طور پر‘ نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے‘ اس شعر میں شاعر نے ڈھکے چھپے لفظوں میں واضح کر دیا ھے کہ جب تک ’کالا باغ نشیمن‘نہیں بنے گا‘ بجلی کا ’مسئلہ‘ حل نہیں ھوگا۔
 

بلوچ صاحب

محفلین
شاعر کوئی بھنگی قسم کا تھا اس لیئے کہ رہا ہے کہ جہاں بھی رکے تو ایسے رکے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد اور جب چلے تو کیسی گاڑی کے نیچے آ کر جان سے گزر گئے۔۔۔ یوں یار کے راستے کو یادگار بنادیا کہ وہاں گاڑیوں کا اڈا بنا دیا۔۔۔۔۔۔ :wink: :wink:
بہت خوب جناب
 

زیرک

محفلین
پچھلے دنوں پاکستان جانا ہوا، بجلی گھنٹے دو گھنٹے بعد جائے تو ایسے میں فہمی بدایونی کا شعر یاد آ گیا
تیرگی میں پڑے ہوئے ہیں ہم
ایک بیوہ کے آئینے کی طرح
فہمی بدایونی
 

زیرک

محفلین
کبھی قتل و خودکشی کی تشریح ایک شعر میں کرنا پڑ جائے تو رئیس فروغ کا یہ شعر یاد کر لیجئے، کام آئے گا
جی چاہتا ہے آگ لگا دوں میں اب تجھے
اور اس کے بعد بڑھ کے لپٹ جاؤں تیرے ساتھ
رئیس فروغ
 

زیرک

محفلین
جن کی آنکھوں کے گرد حلقے ہوں
اپنے دشمن وہ آپ ہوتے ہیں
مذکورہ شاعر نیند کے دشمن کی سب سے بڑی ظاہری نشانی بتاتے ہوئے جب آئینے کے سامنے کھڑے ہوئے تو ان کی آنکھوں کے حلقے ان کی شبِ بیداری کے ورلڈ کپ جیتنے کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہے تھے۔
 

زیرک

محفلین
وقت، صابن، شیمپو اور پانی کو بچایا جائے
کیا یہ ضروری ہے کہ ہر روز نہایا جائے

شاعر نے یہ شعر چیف جسٹس ثاقب نثار کی پانی بچاؤ کی مہم کے نتیجے میں نہیں بلکہ سردی میں نہ نہانے کی وجہ سے کہا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
فیض احمد فیض

شاعر کاغذی پھولوںمیں رنگ بھرنے کو کہہ رہا ہے اور گاہکوں کو بھی کہہ رہا ہے کہ آ جاؤ اور پھول خریدو تا کہ گلشن کا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔
 
پہلے اس نے مُس کہا۔۔۔ پھر تَق کہا۔۔۔ پھر بِل کہا
اس طرح ظالم نے ’مستقبل‘ کے ٹکڑے کر دئے

اس شعر میں شاعر بتانا چاہ رہا ہے کہ اس کی اپنی محبوبہ سے زیادہ تر بات ای میل پر ہوتی تھی لیکن کچھ عرصے بعد جب وائس چیٹ ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ ہکلاتی تھی۔
 

شمشاد

لائبریرین
ع : میں تصویر سے ہوں مطمئن مگر آرزو ہے تو روبرو آئے

شاعر کو اس کی محبوبہ نے ای میل سے تصویر تو بھیج دی ہے اور وہ مطمئن بھی ہے لیکن اب وہ ویڈیو کال کرنا چاہتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
(پرون شاکر)

اس شعر میں پروین نے یہ بتایا ہے کہ وہ تو خوشبو کی طرح ہے وہ تو ہوا میں بکھر کر کہیں بھی چلا جائے گا، مسئلہ تو تمہارا ہے، تم کدھر جاؤ گے، گھر سے تم بھاگ آئے ہو، دوست کوئی تمہیں منہ نہیں لگاتا، اب تو پولیس کے ہتھے ہی چڑھو گے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ
احسان دانش

شاعر کہتا ہے کہ چونکہ ابھی میک اپ نہیں کیا اس لیے چہرےکی رنگت اڑی اڑی سے لگ رہی ہے اور چونکہ کنگھی بھی نہیں کی اس لیے بال بھی بکھرے ہوئے ہیں۔ اور تیری صبح بتا رہی ہے کہ رات کو ٹھیک سے سو نہیں پائی۔
 

سیما علی

لائبریرین
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا ۔۔۔
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا .

یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتا ہے ‘ اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین
 

سیما علی

لائبریرین
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک پہنچاہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے۔۔۔۔ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہا ہے کہ بے شک اسے سوٹے مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں آخر تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔۔

اِس شعر میں معروف شاعر مستنصر حسین تارڑ نے سفر میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے ایک دن سوچا کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر گھر سے نکل گئے اور دوسرے شہر کے چوک میں جا کھڑے ہوئے اُسی چوک میں ایک مداری اہل کرم کو تماشا دکھا رہا تھا مگر مداری کے بجائے اہل کرم تماشا بنے ہوئے تھے مسافر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی بجائے وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
تجھے دیکھا تو یہ جانا صنم
پیار ہوتا ہے دیوانہ صنم

اس شاعر کا صنم دیکھنے کے لائق ہو گا کہ جو بھی اس کو دیکھتا ہے دیوانہ ہو جاتا ہے۔ لگتا ہے کوئی عجیب الخلقت قسم کی مخلوق ہے اس کا صنم
 
آخری تدوین:

بابا-جی

محفلین
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا ۔۔۔
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا .

یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتا ہے ‘ اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین
ہائے، بے چارے، احمد ندیم قاسمی مرحوم، توبہ توبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top