شعر لکھیں اور اس کی مزاحیہ تشریح لکھیں

ماہی احمد

لائبریرین
شمشاد بھیا! اگر اس بات کو یوں کہا جائے تو کیسا رہے گا

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
اوپر سے دشمن نے حملہ کر دیا
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
اس کی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز؟؟؟
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔۔۔
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
میرا نہیں خیال تشریح کی ضرورت ہے۔۔۔
 
سیدہ شگفتہ با جی ۔تاہم ظریفانہ (بانگ درا ) اور کچھ کلام اس قید سے مستثنی رکھا جائے تو حرج نہیں۔مثلاً
کہنے لگے کہ اونٹ ہے بھدّا سا جانور
اچھی ہے گائے رکھتی ہے کیا نوک دار سینگ
پہلی بات تو املاء کی ہے۔ میرا خیال ہے الفاظ ہیں ’’گائے ہے خوب‘‘ ۔۔ توثیق کر لیجئے گا۔
دوسری بات کہ یہاں ذہن کسی مزاح کی طرف نہیں جا رہا ۔

اونٹ اور گائے دونوں استعارے ہیں؛ اونٹ مسلم طرزِ ثقافت کے لئے اور گائے ہندوانہ اور یہودیانہ طرز کے لئے۔ مسلم ثقافت کو بھدا کہنے کا فیشن تب بھی تھا، اب تو خیر سے ہر برائی کو مسلم ثقافت سے منسوب کرنے کا چلن بن گیا ہے۔ تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ اس شعر میں سینگ کی معنویت بہت نرالی ہے اور بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ایسے میں کون مزاحیات کی طرف جائے گا بھلا!

ہاں بات کو کھینچ کھانچ کے مزاح پیدا کرنے کی کوشش اور بات ہے۔ یقین جانئے اس میں لطف آئے گا بھی نہیں۔
 
یہ قطعہ دیکھئے ۔۔ اکبر الہ آبادی کا ہے غالباً :

مولوی صاحب بھی تو پردے کے کچھ حامی نہیں
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بد ظن ہو گئے
وعظ میں فرما دیا کل آپ نے یہ صاف صاف
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے

کیا فرماتے ہیں احباب، تفنن کے ساتھ یا تفنن کے بغیر ۔۔۔۔۔ ؟؟؟
 
خالد بھائی اس کی مزاحیہ تشریح بھی تو کرنی تھی ناں۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

بک رہا =ویری سمپل ۔ ایک ایسی زبان جو کہ میرے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی
جنوں=جِن کی جمع (جب انسانوں کی سمجھ میں میری کوئی بات نہیں آتی تو جن بیچاروں کی سمجھ میں کیا آئے گا)
سب سے بڑھ کر یہ کہ بات ہی ایسی ہے جو بکواس کے زمرے میں آتی ہے اس لئے اللہ کرے کسی کی بھی سمجھ میں نہ آئے۔۔۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
اس تشریح پہ روؤں کہ ہنسوں
 

ماہی احمد

لائبریرین
بک رہا =ویری سمپل ۔ ایک ایسی زبان جو کہ میرے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہیں آتی
جنوں=جِن کی جمع (جب انسانوں کی سمجھ میں میری کوئی بات نہیں آتی تو جن بیچاروں کی سمجھ میں کیا آئے گا)
سب سے بڑھ کر یہ کہ بات ہی ایسی ہے جو بکواس کے زمرے میں آتی ہے اس لئے اللہ کرے کسی کی بھی سمجھ میں نہ آئے۔۔۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
اس تشریح پہ روؤں کہ ہنسوں
رونے کو اور بہت مواقع مل جائیں گے، ہنس لیں :p
 
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
ایک پرائمری ٹیچر بچوں کو کچھ اس طرح تشریح کر کے بتا رہی تھی۔
گردوں کی بیماری بہت خطرناک ہوتی ہے جس سے انسان فوت بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے جلدی علاج کرنا چاہیے اور کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ ہماری گھڑی ہمیں یہ بتاتی ہے وقت گزرا جا رہا ہے جلدی ڈاکٹر کے پاس جاو۔
 

سلمان حمید

محفلین
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

بچپن میں اس شعر کی تشریح کچھ ایسے کیا کرتے تھے کہ
شاعر کہتا ہے کہ خود کو اتنا بلند کر، اتنا بلند کر کہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جا۔ جب سردی لگے تو خدا بندے سے پوچھے کہ اتنی اوپر چڑھ تو گیا ہے، اب بتا تیری رضائی کہاں ہے؟
 
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

بچپن میں اس شعر کی تشریح کچھ ایسے کیا کرتے تھے کہ
شاعر کہتا ہے کہ خود کو اتنا بلند کر، اتنا بلند کر کہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جا۔ جب سردی لگے تو خدا بندے سے پوچھے کہ اتنی اوپر چڑھ تو گیا ہے، اب بتا تیری رضائی کہاں ہے؟
ہے بھیا! پچپن میں بچپن کی باتیں ؟؟؟؟
 

سلمان حمید

محفلین
ارے کہاں صاحب! پچپن کاہے کو لکھا ہے بھلا؟ ہم نے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

ہے بھیا! پچپن میں بچپن کی باتیں ؟؟؟؟

ہاہاہا لیکن میں ابھی پچپن کا ہوا ہوں اور نہ ہی میں نے پچپن لکھا تھا :p خود ہی دیکھ لیجئے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

بچپن میں اس شعر کی تشریح کچھ ایسے کیا کرتے تھے کہ
شاعر کہتا ہے کہ خود کو اتنا بلند کر، اتنا بلند کر کہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جا۔ جب سردی لگے تو خدا بندے سے پوچھے کہ اتنی اوپر چڑھ تو گیا ہے، اب بتا تیری رضائی کہاں ہے؟

لیکن پچپن کا ہو کر جو مزہ بچپن کی باتوں میں آتا ہے، وہ کبھی نہیں آتا :biggrin:
 
ہاہاہا لیکن میں ابھی پچپن کا ہوا ہوں اور نہ ہی میں نے پچپن لکھا تھا :p خود ہی دیکھ لیجئے۔



لیکن پچپن کا ہو کر جو مزہ بچپن کی باتوں میں آتا ہے، وہ کبھی نہیں آتا :biggrin:
گل تے سچی اے جناب! اپنا تے تجربہ اے۔ تجربہ وی کیہ مجبوری اے! یار دوست ضد کردے نیں ’’بابیو لکھ لکھو!‘‘ مننی تے پیندی اے نا!
جیوندے رہو!!!
 
بہت نزدیک ہو کے بھی وہ اتنا دور ہے مجھ سے
اشارہ ہو نہیں سکتا، پکارا جا نہیں سکتا
تشریح: شاعر نے کمرہ امتحان میں یہ شعر کہا ہے جب اسے نقل کرنے کا موقع میسر نہیں آ رہا۔
 
Top