یہ نا تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یونہی انتظار ہوتا
شاعر دراصل اپنا وہ ذاتی واقعہ بیان کرنا چاہ رہا ہے کہ جب وہ ایک حسینہ غیرمشکور کے عشقِ جاں گداز میں مبتلا ہو کر اس کے گھر کے باہر پہلی تاریخ کو ایک نوٹس لگا کر خیمہ زن ہوگیا اور اس نوٹس پر لکھا کہ میں دس دن تک بھوکا پیاسا اسی خیمے میں تمہارا انتظار کرتا رہوں گا ۔ اور جب نویں دن حسینہ کا دل پگھلا اور وہ خیمے میں ، اپنے عاشق زار سے ملنے پہنچی تو وہاں تین تاریخ کا ایک محبت نامہ ملا جس پر لکھا تھا کہ " سکول آتے جاتے تمہاری چھوٹی بہن پٹ گئی جسے میں بھگا کر لے جارہا ہوں ۔ سوری باجی"
اگر اور جیتے رہتے یونہی انتظار ہوتا
شاعر دراصل اپنا وہ ذاتی واقعہ بیان کرنا چاہ رہا ہے کہ جب وہ ایک حسینہ غیرمشکور کے عشقِ جاں گداز میں مبتلا ہو کر اس کے گھر کے باہر پہلی تاریخ کو ایک نوٹس لگا کر خیمہ زن ہوگیا اور اس نوٹس پر لکھا کہ میں دس دن تک بھوکا پیاسا اسی خیمے میں تمہارا انتظار کرتا رہوں گا ۔ اور جب نویں دن حسینہ کا دل پگھلا اور وہ خیمے میں ، اپنے عاشق زار سے ملنے پہنچی تو وہاں تین تاریخ کا ایک محبت نامہ ملا جس پر لکھا تھا کہ " سکول آتے جاتے تمہاری چھوٹی بہن پٹ گئی جسے میں بھگا کر لے جارہا ہوں ۔ سوری باجی"